Latest Moral stories in Urdu Azadi Ki Qeemat Teen Auratien Teen Kahaniyan
ابھی میں نے ماں کی گود میں آنکھیں نہیں کھولی تھیں کہ
خالہ نے ایک پھولدار خوبصورت کپڑے میں لپیٹ کر، مجھ کو گود میں بھر لیا اور کہا یہ
میرے شجاعت کے لئے الله تعالی نے اس دنیا میں بھیجی ہے۔ تبھی وہ میری دادی کی طرف
مڑیں۔ اماں گواہ رہنا، میں نے سنبل کو اپنے شجو کے لئے مانگ لیا ہے۔ ہاں بیٹی...
ہم کو یہ رشتہ قبول ہے اور میں اس بات کی گواہی دوں گی۔ تبھی پاس بیٹھی خالہ کی
ساس مسکرا دیں کیونکہ میری دادی اور شجو کی دادی آپس میں سگی بہنیں تھیں۔ سو رسمی
طور پر پالنے میں ہی میرا ناتا شجاعت سے جوڑ دیا گیا اور یہ اپنی دو بزرگ خواتین کی
رضامندگی سے ہوا تھا۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس ناتے میں پختگی آتی گئی۔ ہم بچوں کے خیالات
کی دنیا بھی وسیع ہونے لگی۔ فطری طور پر ہمارے جذبات کا رخ اسی جانب مڑتا گیا جس
طرف ہماری منزل متعین کردی گئی تھی۔ یہ لڑکپن کا زمانہ تھا۔ میں بھی اور لڑکیوں کے
ساتھ سوات کی ایک حسین وادی میں بھیڑیں چرانے جایا کرتی تھی۔ شجاعت مجھ سے چار یا
پانچ برس بڑا تھا اور وہ گائوں کے ایک پرائمری اسکول میں پڑهتا تها۔ اس کے اسکول
کا رستہ چراگاہ کے پاس سے گزرتا تھا۔ جب وہ اسکول جارہا ہوتا ہم لڑکیاں اپنی بھیڑوں
کو ہانکتی چراگاہ کی سمت جارہی ہوتیں اور جب وہ چھٹی کے بعد واپس گھر کو لوٹ رہا
ہوتا تب ہم لوگ بھی بھیڑ بکریوں کو اکٹھا کرکے واپس گھر کو چل دیتیں۔ یہ وہ دن تھے
جب یکسوئی، خود فراموشی اور محویت کا وہ عالم رہتا تھا کہ کسی ناپاک ارادے کو قبول
کرنے کی صلاحیت ہی ہم میں موجود نہ تھی۔ ایک روز ایسے وقت جبکہ شجاعت اسکول سے
واپس آرہا تھا۔ میری اس کی رستے میں مڈ بھیڑ ہوگئی۔ میں اس وقت پریشان اپنی ایک
بھیڑ کے پیچھے بھاگ رہی تھی جو گلے سے بچھڑ کر تیزی سے نیچے ہی نیچے اترائی کی طرف
جارہی تھی۔ مجھے ایسے عالم میں دیکھ کر شجاعت نے بستہ اپنے ہم جماعت کو تھما کر
کہا۔ دوست تم اسے پکڑو ... میں ابھی آتا ہوں۔ وہ میرے پیچھے بھاگا اور تھوڑی دیر
میں الیا۔ کہنے لگا نادان ادهر خطرناک گھاٹی ہے۔ بنا سوچے سمجھے کیوں ایسے بے
تحاشا بھاگی جارہی ہو، میں نے بھیڑ کی جانب اشارہ کیا۔ ٹھیک ہے میں نے دیکھ لیا
ہے، اب تم جائو اور اپنا گلہ سنبهالو۔ اس کو میں لے کر آتا ہوں۔ میں واپس لوٹی
اور اپنے گلے کو چرا گاه سے ایک جگہ میں اکٹھا کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد شجاعت باغی
بھیڑ کو گھیر کر اوپر لے آیا جو کہ اترائی کیطرف دوڑ پڑی تھی۔ اس روز اس نے مجھے
کہا تھا۔ سنبل کیا ہی اچھا ہو کہ تم اسکول جایا کرو۔ اسکول اماں بھیجے تو میں
جائوں۔ تم اپنی امی کو کہو، وه میری ماں کو اس بات پر راضی کرلے۔ اچھا میں کہوں
گا۔ وہ بولا۔ پر اب تم گھر جائو۔ بادل گھر آئے ہیںایسا نہ ہو کہ بارش ہوجائے۔ وہ
