Latest Urdu story Larakpan Ki Bhool Teen Auratien Teen Kahaniyan |
ابا پہلے قلی تھے۔ جب بیماری سے ضعف آگیا اور
مسافروں کا بھاری سامان اٹھانے سے قاصر ہو گئے تو بیروزگار ہو کر گھر بیٹھے رہے۔
اس طرح گزارہ کیونکر چلتا۔ والدہ نے اپنی سونے کی بالیاں دیں کہ ان کو نچ کر قسطوں
پر رکشہ خرید لیں۔ والد نے ایسا ہی کیا۔ بیوی کی بالیاں فروخت کر کے قسطوں پر رکشہ
لے آئے جو کافی ٹوٹا چھوٹا تھا۔ اب ہر ماہ قسط اتارنے کی فکر میں گھلنے لگے۔
گھر کا خرچہ کرنے کے بعد اتنے پیسے نہ بچتے کہ قسط ادا کر سکتے ۔ ان کے علاوہ رات
کو بھی دیر تک کبھی ریلوے اسٹیشن بھی کسی سینما کے آگے جا کھڑے ہوتے کہ دیر کی سواریاں
اٹھانے سے پیسے کچھ زیادہ مل جاتے تھے۔ ادھر والدہ نے سلائی مشین سنبھال لی۔ جب
گھر کے کاموں سے وقت بچتا، اجرت پر پاس پڑوس کی خواتین کے کپڑے کی دیا کر تھیں۔
غرض کہ دونوں میاں بیوی مل کر مفلسی کے دنوں میں زندگی کی گاڑی کو دھکا لگانے میں
مصروف تھے۔ ان دنوں میں پانچ برس کی تھی کہ ایک روز یہ بری خبر ملی کہ ابا کے رکشے
سے ایک وین کر گئی ہے اور وہ چکنا چور ہو گیا۔ صرف رکشہ ہی حادثے کو پیارا نہیں
ہوا تھا اب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ جب اس حادثے کی اطلاع گھر پر آئی، ماں
دیوار سے جائیں۔ انہوں نے سہاگ چوڑیاں دیوار پر مار کر توڑ دیں اور بین کرتے ہوئے
سفید چادر میں خود کو لپیٹ لیا۔ میں اتنی چھوٹی اور نا سمجھ تھی کہ جب انہوں نے
اپناہر اوهانی دو پٹہ اتار کر پھینکا اور سفید چادر کی بکل مار لی، میں نے دوڑ کر
ان کا وہ دو پٹہ فرش سے اٹھالیا، جس کا رنگ مجھے بہت پسند تھا۔ میں اس دوپٹے کو
اوڑھ کر بیٹھ گئی اور خوش ہو گئی کہ اچھا ہو اماں نے یہ دوپٹہ چھینک دیا، اب میں
اس کو اوڑھوں گی۔ ناناز دہ تھے۔ ابا کے بعد وہی ہمارے لئے چھتر چھایا گئے۔ دو سال
بعد جو بھی ان کی آنکھیں بند ہو میں سارے زمانے نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں۔ اس کے بعد
مجھے یاد نہیں کبھی ماں نے خوشی کا کوئی تہوار منایا ہو۔ عید برأت پر کبھی ہمارے
یہاں چولہا ٹھنڈ اور پیلی خالی ہی رہتی تھی۔ پاس پڑوس سے عید کی سوغات طشتریوں میں
آجاتی تو ہم خدا کا شکر ادا کر کے کھا لیتے اب میں کافی سیانی ہو گئی تھی۔ گھر کا
کام کاج کرنے لگی تھی۔ تبھی اماں نے گزارنے کا مستقل ذریعہ اپنی سلائی مشین کو ہی
بنالیا۔ ایک پڑوسن کا بھائی کسی فیکٹری میں کام کرتا تھا جہاں دیگر گارمنٹس کے
