Urdu funda story Apney Keye Ki Saza Teen Auratien Teen Kahaniyan |
میرا بھائی یوسف مجھ سے چھ برس چھوٹاتھا ہم دونوں کی پرورش والدہ کے بعد بابا جان نے کی اور انہوں نے ہماری خاطر دوسری شادی نہ کی۔ ایک بیوہ بچھو پی ساتھ رہتی تھیں، وہ ہماری دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔ جن بچوں کی مائیں نہیں ہوتیں ان کو بہت سے مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ان کے رشتوں کے لئے تگ و دو ہے جس کے لئے والدہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جب ہم شادی کی عمر کو پہنچ چوپ وفات پاگئیں جو ہمارے لئے ایک ماں کے جیسی تھیں ۔ والد بزنس میں مصروف رہتے تھے اس وجہ سے میری شادی کی عمر نکل گئی اور میں بن بیاہی رہ گئی۔ لیکن میرے بھائی کا گھر آباد ہو جائے ، اب میرا یہی زندگی کا مقصد تھا۔ بھائی 25 برس کے ہو چکے تھے اور میں ابھی تک اس کے لئے کوئی مناسب لڑ کی ڈھونڈنے میں گئی تھی۔ انہی دنوں جب میں یوسف کے لئے لڑ کی تلاش کر رہی تھی، ہمارے گھر کے سامنے ایک مختصر سا خاندان آکر آباد ہوا۔ میاں بیوی اور ان کے دو چکے تھے۔ خاتون خانہ کا نام زر پینہ تھا۔ اس کی چھوٹی بہن بھی ساتھ رہتی تھی جو خاصی خوبصورت تھی اور اس کی عمر 17 سال تھی۔ یہ لڑکی مجھ کو پہلی ہی نظر میں بھاگئی۔ اس کا نام ستارہ تھا۔ سوچا کہ ان کے گھر آنا جانار کھنا چاہئے۔ اگر اچھے لوگ ہوئے توزر پینے سے اس کی بہن ستاره کار شتہ یوسف بھائی کے لئے طلب کر لوں گی۔ اس طرح پیوسف کا گھر آباد ہو جائے گا اور میں اس کے بچوں کی خوشیاں دیکھوں گی۔ میں نے زرینہ کے گھر جانے میں پہل کی، اس کے بعد وہ بھی آنے جانے گئی۔ ستارہ بھی ساتھ آئی۔ اس سے بات چیت کا موقع ملتا۔ رفتہ رفتہ اس لڑکی نے میرے دل میں گھر کر لیا۔ میں نے یوسف سے ذکر کیا۔ آپاجو لڑکی آپ پسند کریں گی، مجھے اعتراض نہ ہو گا، اس نے جواب دیا۔ میں نے ستارہ کو پسند کر لیا ہے، تم ذرا مجھ سے تعاون کر و۔ اس فیملی کا تم کبھی کچھ اتا پتا کرو۔ ایک دو بار تمہارا ان کے گھر آنا جانا ہو گا تو تم کی رائے قائم کر پائو گے۔ میری پسند ہی کافی نہیں، تمہاری زندگی کا معاملہ ہے۔ اس میں تمہاری پسندیدگی اور رائے بھی ضروری ہے۔ اچھاتو آپ مجھے کیا کرنا ہوگا؟ ان کے گھر کیسے آناجانار ھوں؟ مذاق کی بات نہیں ہے یوسف۔ تم زرینہ کے بچوں کے لئے کھلونے لے آئو، اور کبھی مٹھائی۔ میں تمہارے ہاتھ بجھوائوں گی۔ تم ان کے گھر بیل دینا۔ کوئی گیٹ کھولے گا، کہنا سامنے والی شگفتہ آپا نے یہ کبھجوائے ہیں۔ اپنا تعارف کروانا کہ میں آپا شگفتہ کا چھوٹا بھائی ہوں ۔ وہ بلائیں تو اندر چلے جاتا، چائے وغیرہ سے تواضع تو ضرور کریں گے، کیونکہ جب زرینہ، بہن اور بچوں سمیت ہمارے گھر آتی ہے میں خوب تواضح کرتی ہوں۔ اس طرح یہ تمہیں ستارہ کو دیکھنے کے علاوہ اس سے بات چیت کا موقع بھی ملے گا، ان کے بچوں کو کھلونے دے کر دوستی کر لو۔ رشتوں میں دیکھ پر تھا اور ان کی عادات و اطوار کا مشاہدہ کرنے کے لئے یہ سب کر نا ہی پڑتا ہے۔ گویا میں نے اپنے بھائی کو اپنی سمجھ کے مطابق رستے پر لگادیا۔ ظاہر ہے ہمارا کوئی بزرگ تو موجود تھا نہیں، کہ جس سے ہم مشورہ کرتے یا اس کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے۔ اب یوسف بھائی میر کی جانب سے بھی کچھ بھی کچھ دینے کے بہانے جاتے۔ زرمینہ ہی دروازہ کھولتی، وہی ان کو گھر کے اندر لے جاتی اور وہی ان کو مینی دی، بات چیت کرتی، جبکہ ستارہ دور سے سلام کرتی۔ چائے وغیرہ بنا کر لاتی اور میز پر رکھ کر چلی جاتی۔ یوں رفتہ رفتہ بھائی زرینہ یعنی ستارہ کی بڑی شادی شدہ بہن سے ہی زیادہ مانوس ہو گیا۔ زرینہ کا شوہر اکثر گھر پر نہ ہوتا، وہ رات گئے لوتا تھا۔ کم گو تھا، پاس پڑوس سے ملتا جلتا نہ تھا۔ مینکا گیارات کو آنا۔ چھٹی کے دن بھی کم ہی گھر پر رہتا تھا۔ زرینہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کاروبار میں اس قدر مصروف رہتا ہے کہ اس کے پاس اپنی بیوی بچوں کے لئے ٹائم نہیں ہے۔ پاس پڑوس کے لئے کہاں سے وقت نکال سکتا ہے ؟ غرض اس کی ابھی تک کسی کے ساتھ شناسائی نہ ہو سکی تھی۔ زرینہ اور اس کے شوہر کی عمروں میں بھی کافی فرق تھا۔ کم از کم 20 برس کا فرق تو ہو گا۔ اس کے بال کنپٹیوں پر سے سفید ہورہے تھے۔ قدرے فربہ اندام اور رنگت سرخ و سفید۔ یہ کافی خوش لباس شخص تھا اور مالی طور پر خوشحال بھی۔ اچھی گاڑی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کے ہوتے ایک بیوی خوش باش زندگی بسر کر سکتی ہے، پھر بھی جب یوسف سے زرینہ بات کرتی، تو وہ شوہر کاگلہ ہی کرتی۔ بقول زرینہ کہ اس کا جیون ساتھی بیوی کو گھر میں صرف اس قدر اہمیت دیتا تھا کہ یہ عورت اس کے بچوں کو پالنے کے لئے بھی ہے، تبھی اس کے گھر کی چھت تلے پڑی رہے۔ وہ جوان بیوی کے ارمانوں اور حسرتوں سے قطعی لا تعلق تھا۔ عورت کو جذباتی سکون میسر نہ تھا اور اس کی تباہی کی ساری ذمہ داری اس کے شوہر فہد پر تھی۔ جو دن رات دولت کمانے اور اس دولت کو غلط جگہوں پر الثانے کے چکر میں رہتا تھا۔ زرینہ اس طرح درد بھرے پیرائے میں اپنے شوہر کی زیادتیوں کا ذکر کرتی کہ کوئی انسان اس سے ہمدردی کئے بنانہ رہ سکتا تھا۔ یوسف بھائی کو بھی اس خاتون سے ہمدردی ہو گئی۔ اب اس کی توجہ ستارہ سے ہٹ کر زرینہ پر مرکوز ہو گئی ۔ ستارہ تو بہن کے گھر میں ایک بے جان گڑیا کے جیسی تھی جس کی اپنی نہ کوئی زبان تھی اور نہ کان تھے۔ جیسا نہیں کہ وہ کرتی، جیاوہ سجھائی نہ تھا۔ وہ اس آنے والے مہمان سے بھی دور دور رہیں کہ جس کو زرینہ گرم جوشی سے خوش آمدید کہتی تھی۔ میرے بھائی نے زرینہ کو پہلی بار اس کے گیٹ پر ہی دیکھا تھا۔ جب اپنے بچوں کے ساتھ وہ گیٹ کھولنے آئی تھی اور بھائی نے میری طرف سے اس کو بھیجی گئی پلائو کی ایک بڑی ڈش پڑھائی تھی۔ اپنے پہناوے اور شکل و صورت سے تو معلوم نہ ہوتی تھی کہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ یوں بھی اس میں ایسی کوئی بات نہ تھی کہ اس کو پہلی بار دیکھ کر انسان بھی کی جائے۔ وہ خوبصورت نہ تھی، البته قبول صورت ضرور تھی۔ رفتہ رفتہ اس کا یوسف بھائی سے کرائو ہونے لگا۔ اب اگر بھائی اپنی گاڑی اسٹارٹ کرتاوہ آواز سن کر گیٹ پر آجاتی۔ کہتی جب فراغت ملے آجانا، آپ سے کچھ باتیں کر ناہیں۔ بھائی کی جانب اس کے جھکا کا مطلب اب تک میں نہیں سمجھتی تھی کہ وہ اپنی بہن ستارہ کے لئے میرے بھائی میں د چینی لے رہی ہے کیونکہ وہ بھی بہن کا رشتہ تلاش کرنے کی تگ و دو میں تھی، جس کا اس نے اشارت مجھ سے تذکرہ بھی کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ خود تو شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں تھی۔ ایسی عورت بلا وجہ تو کسی نوجوان کو اپنے گھر بٹھا کر خاطر تواضع نہیں کرتی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ اب زرمینہ اپنی بہن کا رشتہ طلب کرنے پر انکار نہ کرے گی تو میں نے اس کی دعوت کی تاکہ مد عالینی زبان پر لے آئوں اور رشتے کی بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ وہ بچوں سمیت دعوت میں آگئی، مگر اس کے ساتھ ستارہ نہیں تھی۔ میں نے پوچھا، ستارہ کو کیوں نہیں لائیں، میں نے تو اس کو بھی مدعو کیا تھا۔ کہنے گی۔ والدہ کی طبیعت اچانک ناساز ہوگئی ہے۔ ان کا فون آیا کہ ستارہ کو بھجوا دو۔ فہد نے بھی اسلام آباد جانا تھا۔ وہ اس کے ساتھ ان کے پاس چلی گئی ہے۔ میرادل بجھ سا گیا۔ جس کی خاطر دعوت کی وہی چلی گئی تھی، خیر میں نے مدعا بیان کر دیا۔ وہ بولی۔ آپا امی سے پوچھ لوں تو آپ کو ہاں یانہ میں جواب دے پائوں گی۔ میں نے یوسف کو بتایا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا مگر وہ بدستور زرینہ کے گھر جاتا ہے۔ وہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس عورت کو مظلوم سمجھتا تھا۔ اس نے زرینہ کو سمجھایا کہ یا تو وہ نیک اور صابر عورت کی مانند ہر قسم کے حالات میں شوہر کے گھر میں رہے یا پھر اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ ایک روز میں زرینہ کے گھر گئی تاکہ اس سے ستارہ کے رشتے کے بارے میں جواب لوں۔ وہ بولی۔ آپا امی سے بات ہوئی گی انہوں نے اس کا رشتہ اسلام آباد میں اپنے جانے والوں میں کر دیا ہے۔ تار ان کی بیٹی ہے۔ میں اس سلسلے میں امی کو مجبور نہیں کر سکتی۔ اس کے اس جواب سے میر کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ناامید ہو کر گھر لوٹ آئی۔ اس کے بعد زرینہ سے میل جول محدود کر دی لیکن میرا بھائی اس کے گن گانے لگا۔ یوسف اکثر زرینہ کی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتا اور افسوس کرتا کہ اتنی اچھی عورت کی قسمت خراب نکلی ہے۔ کن عذابوں سے گزر رہی ہے۔ ایک روز زرینہ نے یوسف کور ور و کر اپنی گھریلو زندگی کی بہت کچھ اس طریقے سے سنائی کہ وہ مجھ سے کہنے لگا۔ آپا اگر آپ اس بچاری کو اس جہنم سے نکالنے میں میرے ساتھ تعاون کریں تو میں آپ کا مشکور ہوں گا۔ تمہارا کیا مطلب ہے یوسف ؟ میں سمجھی نہیں۔ یہ کہ اگر وہ اپنے شوہر سے طلاق لے لے تو میں اس سے شادی کر لوں گا اور آپ تعاون کریں گی۔ دو بچوں کی ماں سے ؟ کیا ہو گیا ہے میرے بھائی تم ہیں۔ آیا۔ وہ بچوں کی ماں ہوتا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ کیا اس کا شوہر اس کو طلاق دے دے گا یا نہیں۔ میں نے تو ویسے ہی بات کی ہے کہ اگر زرینہ کو طلاق ہو جائے تو کیا آپ اس کو قبول کر لیں گی، اگر میں سہارا دے دوں؟ میں نے جان لیا کہ بھائی پر اس عورت کا جادو چل گیا ہے۔ یہ کیا ہو گیا تھا؟ میں نے کس خیال سے اس کے زرینہ کے گھر بھیجا اور یہ کس چکر میں جا چھنا۔ اب نہ زرینہ یوسف کے بغیر رہتی تھی اور نہ یوسف اس کے بنارہ سکتا تھا۔ ان کو محلے والوں کے اعتراضات کی بھی پروا نہ رہی تھی۔ اب یوسف کی زندگی کا مقصد زرینہ کو اپنالینا، اس کو اپنے تئیں خوشیاں اور سکھ دینا اور اس کے بچوں کو پاتاپوست تھا۔ بالآخر زرینہ نے اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر طلاق لے لیا۔ اس کا سابق شوہر بیرون ملک چلا گیا۔ میرے لا کھ روکنے کے باوجود یوسف نے زرینہ سے شادی کر لی۔ اس کے بچوں کو بھی گھر لے آیا۔ وہ ان سے ایک حقیقی باپ جیسا پیار کرتا تھا۔ اس نے زرینہ کو بھی بہت پیار دیا کہ وہ اپنی زندگی کے پچھلے د کھ بھول گئے۔ سال بعد زرینہ نے ایک پیاری سی بچی کو جنم دیا جو میری بھی تھی اور یوسف بھائی کی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی سے اختلاف سہی، مگر اب مجھ کو زرینہ کو بطور بھائی قبول کرنا تھا کہ نھی منی گڑیا ساحرہ اس کے بطن سے جنم لے چکی تھی، جو ہمارا اپناخون تھی۔ میں اس بچی کے پیار میں کھو گئی جیسے اس کے آنے سے میری اجڑی اجڑی زندگی میں بہار آگئی ہو۔ اب زرینہ بھائی اور یوسف بھائی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہو گئے کہ وہ مستقبل میں اولاد کے رشتے سے بندھ گئے تھے جو ایک شادی شدہ جوڑے کو مضبوطی سے باندھے رکھتا ہے۔ دن یونہی گزرتے رہے ، انکی شادی کو پانچ سال بیت گئے دو اور چپ ہو گئے۔ میں نے بھی بھائی کے بچوں میں کھوکر ہر بات کو بھلا دیا۔ سوچا کہ جب بھائی زرینہ سے خوش ہے تو مجھے کیا اعتراض ؟پیار برقرار رکھنا چاہئے ۔ زندگی تو انہوں نے گزارنی ہے۔ وہ سکھ چین کی زندگی بسر کر رہے تھے اور گھر میں بچوں کی رونق سے میں بھی خوش تھی۔ پانچ سال بعد ایک دن فہد اچانک ہمارے گھر کے دروازے پر آیا اور کہا کہ میں اپنے بچوں سے ملنے آیا ہوں۔ ہم نے اس بات پر تو اعتراض نہ کیا کہ وہ اپنے بچوں سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے۔ یہ تو ماں کی طرح ہر باپ کا بھی حق ہوتا ہے کہ اپنے بچوں سے ملے لیکن ہمیں اعتراض یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں سے ہمارے گھر میں نہ ملے بلکہ ان کو باہر لے جا کر ان سے ملے۔ اور پھر چاہے تو واپس چھوڑ جائے۔ زرینہ بچوں کو باہر نہ بجھوائی تھی۔ فہد اگر ان کو بلواتاتو کہتی کہ ملنا ہے تو یہاں آکر مل جائو۔ مجھے ڈر ہے تم بچوں کو روک لو گے اور پھر مجھے نہ ملنے دونگے۔ یوسف بھائی نے اس کو سمجھایا کہ یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تمہار سابق شوہر میرے گھر پر آنے جائے ، بے شک بچوں کو جہاں چاہے بلوائے مگر وہ نہ مانی۔ اس بات پر زرینہ اور یوسف کے در میان جھگڑارہنے لگا۔ تاہم یہ جھگڑے وقتی ہوتے اور میاں بیوی میں جلد صلح ہو جاتی۔ بھائی سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ زرینہ بھی ان سے بے وفائی بھی کر سکتی ہے۔ تین سال میں نہ ہمارے گھر بچوں سے ملنے دس، بار بار آیا اور ہم نے برداشت کر لیا۔ بچوں کی خاطر انتقا ت انہیں دنوں میرے بھائی کو کار و بار میں گھاٹا ہو گیا۔ انہوں نے ملازمت کرلی، پھر وہ ملازمت بھی جاتی رہی۔ بھائی کا ہاتھ تنگ ہو گیا۔ ادھر پانچ بچوں کے تعلیمی اور دیگر اخراجات کو پورا کر نالازم تھا، سو بھائی بہت پریشان رہنے لگا۔ فہد سعودی عربیہ چلا گیا تھا۔ وہاں مقدر کا ستارہ ایسا چکا کہ وہ لاکھوں کمانے لگا۔ بعد کوزر مبادلہ وہ پاکستان میں لے آیا اور یہاں ایک شاندار کو بھی بنوالی۔ ٹھاٹھ سے رہنے لگا۔ پھر سے بزنس شروع کر دیا اور دولت بڑھتی گئی۔ جانے کب اور کیونکر زرینہ کے اپنے سابقہ شوہر سے مراسم استوار ہو گئے ، وہ ہمارے گھر بچوں کے اخراجات کے لئے رقم اور بہت سی اشیاء بجھوانے لگا۔ جس کو زرینہ اس کے بچوں کا حق کہہ کر وصول کر لیتی تھی جس سے اس کا ہاتھ کھلا ہو گیا۔ بھائی کی تنگ دستی نے اس کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ زرینہ ، یوسف بھائی کو دبانے لگی اور شوہر سے موڈ بھی خراب رکھنے گئی۔ بھائی کی زندگی میں آہستہ آہستہ زہر گھولنے لگا۔ ادھر قسمت کا چکر ایسا تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود یوسف کے ذرائع آمدنی ختم ہو گئے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔ جب بیوی کو قید کا بھیجا ہوار و پیہ لینے سے روکتا وہ لڑنے لکتی کہ پانی بچوں کو کبھی کامیار و گے۔ آخر ان کو کہاں سے کھلائوں، جب کمانے لگوگے تو پھر میں فہد کور تم نے سے منع کر دوں گی۔ اب اگر اپنے بچوں کی خاطر خرچہ بھجواتا ہے تم کو کیا تکلیف ہے؟ تم خودتو خرچہ اٹھ نہیں سکتے۔ اس کی بات بھی ہی تھی ، لیکن بھائی کی غیرت بھی گوارا نہ کرتی تھی کہ محض روپے کی مجبوری کی وجہ سے فہد سے زرینہ رابطے میں رہے۔ بھائی اب اپنے سابق شوہر سے فون پر بات چیت بھی کرتی بلکہ اکثر بغیر بتائے گھر سے چلی جاتی تھی۔ کوئی پوچھتا کہ کہاں گئی تھیں تو الجھ پڑتی۔ اکثر اپنے پہلے والے دونوں بچوں کو ہمراہ لے جاتی ، ان سے پوچھے، کہاں گئے تھے ، وہ بتاتے کہ اپنے ابو کے پاس گئے تھے۔ انہوں نے فون کر کے بلوایاتھا۔ اسی لے کر گئی تھیں۔ یوسف بھائی ان بچوں کو روکتے، وہ کہتے کہ آپ کیوں روکتے ہیں، ہم سے ابو سے ملنے جاتے ہیں۔ آپ تو ہمارے سوتیلے ابو ہیں۔ بتا نہیں سکتی ان دنوں یوسف کس قدر اذیت کا شکار تھا۔ اس کا دل ہر دم روتا تھا۔ وہ گھر جو بھی جنت کا نمونہ تھا اب جہنم بن چکا تھا۔ ہم یہ تصور نہ کر سکتے تھے کہ زرینہ ہمارا گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اگر دو چے فہد کے تھے تو تین چی اس کے پاس ہمارے بھی تھے۔ ان بچوں کی جدائی کے خیال سے ہی ہم منیم جان ہونے لگتے تھے۔ ایک روز بھائی نے زرینہ کو بازار میں فہد کی گاڑی سے اترتے دیکھ لیا۔ وہ وہاں شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھی۔ اس روز بہت جھگڑا ہوا۔ بھائی نے وہ سب چیزیں ادھر ادھر پھینک دیں جو وہ ہمارے بچوں کے لئے بھی لائی تھی کہ یہ چیز میں اس نے فہد کے پیسوں سے خریدی تھیں۔ جب بڑے دو بچوں کے لئے خریدیں تو چھوٹے تعین کے لئے بھی ویسی ہی خرید لیں کہ وہ تو سبھی کی ماں تھی۔ یوسف بھائی کو یہ بات گوارانہ تھی ۔ وہ چلانے لگے کہ تم کو یہاں رہنا ہے تو فہد کے چے اس کے حوالے کر دو، ورنہ میرے بچے ادھر چھوڑ دو اور چلی جائو، فہد کے پاس۔ زرینہ بھابی خوب روئیں، بالآخر یہی فیصلہ ہوا کہ وہ سابق شوہر کی اولاد کو اس کے حوالے کر دے گی۔ فہد کے بچوں کو ان کے والد حوالے کر دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھائی کو ایک پل چین نہ تھا۔ وہ اندر اندر بچوں کی یاد میں لے گئی۔ اس کا حال ماہی بے آب کا سا ہو گیا۔ اس نے کہہ دیا کہ وہ بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یوسف بھائی نے کہا تو میں تمہارے بچوں کو واپس لے آتا ہوں۔ اب فہد نہ دیں گے ، تو کیا مجھ سے طلاق لینا چاہتی ہو۔ نہیں۔ اگر لے بھی لوں تو کیا یہ تین بچے تم مجھ کو دے دو گے؟ بھائی بولے۔ ہر گز نہیں، میں اپنے بچے کیوں دوں؟ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر یہ کیسے گوارا کر لوں کہ میرے ہوتے میرے بچے کسی اور شخص کے گھر میں ہیں۔ اس طرح جھگڑا بڑھتا گیا۔ آخر کار بھائی نے تینوں چے رکھ لئے اور زرینہ بھائی کو طلاق دے کر روانہ کر دیا۔ وہ فہد کے گھر چلی گئی اور اس نے اپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر لیا۔ سال بھر بھائی کے بچوں کو میں نے سنبالا مگر وہاں کو نہ بھلا سکے۔ وہ ناخوش اور بیمار رہنے لگے۔ بالآخر سب سے چھوٹا میرا بھتیجا بیدار رہ کر فوت ہو گیا۔ اس کے فوت ہو جانے سے بھائی کے دل پر گہری چوٹ گئی۔ اپنے دل پر پتھر کی سل رکھ کر ہم نے باقی دونوں کے زرینہ کو واپس کر دیئے تا کہ وہ ماں کے پاس خوش رہیں۔ دو ماہ بھی نہ گزرے کہ وہ فہد بیوی بچوں کو لے کر سعودی عربیہ چلا گیا۔ میں اور بھائی بچوں سے ملنے سے کبھی رہ گئے۔ اس کے بعد یوسف بہت تنها اور اداس ہو گیا۔ اس نے میرے اصرار کرنے پر بھی دوسری شادی نہ کی۔ رفتہ رفتہ حالات سنوارنے کی کوشش میں لگ گیا تا کہ اپنے بچوں کو خوشحال ہونے کے بعد واپس لا سکے۔ حالات تو نجل گئے مگر پے واپس نہ آئے کیونکہ وہاں کے پاس رہنا چاہتے تھے۔ ہم ہی کو صبر کرناپڑا۔ یوسف بھائی کہا کرتے تھے کہ یہ مجھے میرے کئے کی سزاملی ہے۔ میں احمق اگر زرمینہ کی باتوں میں نہ آتا، اس سے ہمدردی کر کے اس کا گھر برباد کرنے کا باعث نہ بنتاتو آج میرا گھر برباد ہو تا اور نہ دل اجڑتا۔ اب تو دونوں ہی بر باد ہیں۔
0 Comments