میرا گلہ خود بانکتے ہوئے آگے آگے چلنے لگا اور میں اس کے پیچھے اپنے پیارے میمنے
کو اٹھائے چلتی جارہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ مستقبل میں ہم کو شریک زندگی
بننا تھا کہ نہیں۔ لیکن عمروں کے بڑھنے سے ہماری ملاقاتوں میں کمی آرہی تھی۔ اس
وقت میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی اور شجاعت دسویں میں تھا جب ہمارے علاقے کے
حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ ہم لڑکیاں اکیلی نہ جاسکتی تھیں، لہذا | میری سہیلیوں کو
اسکول چھوڑنے ان کے بھائی جانے لگے مگر میرا کوئی بهائی نہ تھا، لہذا یہ فریضہ امی
نے شجاعت کو سونپ دیا کہ وہ مجھے میرے اسکول پہنچانے اور لانے کا پابند ہے۔ کچھ
عرصے بعد پھوپھو مع فیملی ہمارے گائوں میں آکررہنے لگیں کیونکہ جہاں وہ پہلے
رہائش پذیر تھیں وہاں کے حالات زیاده دگرگوں ہوگئے
تھے۔ والد صاحب نے اپنا ایک خالی مکان رہنے کو انہیں دے
دیا۔ وہ روز میرے ساتھ شجاعت کو اسکول جاتے دیکھتیں تو تیوری پر بل ڈال لیتیں۔ اب
صورت حال یہ تھی کہ دائیں جانب خالہ کا گھر اور بائیں طرف پھوپھی آباد ہوگئیں
جبکہ درمیان میں ہمارا مکان تھا۔ جب میرے والد کی اس بہن کو علم ہوا کہ میرا رشتہ
شجاعت کو دینا طے ہے ان کو یہ بات سخت ناگوار گزری کہ اکلوتی لڑکی کو باپ کی وراثت
سے جو ملے گا وہ اس کی خالہ کے گھر جائے گا۔ ان کا بھی ایک نکما بیٹا تھا جو عادات
و خیالات سے پست فطرت کا مالک تھا۔ پھوپھو نے اپنے فرزند سے مشورہ کیا۔ اس نے جواب
دیا۔ مجھے سنبل پسند ہے آپ ضرور ماموں سے رشتے کی بات کریں۔ آپ کے بھائی کی جائیداد
پر آپ کا حق ہے نہ کہ ان کی سالی کا۔ اب پھوپھی صاحبہ اپنے بیٹے کے لئے ہمارے گھر
رشتے کی بات کرنے آگئیں۔ حالانکہ ان کو میرے اور شجاعت کے رشتے کا بخوبی علم تھا۔
امی نے نہایت نرم لہجے میں ان کو باز رہنے کی تلقین کی مگر انہوں نے بھی جو جی میں
ٹھانی تھی اسے پورا کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ میری ماں کے طرز گفتگو سے اندازہ کرلیا
کہ یہ ضرور ان کو خالی دامن لوٹانے والی ہیں، لہذا بیٹے سے جاکر کہہ دیا کہ تم زیاده
امید نہ لگانا تمہاری ممانی کے تیور بھانپ لئے ہیں وہ کسی طور ہماری مرادوں کا
پھول تمہاری جھولی میں نہ ڈالے گی۔ میں بھی شہیر کا بیٹا نہیں جو سنبل کو اپنی
دلہن بناکر نہ لے آئوں۔ قسم کھاتا ہوں ماں کہ تیری جھولی کو مرادوں کے اس پھول سے
ضرور بھروں گا۔ تم دیکھ لینا۔ دسویں پاس کرنے کے بعد شجاعت کا اسکول سے سلسلہ ختم ہوگیا۔
خالو کا خیال تھا کہ اب اس کو اپنا ٹرک سونپ دیں گے تاکہ وہ فروٹ دیگر بڑے شہروں
کے آڑھتیوں کو سپلائی کرنے میں ان کی مدد کرے لیکن ان دنوں ملکی فضا سازگار نہ رہی
تھی اور ہمارے باغ بھی سنسان ہورہے تھے۔ سبھی لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے
گرچہ ہمارے باغوں تک ابھی بابر سموم نہ پہنچی تھی۔ چمن پھولوں سے اور باغ سیبوں سے
