Search Bar

New urdu Story Saibaan Ki Qadar Nahi Ki Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

New urdu  Story Saibaan Ki Qadar Nahi Ki  Teen Auratien Teen Kahaniyan


میں شروع سے ہی اپنی بڑی بہن کے دبائو میں رہی، وہ جو کہتیں مان لیتی۔ میری شادی کبھی آپانے اپنے شوہر سے کہ کر ان کے ایک دوست سے کرادی۔ میرے شوہر بہت اچھے انسان تھے۔ وہ مجھے بہت چاہتے تھے لیکن میں میکے کی محبت میں کھوئی رہتی تھی چونکہ میں بیاہ کر دوسرے شہر چلی گئی تھی اور میکے سے دور ہوگئی تھی۔ گھر والوں کے لئے اداس رہتی ہیں کرتا کہ روز وہاں جائوں اور میکے کا دیدار کروں۔ آپ بھی میری طرح دوسرے شہر بیاہ کر گئی تھیں لیکن بعد میں وہ والدین کے شہر شفٹ ہو گئیں اور میکے کے نزدیک جا بسیں۔ وہ جب ملنے آتیں، میں ان کو کھوئی کھوئی ملتی ، تب وہ کہتیں، تم زبیر سے کیوں نہیں کہتیں کہ لاہور چل کر رہیں؟ دیکھو میں کیسے اپنے میاں کو ماں، باپ کے نزدیک بسانے میں کامیاب ہو گئی، تم بھی ایسا ہی کرو۔ میں نے بہت کوشش کی۔ زبیر کو کافی منایا مگر وہ نوکری چھوڑ کر لاہور جانے پر راضی نہ ہوئے۔ انہوں نے کہا۔ میں نے بڑی محنت سے یہ مکان بنایا ہے۔ سرکاری ملازمت ہے، میں ملتان کو چھوڑ کر لاہور شفٹ نہیں ہو سکتا۔ تمہیں میرے ساتھ یہاں ہی رہنا ہو گا۔ وقت گزرتا رہا، میں کڑھتی رہی، چار چھے ہو گئے ، آپ مجھ کو اکساتی رہیں مگر زبیر نے نہ مانا تھا اور نہ میر کی مانی۔ وہ اپنے عزیزوں کے قریب رہنا چاہتے تھے۔ آپافون کر تھیں۔ تمہارا شوہر ضدی ہے، اس کو تمہاری خوشی منظور نہیں، مجھے دیکھو اپنے ارادے میں کامیاب رہی، میرے میاں نے بات مان لی۔ اب میں یہاں لاہور میں میکے کے نزدیک رہ رہی ہوں اور ہم یہاں بہت خوش ہیں۔ آپ کی ایسی باتیں مجھے اور اداس کر تھیں اور میں ٹھنڈی آہیں بھر کر رہ جاتی۔ اسی طرح میکے کے نزدیک گھر لینے کی آرزو میں روتے سسکتے وقت اور بیت گیا، چے بڑے ہو گئے ، جب بھی سال میں ایک بار میکے آتی، آپ کو خوش باش دیکھ کر بھی اور حسرت کرتا۔ وہ بھی مین میں دبی اس چنگاری کو اور ہوادیتیں - بیا مسوس کر واپس ملتان آجالی۔ اسی دوران میرے جیٹھ آئے اور کہا کہ ہم تینوں بھائیوں کی اولاد اکٹھی ہو تو اچھا ہے ، ہم کیوں نہ آپس میں رشتے طے کر لیں اب ہم کو اپنے بچوں بارے میں سوچنا چاہئے۔ کیوں میرے شوہر نے اپنی مرضی سے اپنے چھوٹی بھائی کی بچیاں اپنے بیٹوں کے لئے مانگ لیں اور اپنی اکلوتی بیٹی بڑے بھائی کے بیٹے کو دینے کا وعدہ کر لیا۔ گھر آ کر میں نے زبیر سے کہا کہ آپ نے اپنے بھائیوں کا خیال کیا اور میرے بھائی کا نہ کیا حالانکہ میں سدرہ کا اپنے بھائی کے بیٹے سے رشتہ کرنے کا وعدہ کر آئی تھی۔ تم نے پہلے یہ بات کیوں نہ کہیں۔ جب بات طے کر دی ہے، اب کہہ رہی ہو۔ پہلے کبھی کبھی ایسی بات مجھ سے نہ کہیں تھی اور کل بھی میں نے بچوں کے رشتے طے کرتے وقت تم سے پوچھا تھا تم وہاں چپ رہیں۔ اب بات ہو چکی ہے، | اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہے ایک میاں غلطی پر نہ تھے۔ انہوں نے میری مرضی پوچھی تھی اور میں چپ رہی تھی ، لیکن اب بہن مجھ کو اکسا رہی تھی کہ منگی، نکاح تو نہیں ہوا صرف زبانی و عد ہ ہوا ہے۔ انکار کیا جا سکتا ہے۔ زبیر اصولی آدمی تھے۔ وہ زبانی وعدے کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ اب اپنی زبان سے پھر انہیں چاہتے تھے۔ وہ بھی سگے بھائیوں سے کہ ناراض ہو کر انہیں چھوڑ دیتے۔ جب دیکھا کہ میاں مانتے ہیں، بچوں کو ان کے خلاف بھرنا شروع کر دیا۔ بیٹی کو ہم خیال کر لیا، اس نے رفتہ رفتہ دونوں بھائیوں کو ساتھ ملا لیا۔ انہوں نے باپ کو پریشان کرناشروع کردیا۔ زبیر بہت پریشان رہنے لگے۔ جب دیتی کہ زبیر ذہنی اذیت میں ہیں، خوش ہوتی، مگر پھر تکلیف بھی محسوس کرتی کہ انہوں نے مجھے بھی تکلیف نہ دی تھی، بچوں سے بھی والہانہ پیار کرتے تھے ، بس میری یہ فرمائش نہ مانی کہ اپنا شہر چھوڑ کر میرے ماں باپ کے گھر کے نزدیک جار ہے۔ یہ ان کی مجبوری تھی کہ اتنی اچھی ملازمت نہ چھوڑ سکتے تھے۔ اپنے والدین، بہن اور بھائیوں سے بھی دور نہ رہنا چاہتے تھے ، بہر حال ہم سب نے مل کر ان کو بے حد بے سکون کیا۔ ان کی لائی ہوئی چیز میں چھپا دیتے پھر اور لانے کا تقاضا کرتے۔ جب وہ پریشان رہنے لگے ان سے غلطیاں ہونے لگیں۔ دفتری امور میں یوں ان کو چارج شیٹ مل گئی۔ غرض نوبت یہاں تک اپنی کہ انہیں ملازمت چھوڑنی پڑ گئی، قبل از وقت ریٹائرمنٹ سے ان کو پوری رقم نہ ملی اور کچھ مالی نقصان بھی ہوا۔ بہر حال کچھ دنوں بعد انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ کار و بار میں کامیاب نہ ہوں گے تو بد دل ہو کر کہیں گے اچھا چلو لاہور چل کر ہی رہتے ہیں۔ لیکن الٹ نے ان کی کیا مدد کی اور جلد ہی ان کا کاروبار جانے لگا۔ ادھر آپ کا فون آیا کہ اب زبیر ریٹائر ہو گئے ہیں اب تو یہاں آجائو۔ میرے میاں نے جنرل اسٹور کھول لیا ہے اور اب ہمارے وارے نیارے ہیں، تم لوگوں کے دن بھی سنور جائیں گے۔ لاہور بڑا | شہر ہے، وہاں ملتان میں کیارکھا ہے۔ دیکھو تو ہم کتنے خوش اور خوشحال ہو گئے ہیں۔ ان کی ایسی باتوں سے میر اسکون ختم ہو گیا، میں نے خاوند کا خلوص دیکھا اور نہ اپنے بچوں کا بھلا، بہن کا پڑھایا ہو اسبق میرے دماغ میں گھس گیا تھا کہ میاں کا کاروبار جانے نہیں دینا۔ اگر جم گیا تو اور کتنا اپنے میکے سے ہمیشہ دور ہی رہو گی۔ انہی دنوں میرا بڑا بیٹا باپ کے ساتھ کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے جارہا تھا، میں نے اسے روک دیا، گھر کا ماحول اتنا | خراب کیا کہ زبیر سخت دلبرداشتہ ہو گئے، چے نافرمانی کرتے اور باپ کا کمانه مانتے۔ میں نے ان کے دلوں میں لاہور جانے کی آرزو بسادی تھی۔ زبیر بالکل اکیلے ہو گئے اور بے بس ہو کر بستر پر گرگئے۔ انہوں نے ہم سب سے کلام ترک کر دیا اور ہم نے سامان باندھ لیا کہ اب اپنی آرزو کو خود پورا کرنا ہے۔ میں بچوں کو لے کر میکے آ گئی اور وہ گھر اور بزنس سنبھالنے کو اکیلے رہ گئے۔ جب مرد کو گھر میں ذہنی سکون نہ ملے تو وہ کاروبار میں کیسے یکسوئی حاصل کر سکتا ہے۔ جن کے لئے بھی جان سے میاں بھی محنت کر رہے تھے ، وہی ان کو اکیلا کر کے چلے گئے تھے۔ وہ اتنی ہمت کہاں سے پاتے کہ تنہائی اور اکیلے پن سے بھی نبر د آزمارہتے اور کام پر بھی توجہ دیتے جبکہ انتھک محنت ہی کار و بار کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ نی نیا کام تھا، اجڑ کر رہ گیا۔ وہ بار بار خط لکھے، پیغام بھجواتے تھے کہ واپس آ جائو، مجھے نہ اجاڑو، گھر اور بچوں کو بر بادنہ کرو۔ وہ پیار پڑ گئے، ہم لوٹ کر نہ گئے۔ وہ رو رو کر التجا کرتے ، میرے والدین سے فریاد کرتے۔ والدین مجھے سمجھاتے۔ میں شوہر کی جھوٹی جھوٹی شکایتیں بیان کر دیں۔ والدین نے بس رہ جاتے۔ میں کہتی اتنے سال ہم ان کے پاس رہے تھے اب وہ ہمارے پاس آ کر ر ہیں۔ ایک دن وہ آگئے ، بچوں سے کہا۔ میرے لخت جگر ، دل کے ٹکڑوں ! میرا قصور تو بتائو آخر تم لوگ مجھے کس بات کی سزا دے رہے ہو ؟ ہم کیا قصور بتاتے ، ہمارے دل اور دماغ ہی زنگ آلود ہو چکے تھے۔ وہ میری ایک سہیلی رابعہ کے پاس گئے کہ تم نیقہ کو سمجھائو، میری بیوی نے بچوں کو بھی مجھ سے باغی کر دیا ہے ، میر اگھر برباد ہو گیا ہے۔ رابعہ نے آ کر مجھ کو سمجھایا کہ ایسانہ کرو، شوہر سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوتا، وہ غمزدہ رہتے ہیں، کہیں پیار نہ پڑ جائیں، گھر واپس جائو ، عورت کا گھر وہ ہی ہوتا ہے جہاں وہ بیاہ کر جاتی ہے۔ میکے والدین تک ، بعد میں بہن، بھائی کوئی سہارانہ دے گا۔ میر کی بجائے آپا نے رابعہ کو جواب دیا کہ اتنے برس میری بہن نے اپنوں سے دور کی کائی ہے۔ اب زبیر بھائی اپنوں سے دوری کا نہیں۔ ان کو بھی پتا چلے کہ ماں باپ، بہن بھائیوں سے دوری پر کیا گزرتی ہے۔ رابعہ نے آپا سے کہا۔ وہاں زبیر بھائی کے سب لوگوں سے کاروباری رابطے اور تعلقات ہیں اور ان کے دوست ہیں ملتان میں ، ان کی برادری ہے، بھائی ،ماں، باپ ہیں وہ سب آڑے وقت میں مدد کرنے والے ہیں، یہاں لاہور میں ان کے لئے نئے سرے سے کام کرنا آسان نہ ہو گا، یہاں ان کی کون مدد کرے گا۔ تم کیوں فکر کرتی ہو ، یہاں ہم جو ہیں، ہم مدد کریں گے۔ آپ نے جواب دیا۔ نند نے میرے شوہر سے کہا کہ تمہاری بیوی اور اولاد تم کو چھوڑ کر چلی گئی ہے، اتنے بڑے گھر میں تم اکیلے سوتے ہوں ایسانہ ہو رات کو کوئی چوری کی غرض سے آئے اور تم کو کیا اگر خدانخواستہ ختم کر دے ۔ بولے یہ اچھا ہو گا کہ روز روز کے مرنے سے ایک دن ہی مر جائوں۔ ایک دن اطلاع ملی کہ چھوٹے دیور کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہم ملتان گئے۔ وہاں آنے جانے والی عورت نے پوچھا کہ تم میاں کا گھر چھوڑ کر کیوں چلی گئی ہو ؟ تومیں نے سبھی سے میاں کی غلط شکایتیں کیں۔ اس پر عورتوں نے پیر کو برا سمجھنے کی بجائے مجھ ہی کو سمجھایا کہ تم مان جائو اور میاں کو دوش مت دو، کیونکہ تمام عرصہ زبیر نے تمہارا خیال رکھا ہے، اتنا اچھا گھر بنایا ہے، تمہارے لئے محنت کی ہے، کمایا ہے۔ اب اس عمر میں ان کو اکیلے کر جانا ٹھیک نہیں ہے۔ میاں اندر آنے میں سامنے بیٹھی تھی۔ رورہے تھے ، میرا ہاتھ تھام لیا، میں نے اخلا قا تسلی دی۔ بولے۔ دیکھ لو بس یہی زندگی کی حقیقت ہے، یہ زندگی دو چار دن کی ہے، ہم آج ہیں کل نہیں، ہم بڑے بھائی موجود ہیں اور چھوٹا چل دیا۔ کل کا بھروسہ نہیں، بس اب ضد ختم کرو اور گھر کو لوٹ

آئو۔ پانچ سال کی بے رخی اور جدائی ختم کی اور آخر ہم گھر چلے آئے۔ اگلے دن ان کو بخار ہو گیا۔ بھائی کی تدفین میں دوڑ دھوپ کی تھی ، سینے میں درد کی شکایت کی اور لیٹ گئے۔ تین روز یونہی بے سدھ پڑے رہے، بخار بھی ہو گیا تھا۔ بڑا بیٹا جا کر بخار کی دوا لے آیا۔ افاقہ نہ ہوا۔ چھ میرے پاس  دوسرے کمرے میں بیٹھے تھے۔ وہ اکیلے کمرے میں پڑے رہے اور ہم کھاپی کر سوگئے، اچانک جانے کیا ہو اصبح اٹھ گئے اور رات کے پینے لباس میں گھر سے نکل گئے۔ جیب میں بٹوا بھی نہ رکھا۔ اس دن سخت سردی تھی، بارش بھی شروع ہوگئی۔ ہم نے خیال نہ کیا کہ سردی میں بارش بھی ہو سکتی ہے اور وہ بخار میں تھے۔ کوئی ان کے پیچھے تلاش میں نہ نکلا کہ خود ہی آجائیں گے شاید دوا لینے نکلے ہوں گے۔ رات تک نہ آئے۔ رات گیارہ بجے فون آیا کہ انجانے راستے میں کہیں گر گئے تھے ، اجنبی اسپتال لے گئے ابھی تک بے ہوش تھے۔ وہ تو اچانک ایک واقف کار کی ان پر نظر پڑ گئی، پہچان لیا اور ہمیں فون آگیا اسی نے اسپتال کا نام، پتا بھی بتایا۔ ساری رات میں اور بڑا بیٹا اسپتال میں رہے۔ شرم کے مارے ان کے بڑے بھائی کو اطلاع نہ دے رہے تھے۔ ہم نے ان کو اطلاع دی، وہ دوڑے آئے ، گھر لے آئے، ندیں اور بھاو میں بھی آ گئیں۔ میں شرم سے چپ، کیا کہتی، دعا کرتی رہی کہ سلامت رہیں اور نہ سسرال والوں کو کیا جواب دوں گی۔ خدا کی مرضی ان کی زندگی اتنی ہی تھی۔ ہوش میں آئے تو بہکی بہکی باتیں کرنے لگے۔ ان کے ذہن پر اثر ہو گیا تھا۔ مجھ کو پہچان رہے تھے اور نہ بچوں کو کہتے تھے کہ تم لوگ کون ہو؟ اب ہم پریشان تھے، کیونکہ ایسی ذہنی حالت میں زبیر کو سنجان مشکل امر تھا ۔ ان کے بڑے بھائی نے ہماری پریشانی کو بھانپ لیا اور ان کو اپنے گھر لے گئے کہ اپنے بھائی کا میں خود خیال رکھوں گا۔ آپ لوگ نہیں رکھ سکتے۔ زبیر وہاں چند روز رہ کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ اب ہم کو احساس ہوا کہ ہم سے کتنا بڑا ظلم ہوا ہے۔ وہی گھر جس میں رہنے سے میں بھاگ رہی تھی، اس نے مجھے اور میرے بچوں کو پناہ دی۔ میکے والوں نے آسرا نہیں دیا، مگر جیٹے نے سہارادیا۔ جانے والا تو چلا گیا، تم تو اپنا گھر چھوڑ کر نہ وات میں     نے میکے میں رہ کر بھی دیکھ لیا، وہاں بھی چار دن کی چاندنی تھی۔ اب کوئی اس ڈر سے