علاوہ ٹوپیاں بھی بنتی تھیں۔ ان دنوں یہ ٹوپیاں ہاتھ کی سلائی مشین پر بتاکرتی
تھیں۔ پڑوسن نے بھائی سے کہہ کر اماں کو ان کی سلائی کا ٹھیکہ دلوادیا۔ فیکٹری سے
ایک آدمی گھر پر ٹھری دے جاتا جس میں کٹائی کی ہوئی بغیر سی ٹوپیاں ہوتیں۔ اماں وہ
تھوک کے حساب سے سیتیں اور صبح سے رات کر دیتیں۔ میں اسکول جاتی تو چولہا ٹھنڈ اور
ہانڈی اوندھی پڑی رہی لیکن وہ مشین کے ہتھے سے ہاتھ نہ ہٹا میں
کیونکہ مقررہ تعداد میں کام وقت پر عمل کر کے دینا ہوتا تھا۔ پاس ٹوپیوں کی سلائی
میں اجرت تین روپے ملتی تھی۔ یہ سستازمانہ تھا۔ مہینے بھر کی مشقت کے بعد اجرت میں
اتنی رقت ماں کو مل جاتی کہ گھر میں آناء گھی، دال سبزی اور مٹی کا تیل آجاتا، جس
سے چولہا جاتا تھا۔ جب ماں سلائی مشین کی بہتھی کو اپنے گورے گورے خوبصورت
باتھوں سے گھما تھیں تو دیکھنے والوں کی آنکھوں میں ان کے مخروطی انگلیوں والے نرم
و نازک ہاتھ دیکھ کر بجلی کی چمک جاتی۔ سچ کہتی ہوں کہ میری ماں بہت حسین تھی۔
بیوہ ہونے کے بعد بھی نکاح ثانی کی امید میں کیا رشتہ داروں کی نگاہیں ان پر کھی
تھیں ۔ مگر میری خاطر انہوں نے ایساتیاگ لیا کہ اپنے کندن سے روپ پر غربت
کا بھوت ہی مل کر بیٹھے ہیں۔ کالے ، سیاہ، ناگن جیسے بال سفید روپے میں یوں ڈھک
لئے کہ پھر آپیل نہیں سرکایا۔ یہاں تک کہ ان کے بال اوڑھنی کے اندر ہی سیاہ سے
سفید ہو ماں کو اپنے سیاہ و سفید کی کب فکر تھی۔ ان کی نظر میں تو اب مجھ پر گڑھی
تھیں۔ میں جو امر بیل کی طرح بڑھتی جارہی تھی۔ وہ مجھ کو
دیکھیوں سمٹی جاتی تھیں جیسے یہ امر بیل ان کے سارے وجود پر چھاگئی ہو۔ آئے گئے سے
کہتیں۔ بہنوں دعا کرو عزت سے میں راحیلہ کو اپنے گھر کا کر دوں۔ پڑوسنیں افسوس
کرتیں کہ رشیدہ تم نے اپناسونے ایا رنگ روپ اس بچی کے پیچھے مٹی کیا ہے۔ دوسری
شادی کر لیتیں تو آج جوانی میں تم پر یہ بڑھاپانہ آتا۔ خیر اب کیوں فکر کرتی ہو ،
تم بیوہ سہی، تمہارے نیک اطوار کے کارن یہ بھی ضرور کی کسی اچھے گھر میں بیاہی
جائے گی۔ ان دنوں میری عمر ایسی تھی کہ زمانے کی کوئی فکر نہ ستاتی تھی۔ بس ان
خوابوں میں رہتی تھی کہ کوئی بجیلا آجائے، میری اس کے ساتھ شادی ہو اور وہ مجھے
اپنے ہتے ہوئے گھوڑے پر بٹھا کر لے جائے۔ جب چھت پر جاتی ادھر ادھر تاکتی شاید
کوئی کرڑ میں میری خاطر گھوڑے کی باگیں تھانے کی طرف سے آیا ہوں۔ مگر کبھی کوئی
نظر نہ آیا اور میں روز ہی مایوس ہو کے چھت سے انگنائی میں اتر آئی، جہاں بر آمدے
