Latest Moral stories in Urdu Bari Bhabhi Kay Karan Teen Auratien Teen Kahaniyan |
میں
ان دنوں آٹھویں کی طالبہ تھی اور ہم فیصل آباد کے قریب ایک گائوں میں رہائش پذیر
تھے۔ میں نے وہاں اسکول میں نیا نیا داخلہ لیا تو میری دوستی ایک لڑکی سے ہوگئی جس
کا نام رافعہ تھا۔ وہ مجھے اچھی لگی، ہم دونوں کی دوستی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔
ہمارے گائوں میں مڈل تک اسکول تھا اور جب ہم نے آٹھویں کا امتحان پاس کیا تو فیصل
آباد میں داخلہ لے لیا۔ ہم دونوں ایک سیکشن میں نہ جا سکیں لیکن دوستی قائم رہی۔ یہاں
آکر گویا رافعہ کے پر نکل آئے، وه خاصی آزاد خیال اور جدت پسند ہوگئی۔ گرلز ہائی
اسکول کے قریب ہی لڑکوں کا اسکول تھا۔ رافعہ کو موقع ملتا تو وہ ادھر چلی جاتی۔ یوں
اس کی دوستی طالب علموں سے ہوگئی۔ شروع میں دوست سمجھ کر وہ مجھے اپنی باتیں بتاتی
تھی لیکن میں زیادہ دن چپ نہ رہ سکی۔ اس کو ان سرگرمیوں سے روکنا میرا فرض تھا۔ جب
میں نے اس کو ٹوکا تو اس نے برا منایا۔ وہ مجھ سے کھنچنے لگی۔ اب وہ مختلف لڑکوں
سے ملتی، ان کے ساتھ وعدے کرتی مگر مجھے نہ بتاتی۔ تب ایک دن میں نے کہا۔ رافعہ! دیکھو
مجھے تمہاری باتوں کی سب خبر ہے، چاہے تم بتائو یا نہ بتائو لیکن میں تم کو اب بھی
روکوں گی کیونکہ تمہاری دوست ہوں، تباہ ہوتے تم کو نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے میری بات
کو کڑوی دوا کی طرح نگلا اور کہا۔ پروین زیاده نصيحتیں مت کرو، میں اپنا برا بھلا
خوب جانتی ہوں۔ تبھی مجھ سے رہا نہ گیا۔ سمجهانے لگی کہ تم ایک غریب باپ کی بیٹی
ہو، کیوں اپنے والد کی عزت کو خاک میں ملاتی ہو؟ اس پر وہ بگڑ گئی۔ کہا کہ خبردار
اگر آئندہ میرے ساتھ دوستی نباہنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد ہماری بات چیت بند ہوگئی
اور وہ میٹرک سے پہلے ہی پڑھائی چھوڑ کر اسکول سے چلی گئی۔ کبھی کبھی کسی سے پتا
چلتا تھا کہ رافعہ کی سرگرمیاں جاری ہیں، کبھی کسی لڑکے کے ساتھ چلی جاتی ہے تو
کبھی گھر آ جاتی ہے۔ اس کا باپ مزدور تھا اور ماں آندھی تھی، ایسے میں اس کو روکنے
والا کون تھا۔ یوں تو اس کے بڑے بھائی بھی تھے مگر وہ شادی شدہ تھے اور بیویوں کے
ساتھ الگ گھر میں رہتے تھے۔ ایک دن میں نے ایک واقف لڑکی سے شنا کہ رافعہ بیمار
ہے۔ وہ لڑکی شاہینہ اسی کے محلے میں رہتی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں رافعہ کا
پتا شابينہ سے پوچھ کر اس کے گھر چلی گئی۔ وہ واقعی بستر پر پڑی تھی۔ رنگت کالی
اور آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے تھے۔ مجھے اچانک سامنے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں امید
کی چمک جگمگائی۔ اس نے وفور جذبات میں اٹھنے کی کوشش کی، نقابت سے اٹھ نہ سکی اور