لدے تھے مگر ان کی سپلائی کے رستے معدوم تھے۔ لہذا ہر شے جہاں تھی وہاں دھری ہوئی تھی۔
شہر میں اکثر اسکول بھی بند تھے ماسوائے دور دراز گائوں کے اسکولوں کے کہ جہاں اب
بھی ہم پڑهنے جارہے تھے۔ ایک روز جب شجاعت مجھ کو اسکول سے لے کر آرہا تھا اچانک
تیز بارش شروع ہوگئی۔ طوفانی ہوائوں کے جھکڑ اتنے تند تھے۔ لگتا تھا کہ پاگل ہوا
أن کو جڑ سے اکھاڑ ڈالے گی۔ رستے پر پھسلن تھی اور سروں کے اوپر پہاڑوں سے ٹوٹ
ٹوٹ کر بڑے بڑے پتهر رستے میں گرتے جاتے تھے۔ عمر بھر میں پہلی بار ہم نے ایسی غضب
ناک طوفانی بارش دیکھی تھی۔ شجاعت میرا ہاتھ پکڑے تها اور ہم پتلی سی پگ ڈنڈی پر
سہمے سہمے چل رہے تھے۔ کپڑے بھیگ جانے سے شدید سردی لگنے لگی۔ میرے دانت بج رہے
تھے اور میں کانپ رہی تھی۔ بجلی کے کوندوں کی لپک سے ڈر کر ہم درختوں تلے بھی پناه
نہ لے سکتے تھے، درختوں پر بیٹھے بندروں کی چیخ پکار الگ دہشت زده کئے دیتی تھی۔جب
ہم ایک موڑ پر پہنچے ہم کو رستے کے کنارے ایک ٹرک کھڑا نظر آیا۔ لگتا تھا کسی نے
بارش سے بچنے کو اسے ایک جانب کھڑا کردیا تھا۔ مگر اس میں ڈرائیور موجود تھا اور
نہ کوئی اور شخص، وه لوگ نہ جانے کدھر جا چھپے تھے۔ تھوڑا سا آگے چلے تو سڑک
کنارے ایک کٹیا نظر آئی جس کی دیواریں پتھروں کی بنی تھیں اور چوکھٹ میں مضبوط دروازه
نصب تھا۔ ہم ہمت کرکے اس کی طرف گئے تاکہ یہاں تهوڑی دیر ٹھہر کر بارش سے پناه لے
سکیں اور بوچھاڑ سے بچ سکیں۔ دہلیز سے جھانکا اندر کوئی نہ تھا سوائے اس کہ پینے
کا پانی، جگ اور ایک گلاس موجود تھا اور ایک چارپائی بھی پڑی ہوئی تھی۔ ہم کو یہ
چھوٹی سی کٹیا کسی محل سے کم نہ لگی۔ ہم اس میں گھس بیٹھے اور بارش رکنے کا انتظار
کرنے لگے۔ آدھ گھنٹے میں بارش تھم گئی تو شجاعت نے باہر جھانکا۔ کہنے لگا۔ بارش
برائے نام رہ گئی ہے ۔ لیکن رستہ بے حد خراب اور خطرناک ہوگیا ہے۔ مجھے تو گھر تک
پہنچنا محال لگتا ہے۔ مگر گھر پہنچنا تو ہے، ذرا دیر میں اندھیرا چھا جائے گا۔ رات
پڑ گئی تو کیونکر سفر ہوگا۔ ابھی نکل چلو. گرتے پڑتے پہنچ ہی جائیں گے۔ ابھی ہم یہ
بات کررہے تھے کہ ٹرک اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی تھی۔ تاہم ٹرک چلانہیں، گهر گهر
کرکے بند ہوگیا اور پھر اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی نہ دی۔ خدا جانے کیا معاملہ
ہے، شاید رستہ بہت خراب ہے۔ جس کا ٹرک ہے وہ بھی اس کو چلا نہیں پایا ہے۔ ہم اسی
شش و پنج میں تھے کہ کیسے گھر کو روانہ ہوں۔ اچانک کٹیا میں دو شخص داخل ہوئے،
انہوں نے ٹارچ کی روشنی ہم پر ڈالی۔ میں نے کہا تھا نا بابا جان...ممانی شجاعت کے
ساتھ سنبل کو اسکول بھیجتی ہیں۔ یہ بہت بڑی غلطی کررہی ہیں، اس سےپہلے بھی کئی بار
میں نے ان کو اس کٹیا میں جاتے دیکھا تھا مگر میں چپ رہا کہ شاید مجھے ہی جھوٹا
کہا جائے گا اور ماموں ممانی میری بات پر یقین نہ کریں گے لیکن بابا جان آج آپ
