Aakhri Bar Lay Chaloo Teen Auratien Teen Kahaniyan
نادر ہمارا محلے دار تھا۔ وہ سبزی منڈی میں ایک آڑھتی کے پاس ملازم تھا۔ وہاں نجانے کیسے نشے کی لت لگی کہ کام سے جاتا رہا۔ رفتہ فتہ دماغ ماؤف رہنے لگا تو ہاتھ پیر چھوڑ گهر بیٹھ رہا۔ نادر کی بیوی چلتی پرزه عورت تھی۔ جب تک وہ کما کر لارہا تھا، گهر پر اس کا رعب بھی تھا۔ نشے نے بیکار کردیا تو اس کی عورت نے بھی اس کا رعب ماننے سے انکار کردیا۔ اب صبا ہی گھر کے سفید و سیاه کی مالک ہوگئی۔ گهر پر غربت پڑاؤ ڈال دے تو عورت کو ہی چولہا گرم رکھنے کو ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔ جب بیوی کرتا دھرتا ہوگئی تو اس نے شوہر کا خیال رکھنا چھوڑ دیا۔ روپے پیسے کے حصول کے لئے ادهر ادهر دیکهنے لگی۔ نادر کا ایک دور کا رشتہ دار جو اس کا دوست بھی تھا، ان کے حالات سے واقف تھا۔ اس کا نام حیات تھا۔ حیات ان کے گھر آتا جاتا تھا۔ اس نے جو حالات دیگر گوں دیکھے، نادر کے کنبے کی مدد کی ٹھانی... وہ اب اکثر سبزی کے ٹوکرے لاکر صباحی کو دیتا اور کہتا کہ اس کو محلے میں فروخت کرکے کچھ رقم کما لیا کرو۔ ہمیں تو آڑھتی سے یہ سبزی مفت مل جاتی ہے۔ تمہارے لئے روزی کا ذریعہ بن جائے گا۔ صباحی نے ایسا ہی کیا۔ اس نے گھر کے تھڑے پر سبزی کی دکان لگالی۔ وه صبح سویرے چٹائی بچھا کر دروازے کے سامنے سبزی لے کر بیٹھ جاتی اور دوپہر تک ساری سبزی فروخت ہوجاتی اور اس کا بھی چولہا گرم ہوجاتا۔ یہ حیات کا بڑا احسان تها۔ تبھی صباحی اور اس کی دونوں بیٹیاں چاچا حیات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے اور اس کے گن گانے لگیں۔ نادر کو البتہ کسی آنے والے طوفان کا احساس نہ ہوا کہ وہ نشے کے لئے اب انہی کا محتاج ہوچکا تھا۔جب وہ کام پر جایا کرتا تھا تو شام کو عیب دار پھلوں کے دوچار ٹوکرے لے آتا تھا۔ یہ وہ پھل ہوتے جن کو مالک اچھے پھلوں سے علیحده کروا کر ملازمین کو سستے داموں دے دیتا۔ تب بھی صباحی یہ پھل محلے کے بچوں کو سستے داموں بیچ دیا کرتی تھی۔ اس نے ایک روز حیات سے کہا کہ کچھ عیب دار پھل تم بھی لادیا کرو تو آمدنی زیاده ہوسکتی ہے۔ یہ غریب آبادی تھی۔ یہاں مکینوں کی پہنچ عمده پهلوں تک نہ تھی۔ ان کے لئے گلے سڑے فروٹ ہی سوغات تھے جن کو کھا کر ان کے بچے پھلوں کا شوق پورا کرلیا کرتے تھے۔ یوں ان پھلوں سے بھی آمدنی میں اضافہ ہوگیا۔ اب حیات کا گھر میں آنا جانا ہوگیا جس پر نادر نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ کیونکہ وہ اپنی حمیت کو نشے کی گولی سمجھ کر نگل چکا تھا۔ اسے روز نشہ پورا کرنے کے لئے ایک نوٹ درکار ہوتا تھا جو حیات کی جیب سے ہی نکلتا تھا۔ صباحی کی بڑی بیٹی اب سترہ برس کی ہوچکی تھی۔ حیات کے صلاح مشورے سے اس نے نوری کی شادی اپنے ایک رشتہ دار سے کردی۔ دوسری صبیحہ ابھی پندرہ سال کی تھی۔ گوری رنگت کی وجہ سے اس کو سب گوری بلاتے تھے۔ گھریلو حالات نے گوری کو کافی پریشان کررکھا تھا کیونکہ وہ ایک حساس لڑکی تھی۔ وہ ماں کے چلن اور باپ کی بے بسی سے شدید ذہنی دباو کا شکار رہتی تھی مگر ماں کے سامنے زبان نہ کھول سکتی تھی۔ لیکن اپنے رویے اور جھنجھلائے ہوئے طرز عمل سے یہ ضرور ظاہر کرتی تھی کہ کسی دن جوالا مکھی بن کر پھٹ پڑے گی۔ گوری کا رویہ ماں کے لئے اب ایک چیلنج بنتا جارہا تھا۔ جب بھی وہ ماں کے مقابل آنے کی کوشش کرتی یا اس کی نافرمانی کی مرتکب ہوتی، گهر کی اشیا وتوڑنے پهوڑنے لگتی۔ تب ماں اس کو بری طرح دھنک ڈالتی۔ صباحی اس وقت اپنی سخت توہین محسوس کرتی جب گوری ماں سے حیات کے بارے میں ألٹے سیدھے سوالات کرتی۔ تب اس کی ماں جواب میں کہتی کہ اسی کا دیا ہم کھاتے ہیں۔ اگر حیات مدد نہ کرے ہم بھوکے مرجائیں۔ تیرا باپ تو نشے کا مارا بے کار پڑا ہے۔ یہ چولہا اگر دوقت جلتا ہے تو حیات کی مہربانی سے... اور تو اس میں کیڑے نکال کر مجھے کیا جتلانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر اتنی ہی باغیرت ہے تو جا اور جاکر خود کما کر لا... دیکھتی ہوں کہ کیسے كما کر لاتی ہے۔ ماں کے ایسے فقرے انگارے کی طرح گوری کے دل پر لگتے تھے۔ وہ جل بھن کر کباب ہوجاتی تھی۔ دانت پیستی روتی دھوتی مگر کچھ بس نہ چلتا۔ اب تو کئی دن سے نادر بھی گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ ہوتے ہوتے یہ گمشدگی ہفتوں اور پھر مہینوں تک چلی گئی۔ جب بھی وہ گھر آتا، کپڑوں سے بدبو آٹھ رہی ہوتی۔ سر کے بال میلے چیکٹ اور ناخن بڑھے ہوتے۔ اس کی طرف تو دیکھنے سے بھی ہول آتا تھا۔ گوری کو وہ کسی طرح سے بھی اپنا باپ نہیں لگتا تھا۔ انہی دنوں صباحی کو نجانے کیا ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئی اور حیات نے اس کو اسپتال میں داخل کرادیا۔ دو چار دن تو گوری نے ماں کی غیرموجودگی کو برداشت کیا، پھر اکیلے رہنے سے اس کو ڈر لگنے لگا۔ جب حیات اس کی ماں کے لئے گھر کھانا لینے آتا تو گوری کہتی کہ اس نے بھی ماں کے پاس اسپتال جانا ہے۔ بالآخر ایک روز وہ اسے بھی اپنے ساتھ صباحی کے پاس لے گیا۔ جب اسپتال پہنچی، ماں کو بستر پر پڑا دیکھ کر اس کے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔ بولی۔ ماں تم جلدی اچھی ہوجاؤ. میں تمہارے بن اکیلی گھر میں رہنے سے ڈرتی ہوں۔ تمہارے سوا اس دنیا میں میرا ہے کون؟ ماں نے اس کو روتے دیکھا، دل سے لگا کر پیار کیا۔ بولی۔ دیکها اب آئی ہے نا تجھے میری قدر... پہلے تو، تو کہتی تھی کہ تم مرجاؤا ماں تو اچھا ہو. اچها اب یہیں رہ جا میرے پاس اسپتال میں۔ گھر نہ جانا... وہ ماں کے پاس اسپتال میں رہ گئی۔ لڑکی بچاری کو سکون ملا۔ وہ ٹھیک کہتی تھی۔ اس کا ماں کے سوا کون تها۔ بری بھلی جیسی بھی تھی، وہ آخر تو اس کی ماں تهی... خود مارتی تھی مگر کسی کو مارنے نہ دیتی تھی۔ حیات روز شام کو اسپتال آتا۔ صباحی کو پھل، دوا دارو لادیتا۔ اب وہ گوری کو اتنا برا نہیں لگتا تھا۔ وہ سوچتی ماں بچاری بھی کیا کرے، ابا تو بیکار ہی ہوگیا نا... اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ حیات کا دم پهر غنیمت ہے۔ اگر یہ بھی نہ ہوتا ماں بچاری تو مرگئی ہوتی۔ ایک دن وہ وارڈ سے نکل کر برآمدے میں کھڑی ہوگئی تھی کہ اس کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی، وہ کسی وارڈ کا پوچھ رہا تھا۔ اس نے اپنا نام ابدالی بتایا۔ تھوڑی بہت اس پہلی ملاقات میں باتیں ہوئیں مگر گوری کو لگا جیسے اس کے ساتھ برسوں کی جان پہچان ہے۔ اس دن کے بعد سے وہ روز آنے لگا۔ شاید اس کا کوئی واقف حال تھا۔ اسی کے لئے آتا تھا مگر ملاقات گوری سے ہوجاتی تھی۔ وہ بھی اس کی دید کی منتظر رہتی تھی۔ ایک دن وہ اسپتال سے باہر بھی چلے گئے، تب گوری یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ ابدالی تو بہت امیر لڑکا تھا۔ اس کی کار بھی بہت شاندار تھی۔ ایک روز ہمت کرکے وہ ابدالی کو ماں کے پاس لے آئی۔ اس نے صباحی کی عیادت کی۔ وہ گھاگ عورت ایک نظر میں نوجوان کی حیثیت کو پہچان گئی تاہم اس نے اس نوجوان کے گوری سے مل جانے کو بیٹی کے لئے نیک شگون خیال کیا۔ آخر کہیں نہ کہیں تو بیٹی کا رشتہ کرنا ہی تھا۔ جب وہ ٹھیک ہوکر گھر آگئی تو ابدالی بھی ان کے گھر آنے جانے لگا۔ وہ ان کے گھر خاصی چیزیں لے کر آتا تھا۔ محلے والوں نے اس کی شاندار کار کو صباحی کے دروازے پر کئی بار دیکھا تو ان کا ماتھا ٹھنکا۔ حیات کی حد تک تو وہ خاموش تھے کہ وه | نادر کا ساتھی تھا لیکن یہ نیا مہمان تو ان کی برابری کا نہ تها... اس کے آنے
جانے کا کیا جواز بنتا تھا۔ تبھی قریبی پڑوسیوں نے اعتراض کیا کہ یہ اجنبی نوجوان یہاں کیوں آتا ہے؟ یہ میری بیٹی کا منگیتر ہے، تبھی آتا ہے۔ صباحی نے جواب دیا۔ ہمارا رشتہ دار ہے۔ لیکن یہ تو امیر آدمی ہے، گاڑی پر آتا ہے، تمہارا رشتہ دار کیسے ہوا؟ کیوں کیا غریب کا رشتے دار کوئی امیر نہیں ہوسکتا؟ اس جواب پر پڑوسی وقتی طور پر تو خاموش ہوگئے لیکن وہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں کب تک یہ معاملہ چلتا ہے اور کب صباحی کی بیٹی کی شادی اس نوجوان سے ہوتی ہے۔ انہوں نے سوچ لیا کہ اگر یہ نوجوان اس عورت کا داماد نہ ہوا تو وہ صباحی کا سامان اٹھا کر سڑک پر پھینک دیں گے اور اس کو یہ محلہ چھوڑنے پر مجبور کردیں گے۔ ایک سال یونہی گزر گیا۔ صباحی نے بیٹی کی شادی اس لڑکے سے نہ کی البتہ اکثر ماں بیٹی ابدالی کے ساتھ اس کی گاڑی پر جائیں اور گھوم پھر کرلوٹ آتیں۔ اور کبھی گوری بھی اکیلی اس کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ ایک روز محلہ کے کچھ لوگ جمع ہوکر نادر کے مکان پر آئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شریفوں کا محلہ ہے اور ہم بہو، بیٹیوں والے ہیں۔ بہتر ہے کہ تم لوگ یہ گهر چهوڑ دو. صباحی اس مطالبے سے گھبرا گئی۔ اس نے چند دنوں کی مہلت مانگی، اور جب ابدالی آیا۔ اس نے اس کو بتایا کہ محلے والے تمہارے آنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ تم یہاں مت آیا کرو... وہ بولا۔ کون کون اعتراض کرتا ہے۔ مجھے ان لوگوں کا نام بتادو، میں ان سے نمٹ لیتا ہوں۔ میں ان لوگوں سے بگاڑنا نہیں چاہتی۔ ہم یہاں عرصہ سے ساتھ رہنے والے ہیں اور یہ ہمارا ذاتی مکان ہے۔ میں اس کو بیچوں گی اور نہ اس کو چھوڑ کر کہیں جاسکتی ۔ ہوں۔ تم ایسا کرو کہ کچھ دن یہاں نہ آؤ... ہم خود تمہارے پاس آجایا کریں گے۔
محلے میں ایک نوجوان طارق نامی رہتا تھا، وہ رکشہ چلاتا تھا۔ وہ سیدها ساده لڑکا تھا۔ صباحی نے سوچا اسی کو ڈھب پر لے آتی ہوں۔ یہ بیچاره مسکین سا کسی کو کیا بتائے گا۔ اس نے طارق کو بلا کر کہا کہ گوری کوئی کورس کررہی ہے، اس کو روز جانا ہوتا ہے۔ بیٹا تم شام کو اس کو جہاں اسے جانا ہو پہنچا دیا کرو ... میں تم کو کرایہ دے دیا کروں گی۔ طارق بولا۔ ہاں خالہ کیوں نہیں۔ جو ٹائم بتاؤ گی، اس ٹائم میں آجاؤں گا اور گوری کو اپنے رکشہ پر
