Woh JaduGarni Thi Teen Auratien Teen Kahaniyan
یہ 1950ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ ان دنوں ہمارا گھر ایک گائوں میں تھا مگر یہ گائوں شہر کے نزدیک ہی تھا۔ ہمارے برابر والے مکان میں ایک بہت نیک بزرگ رہا کرتے تھے۔ دن رات وہ ذکر الہی میں مگن رہتے۔ مجھے آج بھی ان کی وہ نورانی صورت یاد ہے۔ ان کی سفید داڑهی، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، لمبا قد اور چوڑے شانے، ان کی بارعب شخصیت سے ہر کوئی مرعوب ہوجاتا تھا۔ وہ کم ہی لوگوں سے مخاطب ہوتے تھے۔ ہاں! کوئی مصیبت زده یا بیمار آجاتا، تکلیف میں مبتلا ہوتا یا دست سوال دراز کرتا تو اس پر خاص توجہ کرتے تھے۔ محلے میں وہ سید صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ سبھی ان کا احترام کرتے۔ جدھر سے گزرتے، لوگ ہٹ جاتے اور ان کو راستہ دے دیتے۔ ان کی ایک بہن تھی۔ نام نجمہ بی بی تھا، ان کے ہمراہ رہتی تھی۔ وہ بھی الگ تھلگ علیحدہ سی زندگی گزار رہی تھی۔ ان کا مکان پرانا لیکن عمده بنا ہوا اور اچھی حالت میں تھا۔ چار کمرے سامنے کی طرف اور ایک کمرہ عقبی دروازے کی جانب سے علیحدہ سے بنایا گیا تھا۔ گویا بطور مہمان خانہ کے استعمال ہوسکتا تھا۔ بڑا سا برآمده تها جو چاروں کمروں کے سامنے سے ہوتا ہوا اس آخری کمرے تک جاتا تھا۔ درمیان میں وسيع آنگن تھا جس میں آم، جامن اور نیم کے پیڑ تھے۔ عقبی دروازے کے پاس ایک بیری کا درخت بھی تھا۔ یہ جائداد ان کی پشتنی تھی۔ کچھ زرعی زمین بھی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ بہت خوشحالی سے اس مختصر خاندان کی گزربسر ہورہی تھی۔ چار برس قبل سید صاحب کے بیٹے کی شادی ہوچکی تھی مگر ان کی چالیس سالہ بہن نجمہ بی بی تاحال غیرشادی شدہ تھیں۔ ان کی شادی کی عمر آب نکل چکی تھی۔ وہ گھر کی دیکھ بھال میں واجبی سی دلچسپی لیتی تھیں۔ زیادہ تر کام کاج ان کی ملازمہ کرتی۔ یہ عورت بھی جس کا نام خیرن تها، ادھیڑ عمری کی دہلیز کو پار کرچکی تھی۔ سید صاحب کی بہو کا نام آسیہ بی بی تھا۔ خوش شکل، خوش اخلاق اور سگھڑ تھی۔ امورخانہ میں دلچسپی رکھتی۔ جب سے اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی، اس نے پوری توجہ اپنے سسر کی اس پرانی حویلی پر مذكور رکھی تھی، تبھی اب گھر میں تازگی اور ایک خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوتا تھا۔ آسیہ بی بی مہمان نواز تھی۔ پاس پڑوس سے عورتیں ان کے گھر میں آنے جانے لگی تھیں۔ سارا محلہ ہی سید صاحب کی بہو کے گن گاتا تها۔ سید صاحب کے بیٹے امتیاز میاں نہایت شریف طبیعت اور کم سخن تھے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے۔ صبح سویرے شہر کو ڈیوٹی پر نکلتے، شام تک لوٹتے۔ محلے والوں کو ان سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوتی۔ جہاں تک نجمہ بی بی کا تعلق تھا، وہ چند مخصوص لوگوں سے میل جول رکھتی تھیں اور ان سے ملنے والیاں ان کے ساتھ خاص قسم کی عقیدت رکھتی تھیں۔ ان کو