نے خود دیکھ لیا ہے اپنی آنکھوں سے ان کو یہاں۔ تبریز کے اس طرح منہ پر جھوٹ کہنے
سے حیران رہ گئی۔ میں نے کہا۔ تبریز تم کتنی غلط بات کررہے ہو۔ پہلے ہم کبھی یہاں
نہیں آئے، دیکھ نہیں رہے کتنی بارش برسی ہے۔ اسکول سے لوٹتے ہوئے تبھی ہم نے یہاں
کچھ دیر کو پناہ لی ہے۔ بکواس مت کرو۔ پھوپها غرائے۔ تم کسی پہاڑی کی اوٹ میں، کسی
درخت تلے بھی پناہ لے سکتے تھے۔ ہم بھی تو درختوں کے ایک جھنڈ کے نیچے کھڑے تھے کہ
بارش تھمے تو نکلیں۔ یہ کتیا اسکول کے رستے میں نہیں ہے پھر تم لوگ رستے سے اتنی
دور یہاں کیسے آن چھپے ہو؟ ہم نے ٹرک کو دور سے دیکھا تو ہی ادھر کا رستہ لیا کہ
اگر ٹرک والا گائوں کا ہے تو وہ ہم کو گهر تک پہنچا دے گا۔ شجاعت نے کہا۔ مگر
انہوں نے ہم لوگوں کو ہمیشہ کے لئے جدا کرنے کی ٹھان لی تھی۔ جس کے لئے ہم پر کوئی
ناقابل معافی الزام لگانا لازمی تھا۔ پھوپھا نے ہم کو ہانکا اور ٹرک کے پاس لے
گئے۔ اتنے میں ان کا واقف ٹرک ڈرائیور بھی نہ جانے کدھر سے آگیا۔ گرچہ بارش تھم
چکی تھی، مگر رستہ کافی خراب تھا۔ میں نے استدعا کی پھوپھا جان میری بھیڑیں پہاڑی
کی اوٹ میں کھڑی ہیں برائے کرم ان کو ٹرک میں بھرلیں۔ تب انہوں نے مجھے ٹرک میں
بٹھایا اور شجاعت کو ڈرائیور کے ہمراہ بهیڑوں کو لینے بھیج دیا۔ خود وہ اپنے بیٹے
کے ساتھ ٹرک کے پاس کھڑے رہ کر انتظار کرنے لگے۔ ڈرائیور اور شجاعت نصف گھنٹے میں
بھیڑیں ٹرک تک لانے اور ان کو اس پر لادنے میں کامیاب ہوگئے اور یوں ہم لوگ گھر
پہنچے۔ پھوپھا کا موڈ سخت آف تھا۔ انہوں نے میرے والد کو یہ واقعہ غلط رنگ دے کر
سنایا اور پھوپھی نے بھی فیصلہ کن انداز میں کہہ دیا کہ وہ ہرگز شجاعت سے میری شادی
نہ ہونے دیں گی جو شادی سے قبل ہی مجھے برائی کے رستے لئے جارہا ہے۔ ان کے واویلا
کرنے پر میرے باپ کے دل میں بھی شجاعت کی طرف سے میل آگیا اور وہ اس کو حقارت بھری
نظروں سے دیکھنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا اسکول جانا بند ہوا ا ور اب میں
بھیڑیں چرانے کو ہم جولیوں کے ہمراہ گھر سے نکل کر چرا گاہ کی طرف بھی نہیں جاسکتی
تھی۔ شجاعت کو بھی امی نے تنبیہ کردی فی الحال ہمارے گهر مت آنا۔ تمہارے خالو ان
دنوں غصے میں ہیں اور تم کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ معاملے کو ذرا سرد ہونے
دو، ابھی میں اس معاملے میں ان سے بات بھی نہیں کرسکتی۔ وه اپنی بہن بہنوئی کی
باتوں میں آگئے ہیں۔ خاموشی ہی اس دم بہترین حکمت عملی ہے۔ خالہ نے شجاعت کو
ہمارے گھر آنے جانے سے روک دیا اور میں بھی اس کے گھر نہ جاسکتی تھی۔ ہماری
ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔ جبکہ ہم کو تو ایک دوسرے سے بلا کی محبت تھی۔ پل بھر کا اوجھل ہونا بھی ناگوار تھا اور پھر
اس کا گھر بھی دور نہ تھا۔ ہمارے گھروں کے درمیان صرف ایک چھوٹی سی دیوار ہی تو تھی۔