دوباره ليٹ گئی۔ میں نے اس کی خیریت دریافت کی تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگی۔
کیا بتائوں خیریت...؟ یوں سمجھو کہ کبھی کی نیکی کام آگئی اور بس خیریت ہوگئی ورنہ
عزت اور جان دونوں دائو پر لگ گئی تھیں۔ یہ ایک ذو معنی بات اس نے کہی تھی، میں جس
کو سمجھ کر بھی نہ سمجهنا چاہتی تھی لہذا اس کے جواب کو نظر انداز کرگئی اور حال
احوال پوچھنے لگی۔ رافعہ بولی۔ کاش میں پہلے ہی تمہارا کہنا مان لیتی تو آج اس حال
میں نہ ہوتی، دراصل میں اپنے گھر کے کھنچائو بھرے ماحول سے متنفر ہو کر ادهر أدهر
پیار تلاش کرنے لگی تھی اور پھر کٹی پتنگ بن گئی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ
سارا مسئلہ میری بڑی بھابی کی وجہ سے ہوا کیونکہ میں سب سے چھوٹی اور ناسمجھ تھی،
میں نے زیاده أثر لیا۔ میرے بھائیوں کی شادیاں امی نے بڑے چائو سے کیں۔ شروع میں
ہم سب مل کر رہتے تھے، ہمارا کھانا بھی اکٹھا پکتا تھا، گھر بھی ایک تھا اور اکٹھے
رہنے پر سب خوش تھے۔ بڑے بھائی کی تنخواہ زیادہ تھی لہذا گھر میں خوشحالی بھی تھی۔
اچانک ہماری بڑی بھابی کا رویہ بدلنے لگا اور اس نے سب کا سکون برباد کر دیا۔ وہ
ہر وقت امی سے لڑتی۔ کبھی کہتی۔ میرے کمرے سے کسی نے پیسے اٹھا لیے ہیں اور کبھی
شور مچاتی کہ میری فلاں چیز غائب ہے۔ بھائی کی شکایات سن کر امی جان ہر وقت ہماری
پٹائی کرتی تھیں۔ ہم کہتے۔ امی! ہم نے کچھ نہیں اٹھایا۔ وہ کہتیں کہ تم نے ہی چوری
کی ہے، تمہاری بهابی جهوٹ تو نہیں کہتی، تمہارے سوا گھر میں کون آیا ہے۔ اس طرح
ہماری خوب پٹائی ہوتی۔ ان کے اس پینترے پر ہم سب ان سے باغی ہوگئے اور نفرت کرنے
لگے۔ بڑی بھابی کی ایک اور عادت یہ تھی اس نے کبھی اپنے گھر کا کام نہیں کیا، کبھی
اس نے برتن دھوئے اور نہ کھانا بنایا۔ وہ بس ہر وقت اپنے کمرے میں پڑی رہتی تھی۔
صبح جب بڑے بھائی آفس چلے جاتے، یہ اٹھ کر تیار ہوتی اور میکے چلی جاتی اور جب
شوہر کے آنے کا وقت ہوتا، واپس آ جاتی۔ ہم تو ڈر سے بھیا کو کچھ نہ بتاتے اور نہ ہی
امی بتاتی تھیں۔ بھائی یہی سمجھتا کہ میری بیوی کہیں جاتی نہیں ہے۔ کبھی اگر امی
بھائی سے شکایت کرتیں کہ تمہاری بیوی بالکل کام نہیں کرتی تو وہ الٹا امی کو
ڈانٹتا۔ یوں ای ہی صبر کر لیتیں، کچھ نہ بولتیں۔ چهوٹی بھابی کا رویہ ہم سے ٹھیک
تھا بلکہ وہ تو سارے گھر کا کام کرتی تھی اور وقت پر... فارغ ہو جاتی تو امی کو
دباتی اور میکے جاتی تو بہت جلد لوٹ کر آ جاتی کہ امی کو کام کی تکلیف نہ ہو۔ تب
بڑی بهابی چهوٹی کو کہتی کہ تم اتنے سارے کام کیوں کرتی ہو، کیا تم بے وقوف ہو؟ میری
طرح آرام سے بیٹھو اور روٹی توڑو... ساس کس لیے ہے، وہ کام کرے گی۔ تب ہماری چھوٹی
بھابی جواب دیتی کہ وہ ہماری ماں کے برابر ہے بلکہ ماں کا دوسرا ژوپ ہے، اس لیے میں
