Chand Sa Chahra Raakh Hua Teen Auratien Teen Kahaniyan |
اماں کو آپ کے ہاتھ پیلے کرنے کی اتنی فکر تھی کہ جب بھی گھر میں خواتین ملنے آ تھیں، میں تذکرہ چھیڑ دیتیں۔ میری نیاز بی بی اب تو سترہ برس کی ہورہی ہے، ابھی تک کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں ملا۔ بہن ! اگر آپ کی نظر میں کوئی اچھا گھرانہ ہو بتاتا... دعا کرنا میری اپنی عزت سے اپنے گھر کی ہو جائے۔ خود بھی دعا کرتے ان کے لب سوکھ جاتے، تبھی میں سوچتی کہ آپ کی عمر تھی تو نہیں ہو گئی جو اماں نے خود پر چین و سکون حرام کر لیا ہے۔ جانے مائوں کو بھی بیاہنے کی کیوں اتنی جلدی پڑ جاتی ہے؟ بیٹی بیچاری تولیوں بجھی پر یاد حسن کہلاتی ہے۔ آج نہیں تو کل اس کو بابل کے گھر سے چلے جاناہی ہوتا ہے۔ بالآخر وہ دن بھی آگیا جب آپ کے لئے ایک مناسب رشتہ آیا۔ بات چیت طے ہوگئی، تب ہی امی نے سکھ کا سانس لیا۔ جس دن ناز و آپی کی شادی ہوئی، وہی نہیں ہم سبھی بہت خوش تھے لیکن وہ جب رخصت ہو گئیں، مجھ کو احساس ہوا کہ لڑکی کی شادی ہو جانا کوئی ایسی خوشی منانے والی بات بھی نہیں۔ وہ اوپر ائی ہو گئی، پھر تو مہمانوں کی طرح کبھی کبھار آتی ہے۔ شادی کے بعد آنی واقعی پرائی ہو گئیں۔ اب ان کو وہ بھائی بندر اور وز بعد اتوار کے دن ہمارے گھر لاتے اور میں یہ دن انگلیوں پر گنتی تھی۔ وہ صرف دن کے دن رہتی تھیں۔ دولہا بھائی شام سے ہی لینے آجاتے، وہ ان کو رات کو رہنے نہیں دیتے تھے۔ جتنی دیر وہ ساتھ ہیں، جی خوش رہتا۔ جو نہیں جانے کائتیں، دل کا پھول مرجھا جاتا تھا۔ میں آپ کے گھر بہت کم جاتی۔ کبھی جاتی تو زیادہ دیر نہ ٹھہرتی۔ ان کی چڑ چڑی جیھانی، مدیہ کی وجہ سے جو ٹیڑھی ٹیڑھی آنکھوں سے مجھ کو دیکھتی تھیں۔ مدیہ کی بہن کا رشتہ ٹھکرا کر دولہا بھائی نے اپنی بھای کو مایوس کیا تھا۔ آپ کی ان سے شادی قسمت میں لکھی تھی لیکن اس عورت نے تو میری بہن سے اللہ واسطے کا بیر ڈال لیا تھا۔ بعد یہ کو یہی غصہ رہتا کہ اس کی بہن اس گھر کی بہو بن کر کیوں نہ آسکی۔ جوں جوں دن گزرتے جاتے ، یہ غصہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا جاتاتھا۔ بات بے بات کا وہ منظر نامی اور جھگڑا کرنے گئی۔ ساس کو اس کی عادت کا علم تھا، تبھی وہ چھوٹی بہو کی طر فداری کرتی تھیں جس پر مد یہ کو سخت اہانت محسوس ہوتی۔ اللہ کی دین آپی کو شادی کے سال بعد اس ذات پاک نے بیٹے جیسی نعمت سے نواز دیا۔ اشعر کی پیدائش کے بعد آپ کے گھر خوشیاں ٹوٹ کر برسیں۔ ساس ان پر واری صدقے جارہی تھی اور شوہر بیوی اور نومولود بچے کے گرد پروانے کی مانند گھوم رہے تھے۔ ننھے شعر کی وجہ سے وہ سسرال میں یوں جگمگا اٹھی تھیں جیسے ان کے گھر کا چاند ہوں۔ جس خوشی کے لئے آپ کے ساس، سسر ترس رہے تھے، وہ خوشی نیاز آپ سے ان کو کی تھی۔ دولہا بھائی کے بڑے تینوں بھائی بے اولاد تھے۔ دو لاہور میں رہتے تھے اور تیسر ابھائی وہی ہوتا، تبھی اس کی بیوی، ساس سسر کے پاس رہتی تھی۔ شعر کی پیدائش پر انہوں نے پوتے کی خوشی میں دل کھول کر خیرات کی کہ مدتوں بعد ہی ان کی مسرتوں کا پیام بنا تھا۔ دادا، دادی نے عقیقے اور رت جگہ پر اس قدر خرچہ کیا کہسارا شہر دنگ رہ گیا۔ آپ پر خدا کی رحمتوں کی برسات ہورہی تھی اور ادھر جیٹھانی کے دل پر وحشت برس رہی تھی۔ اب تو وہ گھر میں ایک منجھے ہوئے دینے کی مانند تھی، کوئی اس کی جانب توجہ بھی نہ کرتا تھا۔ اس بات نے مدینہ کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ گویا آپی کی وجہ سے اس کی گھر میں اہمیت باقی نہ رہی تھی۔ وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہو اور اشعر سال بھر کا ہو گیا۔ یہ اس منحوس دن کی بات ہے کہ دادا، دادی اپنے اکلوتے پوتے کی سالگرہ منانے کی خاطر شاپنگ کو گھر سے نکلے تھے۔ سالگرہ میں ایک دن باقی تھا۔ اشعر نے رات بھر آپ کو جگایا تھا کیونکہ اس کی طبیعت ناساز تھی۔ آپی کا بیڈ روم چت پر تھا۔ دوپہر کا وقت تھا، آپ اوپر جا کر پلنگ پر بیٹھتے ہی سو گئیں۔ جیٹھانی پین میں تھی جیسے زخمی ناگن تاک میں رہتی ہے۔ مدیحہ نے مٹی کے تیل کی بوتل اور ماچس لی اور دلے پائوں چوت پر اپنی جہاں اپنی خواب گاہ میں میر ی ناز و پالی بہین ، رات بھر کی بے خوابی سے چور بیٹے کے ساتھ بے خبر سورہی تھی۔ اس بے خبر کو کیا پتاتھا | کہ مد یہ اجل کا فرشتہ بن کر دبے پائوں اس کے کمرے میں آگئی ہے۔ وہ اس کو موت کی نیند سلانے آئی ہے ورنہ اس روز اپنی اور اپنے لخت جگر کی زندگی بچانے کو بھی بھی خود کو نیند کے حوالے نہ کرتی۔ مدیحہ نے اس کے پنگ کی چادر کے اطراف مٹی کا تیل چنٹر کا اور پھر ماچس کی تیلی جلا کر چادر پر ڈال دی۔ شعلوں نے بھر کے میں سیکنڈ بھی نہ لگایا۔ تپش کے پہلے وار پر ہی آپ کی آنکھ کھل گئی۔ خود پر شعلوں کو لایت د کھ ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ مد یہ سیڑ ھی میں کھڑی تھی۔ دیورانی کی چیخ سن کر جلدی سے سیڑھیاں اتر کر غسل خانے میں لھس گئی۔ پڑوس کی چھت پر ان کا بچہ گیند اٹھانے کے ارادے سے آیا تھا، اس نے جو چین سنی، بھاگ کر منڈیر کی جانب آیا اور دوڑتا ہوا نیچے گیا اور ماں کو بتایا کہ دلہن آنٹی کو آگ لگی ہے۔ پڑوس سے ان کی ملازمہ چوت پر دوڑی آئی ، منڈیر سے چھت پر تھی۔ اس نے دیکھا کہ آپ کے کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے بچے کو اٹھا کر پینگ سے دور پھینک دیا تھا۔ بچے فرش پر گرا ہوا تھا۔ ملازمہ نے جان پر کھیل کر بچے کو اٹھالیا اور کمرے سے باہر لے آئی۔ اس کے پیچھے آپی کمرے سے نکلی تب تک ان کے کپڑوں کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کپڑوں میں ہوا لگنے سے آگ بھڑک کر زیادہ ہوگئی پھر بھی آپ نے ہمت نہ ہاری۔ ممتا کی ماری ماں، ملازمہ کے پیچھے بھاگی تو مگر سیڑھیوں تک آتے گرگئی۔ ملازمہ کے بعد ٹونی کے بتانے پر اس کی والدہ اور بچی کبھی بھاگتی ہوئی آ گئیں۔ انہوں نے زور زور سے دور بھایا۔ ملازمہ جس کے بازوئوں میں بچہ تھا، اس نے صحین عبور کر کے آپ کے گھر کا در کھولا۔ یہ خواتین اوپر گئیں جہاں سیڑھی کے پاس میری بہن جلے ہوئے کپڑوں میں پڑی تھی۔ وہ 80 فیصد جل چکی تھی۔ ٹونی نے یہ بھی دیکھا تھا کہ جب مدیھہ پیڑھیاں اتر رہی تھی، اس کے ہاتھ میں بوتل اور ماچس تھی، تبھی وہ تیزی سے نہانے کے بہانے غسل خانے میں لتھس گئی تھی۔ ابھی یہ لوگ گھر میں موجود تھے کہ آپ کے ساس، سسر آگئے۔ ملازمہ نے ساراماجرا بیان کیا۔ دادی نے پوتے کو اس کے بازوئوں سے لے لیا۔ بچے چوٹ لگنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا، غالبأ سر میں چوٹ آئی تھی۔ ساس، سسر اوپر گئے، بہو بے ہوش پڑی تھی۔ اس نے کوئی بیان نہ دیا۔ اس کی زبان کو شعلوں کی تپش نے چاٹ لیا تھا، الفاظ اور خیالات تک جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ وہ چاند سا چہرہ اور صندل سایدن راکھ میں بدل گیا تھا۔ آپ کونیچے لائے، وہ ہوش میں آئیں اور نہ ہی انہوں نے کچھ بیان دیا۔ بچے کو اسپتال لے جایا گیا۔ اس کی جان گئی مگر ماں ہمیشہ کے لئے اس سے بچھڑ گئی۔ کہتے ہیں ظالم کو ظلم کی سزا ضرور ملتی ہے اور ہر ایک کو اس کے کئے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ نجانے کون سی دنیامیں .....؟ میر کی بے چاری، بے قصور بہن کے معاملے میں تو ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ اپنے جلے ہوئے وجود کے ساتھ منوں مٹی تلے جاسوئی اور اس کی منحوس جیٹھانی اسی گھر میں ر ہتیار ہیں۔ ملازمہ کو ڈرا کر آپ کے بیٹے نے کافی موٹی رقم دے کر اس کا منہ بند کرادیا۔ ٹونی تو بچہ تھا، اس کے والدین نے اس کو بھی سختی سے تاکید کر دی کہ تم نے اس بارے ایک لفظ نہیں بولا اور نہ پو یس ہم سب کو پڑوسن کو جلانے کے الزام میں پڑ کر لے جائے گی اور جیل میں بند کر دے گی۔ اچھاہے کہ ہم اس معاملے سے دور رہیں۔ جہاں انصاف کا بول بال نہ ہو اور رشوت کے کرشے جلوہ گر ہتے ہوں، وہاں تو لوگ کچی گواہی دینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ غرض آپ کے بیٹے اور سسر نے چولہا چھٹے کا کیس درج کرادیا کیو نکہ مدینہ ، دولہا بھائی کی سگے چپ کی بیٹی تھی مگر جلنے والی تو جل کر مر گئی، وہ کب واپس آسکتی تھی اور کون عینی شاہد تھا جو اس کے حق میں گواہی دیتا۔ ایک محبت کرنے والا شوہر غمزدہ تھا مگر وہ تو حادثے کے وقت پر دیں میں تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ نجانے کب تک یہ چولہے پچھٹتے رہیں گے اور میری بہن ایسی بے گناہ عور تیں جل کر مرتی رہیں ۔ گی۔ آف ! یہ شرفا کے گھر انے جو اپنی عزت رکھنے کو تھانے کچہری سے دور بھاگتے ہیں، پھر کہہ دیتے ہیں کہ جلنے والی تو جل کر مرگئی۔ اگر مرنے والی سے ناتا تھا تو جس نے جلایا، وہ بھی تو ان کے گھر کی عزت تھی اور گھر کی عزت بچانا ہمیشہ شرفاء کا شیوا رہا ہےشعر کو انہوں نے ہم کو نہ دیا کیونکہ وہ اپنے دادا کی جائداد کاکلوتا وارث تھا۔ اس کو اس کی تائی نے گود لے لیا اور پالا پوسا۔ وہ اب ماشاء الله جوان ہے۔ کبھی کبھار ہم سے ملنے آتا ہے۔ جب بھی اس کی صورت دو بیتی ہوں، آپی کے نقوش کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ کا پیار بے اختیار یاد آجاتا ہے۔ سوچتی ہوں اگر اس دنیا میں انصاف نہیں تو اللہ کے گھر تو ضرور ہو گا
0 Comments