اتنی قربت میں اس کے قدموں کی آہٹ تو کیا دل کی دھڑکن بھی سن سکتی تھی۔ اس دوران
پھوپھو نے ابو پر دبائو ڈالا کہ سنبل کا رشتہ آپ میرے بیٹے کے لئے دیں۔ چونکہ
شجاعت، والد کی نگاہوں میں معتوب ہوچکا تھا، تبھی انہوں نے میرا رشتہ اپنی بہن کی
خوشی کے لئے ان کے بیٹے کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ابھی یہ معاملہ چل رہا تھا کہ میری
دادی وفات پاگئیں۔ ایک ان ہی کا آسرا تھا وہ بھی نہ رہیں تو والد کو کوئی سمجهانے
والا بھی نہ رہا کہ شجاعت، تبریز سے کہیں بہتر لڑکا ہے۔ جب شجاعت نے یہ سنا کہ
خالو سنبل کا رشتہ اپنے بھانجے کو دے رہے ہیں۔ وہ حد درجہ دل شکستہ ہوا اور سوات
سے اپنے ماموں کے پاس بنوں چلا گیا۔ جس روز وہ ہمارے گائوں کو چھوڑ کر جا رہا تھا،
امی کو خدا حافظ کہنے پل بھر کو آیا۔ اس کی اتری ہوئی صورت دیکھ کر میری تو جان ہی
نکل گئی۔ جان گئی کہ یہ مستقل مزاج آب گیا تو دوباره کبهی گائوں میں قدم نہ رکھے
گا بلکہ اس کے ماں باپ بھی اس کے پیچھے
بنوں چلے جائیں گے۔ کیونکہ حالات کے واضح اثرات اب ہماری خوشحالی پر پڑنے لگے تھے
اور اکثر گائوں والے شہر والوں کی طرح بدحالی کے خوف سے نقل مکانی کرتے جارہے تھے۔
وہ اپنی بھیڑ بکریاں سستے داموں بیچ رہے تھے۔ جب خالہ کا سارا کنبہ بنوں کوچ کر گیا
تو پھوپھی کی بن آئی اور وہ ہمارے گھر کے چکر کاٹنے لگیں۔ میں جانتی تھی کہ ان کا
اس طرح ہماری طرف چکر کاٹنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ چند ہفتے بعد تو انہوں نے ہمارے
گھر ڈیرے ہی ڈال دئیے۔ ممکن تھا کہ میری اور تبریز کی شادی کی تاریخ رکھ دی جاتی لیکن
علاقے میں چلی با سموم نے بالآخر ہمارے گائوں کو بھی پوری طرح لپیٹ کر ہر سو پھیلی
شادابی کو نگل لیا۔ مکان ویران اور چمن سنسان پڑنے لگے۔ یوں والد صاحب اور پھوپھو مع اہل خانہ
اپنے گائوں کو چھوڑ کر بنوں آگئے اور پھر یہاں سے ڈیرہ اسماعیل خان جاکر پناہ گزین
ہوئے کیونکہ یہاں میرے والد کے ایک قریبی عزیز مسجد کے امام اور عالم دین تھے۔
انہوں نے ہم لوگوں کو اپنے یہاں پناہ دی اور رہائش کا بندوبست بھی کردیا۔ میرے
خالو اور شجاعت بھی انہی امام صاحب کے پاس
آتے جاتے تھے کہ ان لوگوں سے بھی ان کا قریبی تعلق تھا۔ یہ امام صاحب میرے خالو کے بڑے سوتیلے بھائی تھے اور شجاعت کے
والد سے بہت پیار بھی کرتے تھے۔ ایک روز امام صاحب ہمارے گھر آئے تو خالو، خالہ
اور شجاعت بھی ان کے ہمراہ تھے۔ بزرگ آپس
میں باتیں کررہے تھے اور مردان خانے میں تشریف فرما تھے۔ جبکہ خالہ اور شجاعت اندر
امی جان کے پاس آگئے۔ پہلی بار میرا | دوباره شجاعت سے سامنا ہوا اور بات کرنے کا
موقع بھی ملا. میں نے اس کو پھوپھو کے ارادے سے آگاہ کیا تو اس نے کہا۔ سنبل تم میری
بچپن کی مانگ ہو۔ ہماری دادیوں نے تمہارا ہمارا رشتہ طے کیا تھا تو میں تم کو اپنی
منگیتر ہی سمجھتا ہوں۔ اب اگر تم بھی اس رشتے کو مانتی ہو تو سمجھ لو کہ ہمارا جسم و جان کا رشتہ ہے۔ تمہاری محبت اب
