New Urdu Story Subha Ka Bhoola Teen Auratien Teen Kahaniyan |
پہلے تو امی کو کوئی رشتہ پندت آتاتا۔ باجی نہیں کی ہو گ یں، ہر کسی نے احساس دلایا کہ تم کسی قسم کے من پسند رشتے کے انتظار م یں ہو۔ اگر طیب کی عمر کچھ اور آگے کورک گئی تو پھر مناسب رشتہ ڈھونڈتی، باتھ ملتی ره بانوگی۔ اب جو رشتہ ان کو پسند آیا وہ ہر لحاظ سے بہترتا۔ لڑکا پڑھ لکھا، خوبرو، پانی سے ایک بال بڑا اور خوشحال گھرات کتا لیکن ایک خدشہ کتا کہ چھ بہن بیاہی نندوں اور سات دیوروں کے ہمراہ رہنے سے ہمیں ایسے مسائل پیدا ہوبائیں کہ پانی کا جینا دوبھر ہوجائے۔ خیرال کا نام لے کر میری والدہ نے لڑکے والوں کو بان، کر دی اور باجی کی شادی نعمان بھائی سے ہوگئی۔ باہی کے شوہر اگر پ اچھے انسان تھے ، میری بہن کو پاہتے تھے ، ان کا خیال رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے لیکن سسرال م یں اتنے بہت سے لوگوں م یں سے دو تین ایسے بھی ہوتے ہیں جو وب بے سکونی بنتے ہیں۔ عترض پای صرف پانچال شوہر کے گھررہ سکیں اور تین بچے لے کر میکے آ گتیں۔پ نہیں کہ وہ خود اپنا گھر چھوڑ کر میکے آئی تھیں۔ نعمان بھائی نے بھی روز روز نت دوں کی محبت سے بیوی کی حبان چھڑوانے کو انہیں ہمارے یہاں چھوڑ دیات۔ کہا کہ علییده گھر کا انتظام کر لوں تولے جائوں گا۔ میرے گھر کے توسارے ہی لوگ طیب کی بان کا آزار بنے ہیں۔ یہاں میرے بچے کچھ دن سکون سے رہ لیں گے۔ باتی کو میکے پنجپانے کے بعد ہمارے بہنوئی کا دل بھی نہ لگا اور وہ گھر چھوڑ کر ایک دوست کے مکان م یں ی مکان اکثرتالی رہتا وہ دوست اپنی ملازمت کی وب سے کبھی کہیں اور کبھی کہیں ہوتا۔ کبھی کبھی مکان کی دیکھ بھال کو آتاتا۔ ا س مکان کے پڑوس م یں ایک بیوہ عورت اور ا س کی مطلق بنی رہائش پذیر تھیں۔ بوڑھی خاتون سے نعمان بھائی نے اپنے لئے کھانا بنانے کی درخواست کی۔ یوں ماں بیٹیاں میرے بہنوئی صاحب کو بعض اوتات جو گان میں نہیں ہوتا، وہ ہوباتا ہے۔ کسی نے سوپ بھی ن تا کہ پ سب ہوجائے گا۔ حتی کہ خود نعمان بھائی نے بھی نہیں سویت لیکن تدرت عجب کھیل کھیلتی ہے۔ محبانے کے لیے نعمان کو بیوہ کی مطلق بیٹی صفی پسند آگئی۔ وہ کھانا ایسا عمدہ اور لذیذ بناتی تھی۔ دونوں م یں پسندیدگی استوار ہو گئی اور انہوں نے صفی سے نکاح کرلیا اور پھر اپنی نئی زندگی م یں ایسے گم ہوئے کہ پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ ہی اپنے والدین اور بہنوں بھائیوں تک کو بھول گئے ۔ انہوں نے پیش کر کسی کی خبر لی۔ شاید وہ عورت کوئی بادو گرنی تھی یا پھر اپنے گھر والوں کو ہی اپنی بربادی کی وحب اور خوشیوں کاقتتل سمجھتے تھے۔ میرے والد صاحب بوڑھے تھے۔ وہ کمانے کے قابل نہ رہے تھے ، بڑے بھائی ملازمت کرتے تھے اور وہی گھر