کی چھائوں میں ماں بیٹھی رسان سے مشین چلارہی ہوتیں۔ ایک روز سامنے والے گھر سے
بلاوا آیا۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ میں بھی اماں کے ساتھ شادی میں گئی۔ جب آر کی
مصحف کی رسم کرائی جارہی تھی میں نے جھک کر دیکھا۔ دولہا کے عین سامنے ایک کونے
میں مجھ کو ایک چہرہ اور بھی نظر آیا۔ صرف آنکھیں دکھائی دیں۔ بڑی بڑی سیاہ اور
چمکدار ۔ وہ مجھ کو ہی آئینے میں گھور رہی تھیں کہ میری شبیه اس میں نظر آرہی تھی۔
بس پھر کیا تھا۔ ان دو آنکھوں کو گھورتے دیکھ کر میں تو دل تھام کر پیچھے ہٹ گئی
تھی۔ کیا خبر تھی کہ یہ دو گہر کی سیاہ آنکھیں عمر بھر میرا پیچھا کریں گی اور نہ
میں دین کے اوپر سے آئینے میں نہ جھانکتی۔ جتنی دیر شادی والے گھر میں رہی وہ آنکھیں
میرا تعاقب کرتی رہیں۔ گھر تک بھی انہوں نے میرا ہی چھانہ چھوڑا۔ دوسرے روز در
وازہ بجا۔ اماں در پر گئیں۔ ایک صاحب ہاتھ میں ٹرے لئے کھڑے تھے۔ بولے۔ امی جان نے
ساجد بھائی کی شادی کا کھانا بھجوایا ہے۔ اماں نے کہا۔ اندر آجائو میٹے۔۔ وہ
برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اماں نے ٹرے دے کر مجھ کو کہا۔
کھانا نکال کر ان کے برتن دھو کر دے دو۔ میں نے خالی بر تن ان کو پڑھائے تو انہوں
نے زیر لب مسکراتے ہوئے میری آنکھوں کو جو ایک شریر پیغام دیاوہ میں نے دل کے
کانوں سے سن لیا۔ میں نے کبھی اس خاموش پیغام کی لاج رکھی۔ اماں سے نئی دلہن
دیکھنے کا بہانہ بنایا، شادی والے گھر چلی گئی۔ آدمی جتن کرے تو کامیاب کیوں نہ
ہو۔ نئی دن سے میں نے سو جتن کر کے دوستی لگالی اور اب میر اساجد بھائی کے گھر آنا
جانا | سہل ہو گیا۔ بعد میں ساجد کی نئی نویلی دلہن بھی اس کھیل میں ہماری شریک ہو
گئیں۔ عاقب ان کے دیور تھے۔ بھابھی نے دیور کی خوشنودی میں میرا ساتھ دیا۔ یوں
میری اور عاقب کی محبت کے پودے کو پنپنے کا موقع مل گیا۔ بھائی کے تعاون سے میں
اور عاقب ان کے گھر اکثر دنیا والوں سے چھپ کر بات کر لیتے تھے۔ اس طرح ایک روز
عاقب نے مجھ سے شادی کرنے کا پکا وعدہ کر لیا۔ عاقب ایف ایس سی کرنے کے بعد مزید
تعلیم کے سلسلے میں بڑے شہر چلا گیا۔ جہاں اس کو انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل گیا
اور میں اس کے وعدوں کے سہارے اپنے جہیز کے دو پٹوں پرستارے ٹانکتی گئی۔ اس نے مجھ
سے خط لکھنے کا وعدہ کیا تھا اور میں نے اس وعدے کو بھی اس کی بھابھی کے ذریے خوب
نبھایا۔ وہ مجھے خطوط اپنی بھابھی کے ذریعے بیتا اور میں بھی جواب لکھ کر اس کی