میرے دل پر نقش ہوچکی ہے، یہ نقش تو آب موت بھی نہیں مٹا سکتی۔ تم مجھ پر اعتماد
کرو اور الله پر بھروسہ رکھو۔ اس کے ان الفاظ سے میرے دل کو مضبوطی ملی اور میرے تن
مرده میں جان پڑ گئی۔ والد صاحب کو امام صاحب نے مشورہ دیا کہ اب گائوں واپس جانے
کی بجائے یہاں رہ کر کسی کاروبار کی سوچو. خدا جانے وہاں کے حالات کب تک ٹھیک ہوں۔
تم جو کاروبار کروگے میں اس میں تمہاری پوری طرح مدد کروں گا۔ والد صاحب جو جمع
پونجی گائوں سے لائے تھے یہاں دكان لے کر فروٹ فروخت کرنے کا کام شروع کردیا۔ مجھے
بھی اسکول میں داخلے کی اجازت مل گئی، تب میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا اور وہ اداسی
اور بوریت ختم ہوگئی جس نے میرے دل پر ڈیرے ڈال دئیے تھے۔ امام صاحب ہی کے حوصلہ دینے
سے خالہ، خالو بھی ڈیرہ اسمعیل خان آبسے اور شجاعت کی بہن بھی اسی اسکول جانے لگی
جہاں میں نے داخلہ لیا تھا۔ اب اس کی بہن ثمرین کی بدولت ہمارا رابطہ پھر سے جڑ گیا۔
وہ اپنی بہن کو لینے اسکول آتا اور میں اس کا دیدار کرلیتی۔ جو بات کہنی ہوتی ثمرین
کے ذریعہ کہلوا دیتی۔ میرے لئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ میرا شجاعت سے ناتا پهر سے
جڑ گیاتھا۔ یہاں تبریز کی دوستی ایک غیر ملکی نوجوان سے ہوگئی جو منشیات کے
معاملات میں ملوث تھا۔ سچ ہے بری صحبت انسان کو ضرور مصیبتوں میں ڈال دیتی ہے۔ تبریز
کو بھی دولت کمانے کے لالچ میں، اس لڑکے اور اس کے ساتھیوں نے ٹریپ کرلیا اور وه
اناڑی پہلی اڑان میں ہی گرفتار ہوگیا۔ اب اس کا چھڑانا مشکل امر ہوگیا۔ اس سلسلے میں
امام صاحب بھی بے بس تھے۔ بہرحال کسی طرح پھوپھا نے کچھ دے دلا کر بیٹے کو تو پولیس
کے چنگل سے نکال لیا لیکن تبریز کی عزت رشتہ داروں کی نظروں میں دو کوڑی کی رہ گئی۔
اب پھو پھو جب والد پر اس کی اور میری شادی کے لئے دبائو ڈالتیں وہ سوچ میں پڑ
جاتے تھے۔ ادھر بہن آنکھوں میں آنسو بھر لائی، جھولی پھیلا کر عرض مدعا بیان کرتی
تو ادھر بیٹی کا مستقبل تاریک نظر آتا تھا۔ شجاعت نے اس اثنا میں اپنا دھیان اپنے
باپ کے کاروبار پر لگایا۔ اور ٹرک پر فروٹ سپلائی کے کام میں کافی دولت کمانےلگا۔
انہوں نے پلاٹ خریدا اور اس پر گھر کی تعمیر بھی شروع کرا دی۔ نئے شہر آکر بھی ان کی عزت و ساکھ بڑھنے لگی۔ والد یہ سب دیکھ
رہے تھے مگر بہن نے بین ڈالا ہواتھا کہ میرے بیٹے کا کوئی قصور نہیں، نہ وہ مجرم
ہے۔ نئی جگہ کسی اجنبی کو دوست بنا کر انجانے میں پھنس گیا تھا۔ اس بهول کی اتنی
بڑی سزا نہ دو ہم کو کہ ہم اورتم عمر بھر کو ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں۔ سنبل کا
رشتہ میرے تبریز کو دے دو تاکہ ہم بہن بھائی آپس میں مضبوطی سے جڑے رہیں۔ غرض ایسی
باتیں کرکے میرے والد کو انہوںنے بالآخر اسیر پنجۂ عهد عتاب کر ہی لیا اور ابا
