Search Bar

Urdu story Badgumani Ka Shaaksanah Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Urdu story Badgumani Ka Shaaksanah  Teen Auratien Teen Kahaniyan


ہم پہاڑی لوگوں کی بھی عجیب رسمیں ہیں جن کی زد میں آ کر کبھی گھرانے ہی تباہ ہو جاتے ہیں اور بھی خاندان مایا میٹ ہو کر رہتے ہیں۔ ایسی ہی داستان میرے بھائی حکمت یار اور بھابھی افسر جان کی ہے۔ یہ آج سے چالیس برس قبل کا قصہ ہے جب میرے بھائی حکمت یار کی عمر سترہ برس تھی۔ ان دنوں ہم کوہ سلیمان کے ایک پہاڑی گائوں میں رہتے تھے۔ ایک روز میرا بھائی میں نماز پڑھنے کے بعد سیر کو نکلا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ دور چند نوجوان ایک شخص کو گھیرے کھڑے ہیں، خطرہ محسوس کرتے ہوئے ودان کی طرف گیا۔ یہ بھائی کے کچھ دوست تھے جو ہمارے اپنے گائوں کے باسی تھے۔ وہ جس نوجوان کو گھیر کر جھگڑے میں الجھارہے تھے وہ کسی گائوں کا باشندہ تھا۔ شاید اس کے یا اس کے کسی بھائی بند کے ساتھ ان کی دشمنی تھی۔ وہ آج ان کے ہاتھ آگیاتوانہوں نے گھیر لیا۔ بھی حکمت یار پہنچا اور دیکھا کہ جو نوجوان ان میں گھرا ہوا ہے، وہ اس کا پرانا ہم جماعت ہے ، ان دنوں کا جب وہ اسکول جایا کرتا تھا۔ بہر حال بھائی کے اس پرانے ہم جماعت کا نام زرش خان تھا۔ اس نے بھی حکمت یار کو پہچان لیا۔ پانچویں سے مڈل تک دونوں نے ساتھ پڑھا تھا۔ حکمت نے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ تم لوگ کیوں اس کو گھیرے ہو اور جھگڑا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس نے اور اس کے بڑے بھائی نے ہم سے چار تھیٹر میں لی تھیں اور چھ ماہ بعد ان کی قیمت جو طے شدہ تھی، دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن سال گزر گیار تم نہ دی۔ اب یہ کہتا ہے کہ جتنی رقم بھی وہی ادا کروں گا اور تاخیر قرضہ کا اوان جو سود ہوتا ہے وہ میں ادانہ کروں گا۔ یاد رہے کہ چھ ماہ کی مدت گزر جانے کے بعد سے تاخیر کی تاوان اس پر ادا کر نارواج کے بطور واجب ہو جاتا تھا۔ زرش چار بھیڑ وں کی اصل خرید کی رقم لا یا تھا اور واجب تاوان ادا کرنے سے انکاری تھا۔ یہی جھگڑا تھا۔ اگر یہ تاوان نہ دیں گے تو ان پر وار کرنا ہمارا حق بنتا ہے کیونکہ یہ معاہدہ خلافی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے۔ حکمت یار نے اپنے دوستوں کو سمجھایا کہ تم لوگ اس معاملے کو جر گہ کے ذریعے حل کر سکتے ہو تو پھر اس اکیلے اور نہتے لڑکے کو گھیر کر اس پر وار کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ تم میری بات مان جائو اور اس کو چھوڑ دو۔ اصل زر اس سے لے لو اور جو تمہارے حساب سے تاوان بنتا ہے وہ میں تم کو ادا کر دیتا ہوں کیونکہ زیرش خان میرا بچپن کا دوست ہے اور میں اپنے دوست کو اس طرح مصیبت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ چونکہ وہ ہمارے رشتہ دار بھی تھے، بات مان گئے۔ انہوں نے زرش کو چھوڑ دیا اور اصل زر لے کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد زرش خان بھائی کا بہت مشکور ہوا کیونکہ وہ بغیر بندوق کے تھا اور ہمارے گائوں کے نوجوان کے پاس بندوقیں تھیں۔ یہ تعداد میں چار تھے جن میں تین سگے بھائی اور ایک ان کا چچازاد تھا۔ اگر جھگڑا بڑھ جاتا تو یقینان میں سے کسی جذباتی نوجوان کی بندوق چلی جاتی اور پھر یہ دشمنی کا سلسلہ بہت آگے تک جاسکتا تھا۔ بہر حال اس روز زرش کو بھائی گھر لے آیا اور کھانا غیر وکلا اور پھر خود موٹر سائیکل میں شہر تک چھوڑ کر آگیا۔ حکمت اور زرش نے اکٹھے اسکول کی تعلیم مکمل کر لی ، ان کو پڑھنے کا شوق تھا۔ بھائی نے مجھے بھی شوق دلوایا کہ تم بھی شہر کے اسکول میں داخلے کے لو۔ میں نے والد سے ذکر کیا، اس وقت وہ منڈی میں میوہ جات فروخت کا کار و بار شروع کر چکے تھے۔ خاص مقامات میں پہاڑوں پر آگے چلغوزے خودر و جنگلات سے حاصل کئے جاتے تھے جن کا توڑنا بہت دشوار گزار کام تھا۔ تبھی یہ مہنگے سکتے تھے۔ میرے والد نے جب ان جنگلات سے ٹھیکیداری کا کام شروع کیا تو ہمارا کاروبار ترقی کرتا گیا۔ یہ عمدہ چلغوزہ دور دراز علاقوں مثلا چین اور بیرون ملک بر آمد ہوتا تھا کیونکہ اس کی کوالٹی کی مثال نہیں ملتی تھی۔ چلغوزے کے درخت خودرو ہوتے تھے۔ البذان کی بدولت ہماری غر میں دور ہوتی گئی اور بھیڑوں کے گلے پر انحصار کرنے والے ہمارے خاندان کے لوگ شہر کی میوہ منڈی کا رخ کرنے لگے۔ والد نے بھی کاروبار کی ترقی کی خاطر شہر میں گھر خرید لیا۔ اس طرح جب ہم گائوں سے نقل مکانی کر کے شہر میں آبسے تو میں نے اسکول اور حکمت یار نے بوائز کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس طرح ہم پہاڑی لوگوں پر تعلیم کے در وا ہو یہ بات بہت اچنے کی ہے کہ تعلیم بھی ہمارے پہاڑی رسم ورواجوں پر آج تک اثرانداز نہیں ہو سکی اور اپنے صدیوں پرانی ریت رواج کی پابند ہی یہاں ہر حال عزیز رکھی جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ توان کی پاسداری نہ کرنے والوں کو سنگین خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ شہر میں جو گھر والد صاحب نے لیا وہ زرش کے گھر کے قریب تھا، لذا ہمارے والدین کا اس کے والدین سے میل جول رہنے لگا۔ اسی طرح حکمت یار بھائی اور زرش کی دوستی بھی مزید پکی ہو گئی۔ دونوں ہی تقر یبروز بیٹھک میں ملتے اور اکٹھے شہر جاتے تھے۔ زرش نے ایف اے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی اور اپنے والد کے ساتھ دکان داری میں شامل ہو گیا جبکہ میرے بھائی نے بی اے مکمل کیا اور پھر وہ والد کے ساتھ ڈرائی فروٹ کی فروخت میں ہاتھ بٹانے لگا۔ زرش کو دکان داری میں مزا نہ آیا تو اس نے ٹیچر کی آسانی کے لئے درخواست دی۔ اس کی مراد بر آئی۔ اسے ایک پہاڑی گائوں کے اسکول میں ٹیچر کی تعیناتی مل گئی۔ وہاب روزانہ گھر نہیں آسکتا تھا، ہفتے میں ایک بار گھر آتا۔ اس کی بہن کا نام افسر جان تھا۔ وہ اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ چونکہ ہمارے پاس فروٹ کے کاروبار کی وجہ سے اپنی سواریاں تھیں، لہذا ایک ویگن میرے بھائی کی تحویل میں رہتی تھی جس پر وہ پہاڑ سے شہر کی منڈی میں مال پہنچاتا تھا۔ جب زرش خان ڈیوٹی سرانجام دینے علاقے چلا گیا تو اس کی بہن افسر جان کو اسکول پہنچانے والا کوئی نہ رہا کیونکہ زرش اپنی موٹر سائیکل پر ہی جاتا تھا۔ زرش کی امی میرے بھائی سے بہت پیار کرتی تھیں۔ وہ زرش سے ملنے ان کے گھر جاتا تو حکمت یار کو اندر بٹھاتیں، خاطر مدارت کر تھیں کیونکہ یہ بھائی ہی تھا جس نے ایک بار تاوان ادا کر کے زرش کی جھگڑے سے جان چھڑائی تھی اور اس کی جان بچائی تھی۔ یہ احسان اس کی امی کے لئے بہت بڑاتھا، تبھی وہ حکمت یار کو اپنے بیٹے جینا جانتی تھیں، اس پر اعتبار کرتی تھیں۔ ایک روز انہوں نے حکمت یار سے کہا۔ آج افسر جان کا سالانہ پرچہ ہے اور اس کو شہر کے امتحانی سینٹر لانا اور لے جانا ہے ، زرش تو ہے نہیں، میرے شوہر بھی دکان کا سامان لینے ملتان گئے ہیں۔ تم میری لڑکی کو سینٹر پہنچا کر امتحان و لوادو۔ ٹھیک ہے، خالہ جی میں لے جائوں گا۔ میرے بھائی نے کہا اور افسران کو سینٹر لے گیا جو گھر سے تقریبا آدھ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ جب وہ افسر جان کو سینٹر سے گھر واپس لا رہا تھا، راستے میں زرش خان کا ایک دوست مل گیا جس کا نام ریاض تھا۔ اس وقت یہ دونوں یعنی حکمت یار اور افسر جان باغ کے پاس پہنچے تھے، جہاں قریب ہی بھائی نے اپنی موٹر سائیکل کھٹری کی ہوئی تھی۔ جب ریاض نے دونوں کو باغ کی دیوار کے پاس دیکھا تو وہ سمجھا کہ یہ باغ کے اندر گھومنے گئے ہوئے تھے۔ ریاض بھی اسی اسکول میں ملازمت کرتا تھا جہاں زرش ٹیچر تھا۔ اس نے وہاں جا کر اس کے کان بھرے کہ حکمت یار اور افسر جان کو میں نے شہر کے پانی باغ میں گھومتے دیکھا ہے۔ تمہاری بہن کا حکمت کے ساتھ وہاں جانے کا کیا مقصد ؟ معلوم کرو، کیا معاملہ ہے؟ ووست بن کر کہیں تم سے دشمنی تو نہیں کر رہا۔ زرش یہ سن کر غسے میں گھر پہنچا اور آتے ہی وہ میرے بھائی کے گلے پڑ گیا، اس کو برا بھلا کہنے لگا۔ بولا کہ تم بے غیرت ہو۔ میں نے تم کو دوست سمجھا اور تم نے ہمارے ہی گھر کی عزت پر نظر رکھی ہے۔ وہ تو اپنی جگہ سچا تھا کیونکہ شریف انسان با غیرت ہوتا ہے ، لیکن اس کو اصل بات کا علم نہ تھا کہ سچائی کیا ہے اور کتنا جھوٹ ہے۔ اس لئے میرے بھائی سے کہا کہ تم آئندہ ہمارے گھر مت آنا۔ سب سے کٹھن بات یہ تھی کہ اس وقت اس کا غصہ دیکھ کر بھائی اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا۔ تاہم ان کو یقین تھا کہ جب دوست کی والدہ اس کو سب کچھ بتادیں گی تو اس کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ مطمئن ہو جائے گا۔ ایک ماہ تک نہ تو یہ دونوں ایک دوسرے سے ملے اور نہ ایک دوسرے کے گھر گئے۔ ایک ماہ بعد زرش کی والدہ حکمت یار کو بازار میں مل گئیں۔ بولیں، ارے بیٹا تم کہا غائب ہو نہ گھر آئے۔ اس نے بازار میں ان سے کوئی بات کہنی مناسب نہ سمجھی ، بھائی کے پاس ویگن تھی کہا۔ خالہ چلئے آپ کو گھر چھوڑ دوں۔ وہ اس کے ساتھ ویگن میں بیٹھیں اور گھر آگئے۔ خالہ اصرار کر کے حکمت یار بھائی کو گھر کے اندر لائیں اور ان کے لئے مشروب لینے چلی گئیں تبھی افسر جان سامنے آگئی تو بھائی نے اس کو سرسری احوال سے آگاہ کیا اور کہا۔ باقی باتیں تم کو خط میں لکھ کر بھیجوں گا کہ تمہارے بھائی نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ بعد میں اس نے تمام تفصیل اور ریاض کی بھڑکانے والی بات لکھ کر میرے ہاتھ افسر جان کو بھجوادی۔ اس نے بھی جواب میں خط لکھ کر مجھے دیا، جس میں لکھا تھا اگر ہماری بد نامی ریاض نے کرہی دی ہے تو پھر ڈرتے کیوں ہو۔ پسند کر اور شادی کرنا اگر کوئی جرم ہے تو پھر یہ جرم تم میری طرف سے سمجھ لو۔ یہ خط پاکر بھائی سکتے میں رہ گیا کیونکہ اس نے افسر جان کو ہمیشہ ایک بھائی کی نظر سے دیکھا تھا اور ایسا کوئی خیال تک اس کے بارے میں نہ کیا تھالیکن اس لڑکی نے گویایہ لکھ کر از خوداظہار محبت کر دیا۔ اب بھائی کے دل میں بھی فرق آ چکا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر دوست یہ سمجھتا ہے کہ میں خطاکار ہوں تو پھر یہیں سہی تاہم اس نے یہ بات اپنے تک رکھی لیکن زرش کے دل میں سخت کدورت آچکی تھی اور وہ اب حکمت یار کے خلاف منصوبے بنانے لگا تھا۔ خدا کی مرضی که از خود میرے والدین کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہم حکمت یار کے لئے افسر جہاں کار شده اس کے ماں باپ سے مانگ لیں۔ چونکہ ہمارے والدین میں عزت و احترام ، پیار محبت تھا، اذان کا خیال تھا کہ وہ لوگ بھی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار نہ کریں گے۔ ہوا بھی سہی، جب میری والدہ نے جا کر بات کی تو خالہ جی نے خوش ہو کر کہا۔ کیوں نہیں، میرے دل میں کبھی سہی بات تھی۔ مجھے حکمت یار سے بہتر داماد کہاں ملے گا، مجھے سر آنکھوں پر رشتہ منظور ہے۔ خالہ نے شوہر سے بات کی۔ وہ بھی خوش ہو گئے۔ میرے والد سے ان کی دوستی ہو گئی تھی۔ یوں بھی ہم ان لوگوں سے کہیں زیادہ خوشحال تھے۔ ایسے گھرانے میں کون بیٹی دینا پسند نہ کرے گا، جب لڑکی بھی دیکھ بھالا ہو۔ یہ بد قسمتی ہے جو بد مزگی حکمت یار اور زرش خان کے درمیان ہو چکی تھی، اس کا کسی کو علم نہ تھا۔ زرش نے اس بات کا گھر میں تذکرہ کیا اور نہ میرے بھائی نے کسی کو کچھ بتایا، سوائے افسر جان کے۔ ایک شام جب زرش گھر آیاتو پتاچلا کہ کل اس کی بہن اور میرے بھائی کی شادی کی بات کی ہونے جارہی ہے۔ اس خبر کو سنتے ہی وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ وہ اس قدر آگ بگولہ ہوا کہ اس کے والدین بھی ڈر گئے کہ زرش کو کیا ہو گیا ہے۔ اس نے کہا کہ حکمت یار اور افسر جان نے آپس میں مراسم استوار کر لئے تھے۔ اس لئے وہ شادی کر رہے ہیں۔ حکمت یار نے دوستی کی آڑ میں بے غیرتی کا جھیل کھیلا ہے۔ میں یہ شادی نہ ہونے دوں گا، اگر ہوئی تو دونوں کی جان لے لوں اس فیصلے سے دونوں کے والدین ہکا بکا رہ گئے کہ اس کو کس نے بجھٹکادیا ہے جو اپنے جگری دوست کے خون کا پیاسا ہورہا ہے۔ اس کو ابھی تک یہی غلط نہیں تھی کہ حکمت یار نے اس کے اعتبار کو دھوکا دیا ہے اور دوستی کی آڑ میں اس کی مبین سے محبت کی پین میں بڑھتارہا ہے۔ جس کا نتیجہ اب شادی کی صورت میں نکل رہا ہے حالانکہ ایسی بات بالکل نہ تھی۔ یہ مقدس بندھن بد دیانت کے سبب نہیں بلکہ دونوں کے والدین کی رضا اور خوشی سے باندھا جارہا تھا۔ بہر حال والدین اس وقت موقع کی نزاکت کو دیکھ کر خاموش ہور ہے۔ یہی سوچا گیا کہ زرش کی غیر موجودگی میں سادگی سے حکمت یار اور افسر جان کا نکاح کر دیا جائے گا اور بعد میں اس کو منا لیا جائے گا، تو رخصت کر دیں گے۔ زرش کے جانے کے بعد یہی ہوا کہ والدین نے خاموشی سے نکاح کی رسم ادا کر دیا۔ بعد میں لڑکی کے باپ نے خط لکھ کر بیٹے کو نکاح کی اطلاع کر دی۔ ان کا خیال تھا، نکاح ہو جانے کے بعد وہ مخالفت ترک کر دے گا کیونکہ بہن کی طلاق کا ہونا کسی بھائی کے لئے کوئی پسندیدہ امر نہیں ہوتا۔ عید آگئی۔ وہ عید سے تین دن پہلے گھر آیا۔ میرا بھائی اپنے ایک دوسرے کے ساتھ گھر سے باہر کھڑا تھا۔ اس نے بھائی کو دیکھتے ہی چھری سے اس پر حملہ کر دیا۔ حکمت کے دوست اصغر نے اس کو بچانے کی کو شش کی تو چھری اس کے کلیجے میں اتر گئی اور اسپتال لے جانے سے پہلے دم توڑ گیا۔ لوگ جمع ہو گئے ، انہوں نے زرش کو قابو کر کے حوالہ پولیس کر دیا۔ وہ جیل چلا گیا۔ کچھ رشتہ داروں کا خیال تھا کہ حکمت یار ،افسر جان سے شادی نہ کرے بلکہ طلاق دے دے اور بھی کہتے تھے، تقدیر سے جو ہو چکا، نکاح ہو گیا ہے، اب شادی ہو جانی چاہئے۔ زرش جیل میں تھا۔ اس کے باپ نے شادی کی تاریخ لے لی اور افسر جان کو رخصت کر کے حکمت یار گھر لے آیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد والدین نے یہ فیصلہ کیا کہ طلاق کی بجائے رخصتی زیاد و ثبت فیصلہ ہے اور باقی خداپر چھوڑ دینا چاہئے۔ زرش کو اس کے والد اور وکیل سزا سے نہ بچا سکے اور عمرقید ہوگئی ۔ حکمت یار افسر جان کو لے کر ملتان چلا گیا۔ وہ وہاں رہنے لگے۔ والد صاحب ملتان میں فروٹ سپلائی کرتے تھے اور ادھر کا بزنس حکمت بھائی سنبھالتے تھے۔ سات سال ان کی شادی کو گزر گئے۔ دونوں میاں بیوی خوش و خرم رو رہے تھے۔ تین بچے ہو چکے تھے کہ بالآخر زرش کو جیل سے رہائی نصیب ہوگئی۔ رہائی کے بعد وہ گھر نہیں آیا لیکن باہر باہر اس نے معلوم کر لیا کہ اس وقت حکمت یار اور اس کی بہن کہاں قیام پذیر ہیں۔ کچھ دن سی جگہ قیام پذیر رہا اور میرے بھائی اور بھابھی کے معمولات زندگی کو جانے میں لگار ہے۔ پھر ایک دن باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وہ ان کے گھر ایک دن رات میں اس وقت داخل ہو گیا جب وہ سورہے تھے۔ اس نے بہنوئی اور ان کے تینوں بچوں پر فائر کھول دیا اور ان سب کو موت کی ابدی نیند سلا کر اپنے دل میں کھٹر کتنی بدلے کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔ وہ آگ جور یاض بد بخت کی باتوں سے چنگاری بن کر اس کے اندر سکتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس نے اتنی بڑی خوفناک آگ کی شکل اختیار کر لی کہ اپنے بہنوئی دوست اور اپنی حقیقی بہن کے علاوہ ان کے تین معصوم بچوں کے خون سے ہی اس آگ کو ٹھنڈا کر کے وہ شانت ہو گیا۔ اسے پھانسی کی بھی پروانہ تھی۔ وہ خود پولیس اسٹیشن گیا اور خود کو تھانے دار کے حوالے کر کے پانچ قتل کرنے کا اعتراف کر لی اور اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔ یہ تھی ایک بد گمانی کی چنگاری جس کے سبب پانی انسانی جانیں اور دو خاندان تباہی کے الا تو میں جل کر راکھ ہو گئے۔


Post a Comment

0 Comments