بھابھی کو دے آتی تھی۔ وہ مجھ کو کہتی تھیں، راحیلہ اداس نہ
رہا کرو۔ بس تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ عاقب تعلیم مکمل کرے گا تو ہم تمہیں دلہن بنا کر
اپنے گھر لے آئیں گے۔ ان طفل تسلیوں پر میں خوش تھی مگر اماں مجھ کی نادان نہ
تھیں۔ وہ جانتی تھیں عمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگا کرتا۔ لہذا انہوں نے ایک اگلے
گھرانے سے رشتہ آتے ہی میری بات پی کر دی۔ اماں نے تو مجھ سے پوچھنے کی بھی زحمت
گوارا نہ کی اور میں بس ان کا منہ ہی تکتی رہ گئی۔ اب رہ رہ کر میرا دم گھٹتا کہ
جب عاقب آئے گا اس کو کیا جواب دوں گی۔ وہ تو مجھ سے وعدہ لے کر گیا تھا کہ میرا
انتظار کر نا ہمت کر کے مال سے کہہ ہی دیا کہ مجھے کسی اور سے شادی نہیں کرنی۔
عاقب میرے ساتھ شادی کا وعدہ کر کے گیا ہے۔ اماں میری بات سن کر ہکا بکا رہ گئیں
کہ یہ کیا بک رہی ہے۔ میں ماں کو مجبور کرنے لگی کہ عاقب کے گھر جا کر اس کی ماں
سے بات کر لیں۔ اس عمر میں، میں نے اپنی بے عزتی کرانی ہے۔ ساری عمرفات کر کے بھی
لوگوں سے اپنی عزت کروائی ہے۔ اور اب تیرے رشتے کی بات ان سے خود جا کر کروں۔ عاقب
کی ماں مجھ غریب بیوہ کی لڑکی کا رشتہ کیوں لینے لگی۔ تیرا دماغ تو نہیں چل گیا
ہے۔ وہ کتنے امیر کبیر لوگ ہیں۔ کیا عاقب کے واسطے ان کو لڑکیوں کی کمی ہے جو تیرے
جیسی کو بہو بنائیں گے۔ تیرے امی تو ان کی نوکرانیاں ہیں، تو ایک بیوہ کی لڑ کی
ہے۔ یہ اپنی آخر کس نے تجھ کو پڑھائی ہے؟ یہ خواب و خیال چھوڑ دے اور عاقب کے
وعدوں کو بھلا دے، ان کے گھر جانے پر مجھے مجبور نہ کر۔ جانتی ہوں مجھ کو کیا جواب
ملے گا۔ کوئی سیدھے منہ بات بھی نہ کرے گا۔ ماں یہ کہتے کہتے روہانسی ہو گئیں۔ ان
کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مجھ کو ان کی بے بسی پر ترس آیا۔ سوچا کہ وہ ٹھیک کہتی
ہیں۔ عاقب کی بھابھی میری ہم عمر تھی، اس لئے اس کھیل میں ہماری برابری نہیں ہو
سکتی تھی۔ اماں نے میری خاطر جوانی و بیوگی کی قبر میں دفن رکھا اور کوئی حرف نہ
آنے دیا۔ تا کہ جب میں شادی کے لائق ہو جائوں، لوگ مجھے نیک پلن بیوہ کی بیٹی ہی
کہیں نہ کہ غلط عورت کی لڑ کی تھیں۔ یہ ماں کی ریاضت کا ثمر تھا کہ میرے لئے ایک
شریف اور خوشحال گھرانے کارشتہ آگیا تھا۔ جب مجھ کو اپنا انجام صاف نظر آنے لگا۔
میں نے سوچا۔ ماں کے بقول اچھے رشتے بار بار نہیں آتے۔ ہر ایک عورت کی زبان سے یہی
