Shajar Bey Saaya Ho Gae Tum Teen Auratien Teen Kahaniyan khawateen digest kahaniyan online khawateen |
ہم اپنے گھر میں بہت ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے، جہاں میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت بنگلے میں رہا کرتی تھی۔ میرے خاوند ایک آفیسر تھے، جن کی کبهی پہلی شفٹ کی ڈیوٹی ہوتی تھی اور کبھی سیکنڈ شفٹ کی۔ میرے میکے والے لاہور میں رہتے ہیں۔ ایک روز خط آیا تمہاری چھوٹی بہن کی شادی ہے۔ بچوں کے ہمراہ شرکت کرو۔ بارات لاہور سے کراچی جانی تھی۔ میں نے بچوں کی اسکول سے پندرہ دن کی چھٹی لی اور ہم شادی میں شرکت کرنے لاہور چلے گئے۔ دس دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ شادی کا ہنگامہ ختم ہوا اور میں نے واپسی کی تیاری کر لی۔ ابھی میں اسٹیشن سے گھر پہنچی ہی تھی کہ ایک لڑکی آگئی۔ خاصی خوبصورت تھی۔ وہ بے دھڑک میرے گھر میں چلی آئی تھی۔ آتے ہی نوکر کو آواز دینے لگی۔ بولی۔ ارشد صاحب کہاں ہیں؟ اپنے میاں کا نام سن کر میں کمرے سے باہر نکلی۔ وہ برآمدے میں کھڑی تھی۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹکی پھر گھبرا کر واپس لوٹنے لگی۔ میں نے کہا۔ آپ اندر آیئے، تشریف رکھئے اور مجھے بتایئے کہ آپ کو ارشد صاحب سے کیا کام ہے؟ وہ کہنے لگی۔ بس ان ہی سے کام ہے۔ میں پھر آ جائوں گی۔ میں نے سوال کیا آپ آئی کہاں سے ہیں؟ اپنا نام تو بتا جائیں، میں انہیں کیا بتائوں کہ کون آیا تها...؟ لیکن اس لڑکی نے میرے ان سوالات کا کوئی جواب نہ دیا۔ میں حیرت سے اس کو جاتے ہوئے تک رہی تھی۔ ہماری کالونی میں شام کو سب آفيسرز کی بیگمات مل کر گپ شپ کیا کرتی تھیں اور رات کو دس بجے تک تمام ایک دوسرے سے اسی طرح ہنستی بولتی اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتی تھیں۔ ہماری زندگی بڑی شاہانہ، حسین اور دلکش تھی۔ جب ارشد ڈیوٹی سے لوٹتے تھے۔ سب کو کبھی سیر کو لے جاتے کبھی کوئی گیم کھیلتے۔ زندگی کی حقیقی مسرتوں سے ہر وقت دل لبریز رہا کرتے تھے۔ اس روز ارشد شام کو ڈیوٹی ختم کر کے لوٹے، حیران ہوئے اور بولے۔ ارے آپ لوگ تو پندرہ دن لاہور میں گزارنے گئے تھے اور دس دن بعد لوٹ آئے، مجھے اپنے آنے کی اطلاع بھی نہیں دی، میں اسٹیشن پر لینے آتا۔ میں نے کہا۔ ارشد بس ایسے ہی بیٹھے بیٹھے جی گھبرایا، دل اداس ہونے لگا تو میں بغیر ٹکٹ کرائے ہی ریل گاڑی میں سوار ہو گئی۔ اپنے گھر آکر بڑا سکون ملا۔ سوچا شادی کا ہنگامہ تو نمٹ گیا اب پانچ دن خواہ مخواہ وہاں رہنے کا کیا فائدہ ہے۔ بچوں کے اسکول کا حرج ہو رہا تھا... خیر وہ ہمارے اس طرح آنے سے بھی خوش ہو گئے۔ بچے اپنے پاپا سے لپٹ گئے۔ رات کو بچے اپنے کمرے میں سو گئے اور مجھے کچھ فرصت ہوئی تو یاد آیا کہ آج ایک لڑکی ارشد کا پوچھتی ہوئی گھر آئی تھی، میں نے ان سے کہا نہ جانے کون تھی اور آپ سے کیا کام تھا، کچھ بتایا بھی نہیں اس نے، شاید کالونی میں کسی کے گھر مہمان آئے ہوں گے ان میں سے کوئی نہ ہو ... چار دن گزرے ایک صبح ارشد ڈیوٹی پر جانے کے لئے نکلے ہی تھے کہ وه پهر آگئی۔ آتے ہی سوال کیا۔ ارشد صاحب کیا چلے گئے؟ مجھے ان سے ملنا تھا۔ میں اس وقت گیٹ پر کھڑی تھی کیونکہ میں ہمیشہ ارشد کو گیٹ پر الوداع کہہ کر خود گیٹ بند کرتی تھی۔ اندر آجایئے۔ میں نے اس روز بھی پوچھا کہ آپ کون ہیں اور کس کے گھر سے آئی ہیں اور آپ کو ارشد سے کیا کام ہے لیکن آپ نے مجھے کچھ بتایا نہیں لڑکی نے ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے صرف اتنا کہامیں چلتی ہوں مجھے جلدی ہے۔ اور وہ گیٹ ہی سے واپس چلی گئی۔ اب میں کچھ شش و پنج میں پڑ گئی۔ آخر یہ کون ہے؟ اس کو میرے خاوند سے کیا کام ہے؟ نام بھی نہیں بتاتی۔ میں نے سمجھا کہ میرے خاوند آفیسر ہیں اور یہ ضرورت مند ہوگی۔ کوئی کام ہوگا۔ کسی مشکل میں گرفتار ہو گی مجھے بتانا نہیں چاہتی ہوگی۔ رات کو میں نے ارشد سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے میری جان آپ بھی کمال کی ہیں، ہمیشہ ادھوری بات کرتی ہیں۔ کم از کم اس سے معلوم تو کیا ہوتا کہ وہ کس گھر سے آئی تھی۔ اچھا آج میں صبح ہی شفٹ میں جاکر پوچھوں گا کہ مہمان کس کے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ دن کے دو بجے ارشد نے آ کر کھانا کھایا اور خود ہی مجھے بتایا کہ میں نے تو سب سے پوچھ لیا ہے کہ آپ کے گھر کوئی مہمان تو نہیں آئے مگر کسی نے بھی ہاں میں جواب نہیں دیا۔ شاید وہ کہیں باہر سے آئی ہو گی۔ خیر اب آئے تو نام معلوم کرلینا۔ اس کے بعد کافی دن گزر گئے اور میں اس لڑکی کو بھول گئی کہ ایک دن وہ اچانک دوپہر کو پهر آگئی۔ اس روز میرے شوہر شہر سے باہر کسی کام سے گئے تھے اور ڈیوٹی پر بھی نہیں گئے تھے۔ میں نے اپنے بیٹے کو اشارہ کیا کہ جا کر گیٹ کو تالا لگا دو۔ اس نے آتے ہی سوال کیا ارشد صاحب کہاں گئے اور کب آئیں گے؟ اس بار میں نے کچھ درشتی سے کہا۔ جب تک مجھے اپنا نام پتا نہیں بتائو گی میں تمہیں کچھ نہ بتائوں گی۔ اس پر وہ واپس جانے لگی...لیکن گیٹ پر تالا دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اب میری باری تھی۔ میں نے کہا۔ تم جانتی ہو میں کون ہوں؟ میں ارشد کی بیوی ہوں اور یہ گهر جہاں تم کھڑی ہو میرا ہے۔ آخر تمہیں ارشد سے کیا کام ہے؟ آخر تم کیا چاہتی ہو...؟وہ بولی۔ میں صرف ارشد صاحب سے ملنا چاہتی ہوں۔ کام بھی انہی کو بتائوں گی۔ آخر کیا؟ کون سا ضروری کام ہے جو مجھ سے راز بنا کر چھپا رہی ہے؟ یہ اپنے خاوند سے پوچھنا کہ میں کون ہوں اور مجھ کو ان سے کیا کام ہے؟ میں نے کہا۔ میں نے ان سے پوچھا تھا لیکن وہ تم کو جانتے نہیں ہیں تو کیا بتائیں گے۔ کہنے لگی۔ وہ مجھے جانتے ہیں اور بہت اچھی طرح جانتے ہیں میں نے کہا بکواس نہ کرو۔ یوں گھر میں چلی آتی ہو جیسے تمہارا گهر ہو، پھر مجھ کو پریشان کر کے چلی جاتی ہو۔ آج تو میں گیٹ نہیں کھولوں گی، جب تک کہ مجھ کو تم اصل بات نہیں بتان وه غصہ میں لال پیلی ہو گئی۔ کہنے لگی۔ بٹ جائو میرے راستے سے، جو میں کہوں گی سن نہ سکو گی۔ میں نے کہا کیوں نہیں سن سکتی، مجھے حوصلہ ہے سننے کا تم کہو تو سہی... تو سنو، تمہارے خاوند نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا ہے اور وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں تھرا اٹھی۔ میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور کہا کہ دیکھ لڑکی... كان کھول کر سن لے وہ چار بچوں کے باپ ہیں اور ہر وقت ان کے پاس میں رہتی ہوں اور اگر میں بازار بھی جاتی ہوں تو وہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ تو کبھی اکیلے کہیں نہیں جاتے۔ تو کیسے کہہ رہی ہے کہ وہ تجھ سے ملتے ہیں اور شادی بھی کرنے والے ہیں۔ کافی تکرار کے بعد میں اپنا غصہ ضبط نہ کر سکی اور میں نے اس کے منہ پر دو تھپڑ رسید کر دیئے۔ اس کے تو ہوش اڑ گئے اور وہ رونے لگی۔ میں نے کہا خاموش رہو۔ تم میرے خاوند کو بدنام کر رہی ہو، اس چار بچوں کے باپ کو رسوا کرنے پر تلی ہو۔ وہ ایک بڑے آفیسر ہیں اور یہ ان کی نوکری کا معاملہ ہے۔ ان کے کیریئر پر کیا اثر پڑے گا، یہ تم نہیں جانتیں۔ اس پر اس نے کہا۔ مجھے تو وہ کہتے ہیں کہ میں تم سے شادی کروں گا چاہے اس کے لئے مجھے یہ نوکری ہی کیوں نہ چھوڑنی پڑ جائے ... خیر میں کتنی دیر کسی جوان لڑکی کو اپنے گھر میں قید رکھ سکتی تھی۔ میں نے بالآخر گیٹ کا تالا کھول دیا اور وہ چلی گئی۔ جب ارشد گهر آئے تو ان کا موڈ کچھ خراب تھا۔ بچوں سے پوچھا کیا کوئی یہاں آیا تھا۔ انہوں نے سارا واقعہ اپنے پاپا کو سنا دیا۔ وہ تو جیسے آگ بگولہ ہوگئے۔ کہنے لگے۔ رفیعہ یہ تم نے اچها تماشا نہیں کیا۔ اب تم گھٹنوں میں سر دے کر روئو گی۔ اس کے اگلے دن انہوں نے نوکری سے استعفی دے دیا۔ اس کے بعد وہ کراچی چلے گئے، سعودی عرب میں ایک اسامی کا انٹرویو دینے کے لئے۔ واپس آکر انہوں نے مجھے اور بچوں کو میرے ماں باپ کے گھر چھوڑا اور خود سعودی عرب چلے گئے۔ ان کو گئے ہوئے چار سال ہو چکے ہیں۔ انہوں نے پلٹ کر ہماری خبر بھی نہیں لی۔ اب بچوں کا یہ حال ہے کہ وہ نہ پڑهتے ہیں اور نہ ہی کوئی کام کرتے ہیں۔ ایک بیٹا دو مرتبہ فیل ہو چکا ہے۔ تیسرے نمبر والا ہمیشہ کلاس میں فرسٹ آتا تھا وہ بھی فیل ہو گیا ہے۔ چھوٹا پانچ سال کا ہے مگر وہ کسی قیمت پر اسکول نہیں جاتا۔ میں بہت بیمار رہنے لگی ہوں۔ ارشد کو سعودی عرب خط لکھ لکھ کر تھک گئی ہوں، کوئی جواب نہیں دیا۔ الله کا شکر ہے کہ مجھے انہوں نے ابھی تک طلاق نہیں دی۔ لیکن اب تک مجھے یہ پتا نہیں چلا کہ وہ لڑکی کون تھی اور جو کہتی تھی سچ کہتی تھی یا غلط اور یہ کہ ارشد نے اس سے دوسری شادی تو نہیں کر لی۔ مجھے کسی سے بھی یہ پتا نہ چل سکا کہ اصل معاملہ کیا تھا اور نہ ہی میرے خاوند نے مجھے کچھ بتایا۔ مجھ بدنصیب کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ میرا کیا قصور تھا جو اس طرح میری اچھی بھلی ہنستی مسکراتی زندگی میں یہ بھونچال آ گیا۔ ارشد اگر تم یہ سطور پڑھ لو تو تمہیں الله کا واسطہ گھر آجائو، میرا قصور اگر کوئی ہے تو معاف کردو۔ تمہارے بچے جو اعلى اسکولوں میں تعلیم پا رہے تھے، اب گلیوں کے اواره لڑکوں کے ساته تمام وقت لڑتے بھڑتے اورقت لڑتے بھڑتے اور کھیلتے ہیں۔ ان پر کچھ ترس کھائو۔ بڑا بیٹا بارہ سال کا ہے، تمام دن وہ گهر نہیں آتا، نہ جانے کہاں پھرتا رہتا ہے۔ باپ کے بغیر بچےبے سایہ ہوگئے ہیں۔ کاش! کوئی مجھے بتا دے کہ ارشد نے ایسا کیوں کیا...؟
0 Comments