کے احترابات رداشت کر ہے تھے۔ تینوں میرے بھائی شادی شدہ بچوں والے تھے۔ ہماری ماں بیٹوں کی محتاج نہیں، میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کو میری فکر بھی کھائے جاتی تھی۔ باقی تین سال ہمارے گھرہیں۔ بھائیوں نے ان کا اور ان کے بچوں کا ترپ بر داشت کیا۔ اس اثناء میں میری بھی شادی ہو گئی۔ میں بیاہ کر پہلے اسلام آباد، پھر سویڈن چلی گئی۔ وہاں سیٹل ہونے کے چکر م یں ہم اپنے مسائل م یں الجھ گئے۔ سویڈن میں میرے میاں پڑھ بھی رہے تھے اور ہم دونوں نوکری بھی کرتے تھے۔ ہم کو ترست نہ تھی کہ میکے کے حالات کھنگالتے۔ جب نبیوں نے پہلے صبر سے کام لیا پھر جب ان کو یقین ہو گیا کہ اب پ ا شادی شدہ نند طیبہ اوراس کے تینوں نے ہم پر مستقل بوجھ ہیں تو ان کے رویئے روز به روز بدلنے لگے۔ وہ باجی کو ملازم کادر ب دینے لگیں، بات بے بات باتی اور امی کو تنگ کرنے لگیں، ان کے بچوں کی معمولی شرارتوں پر بھی ان کو پینے لگیں۔ اماں کہتیں، ان کوبے نقط سنادیتیں۔ شوہروں کے الگ کان بھی تھیں جس کی وب سے میرے بھائی بھی ماں اور بہن کے خلاف ہو گئے اور امی کو باجی کی ط رفداری پر قصور وار گر دانے لگے۔ جب باجیاں بچوں کی وحب سے بابھی پر بگڑ باتیں تو بھائیوں کے تیور میری والدہ سےخراب ہوجاتے۔ اس صورتحال نے امی اور باہمی کو بو کھلا دیاحالانکہ باجی ملازمت کے ساتھ م ل کر برابر سے، جب ہمیوں کے سارے کام کر تیں۔ کین سنیاستیں، کھانا کھاتیں، حتی کہ بھائیوں کے کپڑے اور بھانجیوں کے بچوں کے لیونیفارم تک استری کر کے رکھتیں لیکن وہ پھر بھی ان سے خوش نہ ہو تیں۔ بلکہ ان کو اور ان کے بچوں کو اپنے در پر پڑا کوڑاج کر مت چپ لیتیں۔یہ میں قیام کا قصور نہ تا۔ جب تک والد زندہ رہے۔ بھائی اور نمایاں اندر اندر گھٹتے رہے۔ مت سے کچھ ان کے سامنے نہ کہ تے تھے۔ ان کے فوت ہونے کے بعد تو بائیوں نے ای حبان کو تر کاترپ دینا بھی بند کر دیا کیونکہ وہ اپنی میں اورا س کے بچوں کو پال رہی تھیں۔ ہماری ملازمت یہ کافی پرانی اور نیک دل عورت تھی۔ ووتریب ضرور تھی لیکن دل کیتریبت تھی۔ وہ باہمی سے کہانیوں کا برا سلوک دیکھ کر کڑھتی۔ ایک دن بڑی جانبی نے میری بہن سے صاف کہہ دیا کہ ہم تمہاراحترپ نہیں اٹاتے یا تو بچوں کو ان کی دادی کے حوالے کر دو اور شوہر سے خلع لے کر اور شادی کر لو یا پھر جہاں پاہے با کر ر ہو لیکن ہمارے گھر سے پلی بائو۔ دوسری حجابی بولیں۔ اگر اماں تمہاری حمایتی بنیں تو بے شک ان کو ساتھ لے بائو۔ ملازمت پ یاری باتیں سن رہی تھی۔ بانی اور امی رورہی تھیں۔ ملازم کو بہت دکھ ہوا۔ ا س نے باہمی کو چپ کرایا، تسلی دی۔ باجی نے سلیمہ سے کہا۔ نالہ تم ہی بتائو میں کہاں جائوں؟ تین بچوں کا ساتھ ہے، سسرال والے مجھے رکھتے ہیں اور شوہر کا کچھ اتاپتا نہیں ہے۔ تم کسی گھر مجھ کو کام دلوادو، اگر وہ لوگ رہائش دے دیں اور میرے تینوں بچوں کو بھی رکھ لیں تو میں ملازمت کرنے کو بھی تیار ہوں۔ بی بی ... آج کل و کیسے لوگ نہیں رہے جو آپ کے ساتھ آپ کے تینوں بچوں کو بھی اپنے گ ر رہنے دیں۔ تو پھر تم مجھے اپنے گھر لے چلو۔ چے وہاں رہیں گے تو میں کہیں ملازمت کر لوں گی۔ م یں رکھے تو لوں بی بی طیب، لیکن آپ کے گھر والے کیاپ گوارا کر لیں گے۔ ان کو ا س بات کی کیا پرواہے م یں جہاں رہوں۔ بھائی بھی اتنے روکھے ہو گئے ہیں کہ مجھےسے بات تک نہیں کرتے اور اماں کا ترپ بند کر دیا ہے۔ اور زیادہ کیا وہ مجھ سے بیزاری کا اظہار کریں گے؟ ان سب کا یہی مطالبہ ہے کہ میں اپنے بچے سنگدل نندوں اور ا س کے پاس چھوڑ آئوں۔ بانتی ہو وہاں بغیر ماں باپ ان سے کپ سلوک ہو گا ۔ اول تو وہ ان کو رکھنے کے نہیں، جب باپ نے ہی ان کو چھوڑ دیا وہ کیوں ر میں گے۔ میں مسربنوں گی مگر عدالت میں نعمان پر خلع کے لئے الیت کروں گی، تو دوسری شادی کروں گی۔ ا س سے بہتر ہے کہ میں یہاں سے کہیں پلی باتوں اور نوکری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال لوں۔ نالہ تم کچھ دن کو مجھے اپنے گھر رکھا طیب چینی میں رکھ تو لوں لیکن میں تو جھگی میں رہتی ہوں۔ میں بھی تمہارے باتھ جنگی میں رہ لوں گی۔ میری تجھگی اتنی چھوٹی ہے کہ اس میں دو تین لوگ آڑھے ٹیڑھے سوتے ہیں آپ کیسے رہ لیں گی؟ اچھا توپ بتائو کہ جھگی بنانے م یں کتنا ترپ آتا ہے۔ میں تمہاری جگی کے نزدیک جنگی ڈال لوں گی۔ آپ جوان جان ہیں بچوں کے ساتھ اکیلی رہ لیں گی ؟ ر لوں گی۔ تمہارا گھرات توباتھ ہوگا۔ تمہارا بیٹا اور بہو ہیں ، وہ ہی میرا خیال رکھ لیں گے۔ جب بابی کو زار و زار روتے دیکھا، ہماری ملازمت نالہ سلیمہ نے تسلی دی۔ کہا کہ ٹھیک ہے آپ اب ایسے میرے گھر لیکن آپ کے بھائیوں کو خبرت ہو ورت مجھ کو مورد الزام شہرائیں گے۔ جاں ہورہی تھیاس نے وہاں کا پتا سمجھا دیا۔ بولی۔ آپ خود آب انا۔ کیونکہ میرے ساتھ چلیں گی تو آپ کے گھر والے میری گردن پکڑ لیں گے۔ یہ سمجھ رہی تھی کہ پوتی فیصلہ ہے، کہاں طیب گھر سے نکلے گی لیکن باجی نے بھی مان لی تھی۔ شام کو بغیر کسی کو بتانے چپکے سے بچوں کو لے کر گھر سے نکل کتیں۔ سڑک سے رکث لیا اور اس کو پتا بتایا۔ وہ شاید اسی میدان میں بنی کسی جنگی کانشین تا۔ وہ ان کو م یچ جنگ لے گیا اور باتھی نے یوں اپنی ملازمت کی جھگی میں بائیکاٹ کیا۔ یہ نالہ نے چ کہاتا۔ ان کی تجھگی میں صرف تین ارپائیاں سما سکتی تھیں۔ ایک پارپائی کی جگ تالی تھی۔ جہاں بیٹھ کر ان کی بہو کھانا پکاتی تھی۔ ا س رات وہ ساس اور بہو ایک پارپائی پر سوئیں اور یہ نالہ کا بیٹا کہیں باہر ب سویا۔ دوسری دو پارپائیوں پر بانی اور ان کے تین پے سوئے۔ ساری رات ان کو مجھپروں نے سونے نہ دیا۔ اب بابی کو احساس ہوا کہ واقعی نالہ سلیمہ نے میچ ہات۔ مج جب وہ کام پر آگئی امی رورو کر نڈھال تھیں۔ بابیاں کہہ رہی تھیں کہ تمہاری بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے، اور تم کو تو کم از کم بتا کر ہی بات کہ کہاں جارہی ہے۔ لیہ والہ سے اسی کی حالت دیکھی گئی، ان کو چپکے سے باخبر کر دیا کہ تمہاری بیٹی میرے پاس موجود ہے۔ نکرت کرو بلکہ میرے ساتھ پل کر اس کو سمجھا بجھا کرنے آئو۔ وہ ناز و پلی جلا ہاں ایک غریب کی جھگی م یں رہ سکتی ہے اور کتنے دن؟ امی کی حبان میں جان آئی اور وہ شام کوتالی سلیمہ کے ساتھ اس کے گھر چلی گتیں۔ بانی ماں سے لپٹ کر خوب روئیں۔ اماں نے کہا تمہارے بھائی اور بایاں جی بھی سلوک کریں اپنے ہیں۔ تم میرے ساتھ واپس گھر پلو لیکن بایتی بانے پر راضی نہ ہوئیں ۔ ماں کو مجبور کیا کہ تم بھی میرے ساتھ ر ہوں، ہم میباں جھگی ڈال لیتے ہیں، تم بچوں کو سنہالتا، م یں کہیں ملازمت کر لوں گی۔ عرض باجی نے امی کو گھر واپس بانے نہ دیا اور اپنی سونے کی بالیاں نالہ سلیمہ کے بیٹے کو دے کر کہا کہ سامان لے آئو۔ میں نے اسی میدان م یں آپ لوگوں کے تریب جگی ڈالتی ہے۔ وہ بھپارا بکا کا باہمی کے اصرار پر بات چٹائیاں وغیرہ لے آیا۔ لیکن وہاں کے لوگوں نے باجی کو جنگی تہ ڈالئے دی کیونکہ باجی اور بچوں کے کپڑوں سے ان کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ہمارے طبقے کے نہیں ہیں، کسی خوشحال گھرانے کی ہیں۔ نجانے کیا معاملہ ہے جو یہاں رہنا پاتی ہیں۔ میدان میں وہاں ساری حجابیوں کے م رد اکٹھے ہوگئے اور پ بپاریاں پریشان حال سامان پر بیٹھی تھیں کہ ایک واقف کار | شخص نے بچوں کو پیپان لیا۔ یہ ایک وین ڈرائیور تاجو بھائی کے بچوں کو اسکول ل تالے بتاتا۔ اس کا نام منظور بیت۔ منظور بھاگا ہوا میرے بھائی کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔ حمید صاحب آپ کے کھانے بانی اور آپ کی ہمشیرہ اور والدہ تلال جا ت ی ہیں اور مشکل م یں ہیں۔ بڑے بھائی فورا منظور کے ساتھ میدان پہنچے۔ اپنی ماں، بین اور ان کے بچوں کو یباں دیکھ کر ان کا سر شرم سے جھک گیا۔ ان کو غیرت آئی اور تجھگی کے بامان بانسوں اور چٹائیوں وغیرہ کو آگ لگادی۔ امی باہی اور بچوں کو گاڑی میں بیٹھ کر گھر لے آئے اور بہت غصب کیا کہ تم نے تو میری ناک کٹوادی، غصب تا تو مجھ سے جگر میں گھر کے برتن توڑ تھیں لیکن پا تم نے کپاکی۔ تجھگی ڈالنے چلی گئیں۔ بانی کیاجواب دیتیں، اماں نے کہا۔ ہاں میاں بولو۔ جو جی م یں آئے بولو۔ تم نے تو مجھ کو ترپ دینا بھی بند کر دیا۔ اسکی بہن کے کارن کہ دو توالے اس کو کھلارہےتھے۔ میری بیٹی تمہاری بیوی اور جب کھیوں کی پاکری کرتی ہے تو میں تمہاری کمائی سے دو نوالے کھاتی تھی۔ اب کاہے کی غیرت آرہی ہے تم کو اور اپنے ان دونوں بھائیوں سے بھی پوچھو ذرا کہ ان کی بیویاں کیا سلوک کرتی ہیں، سارادن طبیب کے بچوں سے، ا س سے تو اچھا ہے کہ ان بچوں کو تم اپنے ہاتھوں یتیم خانے م یں جمع کراکر آبائو۔ ماں کے کبھی صبر کا بند آج ٹوٹے گپاتا۔ بالاتری فیصلہ ہوا کہ تینوں کھائی مل کر بہن اور اس کے بچوں کا ترپ اٹھائیں گے اور مکان کی چھت پر طبیب کے لئے دو کمرے بنوادیں گے۔ آ ر تو اس بائیدادمیں ان کا بھی حصتا کہ مکان باپ دادا کی وراشتے کیتا۔ یوں باتی کوعافیت نصیب ہوئی۔ تاہم اسکول سے آکر م انیاں ان بچوں کو بیٹھنے دیتیں۔ خاص طور پر باہمی کے بڑے والے بیٹے ا ن کو جو ان دنوں ابھی صرف بارہ برس کا تا۔ ایک روز وہ بڑی بابلی کے کمر ے کے بالکے اتار رہاھتا، ا س سے ان کا ایک قیمتی گلدان ٹوٹ گیا جو وہ جہیز میں لائی تھیں۔ بس پرکبات انہوں نے وہی چھری انٹیلی جس سے وہ بالکے اتار رہالت اور خوب ہی ا ن کو پیٹا اور بولیں۔ نکل بایباں سے اور پھر مجھے اپنی منتھوس صورت مت دکھانا۔ ا ن سہم گیا۔ بجانبی نے تو غلے م یں ایسا کیاتا۔ وہ چ چ یہیں سمجھا کہ اب ان کو اپنی شکل نہیں دکھائی ہے۔ اس نے ماں کانٹو والشالیا اور گھر سے پلاگیا۔ رات تک لوٹا تو میں اور بھی پریشان ہو گتیں۔ بھائی آئے ان سے احوال بتایا۔ وہ بھی ڈھونڈنے نکلے لیکن لڑکا تو ایاغائب ہوا کہ پھر نہ ملا۔ باجی رورو کر نیمبان ہو گتیں۔ ا ن انتابانتانت کہ اس کا باپ لاہور میں رہتا ہے مگر کہاں پ معلوم نہ تا۔ وہ بس میں سوار ہو کر لاہور پلاگیا۔ ماں سے سن رکھا تا کہ لاہور کے علاقے اچھرہ میں گھرپاتالیکن اچھرہ تو بہت بڑاعلات تا، اتنے بارے مکانات تھے۔ کیا معلوم وہ کون سے مکان میں رہتات۔ ان وہاں ادھر ادھر گھوم رہا تا کہ ا س کو بھول گیا۔ وہ ایک نان بائی کی دکان پر پاپا اور روٹی خریدنے کو بٹوہ نکالا۔ جس م یں ا س کے باپ اور ماں کی شادی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ تصویر کو اس نے نان بائی سے چھپالیا اور روٹی دال لے کر وہ ایک کونے م یں کھانے کو بیٹھ گیا۔ شام ہو رہی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ کہاں ٹھکات کرے ، رات ہوجائے گی تو کہاں سوئے گا۔ تبھی اس کی نظر سامنے سڑک پار مسیر پر پڑی۔ وہ وہاں پلاگیا۔ مغرب کی نماز کا وقت ہورہاھتا۔ وہ بھی آتری صف میں حب کھڑا ہوا۔ نماز ختم ہو گئی۔ نمازی مسجد سے نکلنے لگے مگر وہ مسجد کے صحن میں ایک طرف بیٹھ گیا کیونکہ بہت تھک گیتا۔ دیوار سے ٹیک لگائی تو نیند آگئی۔ وہاں ہی سو گیا۔ عشاء کی نماز پڑھانے امام مسبہ ادھر سے گزرے انہوں نے ا ن کو جگایا اور پوچھا۔ بیٹا تم کون ہو اور یہاں کیوں سو رہے ہو۔ میں باہیوال سے آیا ہوں۔ میرے والد یہاں رہتے ہیں۔ ان کا گھر ڈھونڈنات۔ تھک گیا تو مسیب آگیا۔ ذرا دیر کو ستار باست، نیند آگئی۔ اچھا بیٹے تم میرا انتظار کرو۔ عثاء کی نماز ہو لینے دو۔ یہاں ہی رکے رہنا، میں تم سے بات کروں گا۔ عشاء کی نماز ختم ہو گئی ، لوگ چلے گئے۔ امام صاحب ا ن کے پاس آئے پوچھا۔ کھانا کھایا ہے ؟ سہ پہر کو سامنے والے نان بائی سے لے کر کھا پاتا۔ اب کہاں باگر سوگو گے ؟ سونے کی تو کوئی جنگ نہیں ہے۔ اچھا تو پھر میرے ساتھ میرے گھر پلو۔ رات کو وہاں سوبانا، مجتمہارے والد کو تلاش کرنے کی کوئی سبیل نکالیں گے۔ ا ن ان کے بانجھ ہولیا۔ امام صاحب کا گھر مسجد سے متصل تا۔ وہاں ان کی بیوی بچے بھی تھے، ا ن کو ان کی بیوی نے کھانا دیا اور بستر بھی ایک طرف بچھا دیا اور بولیں کہ آرام سے سور ہو۔ اب معمول ہو گیا کہ امام صاحب کے ساتھ وہ مسج سبد پلاباتا اور ہر نماز کے بعد جب نمازی مسجد سے نکلتے، وہ دروازے کے پاس کھیراہو بتا کہ شاید کوئی ایسا شخص جس کی شکل ماں کے بٹوے م یں کئی باپ کی تصویر سے ملتی ہو، اس کو نظر آجائے، شاید اس کا باپ جس کا گھر اچھرو میں مال نے بتایات ایباں نماز پڑھنے آتا ہو اور بھی اس کو وہ تصویر کی مدد سے پہچان لے۔ احسن ایک بپتا اور اس نے ایسی تصوراتی باتیں سوچ لی تھیں۔ ایک روز امام صاحب کی بیوی نے کہا۔ بیٹا ا ن یا تو مدرسے م یں داخلہ لے لو اور کچھ علم حاصل کر لیا پھر اپنے پائوں پر کھٹے ہونے کی کوئی تدبیر کرو۔ ایسے کسی کے در پر پڑے رہنے سے تو تمہاری زندگی نہیں گزرنے کی اور نہ اس طرح تمہارا باپ تم کو مل سکتاہے۔ احسن نے اس عورت کی بات گرہ میں باندھ لی ۔ ماں کے بٹوے میں کچھ روپے تھے۔ اس نے ان سے کام شروع کرنے کی سوچی۔ وہ نان بائی کے پاس گیا اور پوچ کی مجھے یہاں کوئی کام م ل بائے گا ؟ وہ بولا۔ یہاں تو دولڑ کے پہلے سے موجود ہیں۔ تیسرے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں وہ سامنے اسکول کے پاس جو کھوکھاہے وہاں پل بائو۔ کلی کھوکھے والا مجھے کہہ رہا تا کہ اس کو ایک لڑکے کی ضرورت ہے۔ وہ وہاں گیا، بیان والے کا کھو کھاتا۔ ا س نے نان بائی کا حوالہ دیا۔ وہ بولا۔ تم رہتے کہاں ہو۔ امام ص احب کے پاس۔ تو ان کے مدرسے میں داخلہ کیوں نہیں لے لی؟ اس طرح میں اپنے والد کو تہ ڈھونڈ لوں گا۔ پھر اس نے کھوکھے والے کو اپنی روداد مخبرسنادی اور بٹوے م یں گئی اپنے والدین کی تصویر بھی دکھائی۔ وہ بولا۔ مجھے شک پڑتاہے کہ ا س تصویر سے ملتی بلتی شکل کا ایک آدمی اپنے بچے کو اسکول چھوڑنے آتا ہے۔ تم ای کرو کہ کچھ ٹافیاں، بسکٹ اور مونگ پھلی کے پیکٹ لے کر اسکول کی دیوار کے پاس بیٹے بائو۔ بچے ادھر سے گزرتے ہوئے تم سے پ چیزیں خریدیں گے ، تم بھی دوگنی ہوجائے گی اور ممکن ہے کہ تمہارا باپ بھی تم کو مل جائے۔ کھوکھے والے نے تو بس ایسے ہیں ازراہ ہمدردی اس کو مشورہ دیانت اور ٹافیاں، بسکٹ وغیرہ کے پیکٹ بھی اپنے کھوکھے سے اٹھ کر د ے دیتے تھے۔ احسن نے اس کی بات پر عمل کیا۔ کھوکھے والے نے ایک بیلت والی ٹرے میں پ سب چیزیں اس کو سبا کر دے دیں اور وہ اپنے والی ٹرے کو گلے میں انکا کر اسکول کی دیوار کے پاس ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ اسٹول بھی اس کو کھوکھے والے نے ہی و یا کھتا۔ ایک دن ایک شخص اپنے بچے کو اسکول سے لینے آیا۔ بپ جب ا ن کے تریب سے گزرا تو وہ ٹافیاں لینے کو مل گیا۔ باپ نے رک کر اس کو ٹافیاں خرید کر دیں۔ ا ن نے بقي دس روپے دینے کے لئے بٹوہ نکالا اور کھول کر احتیاط سے دس کا نوٹ نکالا تھی ا س شخص نے بٹوے م یں گئی تصویر دیکھ لی اور پوچھا۔ لائے تصویر کس کیا ہے؟ ذرا مجھے دکھانا تو کیوں دکھائوں؟ مجھے لگتا ہے کہ ا س تصویر والے آدمی کو م یں نے کہیں دیکھا ہے۔ ا ن سوچ میں پڑ گیا کیونکہ باپ کی تصویر کے ساتھ اس کی ماں کی تصویر بھی تھی۔ گھبرائو نہیں، تم مجھ کو تصویر دکھادوي شخص لاہور م یں رہتا ہے۔ میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب ا ن کو حوصلہ ہوا۔ اس نے بٹوہ کھول کر پوری تصویر اس کے سامنے کر دی۔ ان کو جس طرح اس نے غور سے دیکھا۔ ان بھی اسی طرح اس کو متجسس نگاہوں سے دیکھی بات کیونکہ تصویر سے ا س آدمی کی مشابہت معلوم ہوتی تھی ۔ اس شخص کا دل دھڑکا۔ کہا کہ تم ا ن بو؟ ہاں.... اور آپ آیا ہو؟ ہاں میرے پے۔ تیری پ ا ت۔ اس نے یکدم لڑکے کو سینے سے لگالیا۔بات برس بعد بیٹے کی شکل دکھی، سینے سے لگایا تو باپ کے خون نے جوش مارا۔ ا ن کو لے کر نعمان گھر آئے ، صفی سے کہا۔ بیوی اس کو کھانا | وغیرہ کھلائو۔ تب تک میں نے کپڑے اس کے لئے لے کر بازار سے آتا ہوں۔ خبردار جو تم نے اس کے بارے کو تاہی کی، پی میرالت بگر تمہارے کارکن اس حال کو پہنچا ہے۔ نیب نے اوروں کا حال اس سے اچھا ہے یابر اہے؟ ا ن نے باپ کو ہر مصیبت جو اس کی ماں اور بچوں پر بیتی سنائی، وہ روئے اور بولے۔ ہے جن کو باپ چھوڑ دیتے ہیں یا ان بچوں کی حالت ایسی ہی ہوباتی ہے۔ دو دن بعد وہ ا ن کو لے کر بھائی کے گھر آئے۔ جاگی تو کوئی بھی اس کو دیکھنے کا روادار من تا مگر میری بابی بھی انھیں جیسے ان م یں کسی نے بان ڈال دی ہو۔ کوئی بھی مصلے پر تیارت تالیکن باتھی نے کہا۔ اتنی مدت بعد میرا سہاگ لوٹ آیا ہے۔ م یں ا س موقع کو کیوں ہاتھ سے گنوادوں۔ نعمان مجھے لینے آئے ہیں، میں ضرور ان کے ساتھ بائوں گی۔ میرے بچوں کو تو ان کا کھویا ہوا باپ مل گیا ہے۔ وہ جھٹ پٹ اپنے شوہر کے ساتھ بانے پر تیار ہو گئی۔ سوتن کے ساتھ گزارا کر نا بھی گوارا | کرلیا۔ لیکن صفی نے جو اپانک بات برس بعد سوتن و میھی، صدمے سے دیوار سے بائی۔ یا تم نے ا س عورت کو سنبالا، دلاسا دیا مگر صفی سوتن کا دکھ برداشت کرنے والوں میں سے ت تھی۔ اس نے پ دکھ ہی کو گالی اور اندر اندر گئے گی، یہاں تک کہ بیمار ہو کر پارپائی پر پڑ گئی۔ بابھی نے ا س بیمار کی بہت دکھ بال کی۔ وہ تین سال پارپائی پر پڑ گئی۔ بالاحتراس جہاں سے رخصت ہو گئی۔ اس کے بیٹے کو بھی باجی نے اپنے بچوں کی طرح پالا کہ وہ اپنے سوتیلے بہن بھائیوں میں اس طرح گھل مل گیا کہ اب یہی سمجھتا ہے جیسے وہ بھی میری بہن کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔ لوگ جب پ تصب بنتے ہیں حیران ہوتے ہیں۔ چاہے صبر کرنے اور امید کا دامن نہ چھوڑنے والوں کے دن ایسے ہی پھر تے ہیں کہ کسی کو یقین نہیں آتا۔ آن با جی کے پی جوان ہیں اور وہ آرام و سکون کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔
0 Comments