Woh Khawab Azaab Thy Teen Auratien Teen Kahaniyan
بدنصیبی نے پیدائش سے قبل ہی میرا استقبال کیا۔ ابھی دنیا میں آئی نہ تھی کہ ماں کو طلاق ہوگئی۔ طلاق کے دو ماه بعد میں پیدا ہوئی، خوشیوں کی جگہ اپنے ساتھ محرومی لے کر آئی تھی۔ میں ایک معصوم کلی تھی اور ان اسباب سے انجان تھی جن کی وجہ سے امی اور ابو میں جدائی ہوئی تھی۔ میرے وجود کو ضروریات زندگی کی ضرورت تھی، یہ ضروریات کو پوری کرتا۔ ماں نے میری پرورش کی خاطر دوسری شادی کرلی۔ سوتیلے باپ کی پہلی بیوی سے دو بچیاں تھیں جبکہ بیوی فوت ہوگئی تھی۔ اس شخص نے مجھے بطور بیٹی قبول کیا، سوتیلے باپ نے مجھے ہر طرح سے خوش رکها، تعلیم دلائی، اچها کھلایا، پہنایا لیکن سوتیلی بہنوں نے مجھ کو قبول نہ کیا۔ ان دنوں وہ شعور کی منزلوں میں قدم رکھ چکی تھیں۔ کافی سمجھدار تھیں۔ سگے اور سوتیلے رشتوں کو خوب سمجھتی تھیں۔ انہوں نے مجھ ننهی سی جان پر بہت ظلم کئے، مارپیٹ، نفرت جو ہوسکتا تھا، برا سلوک کیا مگر ماں سمجھوتہ کرنے پر مجبور تھی کیونکہ سوتیلا باپ مجھے سوتیلی بیٹی نہیں سمجھتا تھا بلکہ حقیقی والد جیسا پیار دیتا تھا، تبھی ماں نے اس کی اولاد کی چیره دستیوں کو بھی سہہ لیا۔ میں ایک حساس لڑکی تھی۔ رفتہ رفتہ ہر بات سمجھ میں آنے لگی۔ اردگرد کے لوگ بھی بتاتے تھے کہ یہ تمہارا سوتیلا باپ ہے اور یہ سوتیلی بہنیں ہیں۔ اس طرح سگے سوتیلے کا فرق بھی پتا چل گیا۔ یہ دکھ تھا کہ سگے باپ جیسا شخص سوتیلا کیوں ہے۔ اسی غم کی وجہ سے میری جان کو ہزاروں روگ لگ گئے۔ جوں جوں بڑی ہوتی جارہی تھی، اندر ہی اندر مٹتی جارہی تھی۔ جب جوانی کا دور شروع ہوا، لگا، ماں کے سوا کوئی میرا اپنا نہیں ہے، سارے رشتے مصنوعی ہیں۔ تایا، چچا، تائی، پھوپھیوں کو علم تھا کہ میں ماں کے ساتھ جہیز میں آئی تھی اور میں ان کی سگی نہ تھی۔ وہ ہمدرد بن کر میرا ساتھ دیتے بھی تو مجھے اعتبار نہ آتا، یوں لگتا جیسے سب بناوٹ ہے، دھوکا ہے میرے ساتھ...! میرے اپنے تو وہی لوگ تھے کہ جو میرے حقیقی باپ کے عزیز و رشتے دار تھے جن کو میں نے آج تک دیکھا نہ تھا۔ پہلے جب ان باتوں کا پتا نہ چلا تھا، میں نارمل زندگی بسر کررہی تھی۔ بہنوں کی بدسلوکی اور نفرت کے باوجود ان کو اپنی بہنیں سمجھتی اور پیار کرتی تھی۔ اسکول جاتی دل لگا کر پڑهتی تهی، رفتہ رفتہ دل بجھ گیا۔ منفی سوچوں نے دماغ کو جکڑ لیا۔ اب میں سوچ سوچ کر بیمار رہنے لگی اور پڑھائی سے بھی دور ہوتی گئی۔ جب والد کو پتا چلا کہ مجھ کو حقیقت کا علم ہوگیا ہے تو ان کا رویہ بھی بدلنے لگا تب زندگی اور زیادہ بدصورت ہوگئی۔ میں خود پر بوجھ بنتی جارہی تھی۔ بار بار ماں سے حقیقی باپ کے بارے میں سوال کرتی تھی۔ اپنے خاندان کے بارے میں پوچھتی کہ وہ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟ ماں سوالوں کا جواب دینے سے گریز کرتی، تب مجھے بے حد غصہ آتا، میں چڑچڑی ہوتی گئی، بغیر ماں کو بتائے سہیلیوں کے گھر جانے لگی۔ جب والد صاحب کو بڑی بہنوں نے آگاہ کیا کہ یہ بغیر بتائے گھر سے چلی جاتی ہے تو وہ مجھ سے خفا رہنے لگے۔ یہی نہیں باہر نکلنے پر، سہیلیوں اور رشتے داروں سے ملنے پر پابندیاں لگ گئیں۔ ابو کا خیال تھا رشتے دار ہی مجھے سکھاتے، بھڑکاتے اور میرے کان بھرتے ہیں۔ ان کا خیال ایک حد تک صحیح تھا۔ میرا کوئی غمگسار اور رازداں نہ تهاجو پیار سے بات کرتا، میں اسی کو اپنا غمگسار اور رازداں بنالیتی تھی۔ رشتوں کے معاملے میں زندگی کے اس موڑ پر تھی کہ جہاں سے واپس میں جاسکتی تھی اور نہ آگے بڑھ سکتی تھی مثلا جب میں سوتیلی پھوپھی کو پھوپھی کہہ کر پکارتی تھی، دل اندر سے کہتا یہ تیری سگی پھوپھی نہیں ہے، تیری ماں کی نند ہے، تیرا اس سے کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہے۔ پھر بھی مجھے ’’پھوپھی جان‘‘ تو کہنا ہی پڑتا تھا۔ دماغ سوال کرتا۔ جانے تیری حقیقی پھوپھیاں اس وقت کہاں ہوں گی، اگر مل جائیں تو کیا خبر تجھ سے کتنا پیارکریں؟ ایک دن میں نے ہمت کرکے اپنی امی سے بات کی کہ ماں موت و حیات تو خدا کے ہاتھ میں ہے، اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو میرا کیا بنے گا کیونکہ یہ کنبہ حقیقت میں میرا کنبہ نہیں ہے اور یہ باپ بھی میرا اپنا نہیں ہے، خدارا! مجھے کوئی اتا پتا، کوئی نشانی تو اپنوں کی بتادو، کبھی ان کو ڈھونڈنا بھی پڑا تو کیونکر ڈھونڈوں گی، میرا تو جینا حرام ہوجائے گا۔ امی سسرال میں سب سے ڈرتی تھیں، پھر بھی انہوں نے میرا دل رکھا۔ میری خالہ سے اپنی پہلی شادی کی تصویر لے آئیں جس میں حقیقی والد دولہا اور وه دلہن بنے ہوئی تھیں۔ میں نے یہ تصویر چھپا کر رکھ دی۔ ماں نے تاکید کی اس تصور کو راز رکھنے میں غفلت مت کرنا اور بیلا غم مت کرو کیونکہ میں تمہاری سگی ماں تمہارے ساتھ ہوں... لیکن... جو دوسروں کے ہوتے ہیں، وہ ہمارے نہیں ہوتے۔ وہ جهوٹی تسلیاں دیا کرتے ہیں، ترسا ہوا دل باپ کی تصویر دیکھ کر ان کے ان دیکھے پیار کا اسیر ہوگیا۔ سوچوں میں حقیقی باپ کا خیال بس گیا اور میں ماں کے خلاف سوچنے لگی تبھی محرومی کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا گیا اور یوں میں ہر وقت پریشان رہنے لگی۔ صحت مند انسان سب کو اچھا لگتا ہے لیکن روگی بچے سے تو ماں بھی اوب جاتی ہے۔ اب میری ماں بھی مجھ کو ایک بوجھ سمجھنے لگیں۔ بات بات پر ٹوکنے لگیں۔ کہتیں تمہارے حقیقی والد نے کون سا تمہارا خیال کیا تھا، سوتیلے باپ نے تو پھر بھی پال پوس دیا ہے، کسی شے کی کمی نہیں ہونے دی، | سوتیلے رشتے داروں نے سوائے دو بہنوں کے کسی نے تم کو کوئی تکلیف نہیں دی پهر کس بات کا روگ لگا رکھا ہے تم نے... ایسا تو صرف وہی کرتے ہیں جو احسان فراموش ہوتے ہیں۔ کبھی کہتیں۔ عذاب ہو تم تو میرے لیے...! میں ہر بات کو برداشت کرتی رہی اور خون کے گھونٹ پیتی رہی لیکن سگے باپ سے ملنے کی چاہ میرے دل سے نہ گئی۔ اب سوتیلے والد بھی کبھی کبھار خفگی کا اظہار کرنے لگے تھے وہ کبھی مریضہ کہہ دیتے تھے مجھ کو بہت برا لگتا تھا۔ میرے سگے والد جہلم میں رہتے تھے وہ ایک امیر آدمی تھے اور میں دولتمند گھرانے کی دختر ہوکر بھی مصیبت زدہ ہوگئی تھی، شکوه یہ تھا کہ امی میرا دکھ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی تھیں، وہ میرے احساسات کو کوئی اہمیت نہ دیتیں۔ بس یہی کہتیں کہ ہر وقت اداس ہونے کا ڈرامہ نہ کیا کرو۔ جی بھر آتا تو رونے بیٹھ جاتی۔ ایک بار امی نے بتایا کہ اگر تم اپنے سگے باپ کے گھر پیدا ہوتیں تو وہ تمہاری شادی اپنے بھائی کے بیٹے شہزاد سے کرتا، کیونکر وہ اکثر کہا کرتا تھا بیٹی ہوئی تو اپنے چچا کی بہو بنے گی۔ اس بات کو سن کر مجھے لگتا جیسے میں کسی کی امانت ہوں اور میرا چچا زاد میرا ساتھی اور میرا منگیتر ہے جو میرا انتظار کررہا ہے۔ خوابوں میں جینے کا اپنا مزہ ہے، میں بھی شاید خوابوں میں جی رہی تھی اور اس مزے سے لطف اندوز ہورہی تھی جو خواب دیکھنے والوں کی قسمت میں ہوتا ہے۔ میری دوسیلیاں مشعال اور ثمینہ اکثر مجهے ڈھارس دیا کرتی تھیں۔ وہ مجھ کو اداسی کے خول سے باہر نکالنے کی بہت کوشش کرتیں، کئی طرح کے مشورے دیتیں۔ کبھی کہتیں تم کو کسی ساتھی کی ضرورت ہے۔ تم کسی سے دوستی کرلو، یوں تم اس کیفیت سے نجات پالو گی۔ تب میں ان کو سمجھاتی کہ ایسے مشورے بیکار ہیں کیونکہ میں خیالوں میں اپنے چچا زاد کو ہی اپنا ساتھی سمجھتی ہوں لہذا اس کے سوا کسی سے دوستی کر بھی لوں تو اس سے ملوں گی کیسے جبکہ مجھ پر پابندیاں عائد ہیں۔ تب وہ لاجواب ہوجاتیں۔ ایک روز میں نے امی سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور مشعال کو اپنے حقیقی باپ کی تصویر دکھا دی، اسے یہ بھی بتادیا کہ میرا باپ ایک امیر آدمی ہے اور ان کا ایک بھرا پرا کنبہ ہے، بس میں ان سے جدا ہوں اپنی امی کی وجہ سے...مشعال نے مشورہ دیا کہ تم اپنے سگے والد اور ان کے رشتے داروں سے ملو۔ کس طرح؟ یہ ناممکن ہے...؟ کیسے ناممکن ہے۔ وہ بولی۔ میں تمہاری مدد کروں گی، تم ان کا پتا بتاو میں اپنے ماموں سے کہہ کر تمہارے والد کا پتا کرالوں گی پھر ہم تم کو ان کے پاس پہنچانے کی سبیل کریں گے۔ اس کے آسرا دینے پر میرے دل میں اپنے باپ سے ملنے کی امنگ بیدار ہوگئی اور ایک بیٹی کی آتش محبت بھڑک اٹھی۔ پدرانہ شفقت پانے کی خاطر میں سہیلی کی باتوں میں آگئی، یہ بھی نہ سوچا کہ وہ ماں جس نے پالا پوسا، جوان کیا، اچانک اس کو داغ مفارقت دے جاؤں گی تو اس پر کیا بیتے گی۔ مشعال نے میرے والد کا پتا معلوم کروا دیا اور پھر ایک دن اچانک ہی میں گھر سے غائب ہوگئی۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی کہ میں اپنی سہیلی کی ماں اور ماموں کے ساتھ جہلم اپنے باپ کے گھر چلی گئی ہوں۔ ادهر سوتیلے باپ اور ان کے رشتے داروں نے خدا جانے میری ماں کی کیا درگت بنائی ہوگی، ان باتوں سے بے پروا میں خوش تھی کہ ایک ماں کو کھوکر میں اتنے سارے اپنے حقیقی عزیزوں میں آگئی ہوں۔ حقیقی باپ نے مجھے قبول کرلیا۔ بہن بھائیوں نے بھی چند دن گرمجوشی اور محبت دکھائی لیکن سوتیلی ماں نے مجھے دل سے قبول نہ کیا۔ وہ بہت پریشان تھی کہ یہ کہاں سے ٹپک پڑی ہے۔ والد صاحب صبح کاروبار کے سلسلے میں گھر سے نکلتے اور رات گئے لوٹتے۔ میری ان سے ملاقات آٹھ دس دن بعد بس چند منٹ کو ہوتی۔ وہ حال احوال پوچھتے اور بس...! جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ ان کو مجھ سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ ان کے گھر میں میرے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا، البتہ ان کی بیوی کو میرے ہونے سے ضرور تکلیف تھی ۔ رفتہ رفتہ یہ تکلیف ان کی میرے ساتھ بدسلوکی میں بدلنے لگی۔ وہ اپنی اولاد کو بھی ساتھ ملالیتیں اور مجھ سے سبھی بیگانگی کا رویہ اپنا لیتے جس سے مجھ کو بہت تکلیف ہوتی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں یہاں آنے پر پچھتانے لگی اور جو خواب میں نے دیکھے تھے، سبهی سراب ثابت ہونے لگے اب ماں یاد آتی، وہ لوگ یاد آتے جو غیر تھے مگر اپنوں جیسا پیار کرتے تھے۔ سوچتی اے کاش میں مشعال کے کہنے میں نہ آتی۔ اس شخص کے گھر سے قدم نہ نکالتی جو کہنے کو تو سوتیلا باپ تھا مگر سگوں سے بڑھ کر تھا۔ وہاں اداسی نے گھیر لیا تھا تو یہاں بھی دن رات رونے سے کام تھا۔ یہاں تک کہ میں بیمار پڑ گئی۔ انہی دنوں گوجرانوالہ سے دادا، دادی ابو سے ملنے آئے۔ واپسی میں دادی نے کہا کہ ہم اسے کچھ دنوں کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں بچی بہت افسرده مرجھائی ہوئی سی لگتی ہے۔ میں بھی اس کشیده ماحول سے نالاں تھی، سکھ کا سانس لیا کہ چلو یہاں سے تو نکلوں گی۔ میں فورا دادا، دادی کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئی۔ جب ہم گوجرانوالہ جانے کے لیے بس اسٹاپ پر پہنچے تو مجھے صفدر نظر آگیا۔ یہ ہمسائے کا لڑکا تھا، اس کے ہاتھ میں بریف کیس تھا اور یہ بھی جہلم سے گوجرانوالہ جارہا تھا۔ صفدر مجھے اچھا لگتا تھا اور اکثر چھت سے میں اس کو دیکھا کرتی تھی۔ دادا ابو ٹکٹ لے رہے تھے، دادی کی نظر بچی تو صفدر میرے پاس آیا اور بریف کیس دے کر کہا اس کو ساتھ لے لو، میں گوجرانوالہ میں تم سے لے لوں گا۔ صفدر کو میں پہچانتی تھی، میں نے اس کی بات مان لی۔ دادا ابو کو علم نہ ہوسکا۔ اس کا بریف کیس میں نے اپنے سامان کے نیچے چھپا لیا۔ ہم اسٹاپ پر اترے، اس کا بریف کیس واپس کردیا۔ دادی کو کم نظر آتا تها وه اس دوستانہ رویے کو نہ سمجھ سکیں۔ یوں ظلمتوں کی اندھیری راہوں پر میں نے پہلا قدم رکھ دیا۔ چچا جان گوجرانوالہ میں رہتے تھے۔ مجھے ان کے صاحبزادوں کو دیکھنے کا بہت ارمان تھا۔ بڑے بیٹے شادی شدہ تھے اور چھوٹے کے لیے چچی لڑکی ڈھونڈ رہی تھیں۔ دادی نے تعارف کرایا تو خوشی سے ملیں۔ میں بھی خوش ہوگئی سوچا شاید انہی کا بیٹا میرے خوابوں کی تعبیر ہو۔ یہاں آکر چند دن سکون کے گزرے چچی اور پھوپھیوں کا پیار بھی ملا۔ ایک روز دستک ہوئی
چچی جان کا چھوٹا بیٹا شہروز دروازے پر گیا، سامنے صفدر کھڑا تھا۔ شہزاد | سے دوستی تھی وہ اس کو اندر لے آیا اور بیٹھک میں بٹھایا۔ چچی نے کہا۔ ذرا چائے تو بنادو، شہزاد کا دوست آیا ہے۔ جی چچی جان...! میں جانتی ہوں، یہ جہلم میں ہمارے ہمسایہ کا لڑکا ہے، ٹھیک ہے۔ انہوں نے بات سنی ان سنی کردی۔ تم چائے تو بناؤ. چائے بناکر جب بیٹھک کی طرف گئی، شہزاد الماری میں سے کچھ تلاش کرنے میں محو تھا اتنے میں صفدر نے مجھے ایک فارم پکڑا کر کہا اس کو بھر کر مجھے کل شام کو دے دینا میں کل آؤں گا میں نے جلدی سے فارم لے کر دوپٹے میں چھپالیا۔ رات کو جب سب سو گئے، میں نے وه فارم نکالا۔ نام پتا لکهنا تها اور دستخط کرنے تھے باقی عبارت کو غور سے نہ پڑها، اتنی عقل ہی نہ تھی، فارم پر کرکے رکھ لیا۔ یہ بھی سوچا کہ جب صفدر آئے گا تو پوچھوں گی کہ یہ کس چیز کا فارم ہے۔ اگلے دن وہ آگیا۔ شہزاد گھر پر نہ تھا۔ دستک پر میرے کان کھڑے ہوگئے، چچی گھر نہ تھیں جلدی سے دروازے پرگئی میرا اندازه صحیح تھا۔ یہ صفدر ہی تھا کہنے لگا۔ فارم پر کرلیا، لاکر دو۔ کس لیے پر کرایا ہے؟ بیوٹیشن کے کورس میں داخلے ہورہے ہیں، سوچا کہ تم سے بھی پر کرالوں، ہوسکتا ہے تمہارا موڈ داخلے کا بن جائے۔ میں نے فارم دے دیا۔ کچھ دن بعد دادی نے کہا کہ تمہارے ابو کا فون آیا ہے، وہ تم کو لینے آرہے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔ دادی جان! میں ابو کے گھر نہ رہوں گی، آپ کے پاس رہوں گی مجھے یہاں رہنے دیجئے۔ کہنے لگیں۔ لو یہاں رہ کر کیا کروگی؟ | بیوٹیشن کا کورس کروں گی یا پھر نرسنگ کرلوں گی۔ بولیں اے لو، الله کا دیا سب کچھ ہے تم کو نرسنگ کرنے کا کیا شوق ہے۔ اس پر چچی جان گویا ہوئیں۔ اماں جان! اگر بچی کا شوق ہے ،کرنے دیجئے، بیکار گهر پر رہنے سے اچھا ہے کوئی کورس کرلیا جائے۔ کورس ہی کرنا ہے تو سلائی کا کرے۔ دادی نے مشورہ دیا تو جان چھڑانے کو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے سلائی کا کرلوں گی۔ ایک دن صفدر آیا، شہزاد کا پوچھا، چچی بولیں۔ وہ ابھی آتا ہی ہوگا بیٹا! تم بیٹھک میں انتظار کرلوں۔ صفدر بیٹھک میں بیٹھ گیا۔ میں نے سامنے سے دیکھا تو مجھے اشارہ کیا۔ چچی جونہی اندر گئیں۔ میں بیٹھک میں چلی گئی۔ پوچھا کیا بات ہے، کیوں بلایا ہے؟ کہنے لگا، یہ لو اس دن تم نے بریف کیس یہاں تک لانے میں میری مدد کی تھی نا... یہ اس کا معاوضہ ہے... لے لو۔ اس نے ایک پیکٹ دیا۔ تم نے میری مشکل آسان کردی مجھ پر بڑا احسان کیا تھا اسی وجہ سے میرے باس نے خوش ہوکر تم کو یہ انعام بھیجا ہے اور ہاں بیوٹیشن کا کورس کا ارادہ ہو تو بتادو میں فارم جمع کرادوں گا۔ مجھے دادی اماں کے یہاں رکنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ صفدر یہ سب کچھ کہہ کر چلا گیا۔ میں نے کمرے میں جاکر پیکٹ کھولا تو اس میں نوٹ بھرے ہوئے تھے، میں گھبرا گئی اور نوٹ اپنے سوٹ کیس میں چھپا دیئے۔ اگلے دن سے میں بیوٹی پارلر کورس کے لیے جانے لگی۔ چچی جان نے اجازت دے دی کہ دل لگا رہے گا، وہاں صفدر آنے لگا۔ گویا اب میرا تعلق منشیات اسمگلرز سے ہوگیا تھا، وہ کہتا تھا کچھ وقت دینا ہوگا اسی لیے یہاں داخلہ کرایا ہے، باس کو تم جیسی لڑکی کی ہی تلاش تھی اور اب اس گروپ سے نکلنا آسان نہیں ہے، بس تھوڑا سا کام کرنا ہوگا اور عمر بهر عيش کروگی۔ صفدر کے کہنے پر دو چار بار میں نے بریف کیس ایک اسٹاپ سے دوسرے اسٹاپ تک پہنچا تو دیا لیکن لڑکی ذات ہوتے ہوئے ایسا غلط قدم بار بار اٹھانا | نہ چاہتی تھی اور یوں میری مجبوریوں کا ایک کربناک سلسلہ چل نکلا جو ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا کیونکہ خود شہزاد، صفدر کے ساتھ اس غلط کام میں ملوث تھا اور اسی کی اجازت سے صفدر مجھ تک آیا تھا مگر یہ بات مجھے معلوم نہ تھی۔ جب ان لوگوں نے مجھے بلانا ہوتا، شہر کے لاری اڈے پر بلالیتے اور مجھے فورا ان کا بریف کیس مقررہ جگہ، مقرره آدمی تک پہنچانا ہوتا تھا۔ جس طرح میں اکیلی سفر کرتی میں یا میرا خدا جانتا ہے جبکہ دادا، دادی یہی سمجھتے تھے کہ میں کورس کرنے گئی ہوئی ہوں۔ نادانی نے مجھ جیسی لڑکی کو انتہائی ظالم لوگوں میں پھنسا دیا کہ جن کے چنگل سے نکلنا میرے بس میں نہیں تھا۔ دوسری طرف سوتیلی ماں کا رویہ میرے لیے سوہان روح تھا۔ باپ کے گھر رہتی تو دن رات کی چپقلش سے زندگی اجیرن ہو جاتی۔ میرے لیے اب ان لوگوں کے دلوں میں ذرہ بھر بھی جگہ نہ تھی۔ جب کبھی کسی بہن یا بھائی سے بات کرنے لگتی، ماں مجھے ڈانٹ کر بٹھا دیتی، نجانے ان کو مجھ میں کیا برائی نظر آتی تھی۔ میں والد کے گھر سے دوباره دادا جان کے پاس لوٹ آئی تو یہاں صفدر میرے پیچھے آپہنچا اور مجھے کہا کہ باس کے ساتھ میٹنگ ہے اور تمہارا أنا لازم ہے، اگر تم نہ آئیں تو تمہارا انجام اچھا نہ ہوگا۔ صفدر کی دھمکی سے خوف زده ہوگئی۔ اب احساس ہوا کہ ماں کو چھوڑ کر کتنی بڑی غلطی کی ہے، وہی میری عزت کی پاسدار تھی مگر گمراہی ایک ایسا روگ ہے جو ایک انسان کے وجود کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ اس گمراہی کی پر خطر ظلمتوں کا مداوا ایک کمسن لا ابالی لڑکی کے پاس کیا ہوسکتا ہے، جس نے ابھی زندگی کی شاہراہ پر چلنے کے لیے صحیح راستہ بھی منتخب نہ کیا ہو۔ میری گمراه سوچ یہی رہی کہ گھر میں ماں کا وہ پیار نہ ملا جو لڑکیوں کا حق ہوتا ہے۔ باپ کی وہ شفقت نہ ملی جس کی ایک بیٹی مستحق ہوتی ہے اور بہن بھائیوں کی وہ محبت و الفت نہ ملی جس کی تشنگی ہمیشہ انسان کو ادھورا رکھتی ہے۔ گھر کے اندورنی حالات نے شروع ہی سے میرے لاشعور میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ اس دنیا میں اکیلی ہوں اور مجھے خود ہی زندگی کی راہوں پر چلنے کے لیے شاہراہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ دوسری طرف بیرونی زندگی اسکول کے اندر اتنی پرکیف اور پرکشش نہ تھی جتنی ایک دسویں کلاس کی لڑکی کو عموما لگا کرتی ہے غرض ہر طرح سے زندگی مجھے ایک نئے اور تلخ دوراہے پر پریشان حال ملی۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے صفدر سے کہا کہ ٹھیک ہے میں آجاؤں گی مگر شہزاد کو بتاکر آؤں گی۔ وہ ہنس پڑا۔ کہنے لگا۔ ایسے ہی تو میری اس کی دوستی نہیں ہے، میرا باس اس کا بھی باس ہے۔ اوه میرے خدا! تو کیا میرا چچا زاد بھی تمہارے گینگ کا رکن ہے؟ ہاں بالکل...! بے شک اس سے بات کرکے دیکھ لو۔ اسی دن وہ تو خدا کا شکر کہ چھوٹے ماموں میرا پتا کرتے پڑوس میں آگئے۔ امی نے ان کو بھیجا تھا کیونکہ انہیں شک تھا کہ میں ددھیال میں ہوں۔ جب مجھے معلوم ہوا ماموں آئے ہوئے ہیں، دوڑ کرگئی اور ان کو کہا کہ مجھے یہاں سے لے چلو۔ انہوں نے بڑے ماموں کو بلوالیا اور یوں میں ان کے ساتھ دوبارہ سے اپنی ماں کے گھر لوٹ آئی۔ ماں بہت ناراض تھی۔ میں نے پاؤں پکڑ کر معافی مانگی تب ماں نے کہا کہ یہ میری نیک دلی تھی کہ تجھے تیرے والد کی غلطیاں نہ بتائیں، وہ بھی منشیات فروش تھے اسی وجہ سے دولت مند ہوگئے مگر میں اس بات کے خلاف تھی، ان کو ایسے کاروبار سے روکتی تھی تبھی میرا ان سے جهگڑا رہتا تھا اور طلاق تک نوبت آگئی۔ میں نے اپنے سوتیلے والد سے بھی معافی مانگی جو ایک فرشتہ صفت آدمی تھا۔ انہوں نے مجھے معاف کردیا۔ کیونکہ ان کو علم ہوگیا تھا میں صرف اپنے سگے باپ کی محبت میں گھر سے گئی تھی، کسی غلط مقصد سے نہیں نکلی تھی۔ آج مجھے ان لوگوں کی دل سے قدر آئی جنہوں نے مجھے پناہ دی، پیار دیا اور میں ان کو سوتیلا کہتی رہی۔ والد صاحب نے ایک اچھا رشتہ تلاش کرکے مجھے عزت سے رخصت کردیا جس روز میں رخصت ہورہی تھی امی میرے گلے لگ کر رو رہی تھیں، ان کے آنسو نہیں تھمتے تھے اور میں شکر کررہی تھی کہ الله نے مجھے اس منشیات فروش چچا زاد شہزاد سے بچالیا ہے کہ جس کو میں اپنے خوابوں کا شہزاده بناکر تخیلات میں پوجتی رہی تھی۔ سچ ہے کسی نوعمر لڑکی کے لیے تخیلات کی دنیا بڑی نرالی اور دلکش مگر بے حد خطرناک ہوتی ہے جس کی چاہ میں اکثر لڑکیاں گھر سے قدم نکالتی ہیں تو بے آبرو ہوجاتی ہیں۔
0 Comments