Azmaya Tha Kion Teen Auratien Teen Kahaniyan |
ان دنوں میں دسویں جماعت میں تھی جب مجھے اپنے ایک کزن سے محبت ہوگئی۔ میں نے اس کو چٹھی لکھ دی جو بدقسمتی سے شمیم کی بجائے اس کی ماں نے وصول کرلی۔ ممانی وہ چٹھی لے کر امی کے پاس آئیں اور بولیں کہ نیره تمہاری لڑکی نے میرے شمیم کو چٹھی لکھی ہے ،وہ تو شکر کرو کہ میرے ہاتھ لگ گئی، کسی اور کے ہاتھ پڑ جاتی تو سوچو کہ تمہاری ہماری کیسی سبکی ہوتی۔ بس پھر کیا تھا۔ ہماری اماں کا تو ایسا پارا چڑها کہ بھاوج کے سامنے ہی ہم کو دھنک کر رکھ دیا۔ بولیں. باته بهر کی چھوکری، ابھی ٹھیک سے پر بھی نکلے نہیں اور ہوائوں میں اڑنے لگی ہے۔ خبردار جو آئندہ ایسی حرکت کی تمہارے ابا کو کہہ کر نہ صرف تمہارا اسکول جانا بند کروادوں گی بلکہ کسی بھی ایرے غیرے سے رشتہ کرکے تجھ کو کنویں میں دھکا دے دوں گی۔ اپنی بے عزتی کا شدید احساس اور ان کی مار ہی کافی تھی۔ اس کے بعد عشق کا بھوت ایسا سر سے اترا کہ پھر کبھی کسی کا خیال تک دل میں نہ لائی۔ بس پڑھائی سے مطلب رکھا اور ایف اے کا نتیجہ آتے ہی اماں نے میرا رشتہ ایک اچھے گھرانے میں طے کردیا۔ یونمیں بیاہ کر اپنے اصلی گھر آگئی۔ وہ بچپن کی نادانی جس کو ہم محبت سمجھتے تھے، دل و ذہن سے حرف غلط کی طرح مٹ چکی تھی۔ شادی کے بعد پتا چلا اصل زندگی کیا ہوتی ہے۔ اپنا پیارا گھر اپنی جنت، جس پر عورت ایک ملکہ کی طرح راج کرتی ہے۔ مجھے تو شاہ رخ نے وہ محبت دی کہ میں سارے جہان کو بھول گئی۔ دنیا کی ہر اسائش میرے جیون ساتھی نے میرے لئے مہیا کی تھی۔ الله تعالی نے اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا تو سبھی ارمان پورے ہوگئے زندگی بڑے سکون سے گزر رہی تھی۔ شادی کو تیره برس گزر گئے اور اتنے سالوں کے گزر جانے کا پتا بھی نہ چلا۔ ایک روز شاپنگ کو نکلی تو مجھے افروز مل گئی۔ تیرہ برس بعد اسے دیکها، پہچاننے میں دقت ہوئی۔ وہ کس قدر بدل چکی تھی۔ گوری رنگت سنولا گئی تھی۔ تاروں ایسی روشن آنکھیں بجھ گئی تھیں اور ان کے گرد سیاہ حلقے نظر آرہے تھے۔ یہ تم کو کیا ہوا ہے؟ میں نے حیرت سے سوال کیا ۔ تم تو شعلہ جوالا ہوا کرتی تھیں؟ پہلے شادی، پھر بچہ، پهر میاں کی بے وفائی ... طلاق اور آخر میں سب کچھ ختم۔ اس نے ہاتھ ملتے ہوئے ٹھنڈی سانس لی۔ ایسا کیونکر ہوا؟ تم نے اپنے شوہر سے کیا تغافل برتا۔ محبت کی شادی اور پھر سب کچھ ختم۔ میں نے تغافل کبھی نہ برتا، وہ بی بے وفا تھا۔ آخر کہیں تو تم سے کوتاہی ہوئی ہے؟ شعیب تو تم پر جان نچھاور کرتے تھے۔ ہاں پہلے مجھ پر جان نچھاور کرتے تھے، پھر کسی اور مجھ سی پر مرمٹے۔ یہ میں نہیں مان سکتی۔ تم نے شادی کے بعد اس بات کا خیال نہیں رکھا ہوگا کہ اب بھی ان کو تمہاری پہلی جیسی محبت چاہئے۔ جب بچے ہو جاتے ہیں، عورتیں خاوند کو نظرانداز کرنے لگتی ہیں اور بچوں میں لگ جاتی ہیں، تبھی اکثر مرد بیوی کو چھوڑ باہر کہیں راحت تلاش کرنے لگتے ہیں۔ میں تو یہی کہوں گی کہ تم نے اپنے شوہر کو پہلے جیسی محبت کیوں نہ دی کہ بے وفائی کی نوبت آئی۔ مردوں کو اپنی بیویوں کی محبت کی ضرورت شادی کے بعد نہیں رہتی۔ وه تلخی سے بولی۔ تب وہ مجھے ایک عام سی عورت دکھائی دی۔ وه غافل جو اپنے شوہر کے سکھ کا خیال نہیں کرتیں پھر جب وہ ان کو کھو دیتی ہیں، تو آنسو بہانے لگتی ہیں۔ تبھی افروز نے دکھی ہو کر مجھے سارا حال کہہ سنایا۔ شوہر بزنس مین تھا۔ پہلے بہت محبت بھرا سلوک تھا اس کا، بعد میں اپنے دفتر میں ملازم ایک حسینہ سے بیاہ رچا لیا اور اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ وہ پھر آنسو گرانے لگی کہ سارے مرد ہی بے وفا ہوتے ہیں۔ تم نہیں جانتیں ان کی فطرت کو۔ سب کو ایک لاٹھی سے مت بانکو، میری بنو۔ آخر میرے میاں بھی تو ہیں۔ میں نے اس کے رخساروں پر بہتے آنسو اپنی انگلی کی پور سے پونچھتے ہوئے کہا۔ کیا تم نے ان کو آزما لیا؟ وہ روٹھتے ہوئے کہنی لگی۔ مجھے اتنے شریف آدمی کو آزمانے کی ضرورت بھی نہیں۔ کسی غیر عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی گناه سمجھتے ہیں۔ میں نے فخر سے یہ کہا تو مجھے حسرت سے دیکھنے لگی۔ کیا غلط کہہ رہی ہوں؟ تم بہت بھولی ہو ورنہ تمہارا میاں بھی کسی سے پیچھے نہ ہوگا۔ مجھ کو یہ بات بہت بری لگی۔ چونکہ تم شوہر سے چوٹ کھائی ہو، ہر ایک کو اپنے تجربے کی عینک سے دیکھتی ہو۔ اچها تو وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں؟ اس نے شک بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ کر کہا۔ بے حد، تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ تبھی وہ روتے روتے ہنس پڑی۔ اس کی زہرخند بنسی مجھے سخت ناگوار گزری۔ اپنی توہین محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا۔ افروز تم اپنے شوہر سے دھوکا کھا کر کتنی متعصب ہوگئی ہو۔ میرے شاہ رخ کو بھی سب مردوں جیسا سمجھی ہو۔ حالانکہ وہ سب سے الگ ہیں۔ کیا تم ان کو آزمانا چاہتی ہو؟ اگر آزمانا بھی چاہوں تو کیسے آزمائوں؟ میں بتاتی ہوں، انہوں نے مجھے نہیں دیکھا۔ میں ان کی آفس میں ملازمت کے بہانے جائوں گی ٹھیک... اور وہاں کی تمام رپورٹ تم کو لا کر دوں گی۔ ٹھیک ہے۔ جائو تم، یہ لو آن کا کارڈ، پتا، فون نمبر سبھی کچھ لکھا ہے اس پر ... اس نے کارڈ اپنے پرس میں رکھ لیا۔ چار دن بعد اس نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ میں آرہی ہوں۔ گھر آکر کہنے لگی۔ محترمہ تمہاری خوش فہمی ٹوٹی۔ سن لو کہ تمہارے میاں وہ نہیں ہیں جیسا کہ تم ان کو سمجھتی ہو... وہ آج مجھے اپنے ساتھ ریستوران میں کھانا کھلانے لے جا رہے ہیں۔ جھوٹ ہے یہ۔ میں نے یوں کہا جیسے کسی بچھو نے مجھے ڈنک مار دیا ہو۔ میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ صبر سے کام لو جانم ... ابھی سنائے دیتی ہوں صداقت۔ اس نے اپنے موبائل سے نمبر ملایا اور مائیک کھول دیا۔ دیکھئے اب بہانہ مت بنائے گا۔ آپ ضرور چلیں گی، کہاں ہیں آپ؟ شاہ رخ کی آواز سنائی دی۔ میں بہت دور ہوں۔ اس وقت افروز بولی۔ مجھے جگہ بتا دو، پک کئے لیتا ہوں۔ نوکری کی بات کرنی ہے، فون پر بتا دیتے۔ اس کی تم فکر نہ کرو، وہ مل جائے گی۔ تم ایسی خوبصورت خاتون کو بهلا نوکری کی کیا ضرورت ہے؟ ہم خود خادم ہیں آپ کے... اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ میں اس سے زیاده برداشت نہ کرسکتی تھی۔ میری حالت غیر ہوتے دیکھ کر افروز نے فون بند کر دیا۔ میرا چہرہ سفید اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے دیکھ کر وہ بولی۔ بس آزمائش یہیں تک یا جهوٹے کو اس کے گھر تک پہنچا کر دم لو گی۔ آگے بھی دکھا دو ڈرامہ، دیکھنا چاہتی ہوں۔ میرا شاه کس حد تک جاسکتا ہے۔ اچھی طرح سوچ لو، رزلٹ بہت زیاده خراب بھی نکل سکتا ہے اور تم بچوں والی عورت ہو۔ پروا نہیں۔ میں نے ہمت سے کام لیا۔ حالانکہ دل بیٹھا جا رہا تھا۔ تو پھر ٹھیک ہے، دل کو کمزور مت پڑنے دینا۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ میں نے زبان سے کچھ نہیں کہنا تھا اور دل پر بھی قابو رکهنا تها۔ رویہ بھی نہ بدلنا تھا، پھر بھی مزاج کی بے کیفی کو چھپا نہ سکی تھی۔ شاہ رخ نے کئی بار پوچها ... میری جان کیا ہوا تم کو، اس قدر چپ چپ کیوں رہنے لگی ہو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہوں، آپ میری فکر نہ کریں، بچے تھکا دیتے ہیں۔ ہفتے بعد افروز نے رپورٹ دی۔ آج ہم اور تمہارے وفادار میاں سیر کو جا رہے ہیں۔ اگر دیکھنا چاہو تو ساحل سمند پر آجانا۔ میں احمقوں کی طرح پوچھتی۔ اچها تو کیا واقعی میں آ جائوں۔ مگر ساحل سمندر پر کس جگہ ... اور وہ ہنسنے لگی۔بے وقوف مت آنا ورنہ سارا کھیل خراب ہو جائے گا۔ میں ایسا کروں گی کہ تمہارے میاں کی باتیں ٹیپ کرکے تم کو سنا دوں گی۔ وہ باتیں ٹیپ کرکے لے آئی۔ میں نے ایک بار سنا، دوباره سننے کا یارا نہ رہا۔ دل کا درد اتنا بڑھ گیا کہ سانس لینا مشکل لگ رہا تھا۔ اندر سے دل ریزه ریزه تھا اور اوپر سے پھیکی ہنسی ہنس رہی تھی۔ جب وہ کہتے ... میری جان میری پیاری، تو ان کی باتوں کے جواب میں دل الٹنے لگتا اور روح ٹکڑے ٹکڑے ہوتی محسوس ہوتی۔ میری ذات میں ایسا تنائو پیدا ہو جاتا جیسے ابھی اسی لمحے ذرے ذرے ہو کر فضا میں بکھر جائوں گی۔ افروز کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے میرے جیون ساتھی نے اس کے سامنے میری کتنی برائیاں کی تھیں۔ ایک دن وہ مجھے اپنے گھر لے گئی، اور شاہ رخ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اشعار دکهائے، محبت بھرے خطوط بھی سامنے رکھ دیئے۔ بولی۔ اب بتائو مرد بے وفا ہوتا ہے کہ نہیں۔ ایسے تو عورتیں بھی بے وفائی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ میں نے اپنی انا کی سلامتی کی خاطر ڈھٹائی سے کام لیا، تبھی اس نے کچھ تحفے میرے سامنے لا ڈالے۔ چاہو تو ان کو لیتی جائو۔ پوچھ لینا کس دكان سے خریدے ہیں اور کس کو دیئے تھے۔ خدارا بس کرو۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ یہ کافی ہے یا اور بھی کچھ ؟ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک رسالہ مجھے پکڑا دیا۔ بولی اس کو گھرجا کر دیکھ لینا۔ آج ہی مجھے دیا تھا۔ میں نے ایک دو صفحہ ہی پلٹے اور اس کو پھاڑ کر وہیں پھینک دیا اور کہا کہ بس افروز بس... تم سچی ہو اور میں بے وقوف ہوں۔ واقعی مرد کا اعتبار نہیں گھر آکر میں پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ کیا ہوگیا تها مجهے؟ کیوں پاگل بنی؟ کیوں آزمایا تھا میں نے۔ میری جنت کو کس کی نظر لگ گئی۔ میری تو ساری خوشیاں ہی خاکستر ہوگئیں کھیل ہی کھیل میں ... افروز کا فون آگیا۔ مجھے معاف کر دو میری دوست۔ دراصل میں تم کو بس یہی باور کرانا چاہتی تھی کہ انسان کو کسی پر بھی اتنا بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ مگر اب سوچتی ہوں کہ کتنا غلط کیا میں نے تم کو دکھ پہنچایا ہے۔ دراصل اس روز میں بہت ٹوٹی ہوئی تھی، تم سے غمگساری کی توقع تھی اور تم اپنے غرور میں مست تھیں۔ تو جی چاہا کہ ذرا سبق سکھائوں تم کو کہ تم جیسی بے وقوف عورتیں جو خود کو افلاطون سمجھتی ہیں اور گھر کے باہر کی دنیا میں کبھی قدم نہیں رکھا ہوتا۔ وہ ہم ساده لوح عورتوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتی ہیں کہ ہم میں ہی کچھ کمی ہے اور ہمارا مرد ہی پارسا ہے۔ اب بتائو تم میں کیا کمی ہے۔ کاش یہ کھیل آزمائش کا یہاں ہی ختم ہوجاتا، مگر ایسا نہ ہوا۔ افروز نے جو ڈرامہ ہنسی ہنسی میں شروع کیا، بعد میں اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا اور جب میں نے شور مچایا تو شاہ رخ نے مجھے میکے بھیج دیا اور افروز سے شادی کرلی۔ میں نے جھگڑا کیا بلکہ طوفان برپا کر ڈالا تب اس نے مجھےطلاق دے کر ذہنی سکون پا لیا اور میں آج سرد آہیں بھرتی ہوں اور ہر ایک سے کہتی ہوں کہ دنیا میں دو پر اعتماد نہ کرنا چاہئے، ایک مرد پر اور دوسرے سہیلی پر. آج وہی عورتیں مجھ سے ہمدردی کرتی ہیں جن سے کبھی فخر سے کہا کرتی تھی کہ چاہے دنیا ادھر کی أدهر ہو جائے، میرے شوہر کبھی نہیں بدل سکتے۔
0 Comments