Maa Main Sharminda Nahi Teen Auratien Teen Kahaniyan |
باجی نرمین کی شادی کے بعد امی کو مہرین آپی کی فکر لگی۔ ان کی حسین صورت کے چرچے گهر گهر تھے۔ اسی سبب بڑے امیر گھرانوں سے رشتے آرہے تھے۔ماں نےایک خوشحال گھرانےمیں ان کی شادی کردی کیونکہ وہ لالچی لوگ نہ تھےاورانہوں نےجہیزکی ڈیمانڈ نہیں کی تھی۔ امی نے جہیز کےنام پرکوئی چیزنہ دی۔ نہ کوئی ایسی رسم کی جس پر پیسے خرچ کرنے بے شک یہ بڑےطریقے سلیقے کے لوگ تھے۔ آپی اپنے گھر میں سکھی ہو گئیں۔ان کےپاس زیور،قیمتی ملبوسات سبھی کچھ تھا۔ سسرال والےبھی میری بہن کو بہت چاہتے تھے۔ ساس واری صدقے ہوتیں۔ اکلوتا بیٹا تھا اور وہ اس کی خوشیوں پر نثار تھیں۔ چاہتی تھیں کہ بہو ہر وقت بن سنورکررہے۔ وہ ہر وقت تیار بیٹھی رہتیں۔ ساس کی خوشی کے لئے ان کا احترام کرتیں اورساس بھی انہیں کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتیں۔ میری بہن اپنی قسمت پر نازاں تھی اور ہم ان کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ شادی کے چار سال بیت گئے، آپی کو اولاد نہ ہوئی چیک اپ کرایا پتا چلا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکتیں۔ ساس سسر نے اس کمی سے بھی سمجھوتہ کرلیا۔ مہرین آپی کو بھی انہوں نے احساس نہ دلایا کہ تم میں کوئی کمی ہے۔ وہ اسی طرح خوش و خرم اپنے شوہر اور سسرال والوں کے پیار کی ٹھنڈی چھائوں میں جیون کے خوشیوں بھرے دن بتاتی تھیں۔ ماه و سال گزرتے گئے، اس دوران باجی نرمین چار بچوں کی ماں بن گئیں، مگر چوتھے بچے کی پیدائش کے بعد وہ بیمار رہنے لگیں۔ علاج بھی ہوا مگر بیماری رفتہ رفتہ بڑھتی گئی، یہاں تک کہ لاغر ہو کر بستر سے لگ گئیں اور ایک روز بچوں کو بلکتا چهوڑ مالک حقیقی سے جاملیں۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اتنی صحت مند اور خوش و خرم نرمين باجی یوں اچانک سب کو چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ کچھ دن باجی کے بچوں کو دادی نے سنبھالا پھر ہمارے حوالے کر گئیں۔ کہا کہ میرا بڑھاپا ہے یہ مجھ سے نہیں سنبھلتے۔ آپ لوگ ان کی دیکھ بھال کا ذمہ لے لیں۔ امی کو بیٹی کے صدمے کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی سنبهالنا پڑ گیا۔ لامحالہ اب ہمیں ہی ان معصوموں کو سنبھالنا تھا۔ سو پیار سے دیکھ بھال کرنے لگے۔ ان دنوں میری عمر گیارہ برس تھی۔ میں ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتی، وہ خوش رہتے اور ایک پل مجھ سے جدا نہ ہوتے۔ والد صاحب بھی روز شام کو نواسے نواسیوں کو گھمانے پھرانے لے جاتے۔ میرے بہنوئی اپنے بچوں سے ملنے روز آتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے آنا کم کر دیا۔ باجی نرمین کے انتقال کے بعد ایک دن میری والدہ مہرین آپی کے گهر گئیں۔ ان کی ساس سے کہا اگر آپ لوگوں کو مہرین کے بانجھ ہونے کا دکھ ہے تو بے شک آپ اپنے بیٹے کی اور شادی کرا سکتی ہیں ہماری طرف سے اجازت ہے تاکہ آپ پوتے پوتیوں کی خوشیاں دیکھ سکیں، میں مہرین کو بھی سنبھالوں گی۔ آپ ایسی کوئی بات منہ سے مت نکالیں کہ اسے دکھ ہو، ہم کو وہ اس حال میں بھی قبول ہے۔ یہ اللہ کی مرضی ہے تو اس کی رضا میں ہم راضی ہیں۔ یہ جواب سن کر امی کا منہ اتر گیا جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ میں امی کے ہمراہ گئی تھی مجھے ماں کا رویہ عجیب لگا تھا۔ انہوں نے آپی کی ساس سے یہ باتیں میری بہن کی غیر موجودگی میں کہی تھیں۔ گھر آکر میں نے امی سے کہا۔ جب وہ لوگ اپنی بہو کو اس قدر چاہتے ہیں تو ماں ہو کر آپ نے ان سے ایسی باتیں کیوں کہیں؟ میں نے صرف اپنا اخلاقی فرض پورا کیا ہے۔ میری ماں نے تاویل پیش کی۔ میں کم سن تھی، زیادہ ماں کے سامنے بولنا زیب نہ دیتا تھا۔ لہذا خاموش ہو رہی۔ آپی سے بھی اس بات کا تذکرہ نہ کیا۔ کچھ ہی دن گزرے کہ امی دوباره آپی کے گھر گئیں، کہا کہ تم بہت کم میکے آتی ہو۔ آج میرے ساتھ چلو تم کو لینے آئی ہوں۔ مہرین نے ساس سے اجازت لی اور ہمارے ساتھ آگئیں۔ ہفتے بعد آپی نے گھر جانے کو کہا کہ ان کا دل اپنے گھر میں زیادہ لگتا تھا۔ والدہ نے منع کردیا کہ کچھ دن اور میرے پاس ٹھہرو ...گھر تو جانا ہی ہے چلی جانا۔ انہی دنوں والد بیمار ہو گئے۔ امی نے مہرین آپی کو یہ کہہ کر کچھ اور دنوں کے لئے رکنے کو کہہ دیا کہ تمہارے ابا کی طبیعت سنبھل جائے بعد میں چلی جانا۔ مگر ابا جان کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے بگڑتی چلی گئی۔ والدہ کے مجبور کرنے پر اور کچھ دنوں کے لئے آپی میکے میں رہنے پر مجبور ہو گئیں۔ ان کی ساس اور شوہر دو بار لینے آئے مگر والدہ نے بیٹی کو بھیجنے سے انکار کر دیا کہ اس کے والد بیمار ہیں ابھی مت لے جایئے۔ وه وضع دار لوگ تھے خاموشی سے چلے گئے۔ مہرین آپی کو میکے میں رہنے دو ماہ گزر گئے۔ اب وہ گھر جانے کو پریشان رہتی تھی۔ امی یہ کہہ کر روک لیتیں کچھ دن اور رکو، اپنے باپ کی حالت نہیں دیکھ رہی ہو۔ غرض ایک ماہ بعد والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ایسے موقع پر اب ان کا گھر جانا مناسب نہ تھا۔ چالیسویں تک مزید ٹھہر گئیں۔ ابا جان کے چالیسویں کے بعد بھی امی نے آپی کو سسرال نہ بھیجا۔ جب آپی نے جانا کہ ماں تو کسی طور ان کو اپنے گھر جانے نہیں دے رہیں تو ایک روز بولیں۔ امی... میں شادی شدہ ہوں، میرا شوہر ہے، اپنا گھر ہے، نہیں جائوں گی تو محسوس کریں گے۔ چار ماہ گزر چکے ایسا نہ ہو وہ خفا ہوجائیں۔ کیوں خفا ہوں گے۔ کیا ان کو ہماری مجبوریوں کا نہیں پتا؟ آپی ماں کے اس جواب پر منہ دیکھتی رہ گئیں۔ اب ان کی ساس اور شوہر کے متواتر فون آنے لگے کہ کب مہرین کو ہم لینے آئیں... امی خود ہی سوال جواب کرکے فون رکھ دیتیں اور آپی سے بات نہ کراتیں۔ فون کو تالا لگا دیا ان کی اجازت کے بغیر کوئی فون کو ہاتھ نہ لگا سکتا تھا۔ ایک دن جب آپی کے شوہر بہزاد کا فون آیا کہ ہم مہرین کو لینے آرہے ہیں تو امی نے ان سے کہا کہ میں کل خود آپ کے گھر آرہی ہوں۔ پھر وہاں جاکرجانے کیسی باتیں کیں کہ وہ لوگ دہل کر رہ گئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ وہ کیا گیم چلا رہی ہیں اور آپی بے چاری کے تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ ان کی سگی ماں ان کو برباد کرنے پر تلی ہے۔ سبھی کو بے خبر رکھ کر انہوں نے بہزاد بھائی سے بیٹی کی طلاق کا مطالبہ کر دیا تھا۔ داماد نے کہا کہ بغیر مہرین سے ملے میں آپ کے مطالبے کا جواب نہیں دوں گا... وه میری بیوی ہے اگر طلاق چاہتی ہے تو اس سے یہ پوچھنے کا حق تو مجھے ہے کہ اس کو ہم سے کیا شکایت ہے اور طلاق مانگنے کی کیا وجہ ہے۔ اگلے روز بہزاد بھائی، مہرین آپی سے ملنے ہمارے گھر آئے تو امی نے ہوشیاری سے ان کو پھوپی کے گھر بھیج دیا اور شوہر سے نہ ملنے دیا۔ داماد سے کہا کہ وہ تم سے نہیں ملنا چاہتی۔ تبھی گھر سے چلی گئی ہے۔ اب جب بھی آپی کی سسرال سے کوئی آتا امی اس کو آپی سے نہ ملنے دیتیں۔ جب امی کی طرف سے طلاق کا مطالبہ حد سے بڑھا تو آپی کی سسرال میں بھی کھلبلی مچی۔ ان کے شوہر کے کچھ رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ موقع اچھا ہے مہرین بانجھ ہے اور وہ خود طلاق مانگتے ہیں تو اس موقع کو مت گنوائو۔ تمہارا لڑکا ابھی جوان ہے اس کی اور شادی کرائو۔ تاکہ مناسب وقت سے اس کی اولاد کی خوشیاں دیکھ پائو۔ آخر کار حتمی فیصلے سے پہلے بہزاد بھائی ایک بار اور ہمارے گھر آئے تو امی نے آپی کو کمرے میں بند کر دیا اور ماموں نے ان کو باہر سے ہی بیٹھک میں لے جا کر بٹھا دیا اور مہرین آپی سے نہ ملنے دیا۔ دھمکایا بھی کہ اب ہم خلع لینے عدالت جائیں گے، بہتر ہے بجائے عدالت کچہری جانے کے، قصہ یہاں ہی تمام کردو۔ اس طرح بہت کوشش کر کے امی نے ماموں کے ساتھ مل کر بیٹی کی طلاق کروالی۔ جب آپی کو طلاق کے کاغذات ملے وہ بہت روئیں، پیٹیں۔ صدمے سے بے ہوش ہوگئیں۔ کچھ عرصے بعد امی نے بتایا۔ میں نے خود تمہاری طلاق اس لئے کرائی ہے کہ تم بڑے بہنوئی سے شادی کرلو۔ نرمین کے معصوم بچوں کو ماں کی ضرورت ہے اور تم بھی بانجھ ہو... اس طرح ان کو ماں اور تم کو بچے مل جائیں گے۔ بہن کے بچے بھی تو اپنے بچے ہوتے ہیں۔ یہ سن کر پہلی بار آپی دھاڑیں مار مار کر روئیں اور پھر ان کو چپ لگ گئی۔ ایک بار بس اتنا کہا۔ امی آپ نے کتنا بڑا ظلم مجھ پر کیا ہے۔ ایک بار مجھ سے تو پوچھ لیا ہوتا۔ تم سے پوچھتی تو کیا تم راضی ہوتیں؟ بیٹی... میں بوڑھی ہو رہی ہوں، تیری مرحومہ بہن کے بچوں کی پرورش نہیں کر سکتی۔ شرمین کی شادی ہو جائے گی تو ان بچوں کو کون دیکھے گا۔ نرمین کے شوہر نے شادی کرنی ہی ہے کسی اور عورت سے کرلے گا، کیا میں ان کو سوتیلی ماں کے ہاتھوں سپرد کروں گی؟ ہرگز نہیں بچے بزرگوں کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے۔ تمہاری زندگی بری یا بهلی گزر جائے گی مگر ان بچوں کی زندگی ہماری زندگی سے بڑھ کر قیمتی ہے، ہم کو ہی ان کے لئے قربانی دینی ہے۔ ماں.... قربانی میں اپنی مرضی شامل ہو تو ہی وه قربانی ہوتی ہے۔ آپ اس مسئلے کا حل کوئی اور سوچیں۔ میں نہال بھائی کو ہرگز شوہر کے روپ میں نہیں دیکھ سکتی۔ خدارا مجھ پر رحم کریں۔ بہزاد آب میرے شوہر نہیں رہے مگر مجھے ان سے اب بھی محبت ہے۔ ان کی محبت میں اپنے دل سے نہیں نکال سکتی، بغیر شوہر کے ہی جی لوں گی۔ بیٹی کو مشتعل دیکھ کر ماں خاموش ہو بیٹھیں۔ مگر کچھ دنوں بعد پھر یہی تذکرہ چهیڑ دیا۔ آپی کسی صورت راضی نہ ہوتی تھیں۔ مگر میری والده آب بھی نہال بھائی کے ساتھ اندر ہی اندر کھچڑی پکا رہی تھیں۔ اب نہال بهائی بچوں سے ملنے جلد جلد آنے لگے تھے۔ کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ وہ آپی کو کچھ الگ سی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ میں کم سن تھی مگر اتنی بھی نا سمجھ نہ تھی۔ امی اور نہال بھائی کی ملی بھگت کا سارا کھیل اب میری سمجھ میں آنے لگا تھا۔ ایک دن سنا کہ بہزاد بھائی کی شادی ان کی والدہ نے کرادی ہے۔ یہ خبر سن کر آپی اس روز اس قدر بلک بلک کر روئیں کہ میں بھی ان کے ساتھ زار و قطار رونے لگی۔ آپی کی ہٹ دھرمی سے مایوس ہو کر امی نے مجھے قربانی کا بکرا بنانا چاہا۔ میں حیران تھی کہ ان کو کیا ہوگیا ہے۔ اپنی بچیوں کی خوشیوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے نواسوں اور نواسیوں کے بارے میں ہر وقت سوچتی ہیں۔ حیرت تھی کہ کیا کوئی ماں اپنی اولاد سے بڑھ کر اولاد کی اولاد کو اس قدر چاه سکتی ہے؟ امی نے آپی سے کہا۔ ٹھیک ہے تم اپنی ضد نہ چھوڑو گی حالانکہ تمہارے شوہر نے سال بھر بعد اور شادی کرلی اور تم اس کی یاد میں عمر گزارنے چلی ہو۔ ماں کی یہ باتیں اور زیادہ آپی کے دل کی دنیا میں آگ لگاتی تھیں۔ جب انہوں نے بتایا کہ مجبور ہو کر اب میں شرمین کو نہال سے بیاہنے چلی ہوں تو وہ دم بخود رہ گئیں۔ میں نے آپی سے کہا۔ ماں کو سمجهائو میری بہن ورنہ قسم کھاتی ہوں کہ زہر کھالوں گی مگر نہال بھائی سے شادی نہ کروں گی۔ میری عمر اس وقت تیره برس تھی۔ بھلا کہاں میں اور کہاں بہنوئی صاحب کہ جو، اب چالیس سے اوپر جا رہے تھے۔ آپی کے گلے لگ کر زار و قطار کئی دنوں تک روتی رہی تھی۔ خدا کے لئے آپی مجھے بچالو۔ پھر ایک روز انہوں نے میرے سرہانے کے نیچے ابو کی دواؤں کا بنڈل دیکھ لیا۔ پوچھا یہ دوائیاں تم نے یہاں کیوں رکھی ہیں۔ خودکشی کرنے کے واسطے ایک ساتھ سب دوائیں پھانک لوں گی کوئی تو اثر کرے گی نا... امی کو سبق سکھا کر مروں گی۔ آپی ڈر گئیں۔ امی نے جب میرے لئے شادی کا جوڑا سلوانے کو دیا تو آپی نے ان سے کہا۔ ایسا ظلم مت کرو ماں، ہم تمہاری مری ہوئی بیٹی کے بچے ویسے ہی پال لیں گے۔ شرمین کی عمر تو دیکھو، کیا تیرہ سال کی بچی اتنی ذمہ داریاں اٹھا سکتی ہے۔ تو پھر تم ہی مان جائو۔ یہ کہہ کر انہوں نے آپی کے قدموں کو پکڑ لیا۔ انہوں نے روتے ہوئے اپنے قدم کھینچ لئے۔ بولیں۔ مجھے گناه گار مت کریں۔ آپ نے جو سوچا ہے کر گزریں مگر شرمین کا پیچھا چھوڑ دیں۔ ایسا سوچنا بھی مت کہ یہ بڑے بہنوئی سے نکاح کرے گی۔ سچ کہتی ہوں ماں یہ جان دے دے گی، پہلے ایک بیٹی کو رو رہی ہو پھر دوسری کو رؤ گی۔ میری ضدی ماں بالآخر جیت گئی۔ آپی نے میری خاطر ہتھیار ڈال دیئے۔ امی نے ان کی شادی بڑے بہنوئی سے کرادی اور وہ مرجھائے ہوئے گلاب کی طرح نهال بھائی کی سیج کا سنگھار بن گئیں۔ یہ شادی کیا تھی، نری بربادی تھی۔ ایک طلاق کا صدمہ اوپر سے، یہ زبردستی کا ظلم... آپی نرمین باجی کے بچوں کو ٹھیک طرح نہ سنبهال پائیں، جس پر نہال بھائی ان سے الجھنے اور لڑنے جھگڑنے لگے، مگر یہ روگ ان کے بس کا نہ تھا۔ ان کا من ہی ان کے بس میں نہ تھا، وہ کیونکر بن ماں کے بچوں کو پالتیں۔ روز اس بات پر ان کی نہال بھائی سے تو تو، میں میں ہونے الگی، نوبت مار پیٹ، ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ آپی خود کو نہ سنبهال پاتی تھیں، اس رویہ کی وجہ سے شدید ڈیپریشن میں چلی گئیں۔ اب وہ بیٹھے بیٹھے رونے لگتیں۔ ہاتھ پائوں مڑ جاتے، ہسٹریائی انداز میں چیخنے لگتیں۔ بچے سہم جاتے، ان کو نفسیاتی امراض کے اسپتال داخل کرانا پڑا۔ بچے پهر سے ہمارے پاس آگئے۔ آپی کی ایسی حالت دیکھ کر اب امی کو احساس ہوا کہ جب کسی کا دل آمادہ نہ ہو زبردستی اس سے قربانی طلب کرنا عقل مندی نہیں ہے۔ اب تو آپی کی ایسی حالت تھی کہ ان کو خود اپنی ذات کا ہوش نہ تھا۔ چھوٹے بچوں کو کیونکر سنبهالتیں، نتیجہ ان کی طلاق پر ختم ہوا۔ تین برس بعد خدا خدا کر کے وہ کچھ حواسوں میں لوٹیں۔ امی آب زیاده بیمار رہنے لگی تھیں۔ پے در پے غموں نے ان کو ادھ موا کر دیا تھا۔ میری عمر سترہ برس ہو گئی تو ان کا آخری وقت آپہنچا تب انہوں نے ایک دن میرا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ شرمین... میں چاہتی ہوں تم ہی نرمین کے بچوں کو ماں بن کر پالو۔ ورنہ میرے بعد تو یہ دربدر ہو جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مرنے سے پہلے میں تمہارا نکاح نہال سے کرجائوں اور پھر سکون سے مرسکوں۔ یہ بات انہوں نے کچھ اس طرح کہی کہ ان کا لہجہ دل چیرتا ہوا میری روح میں اتر گیا۔ امی... میں راضی ہوں۔ آپ اپنی یہ خواہش پوری کرلیں۔ بے اختیار یہ الفاظ میرے لبوں سے نکل گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کو دیکھنے نہال بھائی آگئے تو ماں نے میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے کر کہا۔ بیٹا تم میرے بعد اس کا بہت خیال رکھنا۔ آج شام نکاح کا بندوبست کرلو۔ کیا پتا کل تک میں رہوں نہ رہوں۔ وفات سے چند گھنٹے قبل انہوں نے میرا نکاح اپنے داماد سے کروا دیا اور پھر رات کے ڈھائی بجے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ نہیں معلوم وہ سکون سے مریں یا بے سکون ہو کر اس دنیا سے گئیں مگر میں رات دن آج بھی ان کی مغفرت کی دعا کرتی ہوں۔ میں نے بہن کے بچوں کی خاطر جو قربانی کا عہد ان کے سامنے کیا وہ پورا کیا۔ ان کو پیار سے پال کر پروان چڑھایا۔ دل پہ جو گزری سہہ گئی اور پھر اس جبر کی خوگر ہو گئی تو مشکل مشکل نہ رہی۔ مشکلیں آسان ہو گئیں، خوش ہوں کہ ماں کی روح سے آج میں شرمنده نہیں ہوں۔
0 Comments