Search Bar

Burey Din Khatam Hovey Teen Auratien Teen Kahaniyan 2022

 

Burey Din Khatam Hovey Teen Auratien Teen Kahaniyan 2022


میٹرک کی طالبہ تھی۔ اسکول کے پروگراموں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ آواز اچھی تھی۔ گانے کا جنون تھا اور یہ شوق صرف اسکول کے فنکشن میں ہی پورا ہو سکتا تھا جہاں یوم آزادی اور دیگر سالانہ تقریبات میں نظمیں اور گیت و غیره بچوں سے گوائے جاتے تھے۔ میں ان بچوں میں آگے آگے ہوتی تھی۔ والدین نہایت ایماندار اور کھلے ذہن کے تھے۔ اسکول کی تقریبات میں حصہ لینے سے منع نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ہم کو اچھا کھلایا، پہنایا، جس چیز کی خواہش کی پوری ہوئی۔ کسی قسم کی کوئی حسرت نہ رہی تو طبیعت میں اطمینان آ گیا۔ اسکول میں ایک لڑکا على نام کا تھا۔ اس کا گھر ہمارے پڑوس میں تھا۔ نیک دل اور ہمدرد قسم کا تھا۔ جب بھی باہر نکلتی، محلے کے چند بدقماش لڑکے آوازے کستے یا چھیڑنے کی کوشش کرتے تو علی جو قریب ہی کہیں موجود ہوتا، باہر آجاتا اور ان لڑکوں سے جھگڑ پڑتا۔ ان کی بے عزتی کر دیتادو چار بار جب اسی طرح ہوا تو دل میں علی کی قدروقیمت بڑھ گئی۔ ہوتے ہوتے اس ہمدردی نے دوستی کا روپ دھار لیا لیکن ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہ تھا کہ لڑکوں سے دوستی کی جا سکتی کیونکہ اس قسم کی دوستی کو نباہنا مشکل تھا۔ سو میں نے قدم آگے نہ بڑهایا۔ بس دل ہی دل میں علی کا احترام کرتی اور اس کو یاد کرتی تھی۔ ایک روز لبنئ نے علی کا نمبر دیا کہ ذرا اس سے بات کر لو، منتیں کر رہا ہے کہ نمبر پہنچا دو۔ میں نے دو روز تک بات نہ کی تو وہ بولی تم کو نمبر دیا تھا بات کیوں نہ کی، علی بیمار ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ سہیلیاں ہی زندگی میں انقلاب لاتی ہیں۔ کبھی کامیابی تو کبھی تباہی اور بربادی کا سبب بنتی ہیں۔ جب لبن نے کہا کہ علی بیمار ہے تو میں فکر مند ہو گئی اور بے اختیار فون ملا لیا۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے بات ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ میں نے لبنی کو نمبر نہیں دیا تھا کیونکہ تمہارے گھر کے ماحول کو جانتا ہوں۔ یہ کام اس نے خود کیا ہے۔ میں بیمار بھی نہیں ہوں۔ بہرحال تم نے فون کیا تو مجھے خوشی ہوئی ہے اور اب تم مجھے فون کرتی رہا کرو تاکہ خیریت معلوم ہوتی رہے۔ پھر میں امی سے چوری چھپے فون کرنے لگی لیکن ایک دن انہیں پتا چل گیا کہ میں فون پر کسی لڑکے سے باتیں کرتی ہوں۔ انہوں نے نگرانی شروع کر دی اور فون کرنے سے منع کر دیا۔ تبھی ایک روز لبنی آئی اور کہا کہ علی بہت پریشان ہے۔ اس نے پوچھا ہے کہ تم فون کیوں نہیں کرتیں، خیریت تو ہے۔ امی کو پتا چل گیا ہے، وہ فون تالے میں رکھتی ہیں۔ میں نے بتایا۔ لبني، على کے پڑوس میں رہتی تھی۔ میں اس کو پیغام دینے لگی۔ یوں اس کے اور میرے درمیان وہ رابطہ بن گئی۔ وہ مخلص نظر آتی تھی، صرف اپنی چرب زبانی کی وجہ سے لیکن دل سے مخلص نہ تھی۔ میں اس کو قابل اعتماد سمجهتی تھی۔ یہ بعد میں پتا چلا کہ کتنی منافق ہے۔ پہلے پل بنی اور پھر رفتہ رفتہ میرے اور علی کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہو گئی۔ ایک دن امی نے لبنی اور میری باتیں سن لیں۔ انہوں نے جوتا اٹھا لیا اور خوب مارا۔ لبنی سہم گئی۔ بہرحال اس بات کا اس نے فائدہ اٹھایا، ہمارے یہاں آنا چھوڑ دیا۔ على سے خوب دوستی ہوگئی۔ مجھے کانوں کان خبر نہ ہوئی اور لبنی نے میرے خلاف باتیں کر کے مجھ کو خوب بدنام اور سب کو بدظن کیا۔ جب اس کی سہیلی رافعہ نے مجھے بتایا کہ لبنی تمہارے بارے میں ہر کسی سے کیا کہتی پھرتی ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے موقع ملتے ہی علی کو فون کیا کہ اس کو یہ سب بتائوں مگر اس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ لبنی غلط نہیں کہتی۔ تم واقعی بری لڑکی ہو تبھی تو گلی محلے کے لڑکے تم کو چھیڑتے تھے۔ وہ لبنی یا اور کسی لڑکی کو کیوں نہیں چھیڑتے، جب لڑکی خراب ہوتی ہے تب ہی خراب لڑکے اس کے پیچھے پڑتے ہیں۔ ایسا سنا تو میرا دل پھٹنے لگا۔ وہ شخص جو مجھ کو محلے کی سب سے اچھی لڑکی سمجهتا تها، وہی اب سب سے بری کہہ رہا تھا۔ اف میرے خدا! کیا لوگ اتنی جلدی دوسروں کی باتوں میں آ جاتے ہیں تو پھر اعتبار کس کا؟ ایک آه سی میرے دل سے نکل گئی۔ عہد کیا کہ خود کو مٹا دوں گی۔ کلیجے پر پتهر کی سل رکھ لوں گی مگر اب کسی سے دوستی کا خیال بھی دل میں نہ لائوں گی۔ بس ایک دوستی ہی کافی ہو گئی تھی۔ کمسنی میں اگر کوئی اچھا لگے تو دل و ذہن میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ یہ زخم ایسے ہوتے ہیں کہ گھائو پھر کبھی بھرتے ہی نہیں۔ اسے جتنا بھلانا چاہا نہ بھلا سکی۔ گهائل دل گھائل ہی رہا۔ اب لبنى مجھے زہر لگتی تھی۔ میری کلاس فیلو تھی مگر اس کے ساتھ بات کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ وہ بھی جب کلاس میں آتی، دور بیٹھتی مگر زیر لب مسکراتی تھی۔ میٹرک کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئیں۔ کہتے ہیں عورت پہلی محبت کو بھلانے کے لیے دوسری محبت میں بھی پہلی محبت کے آثار تلاش کرتی ہے مگر میں نے علی کی بے وفائی کو ایسے دل سے لگا لیا کہ بیمار پڑ گئی۔ انہی دنوں میٹرک کا رزلٹ آگیا اور میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی۔ ماں باپ نے مجھے پژمرده دیکها۔ بہت سمجھایا کہ زندگی کی حقیقتوں کو سمجھو اور اپنے مستقبل کے متعلق سوچو. اسی دوران میرے تایازاد على شان نے ایل ایل بی کر لیا۔ مجھ کو بچپن سے پسند کرتا تھا۔ اس کا رشتہ میرے لیے آیا مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ میرا دل علی کو یاد کر کے روتا رہتا۔ میں بری لڑکی نہیں تھی۔ محنتی بھی بہت تھی۔ علی سے شدید محبت کی تھی۔ پھر میں مجرم بن گئی، محض لبنی کی وجہ سے۔ جب کالج میں قدم رکھا تو کچھ دل بہل گیا۔ ایک سال تو آرام سے گزر گیا مگر دوسرے ہی سال میری زندگی میں عجب موڑ آیا۔ میں انگریزی میں چل نہ پا رہی تھی۔ روز امی ابو سے کہتی کہ مجھ کو ٹیوشن لگوا دیں ورنہ فیل ہو جائوں گی۔ تب انہوں نے اکیڈمی میں داخلے کے لیے اجازت دے دی۔ یہاں کا ماحول کھلا تھا مگر میں اپنے کسی کلاس فیلو سے فری نہ تھی، بس ضرورت کے تحت بات کر لیا کرتی تھی مگر ایک لڑکا تھا جو مجھ سے بات کرنے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ اتفاق یہ کہ وہ علی کا ہم شکل تھا اور بولنے کا انداز بھی بالکل اس جیسا تھا۔ اسی لیے میری نظریں بار بار اس کے چہرے کی طرف اٹھتی تھیں۔ اس کو گٹار بجانے کا شوق تھا اور میں نے پیانو سیکها | تھا۔ ہماری دلچسپی مشترک تھی۔ میں اس کی باتوں کا جواب دینے لگی۔ ہماری اکثر بریک میں موسیقی پر بات ہونے لگی۔ یوں آہستہ آہستہ ہماری دوستی ہوگئی۔ ہم بہت خوش تھے۔ زین نے اپنی ماں سے بھی مجھے ملوا دیا اور وعده کیا کہ وہ اپنی ماں کو رشتے کی بات کرنے ضرور بھیجے گا۔ یہ ایک سیدهی سادی سچی دوستی کی ابتدا تھی جس میں زین کی طرف سے شادی کا تصور بہت واضح تھا۔ اس کے والد امریکا میں تھے۔ وہ ایک لائق آدمی تھے۔ بہت اچھا ان کا بزنس تھا اور کافی رقم اپنی فیملی کو بھجواتے رہتے تھے۔ زین پرسکون ماحول کا پروردہ اور مثبت سوچوں کا حامل لڑکا تھا۔ کافی خوش مزاج تها، تبھی ہمارے دو سال ایک خوشگوار تعلق کے ساتھ گزر گئے اور وقت گزرنے کا پتا بھی نہ چلا۔ اب میں بی اے میں تھی اور شہر کے بہترین کالج میں پڑھ رہی تھی۔ میں نے بی اے اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ اچانک ایک دن زین نے مجھ کو ایک بری خبر سنا دی جو اس کے لیے اچھی تھی کہ وہ اسکالر شپ پر پڑهنے بیرون ملک جا رہا تھا۔ اس خبر سے مضطرب ہونا لازمی تھا کیونکہ علی کی یاد کی تلخی نے میرا سانس بند کیا ہوا تھا۔ ایسے حبس کے عالم میں زین کا ساتھ ایک خوشگوار جھونکے کی مانند تھا۔ اس کی دوستی میں میں نے علی کو بھلا دیا تھا شاید مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ بھی ایک روز مجھ سے دور چلا جائے گا۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ خط لکھے گا، فون بھی کرے گا۔ میں نے امی کو اس کے متعلق بتا دیا کہ وہ اپنی والدہ کو رشتے کے لئے بھیجے گا مگر وہ تو چلا گیا اور میں منہ دیکھتی رہ گئی۔ شروع میں بے شک اس نے مجھ کو نہیں بھلایا اور اپنے وعدے پر قائم رہا، باقاعدگی سے خط لکهتا تها، فون بھی کرتا تھا۔ لیکن... پھر اس کے خط کم ہونے لگے، فون بھی کم ہوتے جا رہے تھے۔ ان دنوں میں سخت مضطرب تھی اور کسی نئے دکھ سے آشنائی کے خوف سے سہمی رہتی تھی۔ پھر وہ دن آ ہی گیا جب اس نے مجھے ایک آخری خط لکھا جس میں التجا تهی کہ تم مجھے بھول جائو، میری بہت مجبوریاں ہیں اور میں تم کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا، میں طویل عرصے تک پاکستان نہیں آ سکوں گا اور تم سے شادی بھی اب نہ ہو سکے گی لہذا میرا انتظار مت کرنا اور مجھے معاف کر دینا۔ میں نے تو زندگی بھر اس کا انتظار کرنے کی ٹھان لی تھی، اس کی خاطر بہت سے رشتہ داروں کو ناراض کیا جو مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے، میرے لیے خودکشی کرنے کو تیار تھے۔ ماں باپ الگ ناراض تھے کہ میں اتنے اچھے رشتوں سے انکار کر دیتی تھی اور یہ کہ جانے میں کون سی خوابوں کی دنیا میں رہتی تھی۔ ایف اے کرتے ہی میرے آن گنت رشتے آنے لگے۔ ہر رشتے پر والدین کچه سوچنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ ظاہر ہے سبھی والدین چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کسی اچھی فیملی میں بیاہی جائے اور ان کے کندھوں سے اس فرض کا بوجھ اتر جائے جس بوجھ سے ماں باپ کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ میں... لیکن بہت دکھی تھی۔ لگتا تھا کہ شاید اب میرے خوشی کے سارے راستے بند ہوچکے ہیں۔ جن دنوں بی اے کے امتحانات دے رہی تھی، میں نے شام کو کمپیوٹر کالج جوائن کر لیا کیونکہ مجھے اس میں دلچسپی تھی۔ کالج میں ہمارا ایک گروپ بن گیا اور اس گروپ کے ایک لڑکے نے میری اداسی کی وجہ دریافت کی۔ میں نے ٹال دیا۔ وہ باز نہ آیا۔ روز ہی سوال کرنے لگا۔ حسن کے انداز گفتگو میں اس قدر اپنائیت ہوتی تھی کہ ایک دن بالآخر مجھے اس کو اپنی ساری کہانی سنانا پڑی۔ اس نے نہایت ہمدردی سے میری کہانی کو سنا۔ اب وہ میرا بے حد خیال رکھنے لگا۔ جب میں کلاس میں ہوتی، اس کی ساری توجہ مجھ پر رہتی۔ لگتا تھا کہ اس کی زندگی مجھ سے جڑ گئی ہے۔ خدا نے میری قسمت ہی ایسی بنائی تھی۔ جب میں اس کی توجہ سے متاثر ہونے لگی تو اس نے مجھے فون کیا کہ ابھی تم کو ایک اور فون آئے گا، وہ سن لینا۔ میں خوش تھی کہ شاید حسن کے گھر والوں کا ہوگا اور میری بے كيف زندگی کے دن تمام ہو جائیں گے مگر وہ حسن کے ایک دوست کا تها جس نے مجھے پہلے سلام کیا اور حسن کے بارے میں بتایا کہ وه پڑهنے کے لیے آیا ہے اور پڑھ کر چلا جائے گا۔ آپ اس کے خیال میں اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں۔ آپ کون ہیں اور ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس سوال پر اس نے کہا کہ بات یہ تھی کہ جب آپ کو اداس دیکها تو ہم سب دوستوں میں شرط لگی کہ کون اس لڑکی سے بات کرے گا اور اس کو اپنا بنائے گا تو حسن نے کہا تھا کہ میں۔ تین ماہ لگ گئے مگر حسن یہ شرط جیت گیا۔ یعنی اس نے آپ کو جال میں پھنسا لیا ہے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی اور میں بے ہوش ہو گئی۔ امی ابو فورا اٹھا کر اسپتال لے گئے جہاں دو دن میں گم صم رہی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو کوئی ذہنی مسئلہ ہے۔ مگر گھر آکر بہت روئی کہ آخر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے؟ پھر میں نے ہر کسی سے کلام کرنا چھوڑ دیا۔ مجھ کو چپ لگ گئی۔ میں ذہنی مریضہ ہو گئی۔ کوئی بات کرتا جواب نہ دیتی لیکن اکیلے میں خود سے باتیں کرتی۔ لوگ مجھے اچھے نہ لگتے۔ بس اپنی ہی دنیا میں رہنےلگی۔ذہن میں ایک ہی سوال ابهرتا تها۔ آخر کیوں ہمیشہ میں ہی ٹھکرائی جاتی ہوں جب کہ میں بری لڑکی نہیں ہوں۔ اس سوال کا جواب میں ڈھونڈ نہیں پاتی تھی۔ شاید اسی وجہ سے میں ذہنی مریض ہو گئی۔ لگتا تھا جینے کی اس ختم ہوگئی ہے۔ مرد ذات کا اعتبار ختم ہو گیا تھا۔ علی سے ملے ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے جو میری زندگی میں پہلی بار کا پہلا خنک جهونکا تھا۔ اس کے پیار کی خنکی کو آج بھی میرا دل محسوس کرتا تھا۔ امی ابو میری حالت پر کڑھتے تھے۔ سخت پریشان رہتے تھے۔ کبھی کبھی ان کی پریشانی محسوس کر کے مجھ کو شدید دکھ بھی ہوتا۔ آخر میرا ایک رشتہ آیا۔ لڑکا بہت خوبصورت، اپنا بزنس کرتا تھا اور یہ لوگ بڑی چاہت سے آئے تھے۔ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کیا کہ والدین انکار نہ کر سکے اور مجھ سے پوچھے بغیر ہی شادی کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ میں حواس باختہ سی گھر میں پھرنے لگی۔ میری ماں نے مجھے لڑکے کو دیکھنے کے بارے میں کہا مگر میں نے دیکھنے سے منع کیا، تب وہ نکاح نامہ سائن کرانے لائے اور میں نے والدین کی عزت کا خیال کرتے ہوئے خاموشی سے سائن کر دیئے کہ مرد ذات، میرے لیے سب ایک جیسے تھے، جو لڑکی کو بس کچھ دنوں کے لیے اپنا بناتے اور پھر راستہ بدلتے یا بهلا دیتے تھے۔ نکاح کے بعد رخصتی کی گھڑی آگئی۔ ایک زندہ لاش کو اٹھا کر ڈولی میں ڈال دیا گیا۔ یوں میں پیا گھر چلی گئی۔ شادی کی پہلی رات مجھ پر بہت بھاری تھی۔ دو اجنبی ہاتهوں نے میرا گھونگھٹ اٹھایا تو خوف سے میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ لمحات کے بعد آہستہ آہستہ میں نے آنکھیں کھولیں تو ایک شناسا صورت کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ یہ واقعی علی ہے؟ یا واہمہ ہے میرا؟ کیا اس کا تصور ایسا پختہ ہو چکا ہے کہ ہر صورت میں مجھ کو علی کی صورت نظر آتی ہے؟ یہ سب سوچتے ہوئے میرا خون تیزی سے گردش کرنے لگا اور جب على نے میری انگلی میں منہ دکهائی کی وہی انگوٹھی پہنائی جو کبھی میں نے اس کو تحفے کے طور پر دی تھی تو میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ بڑی مشکل سے میں نے نگاہیں اوپر اٹھائیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یہ خوشی کے آنسو تھے کیونکہ میرے سامنے میرا علی ہی تھا۔ وہ جو حقیقت کے روپ میں میرے خوابوں کی تعبیر تھا اور جس کے تصور میں، میں سایوں کے پیچھے بھاگتی رہی تھی، تو کیا آج واقعی میرا حقیقی ہم سفر بھی بن گیا تھا جو میری پہلی محبت تها؟ تم نے اتنے سال مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ میں نے شکوہ کیا۔ مجھ کو بهلا دیا اور بھول جانے کو کہا تھا۔ کیوں آخر... ان سوالوں کا جواب بعد میں دوں گا۔ على بولے۔ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہوگا جتنا میرے ساتھ ہوا ہے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ تم کیا جانو غیر ملک جا کر ہم پاکستانیوں کو کتنے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اتنے سخت دن ہوتے ہیں کہ محبوب تو کیا ماں باپ، بہن بھائی، دوست سبھی کو بھلانا پڑ جاتا ہے۔ میرے دوست تم پر نظر رکھتے تھے۔ میں ان سے رابطے میں رہتا تھا۔ تم میرے لیے بنی تھیں۔ خدا سے دعا کرتا تھا کہ تمہاری کسی اور سے شادی نہ ہو اور پھر تم مجھے مل جائو۔ اللہ نے یہ دعا قبول کی۔ میں اپنے حالات سے اس دوران لڑتا رہا۔ آج خدا نے کامیابی عطا کی ہے۔ دولت اور تم کو بھی مجھے بخش دیا ہے جو میری زندگی کی سب سے بڑی دولت تھی۔ میں نے بڑی مشکل سے تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد وہاں بزنس کیا۔ ملازمت بھی کی۔ آج میں خدا کے فضل سے ایک اعلی مقام پر ہوں۔ تمہارے والدین کا کہنا تھا کہ اب تم کو رشتے کے بارے میں نہیں بتائیں گے کیونکہ تم ہر رشتے سے انکار کر دیتی ہو۔ اور لبنی؟ اس کا کیا بنا؟ میں نے سوال کیا۔ اس نے مجھ کو بدظن کرنے کی کوشش ضرور کی مگر میں دل سے بدظن نہ ہو سکا تاہم لبني کو اس کے کئے کی سزا مل گئی ہے۔ شادی کے دو سال بعد اس کو طلاق ہو گئی تھی اور اب وہ گھر بیٹھی ہے۔ آج میں علی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔ دو بچوں کی ماں ہوں۔ على مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ میری لڑکیوں سے یہی گزارش ہے کبھی کسی پر اعتماد نہ کریں۔ وہی کریں جو ماں باپ کہتے ہیں۔

 

Post a Comment

0 Comments