کنواری بی بی کہہ کر بلاتی تھیں۔ یہ عورتیں اس طرح ان کی گرویده تهیں جیسے نجمہ بی بی کی مرید ہوں۔ عام طور پر سبھی یہ خیال کرتے تھے کہ وہ اس نیک بی بی سے دم درود کرانے آتی ہیں۔ تاہم سید صاحب کا چہرہ جس قدر شفاف اور پرنور تھا، اسی قدر ان کی بہن کے چہرے پر بے رونقی اور پتھریلا پن تھا۔ یہ چہرہ نرمی کے احساس سے عاری تھا بلکہ کبھی کبھی تو ایک بے رحمانہ سی کرختگی محسوس ہوتی تھی۔ میں جب ان کے گھر جاتی اور وہ سامنے آجاتیں، جی چاہتا ان سے نظریں چرا لوں۔ بلاوجہ بے زاری محسوس ہوتی تبھی مختصر سلام و دعا کے بعد میں ان کی بہو کی طرف چلی جاتی تاہم نجمہ بی بی نے میرے اس رویئے کا کبھی برا نہ منایا۔ وہ عمر میں مجھ سے بڑی تھیں تو میں ان کو باجی کہتی تھی۔ ہمیشہ سلام میں پہل میری طرف سے ہوتی۔ حیرت کی بات کہ وہ سلام کے جواب میں زبان سے وعلیکم السلام نہ کہتیں بلکہ سر کے اشارے سے جواب دیتیں۔ سید صاحب کے گھر کے پچھواڑے ایک پرانا قبرستان تھا۔ نجمہ بی بی کے کمرے سے نزدیک عقبی دروازے سے یہ قبرستان نظر آتا تھا۔ ان کا معمول تھا کہ جب سید صاحب موجود نہ ہوتے یا عبادت میں مصروف ہوتے، وہ یہ دروازہ کھول کر قبرستان چلی جاتی تھیں، جہاں ان کے پرکھوں کی بھی قبریں تھیں۔ وہ اکثر دوپہر کو یا مغرب کے وقت نکلتی تھیں۔ کبھی کبھار اپنی ملازمہ کے ساتھ مگر اکثر اکیلی ہی۔ ان کو قبرستان جانے سے ڈر نہیں لگتا تھا۔کئی بار امی نے حیرانی سے سوال کیا کہ عورت ذات ہوکر یہ یوں اکیلی قبرستان کیوں جاتی ہے؟ اجالے میں سید صاحب کا ڈر رہتا ہے۔ وہ دیکھ لیتے تو منع کرتے ہیں، تبھی جب موقع ملتا ہے، یہ ان سے چوری چھپے جاتی ہیں۔ اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھتی ہیں اور ان کی روحوں سے اپنے دکھ سکھ کہتی ہیں۔ دراصل وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کو وہاں جاتی ہیں ورنہ آپ جانتی ہیں کہ تنہائی سہنا آسان نہیں ہوتا۔ ہم کو بڑی بی کی باتیں ٹھیک لگتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسی ادھیڑ عمر کنواری جس کے ساتھ کوئی ہم عمر بات چیت کرنے والا ساتھی نہ ہو، نہ کوئی غمگسار ہو، آخر اس کا دل مضطرب کیونکر چین پائے۔ ایک روز امی جان، سید صاحب کے گهر شب برات کا حلوه دينے گئیں۔ آسیہ بی بی خوش دلی سے ملیں، شربت سے مدارات کی۔ امی نے نجمہ بی بی کی خیریت دریافت کی۔ اس پر آسیہ بی بی کچھ پریشان دکھائی دیں۔ بمشکل کہا کہ اپنے کمرے میں ہیں، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ امی کو عیادت کی خاطر دھوپ میں سارا آنگن پار کرنا پڑتا لہذا یہ سوچ کر وہ نجمہ کی طرف نہ گئیں کہ کیا خبر سو رہی ہوں یا آرام کررہی ہوں۔ گھر کے کونے میں بنے الگ تھلگ کمرے میں اڑوس پڑوس کا شور سنائی نہ دیتا تھا تبھی انہوں نے اسی میں رہنا پسند کیا تھا تاکہ عبادت میں باہر کے شوروغل سے خلل واقع نہ ہو۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ وہ تنہائی میں کمره بند کرکے اپنا وقت عبادت میں گزارتی ہیں۔ ان دنوں وہ اپنی بھابی سے بھی کم بات کرتی تھیں۔ بند کمرے میں ان کی عبادت کا دورانیہ گویا بڑھتا جاتا تھا۔ اس بارے میں ان کی ملازمہ بھی فکرمند رہنے لگی تھی۔ سید صاحب پهر بھائی تھے۔ ان کو بھی فکر ہوئی کہ بہن پورا | دن دسترخوان پر بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ وہ اسی فکر میں تھے کہ ایک رات آن کو عقبی دروازے کے بند ہونے کی آہٹ آئی۔ صحن میں نکلے، نصف شب کا وقت تھا کہ ان کی بہن جو خاندانی علمیت کے سبب گائوں بھر میں عابده اور زاہدہ مشہور تھی، عقبی دروازے کے پاس کھڑی تھی جیسے وہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہوئی ہو اور دروازہ بند کیا ہو لیکن دیوار کے ادهر تو قبرستان تھا۔ آدھی رات کو اس طرف جانے کا نجمہ سے کیا علاقہ... وہ بہن پر کسی قسم کے شک و شبے سے گریزاں رہے اور بغیر اس کو کچھ کہے دوباره اپنے کمرے میں جاکر نوافل پڑھنے میں مصروف ہوگئے تاہم ان کو ٹوہ لگی، جب اگلی رات بھی انہوں نے اسی قسم کا کھٹکا سنا۔ انہیں کرید لگ گئی کہ نجمہ کس قسم کی عبادت کررہی ہے؟ چند روز وه بہن کی عبادت کی نوعیت
کو نہ سمجھ سکے۔ بالآخر ان کو شک ہوگیا کہ نجمہ رات کو عقبی دروازے سے باہر جاتی ہے۔ تب انہوں نے سراغ لگا ہی لیا کہ ان کی بہن، الله کی عبادت نہیں کررہی بلکہ کسی اور مقصد سے رات کو باہر جاتی ہے۔ اب وہ اس کی تاک میں رہنے لگے۔ ایک رات جبکہ عبادت سے اٹھے۔ کیا دیکھا کہ بہن کمرے میں موجود نہیں ہے۔ وہ عقبی دروازے کی طرف گئے جو کہ بھڑا ہوا تھا۔ آہستہ سے پٹ کھولے، باہر نکلے اور قبرستان کی طرف چل دیئے۔ حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان کی بہن ایک چھوٹی سی تازه قبر کے پاس موجود ہے جو سرہانے سے کھلی ہوئی ہے۔ خدا جانے وہ اس وقت وہاں کیا کررہی تھی مگر سید صاحب جان گئے کہ کم از کم عبادت نہیں کررہی بلکہ کسی غلط عمل میں مشغول ہے۔ عبادت کے پردے میں ان کو بہن کی چلہ کشی کا راز سمجھ میں آگیا۔ وہ بہت زیادہ ہوشیار اور محتاط ہوگئے اور تہیہ کرلیا کہ نجمہ بی بی کو اس معصیت سے روکیں گے۔ اس وقت تو الٹے قدموں گھر لوٹ آئے لیکن اگلے روز اشاروں کنایوں ہمشیره سے کہا کہ وہ اس راستے پر چلنا ترک کردے۔ بزرگوں کی اولاد کو بری دنیا اور بد افعال سے کیا سروکار... صرف الله تعالى واحد لاشریک عبادت کے لائق ہے۔ اگر کسی اور جانب ذہن رجوع ہوگیا ہے تو توبہ استغفار کرلے۔ شیطان کے پسندیده راستوں پر چلنا، ان جیسے خدا کے عاجز بندوں کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ بہن نے بھائی کی اس نصیحت کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی خاموشی سے سمجھ گئے کہ یہ ایسی روش پر چل چکی ہے کہ اب جان بھی چلی جائے، باز نہ آئے گی۔ وہ اب اس کی کڑی نگرانی رکھنے لگے۔ ایک رات انہوں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا کہ ان کی بہن نے آدھی رات کو اندھیرے میں اپنے بدن پر کوئی چیز ملی اور پھر وہ غائب ہوگئی۔ گویا وہ اپنے سفلی عمل میں بہت آگے نکل چکی تھی۔ اب وہ محلے کے اور اپنے گھر آنے والے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے بچوں پر نظر رکھنے لگے تاکہ وہ اس کی بہن کی دستبرد سے بچے رہیں اور وہ اپنے کسی سفلی عمل کے لئے ان میں سے کسی معصوم کو آلہ کار نہ بنا دے۔ بہن بھی بھائی سے ڈرتی تھی کہ وہ بھی عالم تھے، تمام شب سجدے میں گزار دیتے تھے۔ آخر تو نیکی کو بدی پر فتح حاصل ہوتی ہے۔ انہی دنوں اس نیک بزرگ کے گھر ایک پوتے نے جنم لیا۔ انہوں نے اپنے رب کے حضور خدا کا شکر ادا کیا۔ تاہم ان کا علم ان کی چھٹی حس کو قوت دے رہا تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ گھر میں اس کی بہن کے روپ میں ایک ایسی دشمن موجود ہے کہ جس کا کسی پل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ یہ مشہور تھا کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر وار کرتی ہے تاہم یہ کہاوت غلط تھی کیونکہ ایسے لوگوں سے برائی کی توقع رکھنی چاہئے جو سفلی علم اور جادو وغیرہ کو عزیز رکھتے ہوں۔ پوتے کی پیدائش کے فورا بعد بزرگ نے بہن کو بلا کر کہہ دیا کہ میں سب تمہارے کرتوت جانتا ہوں لہذا گھر کے اس حصے میں قدم مت رکهنا جہاں میری بہو موجود ہے۔ اپنے کمرے تک محدود رہو، باقی کا گھر تمہارے لئے اب ممنوع علاقہ ہے۔ اس پر نجمہ ہاتھ باندھ کر بولی۔ بھائی صاحب! الله الله کریں، کیسی بات کرتے ہیں؟ میں تمہاری بہن ہوں۔ بهائی چپ ہوگیا مگر دل میں کانٹا سا کھٹک رہا تھا۔ اعتبار اس پر نہیں تھا کہ اب وہ شیطان کی چیلی بن چکی تھی لہذا یہ بزرگ دن رات اپنی بہو اور نوزائیده پوتے کی حفاظت کی خاطر ان کے کمرے کے اردگرد رہنے لگے اور زچہ و بچہ پر دم درود اور آیات کو پھونکتے رہتے۔ رات بھر جاگ کر گویا بہن پر پہرہ دیتے تھے۔ ابھی آسیہ بی بی چهلے میں تھی کہ ایک رات بزرگ کی آنکھ لگ گئی۔ نجمہ گویا تاک میں تھی، وہ ادھر کو لپکی جدھر اس کی بھابی کا کمرا تھا۔ بلی کی مانند زچہ اور بچے کے سرہانے پہنچی۔ ابھی نومولود کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تها کہ بزرگ کی چھٹی حس نے ان کو بیدار کردیا۔ انہوں نے جھٹ سے بہن کی گردن دبوچ لی۔ بولے۔ ہے نا آخر جادوگرنی ... تجھ کو بھائی اور بھتیجے کے رشتے کی تمیز کیا... بتا اب تیری کیا سزا ہے؟ ان کی گرفت نجمہ کی گردن پر اس قدر مضبوط تھی کہ وہ کرب سے نیم جان ہوگئی مگر انہوں نے تلاوت ترک نہ کی۔ اس کو بالوں سے پکڑ کر کمرے سے باہر لے آئے، سر مونڈ دیا اور ایسا ممکا رسید کیا کہ نجمہ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ اتنے میں آواز ہونے پر ملازمہ خير النساء اٹھ گئی اور ہائے ہائے کرتی باہر آئی۔ صحن میں یہ منظر دیکھ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ بھائی نے بہن کو کمرے میں بند کردیا اور ملازمہ کو ہدایت کی کہ میری اجازت کے بغیر یہ باہر نہ آنے پائے۔ چالیس دن تک نجمہ کمرے میں بند رہی، وہ خود اسے کھانا دینے جاتے تھے اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ یہ تمام احوال خیرن نے ہی ہمیں بتایا تھا کہ بی بی سفلی عمل کرتے کرتے ڈائن ہوگئی تھی۔ تبھی بھائی صاحب نے بال کاٹے اور آگے کے دانت بھی اس کے توڑے کیونکہ سنا ہے ایسا کرنے سے ان کا سفلی علم بے اثر ہوجاتا ہے۔ والله اعلم... مگر اس واقعے کے بعد بزرگ نے اپنے بیٹے، بہو اور پوتے کو ایک اور گھر میں منتقل کردیا۔ بقول خيرن کہ ان جادوگرنیوں کو اپنے سفلی عمل کرنے کو نوزائیدہ بچوں کی ضرورت ہوتی ہے اور چلہ کشی بھی قبرستان میں کرتی ہیں۔ اس کے بعد یہ بزرگ اپنی بہن کو سخت نگرانی میں رکھتے تھے تاکہ یہ کسی ذی روح کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ آج بھی یقین نہیں آتا نجمہ جادوگرنی تھی۔
0 Comments