ساتھ چلنے کو نہ کہتا تھا کہ چار افراد کایہ کنبہ کون رکھے ؟ نیکی کی شادی کی ذمہ داری کون اٹھائے گا ؟ بھائی خاموش، تو بھابھیاں تلقین کر رہی تھیں کہ جو عزت اپنے باپ کے گھر میں رہ کر بچوں کو ملتی ہے ، وہ کہیں نہیں ملتی۔ زبیر کچھ سرمایہ چھوڑ گئے تھے وہی کام آیا۔ مگر یہ رقم بھی رفتہ رفتہ ختم ہوگئی۔ آپ کہتی تھیں کہ ہم جو ہیں، ہم مدد کریں گے ، وہ سب زبانی جمع خرچ تھا۔ وہ بھی دم سادھے تھیں۔ چند روز رہ کر چلی گئیں، دو بار ہنہ آئیں، بس فون پر لفظی تسلیاں دیتیں ، مالی مد د نہ کی۔ اب مجھ کو آٹے دال کا تھا تو معلوم ہو چکا تھا۔ مالی مدد جو کی ، وہ جیٹھ اور نندوں نے کی ۔ وکھ سکھ میں ساتھ دیا۔ والدین ضعیف العمر کیا کرتے ، وہ خود اپنے بچوں کے محتاج تھے۔ اب زبیر کی محبت یاد آئی اور ان کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ بچوں کو بھی عقل آگئی، باپ کو یاد کر کے روتے تھے، جس نے عیش کرائے اور خود محنت کی ساری عمر ہمارے آرام کا خیال رکھا۔ انہی دنوں جب پریشانی سے سخت بھی ماند ہ تھا۔ کسی نے بڑے لڑکے کو گلی میں گالی دی، اس نے غصے سے پتھر اٹھا کر دے مارا۔ اس لڑکے کا سر پھٹ گیا، خون بہنے لگا، اس کو لوگ اسپتال لے گئے۔ میرے لخت جگر کو حوالات کے جاکر بند کروادیا۔ میری جان پر بن آئی۔ بھائیوں کو فون کیا، جواب ملا اتنی دور کام دھندا چھوڑ کر کیسے آئیں، وہاں تو کئی دن لگ جائیں گے ۔ تم اپنے جیٹھ سے کہو، جو ملتان میں بیٹھے ہیں۔ ادھر راشد جیل میں بے یارومددگار، بے سہارا ادھر گھر میں، میں روتی تھی کہ اس وقت اگر زبیر ہوتے تو کیسے برداشت کرتے کہ ان کے بیٹے کو جیل ہو ۔ وہ تو دلیر ، دبنگ اور قانون کے ماہر آدمی تھے۔ مگر اب مجبور تھے۔ بیٹے کی مدد نہ کر سکتے تھے کہ اب منوں مٹی تلے جاسوئے تھے۔ آخر بیٹے کے پاس گئی کہ آپ میرے بیٹے کی رہائی کروائیں، والا وارث جیل میں پڑا ہے۔ وہ حوالات میں بند کرانے والوں کے پاس گئے ، راضی نامہ کرا کر جھگڑا ختم کرایا، معاوضہ بھر اور راشد کو چھڑا کر لے آ ئے۔ آج شوہر کے نہ ہونے سے میں خود کو کتنا تھا اور بے بس محسوس کر رہی تھی۔ بہن، بہنوئی کو پیغامات بھٹے، بھائیوں کو بلوایا کوئی نہ آیا جس میکے کے پیچھے بھاگتی رہی، کوئی کام نہ آیا۔ اب میکے والے نہیں پوچھتے تھے۔ اکیلے ہی دکھ کاٹے تھے۔ جیٹے نے پھر بھی ساتھ دیا۔ ساس، سسر جو جمیٹھے کے گھر رہتے تھے، میرے پاس آگئے کہ میں اکیلی نہ رہوں۔ اب سوچتی تھی کہ جس کے لئے گھر بار ، شوہر چھوڑ دیا تھا، برے وقت میں انہوں نے ہی مجھے چھوڑ دیا۔ کیا بتائوں دل پر کیا گزری۔ مجھ سے بڑی بھول ہوئی، اتنے محبت کرنے والے شوہر کادل دکھا کر اور بہن کی باتوں میں آ کر۔ میرے چھ ساتھی اور میرے بچوں کے ہمدرد تو صرف زبیر بھی تھے۔ اب ہر ایک سے کہتی ہوں اچھا شوہر ملے تو اس کی قدر کرنا چاہئے ورنہ دیکھ سکتے ہیں۔ شوہر کے سوا سارے سہارے جھوٹے ہوتے ہیں، چاہے بھائی ہوں یا بہنوئی، برے وقت میں کوئی کسی کا نہیں۔


Post a Comment

0 Comments