Search Bar

Dunya Jeenay nai Deti Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Dunya Jeenay nai Deti Teen Auratien Teen Kahaniyan



عافیہ میری دوست ہی نہیں کزن بھی تھی۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن میں اس کی کہانی اسی کی زبانی لکھ رہی ہوں۔ میرا گھر شہر سے 9کلومیٹر دور تھا۔ میٹرک کے بعد شہر میں داخلہ لینا تھا۔ میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو میٹرک کے بعد تعلیم کے لیے شہر جارہی تھی۔ والد صاحب خاندان میں واحد پڑھے لکھے شخص تھے جنہوں نے ایم اے کے بعد تعلیم ہی کا شعبہ اختیار کیا اور گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تعینات ہوئے۔ والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ان کی اولاد اعلی تعلیم یافتہ ہو۔ چنانچہ تایا، چچا اور خاندان والوں کی شدید مخالفت کے باوجود میرا داخلہ نزدیکی شہر کے ڈگری کالج میں ہوا۔ یوں میں نے اپنا تعلیمی سفر شہر سے شروع کیا۔ والد صاحب روزانہ موٹرسائیکل پر کالج پہنچانے جاتے تھے۔ گائوں کی رہنے والی تھی لہذا بہت گھبرائی ہوئی تھی کہ شہر کی لڑکیاں کہیں مجھے تنگ کریں یا مذاق نہ بنائیں۔ لیکن آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوگیا۔ کالج کی زندگی بہت خوبصورت تھی۔ میرا دل جلد یہاں لگ گیا اور پڑھائی کا شوق دن بدن بڑھنے لگا۔ ابو میری تعلیمی کارکردگی سے مطمئن تھے۔ بخوشی مجھ کو چھوڑنے اور لینے آتے۔ گائوں سے شہر روز آنا جانا مشکل امر تھا۔ ابو کو اپنی ڈیوٹی پر بھی جانا ہوتا تھا۔ تبھی انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ عافیہ کی رہائش کا بندوبست شہر میں کردیا جائے جہاں میری ایک پھوپی کا گهر تھا۔ ان سے بات ہوگئی اور میں شہر میں اپنی پھوپی کے پاس رہنے لگی۔ ایف اے کے بعد والد صاحب نے سوچا کہ مجھے پی ٹی سی کرلینی چاہیے جس کے لیے شہر سے تیس کلومیٹر دور ایک دوسرے شہر میں داخلہ لینا تھا۔ یہ کورس ٹیچر کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ گائوں سے نزدیکی شہر کے بعد اب نسبتا بڑے شہر میں داخلہ لینا زیاده دشوار بات تھی۔ یہ میری زندگی کا ایک بہت بڑا امتحان تھا مگر میں نے اس چیلنج کو بھی قبول کرلیا۔ اب صبح کالج جاتی اور شام کو پی ٹی سی کے لیے روزانہ | تیس کلومیٹر مزید سفر اختیار کرتی۔ محنت کا یہ عالم تھا کہ رات بھر پڑهتی تھی چونکہ خواہش ہوتی کہ نمبر بہت اچھے آئیں۔ دن رات محنت کرکے تھک جاتی، تب کبھی کبھی یہ بھی سوچتی تھی کہ تعلیم کا یہ سلسلہ چھوڑ کر واپس گھر چلی جائوں۔ گائوں میں جہاں آرام اور سکون تھا، وہاں دن رات کا سفر میرے لیے عذاب سے کم نہ تھا کیونکہ ہمارے علاقے میں سال کے نو ماه شدید گرمی پڑتی اور سفری سہولتیں بھی ان دنوں عنقا تھیں، تاہم پھر یہ خیال آجاتا تھا کہ میں نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا تو والدین کے خواب ٹوٹ جائیں گے۔ والدین کی محبت کی بدولت میری محنت جاری رہی۔ میں نے دونوں امتحان پاس کرلیے۔ بی اے کرلیا اور پی ٹی سی بھی کرلی۔ جس روز ابو رزلٹ کارڈ لے کر آئے، خوشی میں الله تعالی کے حضور سجدے میں گر گئی کہ یہ اسی کے کرم سے ممکن ہوسکا، ورنہ ایک دیہات کی لڑکی کا گریجویشن کرلینا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ اسی دوران اخبار میں ٹیچرز کی اسامیوں کا اشتہار آیا۔ والد صاحب نے میری درخواست بھجوادی اور چند دنوں بعد میں اپنے گھر کے قریب پرائمری اسکول میں ٹیچر لگ گئی۔ خاندان والے میری ملازمت سے چیں بہ جبیں ہوگئے مگر والدین پھولے نہ سماتے تھے کیونکہ والد صاحب نے مجھ کو تعلیم یافتہ اسی لیے کیا تھا کہ میں اپنے دیہات کی آن پڑھ لڑکیوں کو تعلیم دے سکوں، جبکہ یہاں عموما دیہاتوں میں اسکولوں کی یہ حالت تھی کہ گورنمنٹ کی طرف سے اسکول تو قائم کردیا جاتا تھا مگر دوردراز دیہاتی علاقوں میں پڑهانے شہر سے استانیاں نہیں آتی تھیں، تبھی یہ اسکول بند پڑے رہتے تھے یا پھر گھوسٹ اسکول بن جاتے تھے۔ میری تعیناتی سے اسکول پر پڑا ہوا تالا کھل گیا، کچھ لڑکیاں بھی داخل ہوگئیں۔ چونکہ استانی میں خود تھی لہذا خاندان والوں نے مجھ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی بچیوں کو بھی اسکول بھیجنا شروع کردیا۔ اس طرح جو مخالف تھے، وہی مستفید ہونے لگے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی میری وجہ سے خاندان میں اور دیہات میں آگئی۔ بچیوں کے لیے تعلیم کا حصول ممکن ہوا۔ اسکول کا دروازہ کھل گیا اور دیہاتی زندگی میں تبدیلی کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔ اس کامیابی کا سہرا والد صاحب کے سر گیا اور میں روشن امیدوں میں بارش کا پہلا قطره ثابت ہوئی۔ اب میں طالب علم نہ تھی، خود استاد تھی۔ جب پہلی تنخواه ہاتھ میں آئی خود کو خوش نصیب تصور کیا۔ منت مانی تھی تنخواہ ملے گی تو ہر ماہ اس کا کچھ حصہ غریبوں کے لیے مختص کروں گی لہذا ایسا ہی کیا۔ اس رقم سے میں نہایت غریب دیہاتی لڑکیوں کے تعلیمی اخراجات ادا کردیا کرتی تھی۔ مثلا کسی کو پینسل، کاپی، تختی یا سلیٹ کی ضرورت ہوتی تو میں لے دیتی۔ شہر والے اس بات کا ادراک نہیں کرسکتے کہ دیہات میں رہنے والے محنت کشوں کے بچے ان چیزوں سے محروم ہونے کے باعث تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ والدین یہ معمولی اشیاء خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد میں نے استانی بننے کے فوائد دیکھے۔ یہاں مجھے ہر شخص عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور تمام چھوٹے بچے و بچیاں ’’مس،، | کہہ کر پکارتی تھیں۔ تب مجھ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ سارے دیہات میں میری اچھی شہرت پھیل گئی۔ دیہاتی عورتیں مجھ سے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھنے آنے لگیں۔ میں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس علاقے میں تعلیم عام کرنی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک اپنی بچیوں کو اسکول میں داخل نہ کرایا تھا، میں ان کے گھروں کو جاتی اور قائل کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ اپنی بچیوں کو اسکول میں داخل کرائیں۔ بہت سے گھرانوں نے میری بات سنی اور لڑکیاں اسکول میں داخل کرادیں۔ یہ میری ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور اس عمل کو میں عبادت سمجھ کر کرتی تھی۔ یوں روز بروز میرے اسکول میں طالبات کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا۔ محکمۂ تعلیم والوں تک میری اچھی کارکردگی کی اطلاعات پہنچ رہی تھیں۔ یوں تمام علاقے میں ہمارے اسکول کو سب سے زیاده فوقیت ملنے لگی جو میری اچھی نیت کا ثمر تھا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ سو اب والدین میری شادی کے بارے سوچنے لگے۔ اس دوران ماموں جان اپنے بیٹے ایاز کے لیے میرا رشتہ لے آئے۔ اماں اس رشتے پر بہت خوش تھیں کہ ان کے خیال میں، میں اپنے ماموں کے گھر جارہی تھی اور اپنے ہی اپنوں کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ اماں کا خیال تھا ماموں میرا بہت خیال رکھیں گے۔ پس انہوں نے فورا باں کردی۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ میرے لیے آگے کتنے مسائل پیدا ہوں گے۔ میں آئندہ کے مسائل سے بے خبر اس رشتے پر خوش ہوگئی تھی۔ میرے تین بھائی اور ایک بہن تھی جو مجھ سے چھوٹی تھی۔ ماموں جان کی چار بیٹیاں تھیں اور دو بیٹے تھے۔ ہم کو خبر نہ تھی کہ وہ میرا رشتہ اس خیال سے لے رہے تھے کہ تاکہ بعد میں اپنی بیٹیوں کی شادیاں میرے بھائی سے کراسکیں۔ بری اور زیورات دیکھ کر اماں پھولی نہ سماتی تھیں۔ ماموں جان والوں نے مجھ کو بہت سا زیور چڑھایا۔ پھر رخصتی ہوگئی لیکن شادی کے تین دن بعد سسرال والوں نے میرا سارا زیور واپس لے لیا۔ ایاز نے کہا کہ یہ زیور میری بہنوں کا ہے، انہوں نے وقتی طور پر تم کو پہنایا تھا لہذا یہ ان کو واپس کرنا ہے۔ میں بعد میں تم کو زیور بنواکر دے دوں گا۔ یہ بات سن کر حیران رہ گئی۔ دکھ بھی ہوا کہ سگے ماموں کیا ایسا کرسکتے ہیں۔ ایک ہفتہ گزرا تو میرے دولہا نے کہا کہ اپنے والدین کو جاکر کہو وہ تمہارے بھائیوں کے لئے میری بہنوں کے رشتے لیں تبھی تم کو زیور ملے گا۔ امی ابو سے یہ بات کہی تو وہ گم صم ہوگئے اور کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ گھر آئی تو شوہر نے جواب مانگا۔ ماموں بھی موجود تھے۔ میں نے والدین کا جواب بتادیا۔ ماموں غصے میں آپے سے باہر ہوگئے اور میرے والدین کو گالیاں دینے لگے۔ ماں باپ کو کوئی گالیاں دے تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ میرے دل پر بھی قیامت گزر گئی مگر ماموں بڑے تھے، ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتی تھی۔ چپکے چپکے آنسو بہاکر خاموش ہورہی مگر اس کے بعد میری زندگی میں تکالیف بڑھ گئیں اور ایک معصوم لڑکی پر جو اپنا گھر چھوڑ کر سسرال آئی تھی، اس پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے لگے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میری زندگی اس قدر مشکل ہوجائے گی، پهر میکے سے دور رکھنے کو میرا تبادلہ سسرال والوں نے اگلے گائوں کے قریبی اسکول میں کرادیا۔ شادی کے تین ماہ بعد میں امید سے ہوگئی۔ ساس کو اس خبر سے ذره بهر خوشی نہ تھی کیونکہ ساس، سسر چاہتے تھے کہ جلد از جلد ان کی بیٹیوں کی شادیاں میرے بھائیوں کے ساتھ ہوجائیں۔ بے شک ہمارے یہاں رواج تھا، رشتے اپنوں میں کرتے تھے اور دور دور تک میری نندوں کے لیے اپنوں میں رشتے نہ تھے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا ماموں، ممانی کا، جس کا درد وہ ہی سمجھتے تھے۔ میرے والدین بھی یقینا اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے۔ اگر ماموں، ممانی اور میرے خاوند کا رویہ میرے ساتھ اچھا ہوتا لیکن ابو اب یہی کہتے تھے کہ بیٹی ... جب سسرال والوں کا تم سے رویہ اتنا برا ہے تو ہم لوگ ان سے مزید رشتے داری کیوں بڑھائیں ۔ پھر ان لوگوں کو پہلے سے یہ بات طے کرنی چاہیے تھی کہ عافیہ سے رشتہ ہم وٹے سٹے کے عوض کررہے ہیں۔ رشتہ مانگتے وقت تو انہوں نے ایسی کوئی بات نہ کہی تھی، اب تم کو تنگ کررہے ہیں، اس طرح تو رشتے نہیں کئے جاتے۔ میں نے ابو کی یہ باتیں ایاز کے گوش گزار کردیں اور جب انہوں نے اپنے والدین کو بتایا کہ میری بیوی کے والدین ایسا کہتے ہیں تو گھر میں ایک طوفان آگیا۔ انہوں نے ایاز سے کہا کہ تم ایسا کرو کہ عافیہ کو گھر سے نکال دو، تب دیکھنا کہ خود بخود ان کے مزاج ٹھکانے آجائیں گے۔ ایاز نے اپنے والدین کے حکم پر فورا عمل کیا اور جونہی میں اسکول سے پڑها کر گھر آئی، انہوں نے مجھ کو موٹرسائیکل پر بٹھایا اور میرے والدین کے گھر پہنچادیا۔ جاتے ہوئے کہا کہ اب میں تم کو لینے ہرگز نہیں آئوں گا، یہ بات اپنے ماں باپ کو بتادینا۔ والد صاحب نے تسلی دی کہ گھبرائو نہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس تسلی کے باوجود میرا دل بیٹھا جاتا تھا اور میں سارا | سارا دن روتی رہتی تھی۔ میکے میں پہلی بچی نے جنم لیا۔ ابو نے ایاز اور ان کے گھر والوں کو اطلاع کی لیکن کوئی نہ آیا۔ اماں نے میری بہت خدمت کی۔ میری بیٹی کا نام والد صاحب نے رکھا۔ اس کے بعد بھی کئی بار سسرال والوں کو پیغام بھیجا لیکن وہ لوگ بچی دیکھنے بھی نہیں آئے۔ دو ماه بعد میرے ایک استاد ہمارے گھر آئے۔ یہ مجھ کو بی اے میں پڑھایا کرتے تھے۔ والد صاحب نے تمام واقعہ حنیف صاحب کے گوش گزار کردیا۔ یہ میرے خاوند کے بھی استاد رہ چکے تھے اور ابو کے دوست تھے۔ حنیف صاحب کے سمجهانے پر ایاز ہمارے گھر آگئے۔ خاوند کے آنے پر میں بہت زیاده خوش ہوئی۔ اپنا تمام سامان اور بیٹی کو تیار کرکے والد صاحب سے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے نہ روکا اور میں خاوند کے ساتھ گھر آگئی۔ گھر آکر محسوس کیا کہ ساس، سسر، نندیں، دیور کوئی بھی میرے لوٹ آنے پر خوش نہیں تھا وہ پہلے کی طرح ناراض ناراض اور مجھے اذیت دینے کی خواہش رکھتے تھے۔ گھر آنے کی خوشی خاک میں مل گئی کیونکہ میری بیٹی کو کسی نے نہیں اٹھایا۔ حالانکہ یہ ان کے گھرانے کی پہلی خوشی تھی مگر دیہات والوں کا شاید یہ رواج ہو کہ بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ منہ بنالیتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا۔ سسرال والوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ آئے دن میرے جہیز کی چیزیں چوری ہوجاتیں، حتی کہ میرے زیور جو ابو نے دیئے تھے، وہ بھی ان لوگوں نے چوری کرلیے۔ والدین کو نہ بتایا کہ انہوں نے زیور چرا لیے ہیں۔ اچھے دنوں کی امید پر زندگی کے دن گزارنے لگی۔ سوچتی تھی کہ کبھی تو ان کے ذہنوں میں تبدیلی آئے گی۔ دوسری بار جب میں امید سے ہوئی تو گھر کا تمام کام نہیں کر پارہی تھی۔ اسکول کی ڈیوٹی کے بعد تھکن ہوجاتی تو تھوڑی دیر آرام کی ضرورت محسوس ہوتی جبکہ گھر آتے ہی کام میں جتنا پڑتا تھا کیونکہ گھر کا سارا کام جوں کا توں پڑا ہوتا کہ بہو آئے گی تو وہی کرے گی۔ ممانی بیٹیوں سے کوئی کام نہ کرائیں۔ اتنے بڑے گھر کی صفائی، برتن، ڈھیروں روٹیاں سب کام مجھ ہی کو کرنے پڑتے تھے۔ میں تکلیف محسوس کرنے لگی کیونکہ پورے دنوں سے تھی۔ مجھے میٹرنٹی لیو تو مل گئی مگر گھر کے کام سے نجات نہ ملی۔ مجبورامی، ابو مجھے گھر لے آئے۔ دوسرے بچے کی پیدائش سے کچھ دن قبل جب کام نہ کرسکی تو خاوند نے مجھے مارنا شروع کیا۔ میں نے ان کو یہی کہا کہ ایک ماہ مجھ سے جھگڑا مت کریں۔ اس حالت میں جھگڑا برداشت نہیں کرسکتی۔ جب بچے کی پیدائش کا مرحلہ طے ہوجائے گا، میں سارا کام کردیا کروں گی۔ والدین کے یہاں ہر طرح آرام تھا۔ تھوڑی بہت زمینداری تھی، نوکر چاکر تھے، اماں مجھے کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتی تھیں۔ میں پھر بھی افسردہ تھی۔ مجھے روتے پاکر ماں گلے سے لگاتیں اور تسلیاں دیتیں۔ کہتیں خبر ہوتی کہ اپنے اتنے سنگدل ہوتے ہیں تو کبھی تیری شادی بھائی کے بیٹے سے نہ کرتی۔ میکے میں ہی دوسری بیٹی نے جنم لیا۔ اب اور زیادہ پریشان ہوگئی کہ اس بار بیٹے کی خواہش کی تھی۔ ساس، سسر صرف اسی صورت مجھ پر مہربان ہوسکتے تھے۔ شوہر کو بھی بیٹے کی ہی چاہ تھی لہذا اس مرتبہ بھی ایاز بیٹی کو دیکھنے نہ آئے۔اب میں بہت فکرمند تھی کہ یاالله! آگے کیا ہوگا۔ ان کا ایسا رویہ کب تک برداشت کرسکوں گی۔ میری تنخواہ بھی ساری ایاز خود لے لیتے تھے اور میرا ذاتی خرچا والدین مجھ کو دیا کرتے تھے کیونکہ تنخواہ سے محروم ہونے کے بعد میں بالکل خالی ہاته ره جاتی تھی۔ دو ماه بعد ہمارے خاندان کے کچھ بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایاز اور ان کے والدین کو سمجھانا چاہیے کہ وہ عافیہ کو گھر واپس لے آئیں۔ سب لوگ مل کر ماموں کے پاس گئے۔ ان کو سمجھایا تمہاری دو پوتیاں ہوگئی ہیں، اپنی اولاد کو اپنے گھر میں پلنے کی سہولت دو، یہی اچھا ہے۔ مجبورا برادری کے دبائو پر وہ آکر مجھے لے گئے۔ گھر واپس آکر اپنی بچیوں کے مستقبل کی خاطر میں نے سسرال والوں کی بہت زیاده خدمت کی لیکن انہوں نے پھر بھی مجھے پیار نہ دیا۔ سب خاندان والوں نے بچی کی پیدائش پر مبارکباد دی لیکن ان لوگوں نے میری اس خوشی میں شراکت نہ کی، تبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ میں چاہے جو کرلوں، سسرال والے کبھی مجھے تسلیم نہ کریں گے، چاہے اپنے بھائیوں سے اپنی نندوں کے رشتے کیوں نہ کرادوں، یہ مجھ سے نفرت کرتے رہیں گے بلکہ اس صورت میں اور مسائل بڑھ جائیں گے۔ اس بارے میں ابو کا مؤقف بالکل صحیح تھا کہ اگر ان لوگوں نے ہمارے ساتھ رشتے کرنے ہیں تو کم از کم ہماری بیٹی سے تو تعلق بہتر رکھیں، ورنہ مزید رشتے جوڑنے سے بھی ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، پھر پھنسنے کا فائدہ کیا ہے۔ والد صاحب نے ایک روز ماموں جان پر اپنے اس مؤقف کو بالکل واضح کردیا کہ وہ اب مزید کوئی رشتہ داری بڑھانا نہیں چاہتے۔ اس پر جو ردعمل ہوا، اس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ خاوند نے اپنے باپ کے کہنے پر مجھ کو گھر سے نکال دیا، یہ کہہ کر اگر میری بہنوں کے رشتے بھلے نہیں ہیں تو ہم اس کی بیٹی کو کیوں رکھیں۔ یہاں تک ظلم کی حد کردی کہ میری دودھ پیتی بچی بھی چھین لی۔ ایک ماں سے اس کی چھوٹی سی معصوم بچی چھین لی جائے تو دل کی کیا حالت ہوگی؟ مجھ پر

