Search Bar

New urdu Story Uff Ye Apney Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

New urdu Story Uff Ye Apney  Teen Auratien Teen Kahaniyan


میرے والد کے دو بھائی تھے ، باکو ان سے بہت محبت تھی۔ غرض یہ تینوں ہی یک جان دو قالب تھے۔ تایا اور چالی طور پر خوشحال تھے جبکہ ہمارے حالات ذرا پتلے تھے۔ والد نے سوچا کیوں نہ دیار غیر جائوں، وہاں کی کمائی سے میرے پے بھی خوشحالی اور سکھ دیکھ لیں گے۔ ان دنوں میں سات برس کی اور بھی راحت نو سال کے تھے کہ اباجی ہم دونوں کے لئے خوشیاں اور سکھ کمانے کویت چلے گئے۔ ان کا تین سال کا معاہدہ وہاں کی ایک کمپنی سے ہوا کہ جہاں ان کو ملازمت ملی تھی، یہ تین سال ہم ان کے لوٹ آنے کے منتظر، گن گن کر دن گزارتے رہے، جب ان کے آنے میں ایک ماہ رہ گیا تو زندگی نے وفانہ کی اور وہ ہماری منتظر نگاہوں کو پیاسا چھوڑ کر چل بسے۔ ان کے دیار غیر میں گزر جانے کی خبر سے ہمارے معصوم دلوں پر جو گزری، وہ دل ہی جانتا ہے۔ ہم بہن، بھائی اور امی کی آنکھوں سے برسات کی جھڑی گئی تھی۔ تایا اور چچا بھی اداس تھے۔ وہ ہماری اشک شوئی کور وز آتے، ہمیں گلے سے لگاتے، اسی کو تسلی دیتے لیکن والدہ کا اب گھر میں اکیلے رہناد و بھر ہورہا تھا۔ ان کے سر سے چادر اڑ گئی تھی، وہ جوانی میں اکیلی رہ گئیں اور اکیلے رہنے سے ساری دنیا میں بنانے والی تھی۔ تبھی چچا نے ان کو مشورہ دیا کہ بھابی! | دونوں بچوں کے ہمراہ ہمارے ساتھ چلو اور اپنا مکان کرائے پر اٹھادو۔ ماشاءاللہ میرے گھر میں  کافی جگہ ہے اور مکان سے تم کو ہر ما معقول کرایہ بھی آتا رہے گا۔ والدہ مان گئیں، ان کو ہماری بھی فکر تھی۔ وہ ہماری دیکھ بھال بغیر سرپرست نہ کر سکتی تھیں۔ چاہتی تھیں تا یا چاکی سر پرستی میں ان کے چھ پروان چڑھیں۔ تائی الگ مزاج کی تھیں، ان کے گھر میں سنایا جانا ہمارے لئے مشکل تھا۔ چاہمارے سر پرست بن گئے اور پچھانے میں پیار سے رکھ لیا۔ دونوں ہی یہ چاہتے تھے کہ میرا بھائی راحت تعلیم حاصل کر لے تو وہ اپنی لڑکی فیروزه کواس سے بیاہ دیں۔ مگر راحت بھی میٹر ک نہ کر سکے تبھی چپ مایوس ہو گئے اور اپنی لڑکی کی راحت سے بیاہنے کا ارادہ ترک کیا۔ وہ بیٹی کے لئے اور کسی اچھے رشتے کی تلاش میں رہنے لگے۔ بچی بھی اس کے بعد ہم سے بد دل ہو گئیں کہ جس مقصد کے لئے ہم لوگوں کو پال رہی تھیں، وہ پورا ہوتا نظر نہ آرہا تھا، پس ان کا رویہ انی جان سے سرد ہو گیا۔ میری والدہ نے ان کی بے رخی کو محسوس کر لی اور راحت بھائی کے دل پر بھی چوٹ گئی۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن پڑھائی میں اس کا دماغ چل ہی نہیں، لگتا تھا جیسے باپ کی دائمی جدائی کے بعد ذہن مفلوج ہو گیا ہو۔ چچا نے راحت کو اپنے ساتھ کام میں بھی لگانے کی کوشش کی لیکن کار و بار کی سوجھ بوجھ نہ ہونے کے سبب اس کا وہاں کبھی بھی نہ لگا۔ اس سے غفلت ہو جاتی تو چا بری طرح ڈانٹتے، بھی گھنٹوں نصیحت کرتے۔ راحت نے اس صورتحال سے پریشان ہو کر ان کے ساتھ کاروبار میں معاونت سے آناکانی شروع کر دی۔ چاغصے میں آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے ہم سے منہ پھیر لیا، تبھی ان کی بیوی نے ایک روز رات کو گھر سے نکال باہر کیا۔ بیٹا ہی ماں کی آخری امید تھا اور اسی کو راحت بھیا سے والہانہ محبت تھی، اس کے بغیر وہ نہ رہ سکتی تھیں۔ انہوں نے کرائے پر دیا ہوا اپنا مکان خالی کرایا اور مجھے لے کر اس مکان میں آ گئیں۔ راحت امی سے رابطے میں تھا، اس کو میرے والد کے ایک دوست نے چند روز کے لئے عارضی طور پر اپنے گھر کی بیٹھک میں پناہ دے دی تھی۔ ان کا نام صغیر تھا۔ صفیر صاحب بہت اچھے آدمی تھے۔ انہوں نے میرے بھائی کو بہت سمجھایا کہ اب تم ہی اپنے گھر کے لفیل ہو، میٹرک مکمل کرو اور کوئی ڈپلوا کر لو۔ غرض جو کام چاجان نہ کر سکے ، دانائی، صبر ، شفقت اور محبت سے منہ بولے چچا صغیر نے کر دکھایا۔ انہوں نے کچھ عرصہ میرے بھائی کی تعلیم کا خرچا اٹھایا کیونکہ وہ خود ایک معلم تھے اور ایک بوائز اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ انہوں نے راحت پر بلا کسی طمع اور غرض کے محنت کی۔ بھائی نے ایف ایس سی انہی کی محنت شاقہ کی وجہ سے کیا اور پھر اس مہربان شخص نے ایک ٹیکنکل کاری سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈپلوما کر وادیا۔ اب میرے بھائی کو کچھ اور شعور آ چکا تھا۔ والدہ کی مجبوریوں کا احساس بھی ہو گیا کیونکہ کندھوں پر ماں اور بہن کا بوجھ پڑا تھا۔ وطن میں نوکری نہ ملی تو باہر جا کر کھانے کی سوچی۔ صغیر چھانے اپنے ایک واقف کار سے کہہ کر دوبین کاویزا ولوایا۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ جب انسان چی لگن سے کسی اچھے مقصد کے لئے جتن کرتا ہے، خالق حقیقی ضرور مدد کرتا ہے۔ سوچا بھی نہ تھا جس بچے کو لوگ غنی اور نکما کہتے تھے، وہ اپنی ذمہ داریوں کو اس طرح پوری کرے گا کہ سبھی حیران رہ صغیر نے کمر تھے۔ انہوں نےاس شخص نے ایک بھی ہو گیا کیو نہ کہ  کرونیک راحت پہلے ایک برس دبئی میں رہا اور پھر سعودی عرب کی ایک مشہور کمپنی میں اس کی ملازمت ہو گئی۔ وہاں اس نے محنت اور لگن سے کام کیا۔ تین سال تک گھر نہ آیا، سخت محنت کی ، ر تم گھر باقاعدگی سے بجھواتا رہا اور جب آیا تو ہم اس قابل ہو چکے تھے کہ چچا کے گھر سر اونچا کر کے جا سکتے تھے۔ اسی پچچا کے گھر گئیں اور کہا کہ اب میر ابیٹ کمانے کے لائق ہو گیا ہے، آپ وعدہ پورا کریں اور راحت کو اپنی فرزندی میں قبول کریں۔ آپ کی بیٹی سے اس کی نسبت بچپن سے طے تھی اور اب یہ فرقنضہ ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ امی کی عرضداشت پر چھانے غور نہ کیا اور صاف انکار کر دیا۔ فیروزه کو غیروں میں بیاہ دیا گیا۔ بچپن کی منگیتر کے یوں چین جانے سے راحت بھیا کو دلی صدمہ ہوا، وہ بہت مضطرب رہنے لگے۔ امی بھی افسردہ تھیں۔ تایا باکو ان تمام حالات کی سن گن ملی تو وہ ہمارے گھر آئے اور میری والدہ کو تسلی دی۔ کہنے لگے۔ حسیب ہی ایک تمہارے بچوں کا کچھ نہیں، میں بھی موجود ہوں۔ اس نے تم لوگوں کو ٹھکرا کر نراش کیا ہے لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔ تم اپنے بیٹے کو میری فرزندی میں دے دو، ان شاء الہ اپنے بیٹے سے بھی بڑھ کر راحت کا خیال رکھوں گا۔ ستایا باکی غمگسار ی نے ای کے تازہ زخموں پر گویا چاہار کر دیا۔ وہ خوش ہو گئیں لیکن یہ رشتہ قدرت کو منظور نہ تھا۔ تایا کی بیٹی یو نیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔ اس نے وہاں اپنے کسی کلاس فیلو کو پسند کر لیا تھا، اس سے شادی کا وعدہ بھی کر لیا۔ جب تایا نے بیٹی کا رشتہ راحت سے طے کرنے کی بات کی، لڑکی نے صاف انکار کر دیا۔ بولی کہ میں ہر گزراحت سے شادی نہ کروں گی۔ وہ کم پڑھا لکھا اور میرے تعلیمی معیار کے برابر نہیں ہے۔ میں شادی اپنے جیسے پڑھے لکھے سے کروں گی۔ تایا نے یہ بات آئی کو بتا کر کہا کہ لڑکی پر اس کی مرضی کے خلاف شادی کے لئے دبائو ڈالوں گا تو ممکن ہے وہ آپ لوگوں کے لئے بعد میں باعث آزار بنے ، لہذا آپ سے رشتہ قائم رکھنا ہی ہے تو پھر میری یی کارشتہ میرے بیٹے اصغر کے لئے دے دو۔ ہم پھر سے ایک مضبوط بندھن میں بندھ جائیں گے۔ راحت کمانے لگا ہے، اس کے لئے اب لڑکیوں کی کمی نہیں۔ کسی بھی اچھے گھرانے سے رشتہ مل جائے گا، اس کے لئے میں اپنی سی کوشش کروں گا کہ شریف گھرانے سے تمہارے لئے سلیقہ مند ہو ڈھونڈ لوں۔ آپ کے بیٹے کارشتہ سر آنکھوں پر عاصغر بھی میر ابیٹا ہے۔ میرے بچے یتیم ہیں۔ آپ ہمارے بڑے ہیں۔ مجھے کو بیٹی دینے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ خوشی کی بات ہے۔ شہلا اپنوں میں جائے گی، چانہ سہی تایا سہی، آپ دونوں ہی میرے لئے محترم ہو۔ میں نے ایف اے کر لیا تھا اور سی پی کا کورس کر رہی تھی تاکہ کل کلاں حالات کا مقابلہ کرنا پڑے تو کوئی سند تو ہاتھ میں ہو۔ ستایا نے میرا رشتہ مانگا اور پھر ایک شرط بھی رکھ دی کہ منگنی و غیر ہ کے چکر میں نہیں پڑتا ہے بلکہ شہلا کا نکاح میں اصغر سے کئے دیتا ہوں، رخصتی جب یہ کورس مکمل کرے گی بعد میں کر لیں گے۔ اس پر ای ذرا پکائیں۔ کہنے لگیں۔ بھائی صاحب ! اب میں منگنی اور نکاح قبل از وقت سے ڈرتی ہوں۔ حسیب بھائی نے بھی پہلے سے اتنے سال منگنی کے بندھن میں باندھے رکھا اور پھر شادی سے منع کیا گیا۔ آپ بھی نکاح کے بندھن میں میری بیٹی کو باندھ کر پھر کہیں رخصتی نہ لیں۔ یوں خوف آتا ہے کہ پہلے آپ کے بھائی نے وعدہ خلافی کی اگر آپ کی طرف سے بھی ایسا ہو گیا تو میری بیٹی کے حصے میں مفت کی رسوائی آجائے گی۔ خدانخواستہ بھابی ! کیسی بات منہ سے نکال رہی ہو۔ تمہارے بچے یتیم ہیں اور ہم اپنے ہی ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے والے ہیں، ہمارے سوا اور کون ہے ان کا بھابی ! توبہ کرو۔ تمہاری میں ہماری بھی تو میں ہے۔ امی نے ہامی بھر لی۔ اس کے بعد تائی تو بس ان کے پیچھے لگ رہیں کہ نکاح کر دو، رخصتی جب کہوگی، تبھی ہو جائے گی۔ خدا جانے ان کو نکاح کی ایسی کیا جلدی پڑی تھی، ابھی میری تعلیم مکمل نہ ہوئی تھی لیکن سنائی کے بے حد اصرار پر آخر نکاح ہو گیا۔ نکاح کے بعد ان کا بیٹا بیرون ملک چلا گیا اور یوں میر کی رخصتی اس کی واپسی تک ٹل گئی۔ دو سال گزرنے کے بعد اصغر واپس آئے تو امی نے بھی کو فون کرایا کہ جلد آ جائو اصغر آگیا ہے۔ میں رخصتی کے فرضه سے اب سبکدوش ہونا چاہتی ہوں۔ بھائی راحت پندر ہر روز بعد آگئے اور ساری کائی اماں کے ہاتھ پر رکھ دی کہ یہ لو ، تمام عرصہ کفایت شعاری سے اس فرافضہ کی ادائیگی کی خاطر گزار تار ہاہوں کہ بہن کی شادی عزت سے ہو اور جہیز بھی تابا با کے حسب حیثیت دیا جائے تاکہ ہم کو وہ کسی پہلو سے کمتر نہ سمجھیں۔ بے شک اپنے ہیں مگر جانتا ہوں کہ تائی کتنی حریص ولا بچی طبیعت کی ہیں۔ میں بہن کی شادی میں کسی قسم کی کمی یا کوتاہی نہیں چاہتاور نہ یہ اپنے بھی میری بہن کو بیم جان کر اس کی بے قدری کریں گے۔ امی نے جہیز کی ہر شے تائی کے کہنے پر ان کی پسند سے لیں۔ قیمتی فرنیچر تایا نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کروایا۔ ڈنر سیٹ، گھریلو استعمال کی اشیاء غرض ہر شے، ٹی وی، واشنگ مشین تک یہ سب میرے تایا تائی خود خرید کر لائے اور ہم نے ان کی قیمت ادا کی ۔ اتنا اچھا اور زیادہ جہیز تھا کہ چار بھائیوں کی بہن کو بھی نہ ملتا، لیکن راحت بھیا جن کو خاندان بھر نما، کند ذہن کہا کرتا تھا، انہوں نے سب انتظام کر کے ان کی ہر خواہش اور مطالبے کو پورا کر دیا۔ میرے بھائی نے ہر شے جہیز کی مہیا کر کے دے دی۔ اب رخصتی کی تیاری مکمل تھی۔ اسی خوش تھیں بیٹی اپنے تایا کے گھر جارہی ہے جو باپ سان ہوتا ہے، وہیں ان کے یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھ رہے ہیں، ان کا خواب پورا ہو رہا تھا۔ راحت بھائی خوش تھے کہ اپنے ہاتھوں سے بہن کو عزت سے رخصت کر رہا ہوں۔ رخصتی میں ہفتہ رہ گیا تو انہوں نے دولہا کے لئے کار کا مطالبہ کر دیا۔ اب میرے بھائی کے پاس کار خریدنے کے لئے رقم نہ رہی تھی۔ راحت نے تایا سے کہا کہ آپ تھوڑی سی مہلت دے دیں میں کارلے دوں گا لیکن اصغر اور ان کی والدہ کو تایا نے پیش پیش ر کھا جنہوں نے کہا کہ جواب کر دو گے ، وہ ہو جائے گا بعد کی بات کا کسے پتا ہے۔ لے د ویانہ لے دو۔ راحت بھی ہکا بکا رہ گئے کہ کیا یہ اپنے ہیں۔ کیا یہ وہی اپنے ہیں جن سے رشتہ ناتاجوڑنے پر ماں خوش، مطمئن اور مسرور تھیں۔ تائی نے کہا۔ راحت بیٹا ! ہم آئندہ کے وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار نہیں کر سکتے ۔ میر ابیٹا بھی تو | پر میں سے آیا ہے اس کو واپس جانا ہے۔ چھٹی ختم ہو جائے گی۔ ابھی بھی اس کو رشتے بہت ہیں اگر تم روپے کا انتظام نہیں کر سکتے تو مکان ندو۔ یہ کیسے اتنی جلد ممکن ہے۔ مکان کے خریدار کیونکر مل جائیں گے ۔ جائداد بیچ میں وقت لگتا ہے۔ پیر کاغذات نی تیار کی رجسٹری وغیر ہ یہ بھی کام منٹوں میں تو نہیں ہو جاتے۔ یہ تم اپنے تایا پر چھوڑ دو۔ مختار نامہ ان کو دے جائو، وہ مکان کو دیں گے۔ تمہاری بہن کا حصہ اس مکان میں ہے نا! وہ یہ رقم بھی الگ کر لیں گے اور شہلا کے نام بینک میں جمع کرادیں گے۔ رجسٹری وغیر ہ کے وقت میری ضرورت پڑے گی۔ دستخط کون کرے گا؟ راحت حیران تھا کہ یہ اپنے کیسی باتیں کئے جاتے ہیں۔ اسی دنگ رہ گئیں، راحت کا دل ہی ٹوٹ گیا۔ جب تائی نے کہا اگر تم لکھ کر دے جائو کہ مکان میں سالم اپنی بہن کے نام کر تا ہوں اور اپنے حصے سے کبھی دستبردار ہو جائو تو ہم رخصتی کئے لیتے ہیں۔ دیکھو ناشہلال کی ہے اور تم مرد ہو اور کمالو گے۔ ایسے کئی مکان بنوالو گے لیکن باپ کا یہ مکان اگر شہلا کو سالم مل گیا تو اس کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔ بچی کے پاس اپنا ایک گھر ہو گا، کل کلاں سسرال میں جگہ کی تنگی پڑ گئی تو یہ اپنے شوہر کے ساتھ علیدوره سکے گی، اس کو تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ جوں جوں تائی ایسی باتیں کرتی جاتی تھیں بتایا اب بھی بیوی کی تائید میں سر ہلاتے جاتے تھے۔ اصغر کو بھائی نے باہر لے جا کر بات کی، اس نے بھی ماں باپ کی مرضی کی بات کی۔ امی اور بھائی سے سیدھے منہ بات نہ کی، گویا کہ یہ ہمارے والد کا مکان بہتھیانے کی خاطر مجھ سے شادی کر رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ عین وقت پر جب اس قسم کا جھگڑاڈال دیں گے ، یہ اپنی عزت کی خاطر مجبور ہو کر بات مان لیں گے ۔ شادی میں دو دن باقی تھے کہ در پر دستک ہوئی۔ سب ہی گو مگو کی حالت میں تھے، میں نے جا کر پوچھا کون ہے ؟ ڈاکیہ تھا۔ اس نے میرا نام لیا کہ اس نام کی رجسٹری آئی ہے، وصول کر لیں۔ رجسٹری میں حیران رہ گئی، میرے ہوش گم ہو گئے۔ دستخط کرنے کی بجائے امی اور بھی کو بتایا۔ بھائی نے کہا کہ دستخط کر دو۔ یوں انہوں نے رجسٹری وصول کروائی۔ تایا کا ترجسٹری کے اچھے درج تھا۔ میں رونے بیٹے کی۔ سمجھ گئی کہ اس لفافے میں کیا بھیجا گیا ہے۔ آن پتا چلا کہ باپ کے نہ ہونے سے دنیا کیا سلوک کرتی ہے، بغیر قصور کے مجھے تایا کے گھر سے یہ سند ملی تھی۔ میرا بھائی جو دیار غیر سے سالوں بعد بہن کو رخصت کرنے آیا تھا، اشکبار ہو کر دو بار پردلیں چلا گیا۔ ماں کو تسلی دی۔ ای! کسی بات کا غم نہ کرنا، اس بار آیا تو بہن کے جہیز میں دینے کو کار کے بغیر نہ آئوں گا۔ اپنی بہن کے سر پر سرخ آنچل ڈالنے کو میر اخون بھی کام آجائے تو پروا نہیں۔ تایا نے کار کی خاطر رشتہ نہ کیا تو کوئی بات نہیں۔ آگے رشتہ کیا اور ان لوگوں نے بھی کار مانگ لی تو کیا کریں گے ، اس لئے اب جہیز معمل کر کے ہی آئوں گا۔ کار بھی ہو گی اور جو مطالبه وه کریں گے، سبھی کچھ کا انتظام کریں گے۔ آپ لوگوں کو میری طرف سے مایو یا نہ ہوگی۔ بھی تو میری خوشیاں خریدنے کو کھانے پر دلیں چلے گئے۔ ماں نے آنسو بہانے کو اپنا مشغلہ بنالیا اور میں باپ کی وراثت سمیٹے کو اکیلی رہ گئی ۔ تایا کے گھر سے ورثے میں جو آنسو ملے وہ بھی کم تھے۔ دل کو یہ کہہ کر سمجھاتی تھی جو ہوا، اچھا ہو اگر وہ مجھ کو رخصت کراکر گھر لے جاتے اور بعد میں کوئی بڑا مطالبہ کرتے الزام لگا کر طلاق کرادیتے تو یہ آج کے دکھ سے اور زیادہ ہوتا۔ مجھے تایا کے گھر سے والدہ کے گھر بیٹے دو سند میں نکاح نامہ اور پھر طلاق نامہ مل گئیں۔ جو مجھ یتیم لڑکی کے دکھوں میں اضافے کے سوا کسی کام کی نہ تھیں۔ ہاں جو سند ماں نے محنت کر کے دلوائی اور سی ٹی‘‘کا کورس کرایا، وہی سند آج کام آئی کہ اس کی بدولت مجھ کو نوکری مل گئی اور میں نے نوکری کی بدولت کھویا ہوا اعتماد دوبارہ پالیا۔ کاش ! یہ اپنے مرحوم بھائی کا خیال کر لیتے۔ نہیں تو راحت بھائی کی روز و شب پردیس میں محنت مشقت سے کمائی کا خیال کر لیتے جو انہوں نے میر ابھاری جہیز بنانے میں کھپادی۔ اب وہی جہیز مجھ کو ناگ کی طرح ڈستا تھا۔ مرحوم باپ کی چھوڑی چھت کے تلے بیٹھ کر تنہائیاں اور سوگوار یاں سب دیکھ لیں۔ مجھ کو شادی سے نفرت ہو گئی ۔ دل بہلتانہ تھا۔ ملازمت کر لی تو بھی لوگ مجھ کو مطلقہ کہتے۔ دل رونے لگتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا کہ مطلقہ ہونے کا داغ ساری عمر میرے آنسونہ وتھو سکے گا۔ شادی کا خیال دل سے نکال کر ملازمت کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کر تیار ہیں۔ ترقی کی اور ای ڈی او ہو گئی۔ اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ ہیں انداز کرتی ہوں، جب کسی یتیم لڑکی کی شادی ہوتی ہے اس کے لئے یہ رقم ہدیہ کر دیتی ہوں۔ بھائی نے شادی کر لی ہے مگر میں نے اپنی ملازمت سے ہی بیاہ کر لیا ہے۔


Post a Comment

0 Comments