کام کروں گی کیونکہ یہ میرا اپنا گھر ہے۔ بڑی بھابی نے اسے بہت بھڑکایا کہ یہ گھر
کا کام نہ کرے اور ساس تنگ ہو۔ میں اسکول سے آکر امی کا ہاتھ بٹا دیتی کہ کام کرنا
کوئی گناہ نہیں۔ ایک دن میں اسکول سے آئی تو دیکها گهر کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہے، بڑی
بھابی کچن میں اپنا کھانا عليحده بنا رہی ہے اور امی صحن میں اینٹوں کا چولہا بنا
کر الگ کھانا بنارہی ہیں۔ میں نے پوچھا۔ ماں! یہ سب کیا ہے؟ وہ رونے لگیں۔ کہا کہ
میں نے تو بہت کوشش کی مگر تمہاری بڑی بھابی نے ہم کو علیحدہ کردیا ہے، روزانہ بے
عزتی کرتی ہے، اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہ سن کر بڑی بھابی آئی اور امی کو خوب
گالیاں دیں۔ کہا کہ تم سب مفت خورے نکل جائو کیونکہ یہ گھر میرا ہے۔ تب امی اور میں
اتنا روئے کہ آنکھیں شرخ ہوگئیں۔ بڑی نے چھوٹی بھابی کو بھی ساتھ ملا لیا۔ دونوں
علیحدہ کھا پی رہی ہیں اور اسی میں خوش ہیں۔ کچھ دن بعد انہوں نے بھائیوں کو مجبور
کیا کہ ماں، باپ اور کنوارے بہن، بھائی کو الگ گھر لے کر دو، یہ ہمارے ساتھ نہ رہیں۔
یوں ہم کو ایک غریب بستی میں گندا سا مکان انہوں نے لے دیا جہاں ابو نے معمولی سی
دکان کرلی، یوں دال روٹی چلنے لگی۔ اب ہم پانچ کھانے والے تھے اور کمانے والا میرا
بیمار باپ تھا۔ میں تعلیم نہ چھوڑنا چاہتی تھی لہذا میں نے لڑکوں سے دوستی کرلی
تاکہ کچھ مالی امداد لے سکوں، اس دوستی میں ان کی طرف سے مجھ کو مالی امداد تو مل
جاتی تھی مگر پھر بربادی اور بدنامی بھی ساتھ ملی، اس دوران امی کی آنکھوں میں موتیا
اتر آیا، ان کے آپریشن کے لیے پیسے نہیں تھے تو ایک کالج کے لڑکے نے کہا کہ اگر تم
میرے ساتھ دوستی رکھو تو تمہاری ماں کے آپریشن کے لیے میں پیسے دوں گا۔ میں نے اس
غرض سے اس کے ساتھ دوستی کرلی اور اس نے آپریشن کے لیے کافی رقم دی جو میں نے ماں
کو یہ کہہ کر دی کہ میری ایک سہیلی نے جو مالدار باپ کی بیٹی ہے، مجھ کو یہ رقم دی
ہے۔ وہ لڑکا جس کا نام نعمان تها، امیر باپ کا بیٹا تھا اور اس کو پیسے کی پروا نہ
تھی، اس نے میری عزت خراب کی جس کے نتیجے میں آج میں اس حال میں ہوں کہ مرتے مرتے
بچی ہوں، افسوس کہ ماں کا آپریشن بھی کامیاب نہ رہا اور یکے بعد دیگرے دونوں آنکھیں
جاتی رہیں، شاید میرے گناہوں کی سزا | میری ماں کو ملی۔ مجھ کو رافعہ کی زبانی اس
کے حالات سن کر بہت دکھ ہوا۔ سوچنے لگی اگر اس کی بڑی بھابی اچھی عورت ہوتی تو ان
لوگوں کا آج ایسا برا حال نہ ہوتا اور بیٹے، ماں کی آنکھوں کا آپریشن کراتے، ان
لوگوں کو بھی سنبهالتے کیونکہ ماں، باپ، بہن، بھائیوں کا بھی حق ہوتا ہے۔ بڑے بھائیوں
نے بیویوں کے کہنے میں آکر یہ حق ادا نہ کیا اور یوں رافعہ کی زندگی بھی حالات کی
وجہ سے برباد ہو گئی۔ میرے دل پر رافعہ کی باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ سوچا اس کی