فقرہ سنتی تھی۔ خیر یت اسی میں جانی کہ ماں کو پریشان کرنے کی بجائے قسمت کی باگ
ڈور ان کے ہاتھ میں تھمادوں، جنہوں نے ہزار دکھ سہہ کر مجھے پالا تھا۔ عاقب کے
انتظار سے کیا حاصل، جب طبقاتی فرق اتنا واضح تھا کہ وہ میر ا ہو ہی نہیں سکتا
تھا۔ محبت کے ایسے جھوٹے کھیل سے خوشی کے پھول نہیں، غم کے کانٹے ہی جھولی میں
کرتے ہیں۔ جن دنوں میری منگنی ہو گی۔ عاقب انہی دنوں چھٹیوں پر گھر آ گیا۔ اس کی
بھابھی نے منگنی کا بتایاتو اس نے کہلوایا کہ راحیلہ مجھ سے بے وفائی نہیں کرنا۔
میں معاف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں نے جواب میں کہلوایا۔ ماں کی بیوگی دیکھ
کر ان کے دکھ اور بڑھانے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ہے۔ وہ پیار ہوتی ہیں، مجھ کو معاف
کر دو عاقب۔ تمہارے والدین میرے رشتے کو ماننے والے نہیں ہیں۔ جب عاقب کو یہ ندیہ
ملا وہ غصے سے دہک اٹھا۔ اس نے اپنی بھابھی سے کچھ نہ کہا۔ رات کو دیوار پھلانگ کر
ہمارے گھر آگیا۔ اماں دن بھر کی تھکی ہاری مشین چلاتے ہوئے گہری نیند سورہی تھیں۔
وہ سیدھا میری چار پائی کی طرف آیا۔ خدا کی قدرت میری آنکھ کھل گئی۔ اس کو سرہانے
د یکھ کر دہل کر رہ گئی ۔ اس نے سرگوشی میں کہا۔ چپ رہو میں عاقب ہوں، کوئی جن
بھوت یا چور نہیں ہوں۔ تمہارے سند پیسے کا جواب دینے آیا ہوں۔ تیار ہو۔ تمہارے خطوط
میرے پاس ہیں۔ تم کسی سے شادی کر کے تو کھائو، میں دیکھوں گا کہ کیسے کوئی تم کو
ڈولی میں بٹھا کر لے جاتا ہے۔ تم نے کہا تھا کہ تمہیں گھوڑے پر بیاہ لے جانے والا
دولہا پسند ہے۔ میں تم کو بھری بارات سے اپنے گھوڑے پر بٹھا کرنہ لے
اڑاتعاقب میر انام نہیں۔ میں نے اس وقت جان چھڑانے کو کہا۔ اچھا۔ جو مرضی کر لیا
مگر اس وقت تم جائو۔ اماں کی آنکھ کھل گئی تو وہ شور مچا کر محلے کو جگاو میں کیا۔
عاقب چلا گیا۔ اگلے روز کچھ چھپانے کی بجائے میں نے سب کچھ اماں کو بتادیا و در
این بھابھی کے پاس گئیں۔ ان کے کمرے میں اکیلے میں ان سے بات کی اور خدا کا واسطہ
دیا کہ میری مجبوری سمجھو۔ عاقب کو سمجھائو یا پھر اپنے ساس سسر کو تم راضی کر لو
کہ آ کر میر کی راحیلہ کار شتہ مانگ لیں اور عزت سے اس کو بیاہ کر لے جائیں۔ مجھے
کیا اعتراض ہو سکتا ہے اس بات میں، اس کی منگنی توڑ دیتی ہوں۔ بھابھی نے ساس سے
بات کی۔ وہ تو ایسے آگ بگولہ ہوئیں کہ بہو کو بھاگ کر اپنے کمرے میں چیناپڑا۔ دلہن
بھابھی کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ناممکن ہے۔ اس کے ساس، سسر کسی صورت مجھ کو بہو
