Latest Moral stories in Urdu Babool Ki Chaoun Teen Auratien Teen Kahaniyan |
رابو میری سہیلی تھی۔ وہ میرے ساتھ کھیلی
اور ہم ساتھ ہی پڑهنے جاتے تھے۔ پانچویں جماعت تک وہ امیر آدمی کی بیٹی تھی۔ پھر
ان پر غربت ٹوٹ پڑی۔ اس کو نہیں یاد کبھی اس کی زندگی میں اچھے دن بھی آئے تھے۔
محلے والوں سے سنا کرتی تھی کہ وہ ٹھاٹ سے رہا کرتے تھے اور کمخواب کے کپڑے اس کی
اماں پہنا کرتی تھیں۔ رابو کے والد کو محلے والے سیٹھ ابرار کہتے تھے۔ ان کے پاس کیا
نہیں تھا۔ موٹر کاریں، بنگلے اور روپیہ پیسہ مگر یہ انہوں نے اپنی محنت سے نہیں
کمایا تھا بلکہ ان کو وراثت میں ملا تھا۔ رابو کے دادا رئیس آدمی تھے اور یہ دولت
ان کی محنت کی پونجی تھی جو ان کے مرنے کے بعد اکلوتے بیٹے کی جھولی میں ایسے آ
گری، جیسے الله کسی کو چھپر پھاڑ کر دے دیتا ہے۔ جب بن مانگے چھاجوں سونا مل جائے
تو آدمی کو کب اس کی قدر ہوتی ہے۔ ابرار صاحب بھی مفت کی دولت ملتے ہی خم پہ خم
لنڈھانے لگے اور اس بن محنت ملی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لٹانے لگے۔ دولت ایسی بے
وفا شے تو سارے زمانے میں نہیں ہوگی، یہ جیسے آئی، ویسے ہی ابرار کے ہاتھوں سے
نکلتی گئی۔ یہاں تک ایک مکان اور تھوڑی سی زرعی زمین باقی رہ گئی۔ جتنی تیزی سے رئیس
ہوئے تھے، اتنی ہی تیزی سے نان شبینہ کے محتاج ہو گئے کام کرنا کچھ جانتے نہ تھے
اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزاری تھی، تو اب کیسے کوئی چھوٹا موٹا کام کرتے۔ سبھی لوگ
تو ان کو اب بھی سیٹھ، سیٹھ پکارتے اور غریب محلے دار فرشی سلام کرتے تھے۔ یہ اپنی
انا کے خول سے نہ نکل سکے، یہاں تک کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ بیوی، بچوں کی
خاطر ان پر چلانے لگیں۔ یہ دوستوں کے ٹھکانوں پر جا چھپتے جہاں اچھوں کا گزر تو
محال مگر برے یاروں کی چوکڑیاں لگتی تھیں۔ سیٹھ ابرار آن جواریوں میں بیٹھنے سے
انہی کے رنگ میں رنگ گئے۔ زرعی زمین تھوڑی تھوڑی اس امید پر بیچنے لگے کہ بازی جیت
کر دوباره اس سے زیاده رقبہ لے لوں گا۔ مگر جواریوں پر تو رحمت برستی کسی نے نہ دیکھی،
لعنت ہی پڑتی دیکھی ہے۔ ان کا بھی یہی حال ہوا۔ ہوتے ہوتے اچھی بھلی زمین کوڑیوں
کے داموں بک گئی اور ایک گز ٹکڑا بھی باقی نہ بچا۔ مگر ان کا حال نہ سدھرا اور یہ
اور زیادہ مفلس اور کنگال ہوگئے۔ کہتے ہیں ایک بار جوئے کی لت لگ جائے تو یہ اور
سب نشوں سے زیادہ خراب ہوتی ہے۔ نری بردباری اور تباہی لاتی ہے۔ ایسی لت ہے کہ
بھکاری بنا دیتی ہے مگر چھوٹتی نہیں، تب جواری گهر بار تو کیا، بیوی بچے تک دائو
پر لگا دیتے ہیں۔ چاچا ابرار کا جو حال ہوا تو آنکھوں سے انجام بھی دیکھ لیا۔ کسی
نے توبہ توبہ کی اور کسی نے تھو تھو. رابو ان حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ وہ
جو اپنے دادا کی چہیتی تھی اور شہزادیوں کی سی زندگی گزاری تھی۔ باپ کے راج میں
بھوک کی اذیت سے بھی آشنا ہوگئی اور ماں کے آنسوئوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتهوں
سے سمیٹنے لگی۔ اچھے اور شاندار بچپن کی ہلکی ہلکی یادیں البتہ اس کے ذہن میں اب
بھی محفوظ تھیں۔ جیسے خوبصورت خواب یاد رہ جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ یادیں
دکھ دینے لگیں اور عذاب بنتی گئیں۔ پھر وقت کی ایسی آندھی چلی کہ زمانے کی گرد نے
ان حسین خوابوں کو ڈھانپ کر شعور کی آنکھوں سے بھی چھپا دیا۔ پہلے میں رابو کے
پاس جا کر بچپن کا وقت یاد کر کے اس کے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش کرتی تھی کہ
شاید اس طرح وہ حال کی تلخی کو بهلا دے لیکن جب اس کو زیاده شعور آیا تو یہ باتیں
اور اس کو تڑپانے لگیں، تب میں نے بھی پھر ماضی کے ان زخموں کو کریدنے کی کوشش نہ
کی اور اس سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ کبھی ہم مل بھی جائے تو اس کے بچپن کے شاندار
ماضی کا ذکر کرنے سے اجتناب کرتی، کیا فائدہ ان باتوں کو دہرانے سے کہا جس سے
زخموں میں ٹیس بڑھ جائے۔ جب وہ بارہ برس کی ہوگئی، ان کا مکان بک گیا اور اس نے ایک
جھونپڑی نما گھر میں ہوش سنبھالا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی والدہ ہڈیوں کا ڈھانچہ
بنتی گئیں۔ ٹی بی کے مرض نے اسے ایسا جکڑا کہ ایک روز کھانستے کھانستے دنیا سے منہ
موڑ لیا۔ رابو کا بھائی جو اس سے چار سال بڑا تها، باپ کی ان بداعمالیوں سے دل
برداشتہ ہو کر ایک روز گھر سے نکلا تو ایسا گیا کہ پھر نہ لوٹا۔ خدا جانے وه کہاں
چلا گیا۔ ماں کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ تھا جو رابو کو ملا اور وہ غم سے آدھی رہ
گئی۔ اس کو باپ سے نفرت ہوگئی مگر وہ اس کا گھر چھوڑ کر کہیں نہ جاسکتی تھی کہ لڑکی
تھی اور لڑکی ذات کو باپ کے گھر کے سوا | کہاں امان ملتی ہے۔ اس کی کوئی بہن نہ تھی
لہذا باپ اور بیٹی اب دو ہی اس ویران اجڑے ہوئے جھونپڑے نما مکان میں باقی رہ گئے
تھے۔ ابرار چاچا کو جب جوئے کی لت لگی، وہ سارے کا سارا اسی لت کا شکار ہو رہا۔
حالانکہ ہارتا زیاده تها اور جیتنا کم تھا لیکن لت تولت ہوتی ہے۔ ہارتا تو وہ دل
کھول کر تھا۔ اگر جیت جاتا تو بھی جب تک جیتی رقم ہار نہ جاتا، محفل سے نہ اٹھتا۔ یوں
گھر، بیوی کے زیور سبھی پونجی اس نے جوئے کی نذر کر دی تھی۔ گھر میں کھانے کے لالے
پڑے تھے اور چاچا ابرار جوئے خانے میں پڑے تھے۔ جو کماتے سیدھے جاتے جوئے خانے میں
جاکر دوسرے جواریوں کی جیبوں میں جمع کر آتے۔ کبھی وہ اپنی آدھی پونی آمدنی گھر
نہ لائے، کبھی رابو نے پیٹ بھر کھانا نہ کھایا۔ اسکول بھی چھوٹا، نصیب میں ہی نہ
تھا تو کیا پڑھنے جاتی اور علم حاصل کرتی۔ کبھی کبھی البتہ ہمارے گھرأ جاتی۔ امی
دال ساگ بھی دے دیتیں تو خوشی سے کھاتی۔ جانے یہ کیسی عمر ہوتی ہے کہ چٹنی روٹی بھی
گھی پراٹھا بن کر لگتی ہے۔ ہماری تائی اس کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کے کہتیں۔ ہائے
رابو تیرے نصیب کہاں محل سے جھونپڑے نما مکان میں جا پڑی ہے، تیری مسند تو کسی
اونچے محلے میں بچھنی تھی۔ مجھے تائی کا ایسا کہنا بھلا نہ لگتا۔ تبھی اماں دل جوئی
کرتیں۔ ایسی صورت نکال لی ہے رابو نے کہ دیکھ لینا ایک دن اللہ نے چاہا تو لاکھوں