بھابی کے پاس جا کر ان کو سمجھائوں گی کہ وہ اتنا ظلم نہ کریں کیونکہ الله ظالم کو
پسند نہیں کرتا اور نہ وہ اتنے غرور کو پسند کرتا ہے۔ جرأت کر کے میں گئی تو اس کی
بڑی بھابی مل گئیں۔ مجھ سے خوش اخلاقی سے ملیں، سب گھر والوں کی خیریت پوچھی پھر
آنے کا سبب دریافت کیا تو میں نے صاف گوئی سے بتایا رافعہ کی دوست ہونے کی حیثیت
سے آپ کے پاس آئی ہوں کیونکہ غربت کے باعث ان کے حالات بہت خراب ہیں، ایسے میں آپ
کا فرض بنتا ہے کہ آپ اپنی ساس، سسر اور ان کے بچوں کی مدد کریں بلکہ رافعہ کو
اپنے پاس رکھ لیں تاکہ وہ تعلیم حاصل کرسکے۔ کچھ دیر تک بهابی خاموش اور گم صم رہیں
جیسے کچھ بتانا چاہ رہی ہوں اور بتا نہ پاتی ہوں۔ ذرا دیر بعد کہا۔ مجھے خوشی ہے
کہ رافعہ کو تم جیسی اچھی دوست میسر ہے، تم کو اس کی غربت اور دکھوں کا خیال ہے لیکن
صحیح بات یہ ہے کہ انسان اپنا دشمن آپ ہوتا ہے، کوئی اور اس کا دشمن نہیں ہوتا،
رافعہ کو شروع میں، میں نے پیار دیا تھا اور ان لوگوں کا بھی خیال کیا مگر میری
ساس کو بہت زیادہ بولنے کی عادت تھی جس کی وجہ سے میرا دل ان سے کھڑا ہوا اور پھر
میں نے دوری اختیار کرلی اور جہاں تک رافعہ کا تعلق ہے، | میں اس کو اپنی بھابی
بنانا چاہتی تھی مگر اس کی حرکتیں ایسی تھیں کہ یہ اراده بھی ختم کرنا پڑا۔ ہوا یوں
کہ ایک دفعہ میرا بھائی ہمارے گھر رہنے آیا، رافعہ فورا ہی اس سے گھل مل گئی، خیر
اس بات کو بھی میں نے نظر انداز کیا کہ اس کی عادت جانتی تھی لیکن ایک رات جبکہ
سردیاں تھیں اور میں اپنے کمرے میں سو رہی تھی، رات کے تقریبا ڈھائی، تین بجے مجھ
کو پیاس لگی اور پانی لینے میں کچن میں گئی تو برابر والے کمرے سے جہاں میرا بهائی
فرحان ٹھہرا ہوا تھا، مجھ کو سرگوشی سنائی دی، تبھی میرا ماتھا ٹھنک گیا اور دبے
قدموں کمرے میں گئی۔ نیم تاریکی میں غور سے دیکھا تو کیا دیکھتی ہوں کہ میرا بھائی
بستر میں لیٹا ہوا ہے اور رافعہ اس کے پاس بیٹھی ہوئی ہے، گھر میں سبھی سو رہے
تھے۔ میں نے ہلکے سے کھانسا تو بهائی نے اپنے اوپر کمبل لے لیا اور رافعہ اس کے
کمرے سے بهاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی، تبھی کسی سے کچھ کہے بغیر اپنے بیڈروم میں
جا کر لیٹ گئی مگر فکر سے تمام رات جاگتی رہی اور صبح تک نیند نہ آئی۔ دوسری رات
کا انتظار تھا کہ اب دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ آدھی رات کے بعد رافعہ دوباره فرحان کے
کمرے کی طرف گئی۔ میں بھی دبے پائوں اس کے پیچھے گئی لیکن باہر ٹھہر گئی تاکہ ان کی
باتیں شن سکوں۔ یہ تقریبا گهنٹہ بھر باتیں کرتے رہے بہرحال میں نے خاموشی اختیار
کرلی۔ اس کے بعد یہ روز کا معمول بن گیا، میری نیندیں حرام ہوگئیں۔ زبان کھولتی تھی
تو اپنے اوپر مصیبت آ جاتی کیونکہ فرحان میرا بھائی تھا۔ ایک رات تو حد ہو گئی جب
