Urdu funda Story |
ہمارے گائوں کے ایک گھرانے میں دو ایسے بھی بھائی تھے جن کی ماں، بیٹوں کی شادی دو بہنوں سے کرانا چاہتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ میری دونوں بہو وہیں اگر آپس میں سنگی نہیں ہوں گی تو صلح صفائی اور محبت سے رہیں گی اور ہمارا گھران کے اتفاق کی برکت سے جڑا رہے گا۔ وہ بدلے میں اپنی لڑکی کا رشتہ بھی دینا چاہتی تھی۔ یہ دوسرے گائوں کے لوگ تھے اور یہ کھانا پیا گھر انہ تھا۔ میری ماں کو میں گھرانہ پسند آگیا۔ میرے بڑے بھائی سے مشورہ کیا کہ کبیر بیٹا تیرا کیا خیال ہے اگر ان سے ناتا جوڑ لیں؟ ہماری دو لڑکیوں کی شادیاں ہو جائیں گی اور بدلے میں ان کی لڑکی مل گئی تو میرا بھی گھر آباد ہو جائے گا۔ ماں جو تم چاہو، مجھے منظور ہے لیکن اتنا خیال رہے کہ گھرانہ بے شک دولت مند ہو۔ لوگ شریف ہوں کہ کل کو جگ نسائی نہ ہو جائے۔ ماں نے پر لے گائوں کے منظور حسین کے گھر آنا جانا شروع کر دیا۔ اس گھر کا سرپرست فوت ہو چکا تھا۔ وہاں بھی دو لڑکے اور ایک لڑ کی غیر شادی شدہ تھے مگر ان کی بڑی لڑکی کی شادی ہو چکی تھی۔ میں نے اپنی ہونے والی بھائی کو دیکھا۔ بڑی تیز طرار، بنی ٹھنی ہوئی، خوبصورت تھی۔ بات چیت ، میٹھی زبان، گفتگو سے دل جیت لیتی تھی۔ یہ لڑکی تھی تو گائوں کی، مگر طرز تعلیم اور وضع قطع سے لباس کا سلیقہ اور پینے اوڑھنے کا شعور شہر کی لڑکیوں جیسا تھا۔ اس کا نام عذرا اور بڑی بہن کا شاداب تھا۔ میں نے عذرا کی ایک جھلک کبیر بھائی کو دکھائی۔ ان کو بھی یہ لڑ کی بجھائی، چھ کہوں تو چھوٹی زیادہ خوبصورت تھی۔ بھائی نے اماں سے کہا۔ بس یہیں رشتہ کرادو۔ اچھا پہلے ذرا ان کی عادت ، شناخت کا اتا پتا کر لینے دو۔ اس گائوں میں میری والدہ کی ایک رشتہ دار ہی تھیں۔ ان سے ماں نے پتا کروایا۔ وہاں کے چند شناساگھرانوں نے رائے دی کہ یہاں رشتہ سوچ سمجھ کر کرنا، یہ کچھ اور طرح کے لوگ ہیں۔ ایک نے تو صاف کہہ بھی دیا کہ یہاں رشتہ مت کرنا، اچھے لوگ نہیں ہیں۔ بھائی یقین لڑکی کی ایک جھلک دیکھ لٹو ہو گئے تھے۔ کہنے لگے ۔ ارے اماں جس قدر چھان بین کر و گی، اتنے ہی کنکر لوگ نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیں گے ، رشتوں ناتوں کے معاملے میں بہت کم لوگ مخلص ہوتے ہیں اور نہ تم کو اس معاملے میں جوڑنے والوں سے زیادہ توڑنے والے ہی ملیں گے۔ یہاں رشتہ ہو جائے گا تو ہماری دونوں لڑکیوں کا بھی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کہتے تم ٹھیک ہو۔ عفت اور ندرت ایک گھر میں ہوں گی تو دونوں بہنیں دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیں گی۔ غرض اماں نے ہامی بھر لی اور رشتے طے ہو گئے۔ منظور حسین کی لڑکی عذرا بیاہ کر ہمارے گھر آگئی اور ہم دو بہنیں عذر کے دونوں بھائیوں کی دو بہنیں بن کر ان کے وہاں چلی گئیں۔ چند دن ہنسی خوشی گزر گئے۔ سال بعد اللہ تعالی نے ہم دونوں بہنوں کے بیٹے اور ہماری بھابی عذر کو بیٹی عطا کر دی۔ ہم سب اس سنجوگ پر بڑے خوش تھے۔ بظاہر کوئی اختلاف نہ تھا، سوائے اس کے کہ ہماری بھی اکثر و بیشتر این بیاہتا بہن کے گھر گئی رہتی تھی۔ ہماری ماں کو بس اسی بات پر اختلاف تھا کہ بہو ماں کے گھر جانے سے زیادہ بڑی بہن کے وہاں جانا ہنا پسند کرتی ہے۔ خیر اس اعتراض کے باوجود دونوں گھروں میں زندگی کی گاڑی بہ خوشی چل رہی تھی کہ تین گھر آباد تھے۔ اماں جب بھی کبیر بھائی سے اس کی بیوی کے بہین کے وہاں جارہنے کی شکایت کرتیں، بھائی ان کو سمجھا دیا کہ ذرابرسے کام لو۔ رفتہ رفتہ اپنے گھر میں دل لگا لے گی۔ شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ عذرا کو بڑی بہن سے بہت لگائو ہے بھی وہاں چلی جاتی ہے۔ میں خود تو اس کو چھوڑ کر آتا ہوں اور بہن اس کی واپس چھوڑ جاتی ہے۔ ایک روز بھائی کبیر کو علم ہوا کہ وہاں محکمہ میں ایک اسامی خالی ہے۔ بیوی کی بہن کے گھر کو دہی دیکھ کر انہوں نے ایک دوست سے شہر رابطہ کیا جس نے متعلقہ محکمہ کے افسر سے کہہ کر میرے بھائی کا تبادلہ پر لے گائوں کر دیا۔ اب تو بھائی کا ر وز موٹر سائیکل پر شادو کے گائوں آنا جانار ہنے لگا اور بھائی کی بہن کے گھر آنا جانا بھی مشکل نہ رہا۔ کبیر بھائی صبح ڈیوٹی پر جانے کو تیار ہوتے، بھائی بھی ان کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ بہن کے وہاں چلی جاتی۔ پہلے عذر پندرہ روز بعد ایک دن کو جاتی تھی، اب ہفتے میں دو بار جانے گئی۔ اس بات سے میری اماں کو بہت تکلیف ہوئی کہ ہماری لڑکیاں تو ماہ دو ماہ بعد میکے آئیں اور ان کی بہو ہفتہ میں دو بار وہ بھی ماں کے گھر نہیں بلکہ بڑی بہن کے گھر جانے ،۔ یہ آنا جانا اب تو ماں کو اور زیادہ کھانے لگا کہ بہو کے یوں روز کے آنے جانے سے ان کو کام کاج کا کشٹ بھی اکیلے ہی اٹھانا پڑتا تھا۔ جس گائوں میں بھائی کبیر کا تبادلہ ہوا تھاوہ ہمارے اماں ابا کے گھر سے تیرہ چودہ میل پرے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عذرا بھائی وہاں جا کر ایک دور وزرہ پڑتی کہ اب تو کبیر کار وز کا آنا جانا ہے، جب چاہوں گی چلی جائوںبھائی کا تبادلہ محکمہ انہار کے ایک ذیلی دفتر میں ہوا تھا۔ یہاں کام کا اتناد بائو نہ تھا۔ ملازمین ویلے بیٹھے ہوتے تو ادھر ادھر کی بات کے اور بھی کنوارے مردوں والی گپ شپ بھی کرتے کہ اس گائوں کی فلاں لڑکی تو بس لاکھوں میں ایک ہے۔ اس گپ شپ میں کچھ شادی شدہ مرد بھی گفتگو میں شامل ہو جاتے تھے۔ ایک روز یہ فارغ حضرات آپس میں ایسی ہی باتیں کر رہے تھے کہ بھائی بھی ان کے پاس جا بیٹھا۔ لڑکیوں کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک دوست بولا۔ شادو بڑی تیکھی ہے تو دوسرے نے کہا۔ اور عذرا بار وہ تولا جواب ہی ہو گی۔ ہاں مگر اس پر زیاد مال خرچ کرنا پڑے گا۔ شاید اور جب سے اس کی شادی ہوئی ہے، آسانی سے تو مل نہیں سکتی۔ جب شاد و کاموقع لگ جائے گا، وہ مل سکتی ہے۔ شادو اور عذرا کے نام سن کر بھائی کے کان کھڑے ہو گئے کیونکہ ہماری بھابی کا نام بھی عذرا اور اس کی بڑی بہن کا شاد و تھا۔ کون سی شاد و یار؟ بھائی نے سوال کیا۔ ارے وہی جن کا گھر کمیٹی چوک کے پاس ہے۔ منظور مرحوم کی بیٹی ہے۔ وہ خود تو بھلا مانس تھا۔ اس کے مرتے ہی لڑکیوں نے پر پرزے نکال لئے۔ گویاوہ بھائی اور اس کی ہمشیرہ محترمہ کا ذکر کر رہے تھے۔ بھائی کے توکان سنسنانے لگے۔ بیوی کے یوں جلد جلد اپنی ہمشیرہ کے گھر دوڑ کر جانے کا مطلب سمجھ میں آنے لگا۔ اس روز تو وہ وہاں سے اٹھ کر گھر آگئے لیکن دل میں اک تیر سا پیوست تھا کہ جس کو نکالے بتا چین سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ دوسرے روز اکیلے میں اس آدمی سے کہا کہ شادی کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائو، کیونکہ میں تو یہ جانتا ہوں کہ وہ ایک شریف آدمی کی بیوی ہے۔ وہ کہنے لگا۔ رہنے دے یار ، همت شرافت پر تہمت لگا۔ اگر یقین نہیں استاتو کل ہی بلوائے دیتا ہوں۔ جانے کیا سوچ کر بھائی نے ر تم اس آدمی کے ہاتھ پر رکھ دی کہ بس صرف ایک جھلک، بس دیدار کرنا ہے۔ وہ دن بہت بے چینی سے کاٹا۔ کبیر نے دعامانگی خدا کرے وہ شاد ان کی بیوی کی بہن لیکن ان کی سالی نہ ہو۔ بھائی نہ تو اپنے گھر کی بربادی چاہتے تھے اور نہ ہم دونوں بہنوں کو اجاڑ کر گھر واپس لا بٹھانا چاہتے تھے۔ بھائی عذر سے بڑا پیار تھا۔ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ ان کو طلاق دے دیں گے لیکن اب تو شیر کے منہ میں سر دے دیاتھا اور وہ جو کہتے ہیں کہ اوکھلی میں سرد یاتو موسل سے کیا ڈرنا۔ سومو سل کو خود دعوت دے بیٹھے۔ شام کو اسی شخص کے ڈیرے پر ان کے ساتھ گئے اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ دل دھڑک رہا تھا۔ حلق خشک تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر میں صور پھونکا جانے والا ہے۔ رات کے ساڑھے دس بچے تھے کہ ایک شخص ایک برقع پوش عورت کو لے کر آ گیا۔ لالٹین کی روشنی میں کبیر بھائی نے اس کو دیکھا، وہ شاد وہی تھی۔ ان کی سالی، جس کی عزت وہ بہنوں کی طرح کرتے تھے۔ ان کی پیار کی بیوی کی بہن تھی۔ اس کا گورا گورا کھرا، کالے برقع میں چک رہا تھا۔ جو بھی اس کی نظر بھائی پر پڑی، چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ اچھا تم ہو وہ شاد و جس کے سارے گائوں کے آوارہ مزاج مردوں کی زبان پر چرچے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گئے اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گھر آگئے۔ رات کی طرح قیامت کی چاند کی اور میں ہی ماں کو یہ مژدہ سنا دیا کہ عذرا کو طلاق دے دی ہے۔ ماں نے لاکھ منع کیا روکتی رہیں کہ بیٹا وہ شاد و نھی عذر اتونہ تھی۔ تم بس بیوی پر روک لگادو کہ ادھر کا رخ کرے اور نہ ان سے واسطہ رکھے ، اپنا اور اپنی بہنوں کا گھر کیوں برباد کرتے ہو مگر مردذات کی فطرت میں شک بار ہوتا ہے اور جب معاملہ بیوی کا ہو تو اس کے گھر والوں کی نیک چلنی کی ضمانت بھی چاہیئے ہوتی ہے۔ اگلے روز عذرامیکے پہنچادی گئی جس کے جواب میں ہم دونوں معصوم و بے قصور بہنوں کو بھی شوہروں نے طلاق دے دی کیونکہ ان کی بہن کو شک کی بناپر ہمارے بھائی نے طلاق دے دی تھی۔ ہمارے دونوں بیٹے ان کے پاس اور بھائی کی لڑ کی دادی کے پاس۔ چے بھی اجڑے اور ہم بھی۔ اب ہم بہنیں روتی تھیں کہ بھائی تم نے تو ہم پر قیامت ڈھادی۔ ہم اچھی بھلی اپنے گھروں میں آباد تھیں ، ہمارا کیا قصور تھا کہ ہمارے گھر اور بچے ہم سے ناحق چھن گئے۔ گائوں کا مگر یہ دستور تھا کہ اگر ایک عورت کو شوہر طلاق دے دے تو اس کے بدلے کی بیاہی عورت کو بھی طلاق مل جاتی ہے اور دونوں طرف کے گھرانے اجڑتے ہیں۔ یہاں تو تین گھر اور نو نفوس بر باد ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد کبیر بھائی کو احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی غیرت کو بچایاگر ہم بہنوں کی خوشیوں کا بھی ناحق خون کیا۔ ہمارے شوہر ہم کو ہر گز طلاق نہ دینا چاہتے تھے۔ وہ ہم سے خوش تھے اور ہم بہنیں دونوں اپنے شوہروں سے راضی تھیں۔ ہمارے پی بھی اتنے چھوٹے تھے کہ ابھی بولنانہ لکھے تھے کہ اپنی تکلیف کسی کو بتا سکتے۔ اماں الگ غم سے نڈھال کہ ہمارے سروں پر باپ کا سایہ بھی موجود نہ تھا۔ اب وہ اٹھتے بیٹھتے بیر بھائی کو کوسنے گئیں۔ تبھی ایک روز میرے ناشاد دل بھائی کے کیا ہی میں سنائی کہ جا کر دریا میں چھلانگ لگادی اور یوں زندگی کے عذاب سے چھٹکارا پایا۔ بچپن سے جس دریا کی موجوں سے ان کو ڈر لگتاتھا اور تیراکی نہ سیکھی تھی، اسی کو بانہوں میں اپنا آپ سپر د کر کے زندگی کے جھنڈوں سے نجات پالیں۔ اگر ہم بہنوں اور بیوہ ماں کو غم کے ایسے سمندر میں دلیل دیا کہ جس سے نکل بھاگنا اب مارے بس کی بات نہ تھی۔ ہماری تو برادری والوں نے اور جگہ شادیاں کروادیں مگر اماں جب تک تیار ہیں ، بیٹے کی یاد میں آنسو بہاتی رہیں۔ بالآخر آنکھوں کا نور ھو کر قبر میں جاسوئیں۔
0 Comments