چھوڑ آؤں گا۔ اگلے ہی دن گوری صبح صبح تیار ہوگئی... طارق نے رکشہ نکالا ہی تھا کہ صباحی بلانے آگئی۔ وہ گوری کو جہاں اس نے بتایا چهوڑ آیا۔ دو چار دن گزرے پھر صباحی نے طارق کو بلایا اور وہ گوری کو اپنے رکشے پر کہیں چھوڑنے چلا گیا۔ جلد ہی محلے والوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے طارق سے پوچھا تم نادر کی بیٹی کو کہاں چھوڑنے جاتے ہو؟ وه سیدها سا لڑکا تھا۔ اس کو خیال نہ آیا کہ محلے والے اس سے کیوں پوچھتے ہیں۔ جب محلے داروں نے اسے اونچ نیچ سمجهائی تو وہ بھی چونکا اور پریشان ہوگیا اور کہا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں۔ اب میں ہر بات کا دھیان رکھوں گا اور سب کھوج لگا کر ہر بات آپ لوگوں کو بتا دوں گا۔ پھر طارق نے گوری کی نگرانی کی اور اس بات کا پتا لگالیا کہ وہ ابدالی نامی ایک امیر زادے سے اس کی اوطاق میں ملتی ہے۔ لوگوں نے ایک بار پھر صباحی کو جالیا۔ اس نے کہا کہ مجھے لڑکی سے پوچھ گچھ کرنے کا موقع دو۔ اگلے دن گوری نے ابدالی سے جاکر طارق کی شکایت کی کہ یہ میری نگرانی کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ ایک بار اس کے رکشے پر آجاؤ تو میں اس کو سمجھا لوں گا۔ وہ نہ سمجھی کہ اس سمجهانے کا کیا مطلب ہے۔ اگلے روز منت سماجت کی کہ آخری بار لے چلو ، اس کے بعد نہیں جانا ہوگا۔ کیونکہ جو پڑھ رہی ہوں وہ کورس اب ختم ہونے والا ہے۔ یہ میری زندگی کا سوال ہے۔ اس کے بعد جو گھر سے نکلوں تو جو مرضی کرنا... طارق باتوں میں آگیا اور اس کی بتائی جگہ لے آیا۔ یہ ایک سنسان جگہ تھی۔ بے وقوف گوری کو بھی اندازہ نہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ جونہی ابدالی کی بتلائی ہوئی جگہ پر رکشہ رکا اور گوری اتر گئی۔ اسی وقت کار سے ابدالی کے لائے ہوئے دو غنڈے باہر آئے۔ گوری کو ابدالی کی کار میں بیٹھنے کا کہا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ البتہ جو دو شخص کار سے اترے تھے، انہوں نے آنا فانا طارق پر فائر کھول دیا۔ کئی گولیاں معصوم طارق کے جسم میں پیوست ہوگئیں اور ایک غریب گھر کا چراغ چشم زدن میں بجھ گیا۔ وہ لوگ تو جائے حادثہ سے فرار ہوگئے۔ کسی راہ گیر نے تھانے اطلاع دی۔ پولیس نے آکر طارق کا جسد خاکی اور رکشہ قبضے میں لیا۔ تفتیش کی اور پھر طارق کے گھر والوں کو حادثے کی اطلاع دی۔ اس اطلاع پر اس کے گھر میں ہی نہیں، محلے میں بھی کہرام مچ گیا۔ مقتول کی ماں بیہوش ہوگئی۔ چند ماه قبل ہی طارق کی شادی ہوئی تھی۔ یہ غریب گھرانہ أجڑ گیا۔ محلے والوں نے تھانے دہائی دی لیکن وہ کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ابدالی نے معاملہ روپے کی زور پر رفع دفع کرادیا اور صباحی اپنی بیٹی کے ساتھ کسی اور جگہ چلی گئی۔ اس سارے المیہ کا دکھ طارق کی ماں کو اٹھانا پڑا... جو آج بھی بیٹے کی یاد میں روتی ہے اور بین کرکے کہتی ہے کہ اسے کمبخت صباحی اگر تو نے اس محلے سے کوچ ہی کرجانا تھا تو پہلے ہی کیوں نہ چلی گئی۔ میرے بچے کی جان لینا کیا ضروری تھا؟
0 Comments