بھی جو ردعمل ہوا، اس سے شدید متاثر ہوئی۔ سخت بیمار پڑ گئی۔ پہلے صرف ابو جان اس معاملے پر بولتے تھے، اس بار بھائیوں پر بھی اثر پڑا، غصے ہوئے۔ بھائیوں کے غصے سے میں ڈرتی تھی۔ مجھ کو میرا گھر ٹوٹتا دکھائی دے رہا تھا، تاہم میں نے طلاق لینے سے انکار کردیا۔ دو سال ایسے ہی میکے بیٹھے رہی۔ محکمہ تعلیم کے ایک آفیسر جو ابو کے دوست تھے، وہ میرے خاوند کو ابو کے پاس لے آئے کیونکہ ایاز بھی محکمۂ تعلیم میں ملازم تھے۔ ایاز کو مجھے دوباره گهر لے جانا پڑا۔ اس بار میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ تم جو ظلم مجھ پر کررہے ہو، اگر میں مرگئی تو میرے مرنے کے بعد ضرور تم کو احساس ہوگا۔ کہنے لگے۔ پہلے مر کر تو دکھائو، ہم پھر احساس بھی کرلیں گے۔ ساس، سسر مجھ سے کلام نہیں کرتے تھے اور نندیں صرف مجھے ستانے کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے نفرت بھرے سلوک پر میں روتی رہتی۔ خدا جانے یہ کیوں مجھ کو اتنی بڑی سزا دے رہے تھے اور کس بات کی ... سمجھ نہ پاتی۔ تیسری بار امید سے ہوگئی تو انہوں نے اعلان کردیا کہ اب بیٹی ہوئی تو واپس میکے جائو گی، ہم کو ہر حال میں بیٹا چاہیے۔ میں نے جتنے پیسے میکے میں جمع کئے، ان سے اپنے خاوند کو کار لے کر دی اور فریج، ٹی وی گھر کی ہر چیز بنائی کیونکہ والد صاحب اور بھائی بطور جیب خرچ مجھ کو کافی رقم دیتے تھے۔ میکے میں دو سال رہی تھی، وہ تنخواہ بھی جمع کی تھی۔ سوچتی تھی کہ اس طرح شوبر احسان مند ہوں گے تو مجھ سے محبت کریں گے، میرا خیال رکھیں گے اور سسرال والوں سے جو ذہنی اذیت ملتی ہے، کم ہوجائے گی۔ شادی کے آٹھ برسوں بعد ایاز میں کچھ تبدیلی آئی اور وہ میرا خیال رکھنے لگے مگر ان کے والدین کا رویہ وہی رہا۔ وہ ایاز کو کہتے تھے کہ الٹرسائونڈ کرائو۔ پتا چلے کہ اس بار بیٹی یا بیٹا آنے والا ہے تاکہ ہم اسی حساب سے تیاری کریں۔ ایسا نہ کرنا چاہتی تھی مگر خاوند نے زبردستی مجھے اس امر پر مجبور کیا۔ میں نے الٹراسائونڈ کرایا تو لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ اس بار بھی بیٹی پیدا ہوگی۔ یہ خبر دهماکے سے کم نہ تھی کیونکہ اس طرح تو میری دنیا اجڑ سکتی تھی۔ میں نے منع کیا کہ اپنے والدین کو مت بتائو مگر ایاز نے والدین کو بتا دیا کہ تیسری بیٹی آنے والی ہے۔ وہ لوگ اتنے ناخوش ہوئے کہا ان کے چہرے دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ اس مرتبہ میں نے زندگی بار دینی ہے۔ ہر وقت افسردہ رہنے لگی۔ امی، ابو نے شہر کے اچھے اسپتال میں نام لکھوادیا تھا اور تمام خرچا بھی میرے خاوند کو دے دیا کہ وقت پیدائش دیہات کی جاہل دائی کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے ہماری بیٹی کو شہر کے اسپتال لے جانا اور رقم کی مزید ضرورت ہو تو ہم دیں گے مگر اس وقت کوتاہی مت کرنا۔ ایاز نے اس وقت تو وعدہ کرلیا مگر جب وقت ولادت قریب آیا ساس، سسر نے اجازت نہ دی اور کہا کہ بچے کی ولادت گھر پر ہی کرائیں گے۔ اس وقت عافیہ بے حد فکرمند تھی۔ اس نے یہ سارا حال مجھے بتایا تھا اور کہا تھا سلیمہ! اب بتائو میں کیا کروں، یہ لوگ تو کسی صورت مجھ کو اسپتال لےجانے کو تیار نہیں ہیں جبکہ میں اندر سے خود بہت کمزور محسوس کررہی ہوں۔ ان دنوں میں بھی اس کے ساتھ اسکول میں بطور ٹیچر فرائض انجام دے رہی تھی۔ عافیہ ’’میٹرنٹی لیو‘‘ پر گئی تھی۔ میں پہلی بار اس کے گھر ملنے گئی، اس کو تسلی دی۔ عافیہ! فکر مت کرو، میں تمہاری امی کے پاس آج ہی جاتی ہوں تاکہ وہ یہاں آجائیں۔ افسوس اس روز میں وہاں نہ جاسکی کیونکہ عافیہ کے والدین کا گھر دوسرے گائوں میں تھا اور ابو کی موٹرسائیکل خراب تھی۔ تب سوچا کہ کل جائوں گی مگر کل کی نوبت نہ آئی کیونکہ اسی رات ہمارے گھر اطلاع آگئی کہ رات باره بجے بچی کو جنم دیتے ہوئے عافیہ چل بسی۔ یہ افسوسناک خبر ایسی تھی کہ دل دھک سے رہ گیا۔ آه...! میری پیاری سہیلی جو کل تک میرے ساتھ اسکول میں پڑھا رہی تھی، وہ آج اس دنیا میں نہ رہی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ اس رات جب عافیہ بہت تکلیف میں تھی۔ بار بار کہہ رہی تھی کہ مجھے اسپتال لے چلو یا امی کو بلائو۔ اس کے خاوند اور ساس نے کہا کہ تمہیں کچھ نہیں ہوگا، اسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہے، بہانہ کیا گائوں سے شہر جانے کی سڑک اکھڑی ہے، رستہ بہت خراب ہے، اسپتال جانے تک تم پر قیامت بیت جائے گی لہذا گھر پر اچھی دایہ لے آتے ہیں۔ بیٹی ہونی ہے کون سا بیٹا ہورہا ہے جو اسپتال جائیں۔ خدا جانے پھر اس پر کیا بیتی کہ وہ اور اس کی نومولود بچی زندگی کی بازی بار گئیں۔ سنا ہے کہ اناڑی قسم کی دایہ نے کوئی غلط انجکشن لگادیا تھا جس کے ردعمل سے عافیہ کی موت کا سانحہ رونما ہوا۔ اگر وہ انجکشن نہ لگتا تو عافیہ بچ سکتی تھی۔ خدا کو علم کہ کیا ہوتا مگر اس بات کا افسوس سبھی کو تھا کہ کاش عافیہ کا شوہر اسے اسپتال لے جاتا یا اس کے والدین اور بھائیوں کو بلالیتے، وہی اسے اسپتال لے جاتے تو شاید وہ زندگی کی بازی نہ بہارتی موت و حیات الله کے ہاتھ میں ہے مگر کوشش تو انسان کی ہوتی ہے۔ بار بار عافیہ کی امی رو رو کر ہم سب سے یہی کہتی تھیں۔ جب ہم ان کے پاس اپنی سہیلی کی تعزیت کو گئے تو ان کی حالت بہت خراب تھی۔ آج بھی ان کی وہی حالت ہے۔ حالانکہ عافیہ کو فوت ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں مگر ماں کب اپنی بیٹی کو بھلا سکتی ہے۔ ان کا تو بس یہ کہنا ہے جیسا نصيب میری بیٹی کا نکلا، خدا کرے کسی کی بیٹی کا نہ ہو اور مجھے عافیہ کا یہ فقره یاد آتا ہے کہ سلیمہ! میں نے عہد کیا ہے کہ جب تک اپنے گائوں کی تمام بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کرلوں گی، سکون سے نہیں مروں گی، سکون کی نیند بھی نہ سوئوں گی۔ دیکھو وہ آج شہر خموشاں میں کتنے سکون کی نیند سورہی ہے جبکہ اس کی بچیاں صرف پرائمری پاس کرسکی ہیں۔ ان کے دادا اور دادی جان نے ان کو پانچویں کے بعد پڑهنے ہی نہیں دیا اور اسکول سے اٹھالیا ہے۔ سچ ہے جو لوگ سچا عزم اور ولولہ رکھتے ہیں، دنیا ان کو جینے نہیں دیتی.

 


Post a Comment

0 Comments