نہیں بنانے کے۔ اب وہ اپنی نادانی پر پچھتاتی۔ عاقب کو سمجھایا کہ ایک باعزت بیوہ
کی عزت کو نیلام مت کرو۔ اس کا کیا قصور ہے جب کہ تمہارے والدین کو ہی راحیلہ
قبول نہیں ہے۔ اگر بھگا کر لے جانے میں اپنے خاندان اور ایک غریب بیوہ کی عزت
افزائی سمجھتے ہو تو لے جائو بھگا کر۔ پھر دیکھی جائے گی۔ غرض دلہن بھابھی نے اس
قدر سمجھایا کہ بات عاقب کی سمجھ میں آگئی، کیو نکہ اس معاملے میں دہن بھا بھی خود
بھی لپیٹ میں آرہی تھیں۔ ان کے کہنے پر عاقب اپنے ارادے سے باز رہا۔ والدین سے
بغاوت کا بھی اس میں حوصلہ نہ تھا۔ بس یہی کہتا تھا کہ راحیلہ کو چاہئے پانچ سال
میرا انتظار کر لے۔ تب میں تعلیم مل کر لوں گا، خود مختار ہو جائوں گا تو اس کے
ساتھ شادی کر لوں گا۔ جس طرح سے بھی کرناپڑے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں
تھی کہ اتنی مدت کا انتظار میری ماں کے لئے سوہان روح تھا۔ پھر کیا ضمانت تھی کہ
اس کے بعد بھی حالات ہمارے موافق رہتے۔ عاقب و گر فته کا ن لوٹ گیا۔ وہ میرے سارے
خطوط بھی بھابھی کو دے گیا کہ یہ راحیلہ کو دے دینا، اپنے ہاتھوں سے
جلادے گی۔ بھابھی نے خطوط مجھے دے دیئے اور میں نے اپنے ہاتھوں سے جلتے چولہے پر
رکھ دیئے۔ اس طرح ایک بیوہ کی عزت سر عام رسوا ہو جانے سے بھی۔ پھر میں ماں کی
دعائوں کے سائے تلے رخصت ہو کر اپنے گھر آگئی۔ نبیل میرے شوہر کا نام تھا۔ والدین
کے اکلوتے تھے۔ دو بڑی بہنیں تھیں جو شادی شدہ تھیں۔ بہت امیر گھروں میں بیاہی گئی
تھیں۔ نبیل کے والدین بھی کھاتے پیتے لوگ تھے، مگر شائستہ پڑھے لکھے اور شفیق ساس
سسرال والے کہ کی قسمت والی لڑکی کو ملتے ہوں گے۔ میرا خیال رکھتے تھے۔ نندیں مجھ
کو چاہتی تھیں۔ جب میں ایک سے بڑھ کر قیمتی تحفہ لے کر آتیں۔ مجھ کو اپنے شوہر کے
گھر سے عزت، پیار، عیش و آرام غرض سب کچھ ملا، پھر چے بھی ہو گئے، میں اپنی زندگی
میں کھو گئی۔ والدہ نے گھر فروخت کر دیا۔ نبیل ان کو بھی لے آئے۔ وہ ہمارے ساتھ
رہنے لگیں۔ انہوں نے محنت و مشقت ترک کر دی کہ اب وہ مزید محنت کر بھی نہ سکتی
تھیں۔ عاقب تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ چلا گیا۔ اس نے وہاں ہی شادی کرلی۔ آیا
امکان کا۔ پھر میں اس مجھے نہ گئی۔ نہیں معلوم عاقب اور اس کے گھر والوں کے کیا
احوال رہے۔ بھابھی سے بھی رابطہ نہ رکھا۔ اللہ نے ماں کی دعائوں سے ہر خوشی مجھے
دی اور میں نے عاقب کی محبت کو لڑکپن کی بھول سمجھ کر جھلا
0 Comments