میں نے دونوں کو ایک ہی بستر پر پایا تب میں نے صبح اپنی ساس اور اس کے بچوں کو
الگ کر دیا اور فرحان کو ڈانٹ کر واپس لاہور بھجوا دیا۔ امی کا فون آیا کہ تم نے
اسے کیا کہا ہے جو فرحان ہر وقت اداس رہتا ہے؟ میں نے امی کو کبھی کچھ نہ بتایا کیونکہ
وہ جلد پریشان ہو جاتی تھیں۔ رافعہ کا مزاج ایسا تھا کہ اس کو کوئی سمجھا نہیں
سکتا تھا۔ ادھر میرے بھائی کی ضد تھی کہ میں شادی رافعہ سے کروں گا لیکن میں نہ
چاہتی تھی کہ ایسے کچے چلن کی لڑکی کو اپنی بھابی بنا لوں۔ فرحان نے مجھے بھی فون
کیا لیکن میں نے اس کو دل شکن جواب دیا تھا کہ تم واضح طور پر سن لو، یہ رشتہ نہیں
ہوگا، میں ہرگز رافعہ کو تمہاری شریک حیات نہیں بننے دوں گی، کسی اور لڑکی کا
بتائو تو میں جا کر بات کرتی ہوں۔ اس کا ایک ہی جواب تھا کہ شادی کروں گا تو رافعہ
سے ورنہ کسی سے نہیں کروں گا۔ جب میں کسی طرح نہیں مانی تو بیٹے کی محبت سے مجبور
ماں، باپ مجھے بتائے بغیر میری ساس اور سسر کے پاس چلے گئے فرحان کے لیے رافعہ کا
رشتہ طلب کرنے... میری ساس نے کہا کہ جب تمہاری بیٹی نے ہمارے ساتھ ایسا برا سلوک
کیا ہے اور آخرکار ہم کو گھر سے بھی نکال دیا ہے تو اب ہم کیسے اپنی بیٹی کا رشتہ
دیں، ہرگز یہ رشتہ مناسب نہ رہے گا۔ پھر آپ کی بیٹی بھی یہ رشتہ نہیں چاہتی، پہلے
اس کو منا لیں پھر یہ رشتہ دیں گے۔ امی، ابو میرے پاس آئے اور مجھ کو بہت اصرار کیا
تو بادل نخواستہ میں مان گئی اور وہ خوش خوش دوباره رافعہ کا رشتہ مانگنے گئے۔ اس
بار اس کے والدین نے ہاں کر دی اور میرے میکے میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ میرا
دل گواہی دیتا تھا کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھے گی کیونکہ رافعہ کا پیر آزاد ہو چکا
تھا اور مجھے معلوم تھا کہ اس کی اور لڑکوں سے بھی دوستی تھی۔ چور چوری سے جائے ہیرا
پھیری سے کب جاتا ہے۔ اپنے بھائی کو سمجھاتی تھی پر وہ نہ سمجهتا تها۔ جب رشتہ طے
پا گیا تو یہ دونوں باہر پارکوں اور ہوٹلوں میں ملنے لگے، یہاں تک کہ سڑکوں پر بھی
ساتھ ساتھ ہوتے۔ انہی دنوں جبکہ ان کا رومانس عروج پر تھا، ایک لڑکے نے میرے بھائی
کو ایک روز روکا اور کہا کہ تم رافعہ سے واسطہ ختم کر دو کیونکہ اس کی دوستی میرے
ساتھ ہے۔ میرے بھائی کو اس کی بات کا یقین نہ آیا بلکہ بے حد غصہ آیا اور غصے میں
اس لڑکے کو جس کا نام نعمان تھا، خوب برا بھلا کہا۔ نعمان اس وقت تو دھمکیاں دے کر
چلا گیا مگر اگلے دن جبکہ فرحان کرکٹ کھیل کر میدان سے گھر لوٹ رہا تھا، چار غنڈوں
نے اس کو الیا اور خوب زد و کوب کیا۔ دوسرے کھلاڑی لڑکے جب وہاں پہنچے تو یہ لوگ
فرحان کو مار پیٹ رہے تھے۔ کھلاڑی لڑکے چونکہ تعداد میں زیاده تھے، انہوں نے ان
غنڈوں کو مار بھگایا اور فرحان سے پوچھا کہ تمہاری ان سے کیا دشمنی تھی؟ فرحان نے
