love story Abb Pachtae Kia Hoot Teen Auratien Teen Kahaniyan |
والدین نے حجاب نام رکھا تھا مگر ہماری آپی میں حجاب نام کو نہ تھا۔ انہوں نے پھر ایسا کر دکھایا کہ جان سے گئیں۔ وہ خوش شکل اور ذہین تھیں۔ بچپن سے دل لگا کر پڑھتیں۔ اگر وہ دل لگا کر پڑھتی تھیں تو ابو بھی ان پر کم مہربان نہ تھے۔ وہ ان کی ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ ہم زیاده امیر لوگ نہ تھے۔ ابو اوسط درجہ کے سرکاری ملازم تھے، مکان ہمارا ذاتی تها۔ تبھی کچھ معیاری زندگی بسر ہورہی تھی۔ یہ کشادہ رہائش ابو کو وراثت میں ملی۔ جس کا ایک حصہ انہوں نے کرائے پر دے دیا تھا۔ ہمارے کرایہ دار بزرگ میاں بیوی تھے جن کے بیٹے بیرون ملک كما رہے تھے لہذا ان کو روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ یہ جوڑا اس قدر خاموش طبع اور پرسکون تها کہ محسوس ہی نہ ہوتا کہ ہمارے برابر والے ’’پورشن‘‘ میں کوئی رہ رہا ہے۔ کرایہ بھی وقت پر دے دیتے تھے۔ حجاب آپی میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لائیں تو ان کو سائنس کالج میں داخلہ مل گیا۔ انہی دنوں امی کے ایک بھتیجے بھی گائوں سے شہر کالج میں پڑھنے کو ہمارے گھر تشریف لے آئے۔ اس لڑکے کا نام سرور تھا۔ امی کے سگے بھائی کا لاڈلا بیٹا تھا۔ لہذا ان کو خوشی ہوئی کہ سرور ان کے پاس رہنے آگیا ہے۔ گائوں میں چونکہ کالج نہ تھا تبھی والد نے اعتراض نہ کیا، تاہم گھر میں ٹھہرانے پر کچھ پریشانی ضرور تھی۔ مہمان خانہ کرایہ پر لگا ہوا تھا۔ جن سے دو سال کا معاہدہ تھا۔ والدہ نے ابو کو پریشان دیکھا تو بولیں۔ تمہیں کس بات کی پریشانی ہے۔ سرور کے آنے سے گھر میں جو ایک بیٹے کی کمی تھی وہ پوری ہوگئی ہے۔ سرور کا بھی ہم اسی کالج میں داخلہ کروا دیتے ہیں جس میں حجاب کا داخلہ ہوا ہے۔ دونوں ساتھ آئیں جائیں گے تو ہم کو پریشانی نہیں ہوگی۔ ماں کی سوچ اور طرح کی تھی جبکہ ابو کسی اور زاوئیے سے سوچ رہے تھے۔ بہرحال امی کے اصرار پر انہوں نے سرور کا بھی مذکورہ کالج میں داخلہ کرا دیا۔ سرور گائوں سے اپنی موٹر سائیکل لایا تھا۔ وہ اسی پر کالج جاتا۔ رفتہ رفتہ اب آپی بھی اس کے ساتھ کالج آنے جانے لگی۔ شروع شرع میں وه باتمیز رہا۔ ہم نے بھی اس کو محبت دی مگر اس بات کا علم بعد میں ہوا کہ اس کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ ہم پر بھی کھلنے لگا، اب وہ اکثر دیر سے گھر آنے لگا۔ جب بھی دستک ہوتی آپی ہی دوڑ کر جاتیں اور دروازه کھولتیں۔ ابو کو یہ بات پسند نہ تھی۔ امی سے کہتے تم سرور کو سمجھائو کہ رات آٹھ بجے تک گھر آجایا کرے مگر ماں بھتیجے کی حمایت کرنے لگتیں کہ بھئی جوان لڑکا ہے، دوستوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ کیا سارا دن گھر میں بیٹھا رہے گا؟ غرض ایسے ہی حیلے بہانوں سے وہ اس کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتی رہیں۔ ہم عمر ہونے کے ناتے آپی اور سرور کی بہت بنتی تھی مگر وہ اب مجھے نہیں بھاتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سرور اور آپی میں ہر وقت ہنسی مذاق چلتا تھا۔ جو مجھ کو ناپسند تھا۔ کبھی جی چاہتا امی سے شکایت کردوں، پھر سوچتی، وہ خود ہی انجان بنی ہوئی ہیں تو میں کیا کہوں۔ ابو سے کچھ کہنا گھر میں جھگڑے کو دعوت دینا تھا اور میں ابو امی میں جھگڑا دیکھنا نہ چاہتی تھی۔ انہی دنوں آپی کے امتحان ہونے والے تھے۔ سرور اور آپی رات دیر تک پڑھتے رہتے۔ امی ابو سو جاتے۔ مجھے نیند نہ آتی اس فکر میں کہ میرے والد کی آنکھ نہ کھل جائے۔ دونوں کو رات گئے، اکٹھے بیٹھا دیکھیں گے تو خفا ہوں گے۔ امی سے کہتی تو جواب ملتا۔ دونوں اکٹھے کالج جاتے ہیں۔ ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہیں تو کیا ساتھ بیٹھ کر امتحان کی تیاری نہیں کرسکتے؟ تم کیا میرے بھتیجے کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ تب میں ان سے کھنچی کھنچی مگر چپ رہنے لگی۔ جانتی تھی کہ ابو سے کہا تو امی اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیں گی، چلانے لگیں گی۔ میری مجال نہ تھی کہ آپی سے کچھ کہتی۔ وه خاصی نڈر تھیں۔ کوئی کچھ کہتا تو صاف سنانے لگتیں کہ میں اپنے کزن کے ساتھ بیٹھی ہوں۔ کوئی برائی تو نہیں کررہی۔ اکٹھے بیٹھ کر پڑھنا کیا گناہ ہے، کالج میں بھی تو ہم ساتھ پڑھتے ہیں۔ ایف ایس سی کا نتیجہ نکلا۔ سرور فیل ہوگیا آپی اپنی ذہانت سے اچھے نمبروں سے پاس ہوئیں۔ کیونکہ وه اول جماعت سے پہلی پوزیشن لیتی رہی تھیں۔ انہوں نے میڈیکل کالج جانے کی خواہش ظاہر کی۔ والد نے بیٹی کی خواہش پوری کرنے کو بھاگ دوڑ شروع کردی۔ کافی تگ و دو کے بعد آپی کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ اس بھاگ دوڑ میں ابو کو اپنا آدها مکان فروخت کرنا پڑا، | تاہم بیٹی کے مستقبل کی خاطر انہوں نے جائیداد کی بھی پروا نہ کی اور میڈیکل کا خرچہ برداشت کرنے کے قابل ہوگئے۔ سرور فیل ہوا تو اس نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ والد نے امی سے اصرار کیا کہ جب پڑهنا نہیں ہے تو تمہارے بھتیجے کا ہمارے گھر میں رہنے کا کیا جواز ہے۔ اس کو اب واپس گائوں جانا چاہئے، لیکن والده اڑ گئیں کیونکہ سرور گائوں جانے پر آمادہ نہ تھا۔ اس نے کہا کہ میں یہاں رہ کر ملازمت تلاش کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ دنوں بعد اس نے امی کو بتایا کہ وہ ایک کمپنی میں مال برداری کے کام پر رکھ لیا گیا ہے۔ اچھی تنخواہ ہے۔ والدہ نے مزید پڑتال نہ کی کہ کون سی کمپنی ہے اور کس قسم کی ملازمت ہے۔ دراصل وہ ایک ایسی کمپنی میں ملازم ہوا کہ جو ٹرکوں کے ذریعہ سامان دوسرے علاقوں میں پہنچاتے تھے۔ وہ کلینر بھرتی ہوا تھا۔ جب کوئی ٹرک سامان لے کر جاتا یہ بھی ڈرائیور کے ساتھ جاتا اور ٹرک پر لدے سامان کی رکھوالی کا کام اس کے ذمے ہوتا تھا۔ والد صاحب کو اس کی ملازمت پر اعتراض تھا۔ کسی نے بھی اس قسم کی ملازمت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ ابو کہتے تھے کہ یہ ڈھنگ کی ملازمت نہیں ہے۔ سرور کو چاہئے یا تو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے یا واپس گھر کو لوٹ جائے لیکن اس نے تو نوکری کا طوق ہی اس وجہ سے گلے میں ڈالا تھا کہ گھر واپس جانا نہ چاہتا تھا۔ نوکری کا تو بس بہانہ تھا۔ آپی کو دوسرے شہر کے میڈیکل کالج میں داخلہ ملا تھا۔ کیونکہ ہمارے شہر میں یہ سہولت موجود نہ تھی۔ جس روز آپی نے جانا تھا۔ خدا جانے سرور نے ان کو کیا کہا کہ انہوں نے دوسرے شہر جانے سے انکار کردیا۔ ابو نے لاکھ سمجهایا مگر آپی کی ایک ہی رٹ تھی کہ میں دوسرے شہر پڑهنے نہیں جائوں گی۔ اتنی مشکل سے داخلہ ملا تها ابو تو روہانسے ہوگئے۔ آپی کو امی نے بھی سمجھایا کہ تمہاری خواہش پر ہی تو تمہارے والد نے داخلہ کرایا ہے۔ اسی وجہ سے گھر بیچا ہے۔ تم جانتی تھیں کہ ہمارے شہر میں میڈیکل کالج نہیں ہے، پھر کیوں ڈاکٹری پڑهنے کی ضد کی تھی۔ اب داخلہ ہوچکا ہے تو منع کررہی ہو، یہ کہاں کی تک ہے؟ آپی کسی کی بات سمجهنے کو تیار نہ تھیں۔ بالآخر بات سامنے آگئی۔ سرور نے آپی کو منع کیا تھا کہ وہ میڈیکل کالج جوائن نہ کرے کیونکہ اس کے بعد ان کی شادی ممکن نہ رہے گی، البتہ اس شرط پر جاسکتی ہے کہ اگر والدین ان کا نکاح پہلے کردیں تو وہ جاسکتی ہے۔ آپی نے امی سے کہا۔ اگر میرا نکاح سرور سے کردیں تو ہی میں میڈیکل کالج جاسکتی ہوں۔ ورنہ نہیں۔ یہ بات ابو کے کانوں تک پہنچی۔ وہ بہت خفا ہوئے۔ امی سے کہا۔ اب بتائو ...؟ میں نہ کہتا تھا کہ اگر اپنی بچیاں جوان ہوں تو کسی کا لڑکا گهر میں نہ رکھنا چاہئے۔ خواه قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ تم نے مگر میری نہ سنی۔ اور بھتیجے کی محبت میں اندھی ہوگئیں۔ اب دیکھو ہماری بیٹی کا مستقبل دائو پر الگ گیا ہے۔ آدها مكان الگ غارت ہوگیا۔ کیا تمہارا نالائق بھتیجا ہمارا داماد بننے کے قابل ہے؟ واقعی سرور ہماری بہن کے قابل نہ تھا۔ یہ بات امی بھی جانتی تھیں۔ وه آواره قسم کا لڑکا تھا۔ جس کی عادتیں بہت بگڑی ہوئی تھیں اور وہ اوباش قسم کے دوستوں میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کی غلط قسم کی رپورٹیں ابو تک پہنچ رہی تھیں اسی لئے اب ان کو سرور کے اپنے گھر رہنے پر اعتراض تھا۔ بعض خواتین کا میکے والوں کی طرف اس قدر جھکائو ہوجاتا ہے کہ وہ شوہر کی صحیح بات کو بھی غلط ثابت کرنے پر تل جاتی ہیں۔ آپی کا سرور سے شادی کا فیصلہ سراسر جذباتی تھا مگر اس وقت تو ان پر عشق کا بھوت سوار ہوچکا تھا۔ وہ اپنی ضد پر اڑی تھیں۔ تبھی میرے والد کو انتہائی قدم اٹھانا پڑا اور انہوں نے سرور کو اپنے گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اس پر حجاب آپی نے علم بغاوت بلند کردیا۔ بولیں اگر سرور کو گھر سے نکالا تو وہ بھی اس کے ساتھ چلی جائیں گی۔ جب اپنا ہی سگہ کھوٹا ہوتو دوسروں کو کیا الزام؟ اب تو ابو ہی نہیں امی بھی سر پکڑ کر رہ گئیں۔ میرے والد نے سرور کو برا بھلا کہا تو وہ بدتمیزی پر اتر آیا۔ ابو نے اس کو بازو سے پکڑا اور اپنے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا۔ اس نے جیب سے چاقو نکال لیا اور والد صاحب سے ہاتھا پائی کرنے لگا۔ والد صاحب زخمی ہوگئے۔ محلے والوں نے پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس پہنچ گئی۔ انسپکٹر میں شرافت تھی۔ اس نے معاملہ سمجها تو کہا کہ بزرگوار میری بات مانئے، اپنی لڑکی کا نکاح اس کی مرضی سے کردیجئے ورنہ آگے چل کر معاملہ اور زیادہ خراب ہوجائے گا۔ ابھی رسوائی آپ کی دہلیز تک ہے۔ سارے زمانے میں پھیل گئی تو آپ گھر سے نکلنا چھوڑ دیں گے۔ آج کل کے بچے منہ زور ہیں، ان سے مقابلہ مت کریں۔ ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ ابو نے اپنے پڑوسی عارف انکل سے کہا۔ یہ میرے بس کی بات نہیں۔ آپ ہی ان کا نکاح کروا دیں اور یہ معاملہ سنبھال لیجئے۔ آپی حجاب تو گلی میں آگئی تھیں۔ وہ ان کو اور سرور کو اپنے گھر لے گئے اور ان کا نکاح پڑھوا دیا۔ والد کو عارف انکل کے بیٹے مرہم پٹی کے لئے اسپتال لے گئے۔ نکاح کے بعد آپی سرور کو لے کر پھر سے ہمارے گھر آگئیں۔ تو ابو نے دونوں کو گھر سے نکال دیا۔ سرور آپی کو لے کر والدین کے گھر گیا۔ امی نے اپنے بھائی کو تمام حالات سے آگاہ کردیا تھا، تبھی انہوں نے بھی بیٹے اور بہو کو قبول نہ کیا۔ کہا کہ تم دونوں نے خاندانی شرافت کا جنازہ نکال کر والدین کا دل دکھایا ہے۔ یہ معاملہ ہم کو درمیان میں ڈال کر بھی حل کیا جاسکتا تھا۔ لہذا جہاں مرضی آب جارہو۔ ہم اپنے بہن بہنوئی کو ناراض نہیں کرسکتے۔ ان کے ہم پر اور بہت احسانات ہیں۔ سرور آپی کو لے کر ایک دوست کے پاس گیا۔ وہاں یہ چند دن رہ سکے، پھر ایک دو کمرے کا ٹوٹا پھوٹا گھر کرایہ پر لے لیا۔ اور اس میں رہنے لگے۔ اس مکان میں صرف ایک ہی واش روم تھا اور صحن بھی بالشت بھر کا تھا۔ لیکن یہ دونوں شادی کے بعد بہت خوش تھے۔ ان کو نہ والدین کی ناراضگی کا خیال تھا اور نہ زمانے کی پروا تھی۔ مستقبل کی لیڈی ڈاکٹر... ڈاکٹری کو چولہے میں ڈال کر ایک ٹرک کلینر کی زوجہ محترمہ بن کر بہت خوش تھی۔ اگر جیون ساتھی کا انتخاب غلط کیا جائے تو ازدواجی خوشیاں عارضی ثابت ہوتی ہیں۔ لمحاتی خوشیوں پر ساری عمر کے مستقبل کو قربان کردینا عقل مندی نہیں۔ لیکن دل بھی پاگل ہوتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب کم عمری میں محبت کا خمار عقل کو مار دیتا ہے تو لڑکیوں کی مت بھی ماری جاتی ہے۔ وہ صرف آج کے دن کی سوچتی ہیں او اپنے کل سے بے نیاز ہوجاتی ہیں۔ اگر آپی کی جگہ میں ہوتی تو کبھی بھی نکمے انسان کی خاطر میڈیکل کالج کو نہ چھوڑتی کہ جس کارن میرے والد نے اپنی آدھی جائیداد قربان کردی تھی۔ شادی کو سال بھی نہ گزرا تھا کہ ایک روز سرور اپنے ڈرائیور دوست کو گھر لے آیا۔ بیوی سے کہا۔ حجاب سردیوں کا موسم ہے اور میرا دوست کافی دور رہتا ہے۔ صبح دم ہم کو ٹرک لے جانا ہوتا ہے تو کبھی آدھی رات کو۔ لہذا گهر سے اتنی دور میرے لئے جانا باعث تکلیف ہوتا ہے۔ اگر میرا دوست ہمارے گهر رہے گا تو گاڑی ہمارے برابر والے میدان میں ٹھہرائے گا۔ ہم صبح دم یا آدھی رات کو جب بھی روانگی ہوگی مالک کے گودام اکٹھے گاڑی پر چلے جائیں گے۔ حالات بہتر ہوجائیں تو ہی دوباره موٹر سائیکل لے پائوں گا۔ غرض ایسی مجبوری بتائی کہ آپی سوچ میں پڑ گئیں اور یوں شوہر کے اصرار پر اس کے دوست کو اپنے گھر رہنے سہنے کی اجازت دے دی۔ اب سرور کا دوست خادم بھی ان کے ہمراہ دوسرے کمرے میں رہنے لگا۔ جلد ہی آپی نے محسوس کرلیا کہ ان کا شوہر اپنے ڈرائیور دوست سے دبتا ہے۔ بہرحال... اب اکثر ایسا ہوتا کہ خادم پہلے گھر پہنچ جاتا جبکہ سرور بعد میں آتا۔ وہ کہتا کہ مجهے مالک کو سامان کا حساب کتاب دینا ہوتا ہے۔ وہ مجھ کو روکے رکھتا ہے تو دیر ہوجاتی ہے۔ آپی کہتیں، ٹھیک ہے لیکن ہمارے گھر کا واش روم تو ایک ہی ہے۔ اس وجہ سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ کوئی بات نہیں، تھوڑی سی تکلیف برداشت کرلیاکرو۔ میری خاطر... اسی طرح تاویلیں دے کر وه آپی کو خاموش کرا دیتا تھا۔ اب یہ روز ہونے لگا۔ خادم شام کو آجاتا اور سرور رات گئے گھر پہنچتا جس پر میری بہن نے اعتراض اٹھایا کہ سرور، تم بھی جلد آجایا کرو۔ اتنی دیر مت لگایا کرو... مجھے ڈر لگتا ہے۔ ڈرنے کی کیا بات ہے، خادم میرے لئے غیر نہیں ہے ۔ بے فکر رہو۔ بس یونہی وہ سنی ان سنی کردیتا، تاہم آپی کو احساس ہوگیا کہ سرور جان بوجھ کر ان سے تغافل برت رہا ہے ورنہ کوئی غیرت مند شوہر ایسا نہیں کرتا۔ چاہے دوست پر کتنا ہی اعتبار ہو، غیر شخص غیر ہی ہوتا ہے۔ ایک دن خادم آیا اور سرور گھر نہ آیا۔ آپی نے پوچھا کہ سرور کیوں نہیں آیا؟ | دوسرے شہر کسی کام سے مالک نے اس کو بھیج دیا ہے۔ وہ آج رات نہیں آئے گا۔ اس پر آپی کا ماتھا ٹھنک گیا۔ وہ بولیں۔ اگر وہ نہیں آئے گا تو تم بھی چلے جائو اور آج رات کہیں باہر جاکر سو جائو یا پھر میں ہی پڑوسن کے پاس جاکر سوجاتی ہوں۔ یہ کہہ کر پرده چادر اوڑھ لی اور برابر والے گھر جانے کو ہوئیں تو تبھی خادم نے بازو پکڑ کر ان کو روک لیا۔ مجھ سے تم کو کیا خطره ہے۔ جو رات کے وقت گھر چھوڑ کر جارہی ہو۔ کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پڑوس والے کیا سوچیں گے۔ میں ہرگز تم کو جانے نہ دوں گا اور خود بھی کہیں نہیں جائوں گا کہ تم گھر میں رات بھر اکیلی رہو۔ اس کے جارحانہ تیور دیکھ کر آپی خوفزدہ ہو گئیں اور شور مچا دیا جس پر پڑوسی آگئے۔ ان کے ڈر سے خادم گھر سے نکل گیا۔ صبح سرور آیا تو سخت ناراض تھا۔ اس نے میری آپی کو بری طرح پیٹ ڈالا۔ کہا کہ تم نے شور مچا کر پڑوس میں میری عزت خراب کردی۔ کیا میرا دوست تمہاری عزت لوٹ رہا تھا کہ تم نے واویلا ڈال دیا۔ میں نے خود تمہاری حفاظت کے خیال سے اس کو بھیجا تھا تاکہ تم رات کو اکیلی نہ رہو۔ تم نے میری مجبوری کو نہیں سمجھا۔ جانتی ہو کہ خادم کی وجہ سے مجھے نوکری ملی اور اب میری نوکری چلی جائے گی۔ حجاب آپی لاکھ عشق کی ماری سہی مگر ایسی بھی نہ تھیں۔ انہوں نے خادم کی موجودگی میں اس گھر میں رہنے سے انکار کردیا۔ عورت لاکھ بھولی ہو، غیر مرد کی آنکھوں میں اتری خباثت کو پہچان ہی لیتی ہے۔ سرور نے کہا۔ تم نے میرے عزیز دوست کو گھر سے نکالا، اب تم بھی نکل جائو اس گھر سے۔ غصے میں آپی گھر سے نکلیں۔ سرور سمجهتا تها کہ اس کا میکہ رہا نہ سسرال آب یہ کہاں جائے گی۔ ادھر ادھر پھر کر لوٹ آئے گی لیکن وہ گهر سے نکلیں تو واپس نہ گئیں۔ گرچہ سخت مشکل میں پڑ گئی تھیں۔ آپی کی ایک عزیز سہیلی اور کلاس فیلو طوبی تھی۔ اس کا بھی میڈیکل کالج میں داخلہ آپی کے ساتھ ہوا تھا۔ طوبی کا خیال آیا تو اس کے پاس چلی گئیں، لیکن وہ تو ہوسٹل میں رہتی تھی۔ میری گهر بدر بہن کو وہ ہمراہ نہیں رکھا سکتی تھی۔ اس نے ایک کلاس فیلو لڑکی کی منت کی جو شہر سے آتی تھی کہ میری سہیلی کو ایک دو روز کے لئے ٹھہرالو۔ جب تک اس کے رہنے کا بندوبست نہیں ہوجاتا۔ انہی دنوں نرسنگ ٹریننگ کی اسامیاں نکلی ہوئی تھیں۔ طوبی کے استاد نے فارم بھر کردیا اور آپی کا داخلہ ہوگیا۔ صد شکر کہ گھر سے جاتے ہوئے اسناد ساتھ لے گئی تھیں۔ طوبی کی کوشش سے داخلہ ملا تھا یوں آپی کی رہائش کا مسئلہ حل ہوگیا۔ وہ نرسنگ ہوسٹل رہنے لگیں۔ اس دوران سرور نے بیوی کو تلاش کیا۔ بالآخر کسی طور سراغ لگالیا کہ وہ شہر میں ہوسٹل میں ہے۔ وہاں گیا اور گیٹ پر کھڑا ہوگیا۔ جونہی اسپتال جانے کو آپی باہر آئیں وہ در پہ ہوا کہ گھر چلو... میں تمہارے میکے اور اپنے والد کے گھر بھی ڈھونڈ آیا ہوں، تم وہاں نہ ملیں۔ نہ جانے کتنی دقتوں سے تم تک پہنچا ہوں۔ آپی نے کہا کہ تم میرے والدین کے گھر گئے پھر انہوں نے کیا سلوک کیا؟ بولا۔ میں پریشان تمہاری تلاش میں مارا مارا پھرا، بعد میں وہاں گیا۔ یقین ہوگیا تم وہاں ہی چھپی ہوگی۔ تمہاری والده نے کہا کہ تم نہیں آئیں تو میں نے یقین نہ کیا۔ ان کے گهر دهرنا مار کر بیٹھ گیا۔ ان سے کہا کہ میری بیوی کو میرے حوالے کرو۔ تم لوگوں نے چھپایا ہوا ہے ورنہ میں تم پر اغوا کا پرچہ درج کروا دوں گا۔ وہ نہیں مانے تو میں نے ان پر پرچہ کروایا کہ میری بیوی کو چھپا لیا ہے اور اغوا کرلیا ہے۔ تمہارے ابو بہت پریشان تھے۔ جب میں نے ان کو پھنسایا، تب تمہاری بہن نے اگلا کہ تم فلاں شہر کے فلاں ہوسٹل میں ہو... یوں میں تم تک آیا ہوں۔ افسوس یہ بات میں نے ہی سرور کو بتائی تھی، کیونکہ آپی کی پڑوسن کی لڑکی میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ وہ میری ہم جماعت تھی۔ اسی کے ذریعہ آپی کا احوال مجھے معلوم ہوتا اور میں بھی حجاب آپی کو خیریت کا سندیسہ بھجوا دیتی تھی۔ تاہم بہن سے اس رابطہ کے بارے میں امی ابو کو کچھ نہ بتاتی کہ میری بہن نے کہلوادیا تھا اگر تم نے والدین کو کچھ بتایا تو تم سے بھی میں علاقہ ختم کر دوں گی۔ جب سرور نے میرے والدین کو بہت تنگ کیا تو ابو خوار ہوگئے اور امی بھی خون کے آنسو روتی تھیں کہ میں نے کیوں خود اپنے گھر میں یہ سانپ پال لیا تھا۔ والدین کی حالت دیکھ کر میں نے سرور کو بتادیا کہ میری بہن ایک محفوظ جگہ ہے۔ فلاں ہوسٹل میں ہے۔ وہاں جاکر پوچھو اور میرے والد کا پیچھا چھوڑ دو۔ ان کو کچھ نہیں معلوم آپی کو ہوسٹل میں رہتے چھ ماہ ہوچکے تھے۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہتی تھیں۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنے والی آب نرسنگ میں داخلے پر بھی خدا کا شکر ادا کررہی تھی مگر یہ کاوش بھی خاک میں ملا گئی۔ وہاں سرور نے ان کو تنگ کرنا شروع کیا۔ ایک روز ہوسٹل میں گھس کر شور مچا دیا۔ مجبور کرنے لگا کہ تم میری بیوی ہو، میرے ساتھ چلو۔ وه بے چاری وحشت زده ہوگئی اور اپنی انچارج کے کمرے میں جا چھپی، مگر وه وہاں بھی گھسنے لگا تو چوکیدار نے پکڑ لیا۔ انچارج نے جو یہ ہنگامہ دیکها، آپی اور سرور کو بہت ڈانٹا کہ تم لوگوں نے ہوسٹل کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ یہ کیا مذاق ہے؟ انہوں نے سرور کو تو کھڑے کھڑے نکلوا دیا اور آپی سے بھی کہا کہ محترمہ تم بھی یہاں سے چھٹی کرو۔ تم لوگوں کی ایسی حرکتوں سے باقی لڑکیوں پر برا اثر پڑے گا اور ہمارے سینٹر کی بدنامی ہوگی۔ حجاب آپی تبھی انچارج کے پائوں پڑ گئی کہ میڈم الله کے واسطے مجھے اس درندے کے حوالے نہ کیجئے۔ میرا کوئی ٹھکانہ، کوئی پناہ نہیں ہے۔ مجھے نرسنگ ٹریننگ مکمل کرنے دیجئے۔ تاکہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکوں۔ اس خاتون کو رحم آگیا۔ کہا اچھا میں تم کو صرف ایک موقعہ دیتی ہوں۔ اگر دوباره یہاں ڈرامہ ہوا تو پھر کوئی عذر نہ سنوں گی اور نکال باہر کروں گی۔ اس بار جب سرور دوبارہ ملنے آیا۔ آپی نے گارڈ کو کہا کہ اس شخص کو باہر نکال دو۔ میرا اس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ ورنہ انچارج کو تم ہی جواب ده ہوگے۔ اس کے بعد کئی دنوں تک میری بہن ہوسٹل سے نہ نکلی۔ آخر کار ٹریننگ سینٹر تو جانا تھا۔ آپی صبح صبح ہوسٹل سے سینٹر جانے کو نکلیں۔ گیٹ کے قریب سرور موجود تھا۔ ظالم تاک میں تھا۔ ان پر چاقو سے وار کردیا اور شدید زخمی کرکے نکل بھاگا۔ یوں میری پیاری بہن اپنی بدقسمتی کے ہاتھوں آخری انجام تک پہنچیں۔ طوبی نے میرے والدین کو اطلاع دی تھی۔ وہ ہاتھ ملنے کے سوا کیا کرسکتے تھے۔ امی اب افسوس کرتی تھیں۔ اے کاش! سرور کے چلن کو پہلے جان لیا ہوتا اور والد بھی افسرده تھے کہ کیوں بیٹی کے سر پر ہاتھ نہ رکھا۔ آج کم از کم وہ بابل کے گھر کی پناہ میں محفوظ تو ہوجاتی۔
0 Comments