جان نے ہار مان کر میری اور تبریزکی شادی کی تاریخ دے دی۔ پھوپھو اور پھوپھا کی
باچھیں کھل گئیں۔ والد صاحب کا کافی بینک بیلنس تھا جو وہ ساتھ لائے تھے اور مجھ اکلوتی
اولاد کو بہت کچھ ملنا تها۔خالق کائنات نے میرے چہرے میں اس قدر کشش رکھ دی تھی کہ
علاقے کے لوگ مجھے قدرت کی تخلیق کا نمونہ تصور کرتے تھے۔ یہاں میرے لئے اسی سبب
اچھے اور اعلئ گھرانوں کے رشتے بھی آئے لیکن پھوپھی کے لالچ بهرے زہر آلود خنجر
سے میرا کام تمام ہو ہی چکا تھا۔ مجھے کسی اور رشتے کی پروا نہ تھی مگر جو کردار
کشی شجاعت کی پھوپھا اورتبریز کی طرف سے ہوچکی تھی۔ میں ابھی تک اس کی آگ میں سلگ
رہی تھی۔ شجاعت کو پژمرده و اداس دیکھ کر میری جان جاتی تھی۔ اسی دکھ سے میرا بدن
نحیف اور صدمے سے چور تھا۔ میری حالت پہ گھر والوں کو تشویش تھی، آخر ایک روز اپنی
حالت زار امی کوبتادی۔ وہ میرا درد جانتی تھیں، انہوں نے مجھے ڈھارس دی اور کہا۔
تھوڑا سا موقع خدا دے تو ضرور میں تمہارا ہی ساتھ دوں گی، مجھے خبر ہے کہ شجاعت پر
بے بنیاد الزام لگا کر ان لوگوں نے اس کو برادری میں گندا کیا ہے۔ میں بھی موقع کی
تلاش میں ہوں۔ ابھی تمہارے والد کے ظلم کی وجہ سے چپ ہوں۔ موقع ملا تیری پھوپھی کو
مزه چکها کر رہوں گی جس نے میری بیٹی اور بھانجے کے دل کے چراغوں کو اپنی خود غرضی
کی وجہ سے بجھایا ہے۔ شجاعت کے مصائب دیکھ کر میری بھی جان جاتی ہے۔ جس کی بے لوث
محبتوںکا صلہ تہمتوں کی صورت اس کو ملا ہے۔ میں تمہاری خالہ اور خالو سے آنکھیں
نہیں ملا سکتی۔ دھیرے دھیرے میری روح کی موت کا دن شادی کے جشن کی صورت قريب آتا
گیا۔ اورمیرے صبر کا ثمر یہ ملا کہ میری شادی کی تیاریاں ونے لگیں۔ میں نے ماں کو
ان کی تسلیاں یاد دلائیں اور انہوں نے اپنی بے بسی ظاہر کردی مگر سر چوم کر میں نے
دادی جان کی منت کی۔ سہیلیاں پہلے ہی میرے گھر والوں کی منتیں کر کے ہار چکی تھیں۔
مگرکسی نے بھی میری مشکل کا حل نہ نکالا۔ نکاح کے روز قاضی صاحب نے حسب دستور
گواہوںکے روبرو وہ سوال کیا جو ہر لڑکی سے ایک بار ضرور کیا جاتا ہے جب وہ دلہن
بنتی ہے۔اس سوال کے مثبت جواب میں مجھے آج اپنی موت نظر آرہی تھی، خدا جانے کیا
ہوا کہ تبریز کو دیکھ کر میرے دل میں انتقام کی آگ بھڑکنے لگی کہ جس نے بارش سے
بچنے کوکٹیا میں پناہ لینے کی پاداش میں شجاعت اور مجھ پر گھنائونا الزام لگادیا
تھا اورسارے خاندان کی نظروں میں گرا دیا تھا۔ کیا اب اسی شخص سے میں شادی کررہی
ہوں؟ اگرمیں غلط کردار کی تھی تو اس نے کیوں مجھے قبول کیا ہے؟ یہ سوال ذہن میں
ابھرا تو تن بدن میں آگ سی بھڑکنے لگی اور زبان نے تبریز کو قبول کرنے سے انکار
کردیا۔ منفی جواب سنتے ہی قاضی صاحب کی جان حلق میں آگئی۔ گواہوں کے پیروں تلے زمین
نہ رہی۔ اب والد صاحب اور پهوپها قاضی صاحب کو بغیر میری قبولیت کے نکاح پڑھوانے
پر مجبور کرنے لگے تو وہ خلاف شرع امر پر راضی نہ ہوئے اور وہاں سے چلے گئے۔ یہ سب
