Search Bar

Funda story Anokhi Saza Mili Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Funda story Anokhi Saza Mili  Teen Auratien Teen Kahaniyan


قیصرہ کم سنی سے ہی اپنی ماں کے ساتھ ہمارے گھر میں کام کرتی تھی۔ وہ ایک غریب محنت کش ماں کی بیٹی تھی ۔ چودہ برس کی نادان ، زمانے کی اونچی نیت سے واقف نہ تھی۔ دنیا کو اپنے سادہ و معصوم جذبوں کے آئینوں میں دیتی تھی، | تب یہ دنیا اس کو بڑی جھلی لگتی تھی۔ پہلے یہ کھاتے پیتے لوگ تھے۔ باپ کی ذاتی دکان تھی ۔ وہ فروٹ فروش تھا۔ تبھی خالہ ذکیہ نے بھلا وقت دیکھا تھا۔ ایک روز فروٹ کے ایک آڑھتی سے الہ دین کا جھگڑا ہو گیا۔ یہ جھگڑا لین دین پر ہوا تھا۔ کچھ دنوں بعد ان کی ایسی دشمنی ہوگئی کہ آڑھتی کے آدمیوں نے بازار میں آ کر دکان پر بیٹے الله دتا کو سر میں گولی مار دی اور اس کو ڈھیر کر کے چلات اللہ دتا کے قتل ہو جانے سے برے وقت نے ذکیہ خالہ کے گھر اند میر ڈھادیا۔ حالات یہاں تک پہنچے کے گھر میں اناج کا ایک دانہ نہ رہا لیکن الٹر قیصرہ نے اب بھی زندگی کی منی کو محسوس نہ کیا۔ حالانکہ غربت کے کالے گور سائے جاڑے کے بادلوں کی طرح ان کے سروں پر چھائے رہتے تھے۔ بھی قیصرہ بھی تھی۔ اس کی آرزوؤں کی دنیامیں بال نہ چھی تھی۔ اس کو خود کو سنبھال کر چنے کا شعور نہیں آیا تھا۔ روکھی سوکھی جو مل جاتی کھالیتے ۔ اور صفی سنبھالنے کا بھی ہوش نہیں تھا۔ ماں گھر گھر کام کرتی۔ یہ بیکار سی آنگن میں ادھر ادھر پھرا کرتی۔ کھڑکیوں سے جھانکتی، کبھی چھت پر چڑھ جاتی ، ہر جگہ تنہائی کا ٹنے لگتی ہیں اس کا جی نہ لگتا۔ تب دل گھر سے باہر جانے کو مچلتا۔ ماں اپنے ساتھ لے جانے سے کتراتی اور قیصرہ یہ چاہتی کسی طرح ماں کے ساتھ کئی پھرے ۔ اسے دوسروں کے گھروں میں جھانکنے سے بڑی دی تھی۔ جہاں مزے مزےکی باتیں سنے کو ملتیں اور بھی تو ایسی بھول بھلیوں جیسی باتیں کہ اس کے کان سنسنانے لگتے اور وہ چہرے کو اوڑھنی سے ڈھانپ لیتی۔ بھی ماں گھور کر اسے دیسی اور ہیں۔ ایک تو میرے پیچھے گی چلی آتی ہے اوپر سے بڑوں میں گھس کر باتیں سنتی ہے، کیا یہ باتیں لڑکیوں کے سینے کی ہیں۔ خالہ ذکیہ کی تین بیٹیاں تھیں، جن کی خاطر وہ ہمارے گھر کے علاوہ دو اور گھروں کا بھی کام کرتی تھی۔ اس کی بیٹیاں بیاہنے کی فکر تھی جو جوان ہو چکی تھیں، جن کے ابھی تک کہیں رشتے طے نہ ہوئے تھے۔ ایک دن ماں نے قیصرہ کو سمجھایا کہ جب تیری بہنوں کور شتے کے لئے دیکھئے عور تیں آئیں تو ان کے سامنے مت آنا۔ آج کل کی عورتیں بڑی لڑکیوں کو چھوڑ چوٹی پر نظریں نکا لیتی ہیں لذا تم اس سے چھپ جانا۔ ایک روز قیصرہ کی خالہ آگئی۔ کچھ عورتیں اس کے ساتھ تھیں اور ماں کام پر گئی ہوئی تھی۔ قیصرہ ہی نے دروازہ کھولا۔ اس وقت وہ نہا کر نکلی تھی اور بال سنوار کر ان میں کلپ لگارہی تھی۔ اس کی خالہ نے جو قیصر کا اجلا اجلا چمکتا ہو اچره | دیکھا۔ بولی ارے قیصرہ تو، تو بڑی ہو گئی ہے۔ بڑارنگ روپ نکال لیا ہے۔ اچھاجا،ماں کو بلالیا۔ کہنا کہ خاص مہمان آئے ہیں، ضرور کیا کام ہے۔ قیصرہ نادان ضرور تھی مگر ایسی باتیں ترنت سمجھی جاتی تھی۔ سمجھ گئی کہ کون سا ضروری کام ہے۔ یہ عورتیں جو خالہ کے ساتھ ہیں اس کی بہنوں کا رشتہ دیکھنے آئی تھیں۔ اس خیال سے وہ کھل اٹھی، خالہ تم بیٹھو، میں ابھی ماں کو لے کر آتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ دوڑتی ہوئی فہیم صاحب کے گھر گئی۔ بیل دی۔ سیٹھ نہی کا بیٹا باہر آیا۔ وجاہت بھائی کیا میری ماں اندر ہے؟ | ہاں ہے تو اس نے سپاٹ آواز میں جواب دیا۔ آجاؤ ۔ وہ سامنے سے ہٹ گیا۔ قیصرہ سیدھی غسل خانے کی طرف گئی جہاں اس کی ماں اکثر کپڑے دھو رہی ہوتی تھی، وہ وہاں نہیں تھی ۔ پیٹ تو سامنے وجاہت کو کھڑا پایا۔ ماں تو ادھر نہیں ہے۔ وہ ادھر ہو گی۔ وجاہت نے کمرے کی جانب اشارہ کیا۔ وہ بھی ماں بھی جھاڑ پونچھ میں گئی ہے۔ مگر وہاں بھی نہ تھی۔ تبھی لڑکی نے سب کرے دیکھ لئے ، وہاں اس کی ماں تو کیا کوئی ذی روح بھی نہ تھا۔ سارا گھر خالی پڑا تھا۔ وہ ادھر ادھر دیمیستی وجاہت کی طرف آئی جو برآمدے میں کرسی پر بیٹاخبار دیکھ رہا تھا۔ وہ گھر سے باہر جانے کی۔ تبھی وجاہت اس کے رستے میں آ گیا۔ کہاں چلیں، میرا ایک کام کر تی جائے کیا کام ہے مجھ کو باہر جانے دو۔ اس نے گھبرا کر کہا۔ تم تو خواہ مخواہ ہی ڈر رہی ہو۔ میں تم کو کھاتو نہیں جاؤں گا۔ وہ قیصرہ کو پر معنی نگاہوں سے گھورنے لگا۔ ہٹ جاؤ صاحب تھا۔ گھر میں مہمان آئے ہیں، دیر ہورہی ہے۔ اماں کو اگلے گھر جا کر بلانا ہے۔ ایک شرط پر جانے دوں گا، میرے سر میں درد ہے، ذرا ساد باد و قیصرہ سمجھ گئی یہ شرط اتنی سادہ نہیں، پھر بھی چھٹکارے کی خاطر کہا۔ اچھا کرسی پر بیٹھے جائے، میں دبا دیتی ہوں، مگر مجھ کو جلدی جانے دینا۔ خالہ میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔ ابھی وہ بات پوری بھی نہ کر پائی تھی کہ وجاہت نے جھپٹ کر اس کی کلائی پکڑ لی، گرفت اتنی مضبوط تھی کہ قیصرہ کے پسینے چھوٹ گئے۔ ایسے ہلکے ہاتھ سے نہیں ذر از دور سے۔ وجاہت نے زبردستی اس کا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ کر کہا، | زور سے و باد و. پھر اس کا دوسرا ہاتھ پکڑ کر دوسری کنپٹی پر رکھا۔ وہ اس کی کنپٹیوں کو اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کے ساتھ دبارہی تھی اور وہ مزے سے آنکھیں بند کئے بیٹا تھا۔ بس اب جاؤں، دیر ہورہی ہے۔ نہیں۔ اچھا گیٹ کھول دیتی ہوں۔ کیوں کیا مجھ سے ڈر لگ رہا ہے۔ ہاں۔ یہ کہہ کر وہ گیٹ کی طرف بڑھی اور لاک کا بٹن د بادیا۔ خبر دار اگیٹ نہیں کو کھولنا۔ چلو اب آجاؤ ادھر ، شاباش تھوڑا سا اور د باد و ناچار وہ پھر سے اس کی کنپٹیاں دبانے گی۔ اب وہ رو بھی رہی تھی لیکن و جاہت پر اس کے رونے کا کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ اس کے رونے کے مزے لے رہا تھا۔ پھر وہ اس کو ستانے لگا۔ آنسو بہانا چھوڑ آنسو تو بس آج کے دن ہیں۔ کل دیکھ لینا۔ تجھ کو کل نہ پڑے گی آئے بنا۔ خود بخود دوڑی چلی آئے گی۔ اس کی باتوں سے دل اور جلا۔ وہ دل ہی دل میں اس کو بد دعا دینے لگی۔ اتنے میں گیٹ کھلا اور دفعت اس کے والد صاحب بر آمد ہوئے۔ وہ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اچانک اس وقت آ گئے تھے اور گیٹ کی دوسری چابی ان کے پاس تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کے سپوت نے ملازمہ کی لڑکی کو پکڑا ہوا ہے اور وہ ر ور ہی ہے۔ باپ کو سامنے دیکھ کر وجاہت پر تو جیسے آسمان گر پڑا ہو۔ سیٹھ نہم کو دیکھ کر قیصرہ کی جان میں جان آگئی۔ وہ ان سے جا کر لیٹ گئی اور بابا جان کہہ کر بلک بلک کر رونے گی۔ ایک ایک اس کو اس وقت اپنے مرحوم باپ کا خیال آگیا کہ اگرنہ مرتے تو آج وہ اور اس کی ماں لوں در بدر نہ ہوتے۔ سیٹھ صاحب بھی سٹپٹا گئے۔ پی کو خود سے الگ کیا اور رونے کا سبب پوچھا۔ وہ کیا بتاتی ، اس کا حلیہ ان کے بیٹے کی زیادتی کی چغلی کھارہا تھا۔ تم بتاؤ وجاہت کیا ہوا ہے اسے۔ کیا تم نے اسے کچھ کہا ہے؟ وہ کیا جواب دیتا، اس کا تورنگ اڑ گیا تھا۔ انہوں نے پی کے گال پر سرخ نشان دیکھا تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کیا تم نے اس کو تکلیف پہنچائی ہے وجاہت۔ باپ نے گرج کر سوال کیا۔ وجاہت تیزی سے اپنے کمرے میں جاکر چھپ گیا۔ قیصرہ نے روتے روتے سارا احوال سیٹھ صاحب کو کہہ سنایا۔ مجھی کھڑے کھڑے انہوں نے ایک عجیب فیصلہ کر لیا اور فون کر کے اپنی بیوی کو جلد گھر پہنچنے کو کہا۔ جو اس وقت اپنے بھتیجے کی شادی میں گئی ہوئی تھی۔ وہ گھبرا کر گاڑی میں بیٹھ گئی اور ڈرائیور سے کہا۔ کار جلدی چلاؤ، خدا جانے گھر میں کیا افتاد پڑ گئی ہے جو مجھ کو شادی کے گھر سے بلا رہے ہیں۔ بیگم آ گئیں۔ صاحب فیصلہ کر چکے تھے۔ انہوں نے ڈرائیور کو بیچ کر قیصرہ کی ماں کو بلوایا اور کہا کہ ہم نے فیصلہ لیا ہے تمہاری لڑکی کو اپنی بہو بنانے کا، تم کو اس بات پر اعتراض تو نہیں، اگر ہے تو بیان کر دو۔ ہم آج شام تمہاری لڑکی کے ساتھ اپنے بیٹے کا نکاح چاہتے ہیں۔ فہیم صاحب کی بیوی اور قیصرہ کی ماں دونوں عورتیں ہی کا کیا ان کا منہ تکنے ارے بھی حیران کیوں ہورہے ہیں آپ لوگ، جب میں نے گھر میں قدم ر کھا کھ این احوال دیکھا کہ سمجھ گیا میرا بیٹا قیصرہ کو بہت پسند کرتا ہے۔ اب ہم وجاہت کی پسند کا احترام کرتے ہوئے اس کا نکاح قیصرہ سے کرنا چاہتے ہیں، اگر کسی کو اعتراض نہیں ہے اس بات پر تو ہمیں اپنے لڑکے کی دلی آرزو پوری کرنے دیجئے۔ سب سے زیادہ اعتراض تو خود وجاہت کو تھا جو ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد اب انجینئرنگ میں داخلہ لینے کو پر تول رہا تھا۔ ارے میں پڑھائی بعد میں ہوتی رہے گی اور ہم کب ابھی رخصت کر رہے ہیں، رخصتی دو سال بعد ہوگی لیکن نکاح بھی ہو گا۔ سیٹھ صاحب کے سامنے کسی کو مارنے کی مجال نہ تھی۔ حتی کہ ان کی بیوی اور وجاہت کو بھی نہیں۔ وہ پیسے والے تھے توان کار اب بھی بڑا تھا۔ قیصرہ کی ماں خاموش تھی۔ اس نے صرف اسی قدر کہا۔ سیٹھ ہی یہ فیصلہ آپ نے لیا ہے تو آخر تک نباہ کا چارہ بھی آپ کو کرنا پڑے گا۔ یہ میری بیٹی کی زندگی کا سوال ہے۔ تم فکر نہ کر و ذکیہ بہن... آج سے میں اس کا سر پرست ہوں۔ قیصرہ کا بال بھی بیگانہ ہو گا۔ بس تم کہاں کہہ دو اور قیصره سے بھی ہاں سننا چاہتاہوں ۔ کس کی مجال تھی جو "ہاں، نہ کہتا۔ ذکیہ خالہ کی تو لاٹری نکل آئی تھی اور قیصرہ کے خواب اس اونچے گھر سے وابستہ ہو گئے۔ البتہ وہ اور اس کی والدہ مہر بلب تھیں۔ اسی عالم میں بازار جا کر نکاح کا جوڑا لڑکی کے لئے اور شیر وانی کلاہ لڑ کے لئے خریدا گیا۔ رات آٹھ کے مولوی صاحب نکاح پڑھانے تشریف لے آئے۔ قیصرہ کو سیٹھ صاحب کے گھر ہی نکاح کا جوڑا پہنا کر ہلکا پھلکا میک اپ کر دیا گیا۔ اور زیورات کا ایک سیٹ بھی سیٹھ نہیم نے دیا کہ بچی کو پہنا دو۔ تمام کام اللہ کی مرضی سے جھٹ پٹ ہو گئے۔ بعد نکاح دو چار قبر میں لوگوں کی موجودگی میں کھانا ٹیبل پر سجا دیا گیا۔ مٹھائی کا ایک ایک ڈبا مہمانوں کی نذر کیا گیا۔ وہ کھانا تناول فرما کر چلے گئے تو سیٹھ صاحب قیصرہ اور اس کی والدہ کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ان کے گھر چھوڑنے آئے ۔ ذکیہ سے کہا۔ بہن اب آپ کی لڑ کی ہماری امانت ہے۔ اسے میں گھر سے باہر گھومتا پھر تانہ دیکھوں اور آپ بھی اب گھروں میں کام کرنے نہ جائیں گی، جب تک آپ کی بڑی بیٹیوں کے رشتے نہیں ہو جائیں اور یہ اپنے گھر کی نہ ہو جائیں آپ کا خرچہ ہمارے نے ۔ بعد میں آپ بھی ہمارے گھر آجائیں گی کیونکہ اب آپ کار بن سہن ہماری عزت سے وابستہ ہے۔ بزرگ بچوں کی نالیوں کی سزا کئی طرح سے دیتے ہیں لیکن سیٹھ نہیم صاحب نے جو سزا تجویز کی انوکھی سز ان کے بیٹے کے لئے ایک سبق بھی تو ایک غریب بیوہ کی بیٹی کی زند کی بھی سنور گئی۔


Post a Comment

0 Comments