میں کھیلےگی۔ایک روز بارش ہو رہی تھی۔ رابو کے ابا اپنے ساتھ ایک شخص کو گهر لے
آئے۔ وہ چولہے کے پاس بیٹھی چائے بنا رہی تھی۔ دودھ ہمارے گھر سے مانگ کر لے گئی
تھی اور اب ٹوٹے پھوٹے پیالے اس کے سامنے دھرے تھے۔ اس کے باپ کے ساتھ آنے والا
بھی اس کے باپ کا ہم عمر تھا مگر حلیے سے خوشحال لگتا تھا۔ چاچا ابرار تو اس کے
سامنے کھوسٹ لگ رہا تھا۔ آه! غربت بھی کیا چیز ہے۔ صورت کے ساتھ ساتھ صحت کو بھی
برباد کر دیتی ہے اور اصل عمر سے برسوں آگے دھکیل دیتی ہے۔ رابو بولی۔ اے کاش ابا
تم نے جوا نہ کهیلا ہوتا تو آج تمہاری یہ حالت نہ ہوتی اور ہمارے بھی دن اتنے
کٹھن نہ ہوئے۔ چاچا ابرار تبھی اپنے دوست کے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور بیٹی سے
کہا۔ رابو کیا دو پیالی چائے ملے گی۔ جی ابا۔ وہ نظریں جھکائے بولی۔ آنے والے
مہمان نے اس کی طرف نظر بھر کر دیکھا تو جیسے اس کی آنکھیں خیره ہوگئی ہوں۔ کہنے
لگا۔ ابرار یہ تیری بیٹی ہے؟ یہ تو چاند کا ٹکڑا ہے۔ اے کاش میری بھی ایسی ہی ایک
بیٹی ہوتی۔ ہاں بھئی ہے۔ ابرار نے رکھائی سے جواب دیا، اب تو کام کی بات کر ... میری
زمین خریدنی ہے۔ ادھر جوا خانے میں بات نہ کرنا چاہتا تھا ورنہ قرض دار میری گردن
پکڑ لیتے۔ زمین تیری دریابرد تھی، اب نکلی ہے، نجانے کیسی ہوگی۔ بہت زرخیز ہے، مٹی
نہیں سونا ہے۔ پھر سے دریا نے نگل لی تو ...اب نہ ہو گا اس طرح۔ دریا نے رخ پھیر لیا
ہے، دور چلا گیا ہے۔ مجھے تو خبر بھی نہ تھی۔ یہ تو ایک دن اچانک پٹواری مل گیا۔
اس نے بتایا کہ ابرار میاں تماری تو قسمت کھل گئی ہے، اتنا بڑا رقبہ جو دریا برد
تها، نکلا ہوا ہے اور تم کو خبر نہیں۔ جلد خبر لو ورنہ ایرے غیرے آبادکاری کر بیٹھے
تو پهر ان کو بے دخل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ سوچ رہا ہوں کہ آبادکاری تو مجھ سے نہ
ہوگی، بیچ ہی دوں۔ اچھا تو پھر تم دام لگائو، میں خرید لیتا ہوں۔ آگے اچھی قسمت
ہوئی تو سونا ورنہ مٹی کے مول تو بک ہی جائے گی۔ رابو نے جو ان دونوں کی باتیں سنیں،
کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ قدرت نے ایک بار سنبهلنے کا موقع دیا تو ابا پهر اس کو
گنوائے دے رہے ہیں۔ آخر جوئے میں اس کو بھی دائو پر لگا دیں گے۔ کاش اس زمین کو
رہنے دیتے۔ آخر میرا بھی تو حق ہے، مگر ابرار پر تو پھر سے جوئے کا نشہ سوار تھا۔
زمین کی مالیت سے چوتھائی میں بیٹھے بیٹھے سودا کر دیا اور پھر تاش کے پتے فرش پر
بکھر گئے۔ رابو نے چائے پیالوں میں ڈالی تو وہ بھر کر چھلک گئی اس کے نین کٹوروں کی
طرح۔ آنسو آنچل سے پونچھ کر اس نے پیالے باپ کو تھمائے اور دوباره چولہے کے پاس
جا بیٹھی۔ آج اس کا سانس گلے میں رک گیا تھا اور وہ دعا مانگ رہی تھی اللہ کرے
ابا جیت جائیں۔ ابرار بازی جیت گئے۔ چائے کا پیالہ ان کے ہاتھ میں لرز گیا تھا۔ ایک
لمحے کو ان کا چہره زرد سے سرخ ہوا اور مدمقابل کهسا کر رہ گیا۔ ایک بازی اور سی سیٹھ
ابرار. چلو تمہاری خاطر ایک اور سہی۔ اگر جیت گیا تو دوگنی رقم دو گے؟ دوں گا، بازی