امام صاحب کے روبرو ہورہا تھا کہ وہ بھی وہاں موجود تھے۔ اب والد صاحب کا غصہ دیدنی
تھا اور میری جان پر بنی تھی۔ ابو نے مجھے انہی کے سامنے ٹھوکریں مارنی شروع کردیں
اور مار مار کر لہولہان کردیا۔ امام صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وه آگے
بڑھے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر بولے۔ بس اب اور زیادہ ظلم نہ کرو یہ جو تم کر رہے ہو یہ
بھی غیر شرعی ہے اور لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کرانا وہ بھی غیر شرعی عمل
تھا۔ تم مہلت دو۔ ایک بار میں بچی کو سمجھاتا ہوں۔ میرے سمجهانے سے مان گئی تو میں
خود تبریز سے اس کا نکاح پڑها دوں گا۔ سب کمرے سے چلے گئے۔ میں، میری والده
اور امام صاحب ره گئے۔ انہوں نے کہا بیٹی
باپ کا سر سب لوگوں کے سامنے سرنگوں کرنے سےپہلے تم کو سوچنا چاہئے تھا۔ اگر یہ سب
تمہاری مرضی کے بغیر ہورہا تھا تو مجھ ہی کو بتادیا ہوتا۔ اب بھی سوچ الو بیٹی...
ماں باپ لڑکی کا بهلا سوچتے ہیں اور ان کا بہت حق ہوتا ہے اولاد پر. تم اگر پھر بھی
خود کو آمادہ نہیں پاتیں تو میں بارات کو واپس جانے کا کہہ دیتا ہوں۔ اس وقت مجھے
احساس ہوا کہ اپنے پیار کرنے والے باپ کا سر انگوں کرکے میں نے واقعی بہت بڑا گناہ
کیا ہے۔ ماں باپ کی نافرمانی کی شاید الله کے حضور معافی نہ ہو، تبھی میں نے امام
صاحب سے کہا۔ آپ بارات کو واپس جانے کا مت کہئے، میں اپنے والد کا سرنگوں ہونے نہ
دوں گی۔ اپنا سر نگوں کرلیتی ہوں۔ دراصل مجھ کو اس بات کا غصہ تها کہ تبریز اور
پھوپھا جان نے خاندان بھر میں مجھے اور شجاعت کو گناہ گار بنا دیا، ہم پر الزام
لگا کر تبھی سے میرے سینے میں ایک آگ سی بھڑک رہی تھی۔ آج میرے جذبات میں طغیانی
آگئی تو یہ سب ہوگیا۔ ورنہ میں اپنےوالد پر جان قربان کرسکتی ہوں۔ امام صاحب نے میرا
پیغام والد کو پہنچایا اور پھر مجھ کو رضامند جان کر میرا نکاح تبریز سے پڑھوا دیا۔
یقین جانئے، مجھے لگا اس روز کہ میں زنده الاش ہوں اور میرا جنازہ اٹھایا جارہا
ہے۔ شب اول، میں نے اپنی داستان غم بچپن سے جوانی تک تبریز سے کہہ دی اور کہا خود
سوچ لو کہ میرا تم سے اگر دل نہیں تو میرا تم سے کوئی نکاح بھی نہیں۔ اگر باضمیر
ہو تو اپنی عقل کو استعمال کرو اور انسانی ہمدردی کے پیش نظر میری مدد کرو۔ خدا
جانے اس کو کیا ہوا کہ میری التجا سن کر اس کی عقل پر پڑا پردہ چاک ہوا اور اس نے
کہا۔ ہاں تم صحیح کہتی ہو۔ ایسے حالات میں نہ تم خوش ره| سکتی ہو اور نہ میں... پس
میں اب تم کو تمہارے حال پر چھوڑتا ہوں اور اس آزادی کی قیمت تھی طلاق۔ ہم جدا
جدا رہے، اس نے مجھے سوچنے کو وقت دیا لیکن اصل میں تو اس نے فیصلہ کرنے کو خود
مجھ سے وقت لیا تھا۔ بالآخر اس نے فیصلہ کردیا۔ ماں باپ کو بتادیا کہ میں بطور شریک
حیات اس کو قبول نہیں۔ وہ مجھے آزاد کرنا چاہتا ہے اور پھر اس نے مجھے آزادی کا
پروانہ دے دیا۔
0 Comments