Search Bar

Yehi Hai Azmaish Teen Aurtain Teen Kahaniyan Urdu Story

 

Yehi Hai Azmaish Teen Aurtain Teen Kahaniyan Urdu Story



میں ان دنوں بی اے فائنل میں پڑھ رہی تھی جب میرے لئے جلال کا پیغام آیا۔ مجھ کو شادی کا شوق نہ تھا۔ بس پڑھائی کی طرف دھیان رہتا تھا۔ میں ایم اے کرنا چاہتی تھی لیکن جلال نے بہت اصرار کرکے میرے والدین کو اس امر پر راضی کرلیا کہ بی اے کے امتحان ہونے کے بعد میری شادی اس سے کردی جائے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ جلال سے ہماری دور کی رشتہ داری تھی۔ وہ کبھی کبھی میرے بھائیوں سے ملنے ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ مجھ کو وہ پسند کرتے تھے۔ مجھ کو یہ معلوم نہ تھا لیکن میں نے کبھی ان کی جانب غور نہیں کیا تھا، تاہم شادی کے بعد مجھے وہ بہت اچھے لگے اور میں بھی ان سے محبت کرنے لگی۔ جلال ایک اچھے عہدے پر فائز تھے۔ کار، کوٹھی، نوکر سب کچھ انہیں ملے ہوئے تھے۔ عزت اور اختیارات بھی تھے۔ میری زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ میں بہت خوش تھی۔ سوچتی تھی لڑکیاں جن چیزوں کی آرزو کیا کرتی ہیں، الله تعالی نے وہ نعمتیں مجھ کو بن مانگے ہی دے دی ہیں۔ خاص طور پر ایک محبت کرنے والا شوہر جو ہزار جان سے مجھ پر فدا تھا۔ میری ہر خواہش کا وه احترام کرتے تھے جو مانگتی تھی، حاضر کردیتے تھے۔ غرض ہمارا گھر جنت جیسا تھا۔ نزہت میری سہیلی تھی۔ وہ میرے ساتھ اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ ہم دونوں میں بڑی محبت تھی۔ ایک دن پریشان اور روتی ہوئی ملی۔ نازو...! میرے والدین کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا، تب سے بھائی جان بہت بے رخی برتنے لگے۔ وہ میری شادی کے لئے کوشش نہیں کرتے اور میرے ساتھ حسن سلوک سے بھی پیش نہیں آتے۔ جی چاہتا ہے کہ خودکشی کرلوں۔ میں نے کہا۔ اگر تم اپنے گھر سے اتنی ہی تنگ ہو تو میرے پاس آکر ره جائو۔ بشرطیکہ تمہارے بھائی اور بھابی کو اعتراض نہ ہو۔ میں تمہاری شادی کے لئے بھی کوشش کروں گی۔ نزہت خوش ہوگئی۔ بھائی، بھابی کو کیا اعتراض ہوگا۔ میں تو ان پر ایک بوجه ہوں اور وہ چاہتے ہیں کہ کل کی جاتی آج ہی چلی جائے۔ اس کے بعد وہ اپنا تھوڑا سا ضرورت کا سامان لے کر ہمارے گھر آگئی اور گھر کے فرد کی