لگائو تو... خوشی سے سرشار ماضی کے سیٹھ نے بازی باندھی اور تاش کے پتے پهر سے فرش
پر گرے۔ مگر ذرا کی ذرا میں ابرار کا چہرہ اتر گیا اور رابو کے ہاتھ سے چائے کا پیالہ
چهوٹ کر فرش پر گر گیا۔ وہ یہ بازی ہار گئے تھے۔ لو بھئی ابرار، روپیہ دو۔ اور اب
میں چلوں۔ مگر رابو کے باپ کو تو جیسے سکتہ ہوگیا ہو. وہ سانس تک لینا بھول چکا
تھا۔ جاگو بھی آب، ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ اس نے کندھے سے پکڑ کر بلایا۔ تبھی
رابو کے والد نے دوست کو گھٹنوں سے پکڑ لیا اور منت بهری آواز میں بولا۔ کیا تیسری
نہ لگائے گا۔ یہ بس آخری بازی ہوگی۔ یار میں اتنا نقصان برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک
بار اور موقع دے دو... مگر بازی بدهنے کو تمہاری پاس رہ کیا گیا ہے۔ کچھ ہے تمہارے
پاس مجھے دینے کو۔ ابرار نے ادهر ادهر دیکها اور اس کی نظر رابو پر ٹھہر گئی۔ کہا
کہ ابھی بہت کچھ ہے، تم شرط تو بدهو ... پتے ایک بار فرش پر پھیل گئے۔ خالی کٹیا میں
سوائے ناداری کے اب کچھ بھی نہ دھرا تھا اور بازی لاکھوں کی تھی۔ ابرار نے کہا۔ یار
تیرے پاس اب بھی بہت دولت ہے مگر اولاد نہیں ہے۔ تجھے اولاد کی آرزو ہے نا۔ میں
ہارا تو رابعہ کو تجھے دے دوں گا۔ تو اس کو اپنی بیٹی بنا لینا۔ میں تو یوں بھی اب
اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ سن کر رابو نے آنکھیں بند کرلیں اور دیوار سے ٹیک
لگا لی۔ اس کو ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا، باپ بازی ہار چکا تھا۔ اجنبی نے رابو کا
ہاتھ پکڑا۔ وہ رونے لگی اور دروازے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
تب اس کے باپ نے کہا۔ بیٹی چلی جا۔ تو اپنے چاچا کے گھر زیادہ محفوظ رہے گی، کم از
کم اس کے پاس گھر تو ہے۔ تیری چاچی بھی اچھی عورت ہے۔ اس کو بیٹی کی بہت چاه ہے۔
تجھ کو پیار سے رکھے گی تو اچها کهائے گی۔ یہ تجھے خوش حال گھر میں بیاہ دیں گے۔
اور میں کیا دے سکتا ہوں تجھ کو بتا؟ ایک وقت پیٹ بهر روٹی بھی نہیں کھلا سکتا۔
باپ کی باتیں سن کر تبھی رابعہ کا دل ٹوٹ گیا۔ اس نے سوچا کہ یہ جو بیٹی بنانے لے
جا رہا ہے، یہ کون سا فرشتہ ہے؟ یہ بھی تو جواری ہی ہے اور جواری کب کردار کے کھرے
ہوتے ہیں، مگر اس باپ کے پاس رہنے سے تو اس اجنبی کے ساتھ جانا اچها ہے کہ جس باپ
کو اپنی بیٹی کو جوئے میں مارتے ہوئے شرم نہ آئی۔ رستم سیٹھ، اسے بیٹی بنانے کو
تو لایا تھا مگر اس کی بیوی نے چند دن پیار سے رکھا، پھر نوکرانی بنا لیا۔ سارا دن
کام کرانے کے عوض دو وقت کی روٹی وه رابو کو دے دیتی تھی۔ ماں کا پیار تو نہ دیا۔
ممتا کے پیار کو اس کی پیاسی روح ترستی ہی رہ گئی۔ ایک روز محلے والوں کو ابرار
جواری کی موت کی اطلاع ملی۔ وہ جوئے خانے میں ہی مرا تھا۔ جواری ساتھی اس کی میت
کو گھر لے آئے مگر اس پر چادر پڑی تھی، کفن نہ تھا۔ محلے والوں ہی نے چندہ کرکے
کفن دفن کا انتظام کیا۔ رابو کو بھی اطلاع دی گئی مگر وہ باپ کا آخری دیدار کرنے
نہیں آئی۔ اس نے کہا نجانے کون مرا ہے، میرا تو کوئی باپ ہی نہیں تھا۔
0 Comments