بتایا کہ ان لوگوں کو میں نہیں جانتا لیکن ایک لڑکے نعمان کو مجھ سے دشمنی ہوگئی
ہے اور یہ لوگ اسی کے بھیجے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نعمان کو جانتا تھا۔ اس نے
کہا کہ یار! تم فکر نہ کرو، اب اگر دوباره اس نے تم سے پنگا لینے کی کوشش کی تو ہم
کو بتانا، بم اس کی ٹھکائی کر دیں گے۔ فرحان کو پتا نہیں تھا کہ رافعہ اور نعمان ایک
دوسرے کے بہت قریب رها چکے ہیں۔ پس اس نے رافعہ سے ملاقاتیں جاری رکھیں۔ ادهر
نعمان بھی اس کے پیچھے لگا رہا۔ آخرکار ایک بار پھر ان کی لڑائی ہوگئی۔ اس لڑائی میں
میرے بھائی کے دوست بھی کود پڑے اور ڈنڈوں سے نعمان کی پٹائی کر دی۔ نعمان کو کچھ
ایسی ضربات آئیں کہ وہ موت و زیست کی کشمکش میں اسپتال لے جایا گیا جہاں اس نے
نزاعی بیان دیا کہ اس کو فرحان نے مارا ہے۔ نعمان مر گیا مگر اس کے بھائیوں نے میرے
بھائی فرحان کو گرفتار کروا کر جیل بھجوا دیا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا نعمان پر قتل
کا کیس چل رہا ہے اور رافعہ کی نحوست نے میرے والدین کی خوشیوں کو ڈس لیا ہے، اب
تم ہی کہو کہ میں کس طرح اپنے ساس سسر کے پاس جائوں، رافعہ کو گلے لگائوں یا اس کے
والدین کی مالی مدد کروں...؟ میرا تو جی چاہتا ہے کہ ان سب کو شوٹ کر دوں۔ بهابی
جذباتی ہو گئیں اور میں خوف زدہ کہ کہیں جذبات میں آ کر وہ مجھے بھی برا بھلا نہ
کہہ دیں۔ یہ فسانہ سن کر میں حیران پریشان ان کے گھر سے نکلی اور سوچ رہی تھی کہ
کہانی کے دو رخ سامنے آئے ہیں مگر اس کی چھوٹی بھابی مل جاتیں تو ان سے بھی بات کر
لیتی کیونکہ رافعہ ہمیشہ اس کی تعریف کیا کرتی تھیں۔ پھر میری یہ خواہش پوری ہوگئی۔
ایک بار جب امی بیمار تھیں اور اسپتال میں داخل تھیں اور میں امی کے پاس وہاں ٹھہری
تھی تو ساتھ والے کمرے میں رافعہ کی چھوٹی بھابی اپنی ماں کے ساتھ تھی، کیونکہ ان
کی والده بیمار تھیں۔ میں نے انہیں اور انہوں نے مجھے پہچان لیا۔ وہ ایک بار رافعہ
کو لینے اسکول آئی تھیں۔ میں نے سلام کیا اور خیریت پوچھی۔ وه اچھی طرح سے ملیں،
ہمارے کمرے میں آ کر بیٹھ گئیں، امی کی عیادت کی پھر میں ان کے کمرے میں جا بیٹھی
اور ان کی ماں کی عیادت کی۔ باتوں باتوں میں رافعہ کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے بتایا
کچھ دن پہلے میں اس کے پاس گئی تھی کیونکہ بہت بیمار تھی۔ چھوٹی بھابی نے افسوس سے
کہا۔ ہاں مجھے معلوم ہے اور میں ہی اس کو اپنی ایک رشتے دار لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے
گئی تھی کیونکہ وہ مصیبت میں تھی۔ کیسی مصیبت...؟ میں نے دریافت کیا۔ بس کچھ نہ
پوچھو۔ انہوں نے کہا۔ لڑکیاں نادان ہوتی ہیں اور ان کو ان کی غلطیوں کی سزا ملتی
ہے، جب رافعہ کی فرحان سے منگنی ہوگئی، سب نے اسے منع کیا تھا کہ تم اس سے شادی کے