طرح ہمارے ساتھ رہنے لگی۔ جلال کو میں نے نزبت کے حالات بتا دیئے تھے، یوں بھی میں ہر کام اپنی مرضی سے کرسکتی تھی۔ وہ مجھے کچھ نہ کہتے تھے۔ نزہت آرام و سکون سے ہمارے گھر تھی۔ ایک کمرہ اس کو دے دیا تھا۔ ہمارا وقت اچھا گزرنے لگا۔ اب میں اپنے ملنے جلنے والوں سے اس بات کا ذکر کرتی تھی کہ میری چھوٹی بہن نزہت کے لئے رشتہ چاہئے۔ ہمارا ملنا خاصے اچھے لوگوں سے تھا۔ مجھ کو امید تھی کہ جلد ہی میں نزہت کے لئے کوئی رشتہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائوں گی۔ میں جلال سے بھی کہا کرتی تھی کہ نزہت کے لئے اپنے دوستوں میں سے کوئی اچها، شریف سا افسر دیکھو۔ جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ جلال اب مجھ میں دلچسپی نہیں لیتے۔ وه زیاده تر گھر سے باہر رہنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی نزہت نے بھی سلائی کڑھائی کے کورس میں داخلہ لے لیا اور وہ ایک انڈسٹریل ہوم جانے لگی۔ میں گهر میں اکیلی رہ جاتی۔ نزہت شام کو آتی جبکہ جلال رات گئے گھر لوٹتے تھے۔ ان دنوں میرا صرف ایک ہی بیٹا تھا جو ابھی تین سال کا تھا۔ میں اس سے دل بہلانے کی کوشش کرتی، تمام دن ان دونوں کا انتظار کرتی رہتی۔ ایک دن مجھے نزہت نے بتایا کہ اس کو اسی انڈسٹریل ہوم میں نوکری مل گئی ہے اور وہاں رہنے کا بھی انتظام ہوگیا ہے لہذا وہ میرے گھر سے جانا چاہتی ہے۔ میں نے اس کو کافی روکا مگر وہ نہ رکی اور اپنا بیگ لے کر ہمارے گھر سے چلی گئی۔ مجھ کو نزہت کے جانے کا کافی دکھ ہوا۔ جلال سے بھی میں نے کہا۔ وہ بولے۔ تم کیوں افسوس کرتی ہو۔ اگر وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونا چاہتی ہے اور تم پر بوجھ بن کر رہنا پسند نہیں کرتی تو یہ اچھی بات ہے۔ رہ گئی شادی کی بات تو جب تم اس کے لئے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈ لو گی تو شادی بھی ہوجائے گی۔ فی الحال اس کو کام کرنے دو۔ نزہت سے میرا بہت دل لگا ہوا تھا۔ ہم دونوں جلال کے ساتھ تقریبا روز ہی سیر وغیرہ کو جایا کرتے تھے۔ وقت نزہت کے ساتھ بہت اچھا کٹ رہا تھا کیونکہ وہ ہنسی مذاق کرتی رہتی تھی۔ اس کی طبیعت کافی شوخ تھی۔ اس کے جانے سے گھر پر افسردگی سی چھا گئی۔ اس کا مجھ کو احساس ہوا کہ ہمارے گھر میں وہ ایک مہکتے ہوئے پھول کی طرح تھی۔ ہم نے اس کی بے حد کمی محسوس کی۔ اب بھی کبھی کبھی وہ آجاتی تو میں خوشی سے کھل اٹھتی۔ اس کی بڑی خاطر کرتی، اس کے لئے خاص کھانے پکاتی اور کبھی کبھی وہ فون بھی کرلیا کرتی تھی۔ نزہت کے جانے کے تھوڑے عرصے بعد جلال نے یہ معمول بنا لیا کہ وہ رات کو گھر سے باہر رہنے لگے۔ مجھے کہتے تھے دورے پر جارہا ہوں۔ پہلے وه کبھی دو تین ماہ میں ایک بار دورے پر جاتے تھے، اب روز جانے لگے۔ کچھ دنوں بعد یہ راز مجه پر فاش ہوگیا کہ جلال اپنے دفتر کے کام سے نہیں بلکہ نزہت کی خاطر رات گھر سے باہر رہتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دونوں شادی کرنے والے ہیں۔ مجھ کو یہ ساری باتیں فون پر ان کے آفس میں کام کرنے والی آپریٹر نے بتائیں اور قسم دی کہ میں انہیں یہ نہ بتائوں کہ یہ باتیں مجھ کو کس طرح معلوم ہوئی ہیں۔ مجھ پر تو جیسے بجلی گر گئی۔ یقین ہی نہ آتا تھا دنیا میں اتنا بڑا دھوکا ہوسکتا ہے۔ انسان کس پر اعتبار کرے اور کس پر نہ کرے۔ میں نے نزہت سے محبت کی تھی۔ اس کو دل و جان سے بڑھ کر چاہا۔ اپنے گھر میں رکھا اور اس نے میرے ہی گھر کو لوٹ لیا۔ ایسا تو میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ پھر جلال جو میرے بغیر زندہ رہنے کا تصور نہ کرسکتے تھے۔ میری سہیلی کی محبت میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ اب اس سے شادی کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ میں جلال کو ٹوٹ کر چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں اس کو کھونا نہیں چاہتی تھی مگر اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ وہ گھر آئے تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ وہ رات کہاں تھے؟ اس پر جلال نے سختی سے جواب دیا۔ تم کو اس سے کیا؟ مجھ کو اس جواب کی توقع نہ تھی۔ میں نے بھی رو رو کر گھر سر پر اٹھا لیا اور بتا دیا کہ میں ان کے اور نزہت کے تعلقات کے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں۔ جلال بجائے شرمندہ ہونے کے اور بھی شیر ہوگئے۔ مجھ پر گرجنے اور برسنے لگے۔ مجھے طلاق کی دھمکی دینے لگے۔ اسی پر بس نہ کیا بلکہ مجھ پر ہاتھ اٹھا لیا۔ جی چاہتا زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جائوں۔ مجھ کو اور تو کچھ نہ سوجھا۔ میں نے اپنے کپڑوں کا سوٹ کیس اٹھایا اور میکے آگئی۔ چند دن بعد جلال آئے۔ ابا جان اور امی نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بولا کہ میں نزہت سے نکاح کرنے کی غلطی کر چکا ہوں، اس لئے اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ البتہ اگر نازو اس کو قبول کرلے تو میرے ساتھ چلے، میں اس کو اس کا جائز مقام دوں گا اور اس کا بھی خیال رکھوں گا۔ آپ لوگوں کو اور نازو کو مجھ سے شکایت نہ ہوگی۔ میں اس وقت غصے میں تھی۔ جلال اور نزہت کو کسی طور معاف کرنے کو تیار نہ تھی۔ دل میں نزہت کے لئے اتنی نفرت بھری ہوئی تھی کہ اس کا نام بھی نہ سننا چاہتی تھی۔ میں نے جلال کے ساتھ واپس گھر جانے سے انکار کردیا بلکہ طلاق کا مطالبہ کردیا۔ جلال واپس چلا گیا۔ اس کے بعد وہ پھر کبھی ہمارے گھر نہ آیا۔ دو سال میں نے روتے دھوتے گزار دیئے۔ اس کے بعد ایک اسکول میں ملازمت کرلی کہ دل کسی صورت تو بہل جائے۔ منا ان دنوں پانچ سال کا ہوچکا تھا کہ اچانک ایک دن مجھے گھر بیٹھے جلال کی طرف سے طلاق مل گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بیٹے کی واپسی کے لئے عدالت میں کیس دائر کردیا۔ دو سال تک کیس چلتا رہا۔ میرے بھائیوں نے اس کیس میں کوئی خاص دلچسپی نہ لی، جس کی وجہ سے جلال، بچے کی سر پرستی کا کیس جیت گیا۔ منا سات برس کا ہوگیا تو وہ بذریعہ عدالت میرے بچے کو بھی مجھ سے چھین کر لے گیا۔ کیا بتائوں وه دن کیا قیامت کا تھا جب اس نے مجھ سے میرا بیٹا بھی چھین لیا تھا۔ اب تو میں بن پھول کی ڈالی بن گئی تھی۔ زندگی کا کوئی مقصد نہ تھا۔ تڑپتی تھی اور کوئی تسلی دینے والا نہ ہوتا تھا۔ جونہی جلال نے میرے بیٹے عامر کو مجھ سے حاصل کیا۔ اس نے اپنی تبدیلی دوسرے شہر کرا لی۔ اب میرا اس سے ملنا بھی دشوار ہوگیا۔ میں عامر سے ملنے دوسرے شہر نہ جاسکتی تھی اور اگر جاتی بھی تو نزہت کو پتا چل جاتا۔ وہ منے کو مجھ سے نہ ملنے دیتی۔ تھک ہار کر میں نے اپنے بیٹے کے پیچھے جانا چھوڑ دیا۔ بالآخر اپنے بچے کی خاطر میں نے نزہت کو خط لکھا کہ میں اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی۔ تم بھی ایک عورت ہو اور ایک بیٹی کی ماں بن چکی ہو۔ عورت کے جذبات سمجھتی ہو. الله کے واسطے تم ہی میرا بیٹا واپس کردو۔ میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی تھی۔ اپنے گھر میں پناه دی تھی۔ تم نے میرا گھر اور میرا شوہر چھینا، سو وہ تم کو مبارک ہو۔ مگر میرا بیٹا مت چھینو۔ میں نے کافی منت سماجت کے خط لکھے مگر اس نے جواب نہ دیا۔ میں نے کئی بار فون کئے لیکن نزہت میری آواز سن کر فون بند کردیتی تھی۔ اس بے رحم عورت نے ایک بار بھی میرے بیٹے کی آواز مجھ کو نہ سنائی۔ رو رو کر صبر کرلیا۔ زندگی کے لق و دق صحرا کو اکیلے پار کرنے لگی۔ والد صاحب فوت ہوگئے پھر والدہ کا سہارا بھی جاتا رہا۔ بہن، بھائی اپنے گھروں میں خوش اور آباد تھے۔ میں سروس کرکے تنہا وقت گزار رہی تھی۔ اچانک ایک روز اخبار میں خبر دیکھی۔ جلال اور اس کی بیوی کا کار کے حادثے میں انتقال ہوگیا۔ دونوں اکٹھے کہیں جارہے تھے۔ دونوں بچے گھر میں تھے، سو وہ اللہ کی مہربانی سے محفوظ تھے لیکن اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہا تھا۔ منت سماجت کرکے بھائی کو جلال کے گھر بھیجا۔ بات درست تھی۔ میں فورأ گئی۔ عامر سترہ برس کا ہوچکا تھا اور فرسٹ ایئر میں پڑھ رہا تھا جبکہ نزہت کی بیٹی ابھی آٹھ برس کی تھی۔ اپنی سوتن کی بیٹی کو دیکھ کر نفرت کی ایک لہر سی میرے بدن میں دوڑ گئی۔ یہ اسی عورت کی بچی تھی جس نے نہ صرف میرا شوہر بلکہ بیٹا بھی چھین لیا تھا۔ آج اس کی لڑکی کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ میں اپنے بیٹے کو لینے آئی تھی۔ وہ میرے ساتھ آنے کو تیار تھا لیکن ہچکچا رہا تھا۔ آخرکار اس نے کہا کہ امی جان! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ چلوں اور اپنی چھوٹی سی معصوم بہن کو چھوڑ دوں؟ لڑکی کا ماموں بہن کی موت پر نہیں آیا، وہ اس کو کیسے رکھے گا؟ میں نے کہا۔ بیٹا! اس لڑکی پر میرا کوئی حق نہیں۔ میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے پھر میں اس کو اپنے ساتھ گھر کیسے لے جائوں؟ میرا رشتہ تو ہے امی! یہ میرے باپ کی بیٹی ہے اور میری بہن ہے۔ میں اس کو چھوڑ کر کیسے جاسکتا ہوں؟ عامر نے یہ بات اتنی قطعیت سے کہی کہ میں بے بس ہوگئی۔ میرا کھویا ہوا بیٹا مجھے واپس مل گیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ناگن کی بیٹی کو بھی مجھے اپنے گھر میں پناہ دینی تھی۔ اپنے پیارے بیٹے عامر کی خاطر اس کے جذبات کا احترام مجھ پر لازم تھا کہ میں اس کی ماں تھی۔ آخرکار یہی فیصلہ ہوا کہ نزہت کی لڑکی بھی ساتھ چلے گی۔ میں دونوں بچوں کو لے کر گھر آگئی۔ شروع شروع میں اس لڑکی کو میرا دل قبول نہیں کرتا تھا۔ اس کی صورت میں مجھ کو نزہت کی صورت دکھائی دیتی تھی مگر رفتہ رفتہ عامر نے گل کی محبت میرے دل میں پیدا کردی کیونکہ وہ اپنی سوتیلی بہن سے بہت محبت کرتا تھا۔ آج میں گل سے بھی اسی طرح محبت کرتی ہوں جیسی عامر سے کیونکہ میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ الله انصاف کرتا ہے۔ وہ بندوں کو ان کے کئے کی سزا خود دے دیتا ہے۔ اس نے مجھے یہ دن دکھایا ہے کہ میرے بیٹے کے ساتھ ساتھ نزہت کی بیٹی کو بھی میرے سپرد کردیا ہے۔ اس عورت کی بیٹی کو میرے حوالے کیا ہے جو مجھ کو اپنی بیٹی تو کیا خود میرے بیٹے سے بھی نہ ملنے دیتی تھی۔ شاید یہ میرے لئے الله کی طرف سے آزمائش ہو. گل مجھ کو سگی ماں سمجھتی ہے۔ میں بھی اس کو سگی بیٹی جان کر پیار کرتی ہوں۔ کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتی کہ وہ میری بیٹی نہیں بلکہ اس عورت کی کوکھ کا پھول ہے جو میرے لئے ناگن سے کم نہ تھی۔

 

Post a Comment

0 Comments