دن تک پرده کرو، اب اس سے ملنا نہیں ہے مگر دونوں سرعام ملنے اور گھومنے پھرنے لگے
جس کی وجہ سے ان کی قربت بھی گہری ہوگئی، انہوں نے شادی سے پہلے غلطی کرلی جس کی
وجہ سے رافعہ مصیبت میں گھر گئی مگر شادی کی تاریخ نزدیک تھی لہذا وہ بے فکر تھی
کہ بس چند دنوں بعد ہی میں تو محفوظ ہونے جا رہی ہوں لیکن خدا کو کچھ اور منظور
تھا کیونکہ آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ اور ہے۔ اسی دوران ایک نعمان نامی لڑکے
کی فرحان سے لڑائی ہوگئی جس کے قتل کے الزام میں وہ جیل چلا گیا اور رافعہ مصیبت کی
دلدل میں گرتی گئی۔ جب کوئی راہ نہ پائی تو وہ ایک دن میرے پاس آئی اور اپنی مشکل
مجھے بتائی۔ اب اس کی مدد کے بغیر چارہ نہ تھا۔ میں اس کو اپنی رشتہ دار ڈاکٹر کے
پاس لے گئی ہوں اس کی جان تو بچ گئی مگر خوشی اس کے نصیب میں نہ تھی وہ بن بیاہی
رہ گئی۔ اب وہ اپنی بڑی بھابی کی وجہ سے مجھ سے ملنے بھی نہیں آتی۔ اگر وہ نہیں آتی
تو کیا آپ بھی ان سے ملنے نہیں جاتیں؟ میں نے سوال کیا تو بهابی بولیں، میں چند
بار گئی ہوں۔ قصور کس کا تھا بڑی بھابی کا یا؟ میرا اگلا سوال سن کر انہوں نے کہا۔
شروع میں تو بڑی بھابی کا ہی قصور تھا، یہ بہت بے رخی اختیار کرتی رہیں، شوہر کو
بھی ساس، سسر اور نند و دیور کے خلاف بھڑکاتی تهیں، بعد میں امی ساس بھی آپے سے
باہر ہوگئیں اور خوب برا بھلا کہتی تھیں، میں نے حتى الامكان ساس کا ساتھ دیا تھا
مگر بعد میں مجبورأ الگ ہونا پڑا کیونکہ میرے جیٹھ اور میرے شوہر کا کاروبار ایک
ہے۔ دونوں بھائی ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دکان بھی اپنے والد کو بنا کر دی
ہے، تھوڑی بہت مدد کرتے تھے مگر سب فیصلوں پر حاوی چونکہ بڑی بھابی ہیں اور ان کے
بھائی نعمان جیل میں ہیں، اس وجہ سے یہ دونوں بھائی ان دنوں اپنے والدین کی طرف
بالکل نہیں جاتے۔ رافعہ کی طبیعت میں جلد بازی تھی، اس وجہ سے بھی اس کے قدم تباہی
کی طرف گئے، اگر وہ صبر و تحمل سے کام لیتی تو شاید حالات اتنے قابو سے باہر نہ
ہوتے۔ اب رافعہ گھر سے نہیں نکلتی، اس کا چھوٹا بھائی بڑا ہو چکا ہے، اس نے گھر کے
حالات سنبھال لیے ہیں، رافعہ کو بھی گھر سے نکلنے نہیں دیتا، تنخواه ساری لا کر
ماں کے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ رافعہ بتا رہی تھی کہ جب سے میرا بھائی بٹو بڑا ہوا ہے
ابو، امی کو سکون ملا ہے اور ہمارے دن پھرنے لگے ہیں اور اب امی اس کے لیے دلہن
ڈھونڈ رہی ہیں۔ اس فقرے پر میں چونک پڑی اور پھر میں نے دعا کی۔ یا اللہ! اس بار
رافعہ کی ماں کو ایسی بہو دینا جو اس کی ہمدرد ہو، بیٹی بن کر خدمت کرے، ان کو
سکون دے اور یہ بیٹا ان سے چھین کر نہ لے جائے کیونکہ ماں کا اپنی اولاد پر بہت حق
ہوتا ہے اور بٹو ان کا آخری سہارا ہے
0 Comments