Yeh Aab Daar Moti Teen Auratien Teen Kahaniyan |
بچپن کے دن سہانے ہوتے ہیں کہ تب لڑکیوں پر پابندیاں کم ہوتی ہیں۔ میرے بدن تو ایسے اڑ گئے جیسے پر دمیں پچھی۔ والدین نے میٹرک تک بمشکل پڑھنے دیا۔ کانے بانے کا خواب ٹوٹ کر خود میرے دل میں چھ کر رہ گیاجب والد نے کہ دیا کہ صدف کالج نہیں جائے گی۔ پ میراسب سے حسین خواب تا۔ ڈاکٹر بنوں گی، اعتاد زندگی بسر کروں گی۔ ارزان نکلتے ہی پسارے خواب دھرے رہ گئے کہ پرایادھن ہے کہ اب آگے پڑھ کر ا س نے کیا کرتا ہے۔ چودہ سو سال پہلے ع ر ب لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ مجھے بھی کسی نے میرے سپنوں سمیت زندہ دفن کر دیا اور میں کاریت ب کی۔ بے شک ہم لڑکیاں زمین کے اندر گم ہوبناپسند کر لیتی ہیں مگر قید ہوتا نہیں، لیکن یہ ہماری قسمت کے مجھ اسی قید کہ خیالوں اور سپنوں کا بھی دم گھٹنے لگتا ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے صرف دولت کافی نہیں ہوتی، انسان کو دل کی راحت کے لئے پیار بھی پاہیے ہوتا ہے۔ گھر م یں بھی مجھ کم نصیب کو وہ پیار ملا جس کی بیٹیاں حق دار ہوتی ہیں۔ والدین اپنے کاموں م یں مصروف، کوئی ہم عمر بہن نے بائی، سہیلیوں سے ملنے ان کے گھر جانے پر پابندی، بازار بانے پرتد غن۔ کہیں بات کی تھی۔ گھر بیٹھی کسی سہیلی کو بلوالوں تو وہ کہتی کہ ہر بار م یں بھی تمہارے پاس آؤں، تم کیوں نہیں تھیں میرے گھر کیا تمہارے پیروں میں مہندی لگی ہے۔ کیا بتاتی کہ مجھے تمہارے کیا، کسی سہیلی کے گھر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں گھر م یں رہ کر اتنی دور ہوتی کہ بی پاہت اباگ باؤں کہیں، لیکن بانتی تھی جو لڑکیاں اس طرح گھر سے تم نکالتی ہیں وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتی ہیں۔ جو پڑھناپاہے پڑھت کے، کچھ ہنر سیکھناپاہے تن سیکھ کے، نام پیدا کرنا پا ہے تو وہ نہیں ہو سکتا۔ تو ای سی بیکار زندگی کا کوئی کیا کرے ؟ کئی سال ایسے ہی حلب م یں گزر گئے تو میں
تھک گئی۔ اسی زندگی سے کہ جس زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ گھر کے کام کاج میں مصروف ہوجاتی تو تھوڑی دیر کے لئے وقت کی بے رحمی کا احا من بنتا۔ جب کام ختم ہوباتے اور میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹے باقی تو ہاتھ ہی مجھ سے سوال کرتے۔ کیا ہمیں اس لئے بنایا گیا تا کہ ہم کوئی اعلی کام سرانبم نہ دیں بلکہ خود کو پیار سے کاموں م یں کھپ کر بیکار ہو جائیں۔ ابو کا مزاج تیزتا۔ رشتے دار بھی یہ سوچ کر ہمارے گھر تدم رکھتے تھے ۔ پچی، مالی، مائی بھی اچھی تھیں لیکن میرے والدین کے رویے نے مجھے خبر رکھاتا۔ سوچتی تھی کہ گھر والوں کی سختیاں ایسی ہی رہیں تو میرے دل کے زختم کب ک ریں گے۔ تنہائی سے میراکشت و خون کب تک جاری رہے گا۔ ایک مشرقی لڑکی کو مگر یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پچھو تسلی دیتیں کہ یہ سب تمہارے بھلے ہی کے لئے ہے۔ عید کا دن میرے لئے سب سے ظالم دن ہو تا تا۔ جب بھی اپنے عزیزوں، رشتے داروں سے ملے اور میں گھر میں اکیلی ہوتی۔ کوئی اگر عید پر گھر آ تا تو مجھے فور دوسرے کمرے م یں بناپڑ تایتا۔ ہد ایت تھی کہ کسی رشتہ دار لڑکے کے سامنے نہیں آتا۔ اونچی آواز سے بات نہیں کرنی ۔ تمہاری آواز کمرے سے باہر نہیں آنی پا ہے۔ زیادہ ہنسنا زیادہ بولت امنع ہے توب لينا منع کیوں نہیں؟ عید پر میرے لئے کپڑے بن جاتے لیکن میں یہ کپڑے پہنوں تواس خوبصورت لباس کو دیکھے گا کون ؟ لڑکیاں تو ایک دوسرے کا لباس ہی دیکھتی ہیں اور میں میں گونگی ہوتی جارہی تھی۔ بولنے سے بھی ڈرتی تھی۔ اب میں بند کمروں م یں دیواروں سے کلام کرنے اور کہیں گھومنے ت بانے کی عادی ہوئی بات تھی۔ محل کی لڑکیاں مفرور اور گھمنڈی کہتی تھیں، تب مجھے یہی احساس ہو تاتا کہ م یں ایک جیتی حباتی، حسین مورتی ہوں کہ ماں باپ نے جب پہ اپنی م رضی سے ادھر ادھر بادیا۔ اگر میں یوں تو ان کی بازتے ،مروں بھی تو ان کی م رضی سے ایسے میں بانی سوپیں ہر وقت مجھ پر وار کرتی تھیں۔ مگربانتی تھی کہ بانئی سوچوں کی رتھ پر سوار ہو کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہی ان کی بربادی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں زندگی بہت مختقرہے۔ سوچتی تھی کہ اس مختصر زندگی میں مجھے میرے گھر والے بھی کچھ ایسا کام نہیں کرنے دیں گے جس سے میری روح کی تسکین ہو،۔ میرے شناخت تائم ہو اور لوگ میرے اچھے اور تحقیقی کاموں کی وبے پانیں۔ م یں پڑھ لکھ کر کچھ بناپاہتی تھی مگر کا نجات پڑھنے دینے کی وب سے میں رشتے دار لڑکیوں سے کہ مجھے تصویریں بنانے کا شوق بھتا۔ ماں میری بنائی ہوئی تصویروں کو آگ دکھا دیتیں کہ یہ ایک بار اور شیطانی کام ہے۔ شعروشاعری بھی مجھے اچھی لگتی۔ ماں کہتیں ی لڑکیوں کو زیب نہیں دیتی۔ یہ ان کو بے حیائی کھاتی ہے۔ وہ دیوان غالب کو میرے ہاتھ سے چھین لیتی تھیں۔ عترض کہ ان دنوں میرے زندگی میں خوشی نام کی کوئی چیز نہ رہی۔ ایک چھو میرا واحد سہارا تھیں۔ سمجھائیں کہ یہ سب تیرے جملے کے لئے ہے۔ ماں باپ تیرے دشمن نہیں۔ وہ تھے ایسے ر کھناپاہتے ہیں جیسے سیپ میں بند موتی تا کہ تیری آب و تاب تائم رہے، اس موتی کی آپ کو کوئی چور اگر ت لےجائے۔ صرف تواس بات کو سمجھے کہ لڑکیوں کی نت در صرف شوہروں کے پاس ہوتی ہے۔ اگر اس کو خبر ہوجائے کہ جو موتی ا س نے اپنی پگڑی م یں سحب ایا ہے اور اس کی آب کو کوئی چرا کر لے گیا ہے تو پھر وہ بھی اس موتی کو کنکر سمجھ کر پیروں تلے روند ڈالتا ہے۔ مرد کی فطرت ہے وہ خود تو ایسی بیوی پہتاہے کہ جس کو آسمان نے بھی نہ دیکھا ہو اور خود دوسری عورتوں کو پھول سمجھ کر بھونرے کی طرح میں پھپھو کی بات کا یقین کر لیتی۔ ان کی تسلیاں مجھے ڈھارس دیتیں کہ لڑکیوں کو تن من سے ہی نہیں، اپنی سوچوں سے بھی ابلا اور پاک وصاف ہوناپاہیے تھی خدا کی مہربانی ہوتی ہے کہ اس کا گھر بنتا ہے اور جنت میں راحت سے کھرب تا ہے۔ ہر شوہر پاکباز بیوی کی ایسی تدر کر تا ہے جیسے وہ جنت سے اتری ہوئی حور ہو، جو متلق مجھے ع لم حاصل نہ کرنے سے کت، کچھ ہنر سیکھ پانے سے کیتا۔ سب آزردگیوں کو میں نے مستقبل کی انہیں امیدوں کے ڈھیر میں دفن کر دیا۔ اس خیال میں گم ہو گئی کہ جب شادی ہو گی اور میرے حبیون ساتھی کو ایک اچھوتی لڑکی ملے گی، بھی جس نے بلاوجب گھر سے تم باہر نہ نکالا ہو گا تو وہ میرے تر کرے گا۔ زمین سے آسمان پر بٹھا دے گا۔ سترہ برس کی عمر تھی جب میرا رشتہ آگیا۔ غیر لوگ تھے۔ اباحبان کے ایک دوست کی معرفتی رشتہ آیات۔ مختصر سی فیملی تھی۔ دو بھائی اور ایک ماں خوشحال کنب بڑ انتہائی کمانے کو سعودی ع رب گیا ہو ایتا۔ میری شادی چھونے والے لڑکے سے ہو گئی جس کا نام شہزادت۔ ابا کے دوست نے ان لوگوں کی بہت تعریف کی۔ والد نے باتاپ رشتہ اچھا ہے، میری لڑکی سکسی رہے گی اور عیش کرے گی۔ والد نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دیا۔ سسرال م یں میری خوب پذیرائی ہوئی۔ بلد ہی پتا چل گیا کہ شوہر نامدار تو کوئی کام نہیں کرتے۔ بڑا بھائی سعودی عرب کی ایک مشہور کمپنی م یں کام کرتا ہے۔ وہ کیا کر بھیجتا ہے اور یہ کھاتے پیتے ہیں۔ میرا شوہر ماں کا لاڈلاتا۔ باپ فوت ہوپ تھے۔ یا ماموں کی سر پرستی میں پلا ت اور گلی محلے کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ شیل کود کر جوان ہو اکتا۔ والد صاحب سے کہا گیا کہ ایف اے پاس ہے لیکن میٹرک بھی نہ کیا اور اسکول سے بھاگ کر آوارہ لڑکوں کی منڈی کا سنگھار بن گیا۔ اس کے بارے دوستنش کرتے اور ہیروئن بھرے سگریٹ پیتے تھے۔ آدمی اپنے دوستوں سے اپناتا ہے۔ شہزاد احترق وتد روں پر یقین رکھتاتا۔ اس کو خبر ہی نہ تھی کہ سن کر اور آبدار موتی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ وہ تو بھی کو کنکر بتاتا۔ میری حفاظت ماں باپ نے ایسے کی تھی کہ ہماری بیٹی کو زمانے کی ہوا | بن گئے۔ جس گھربائے بھی اس کی عفت و عصمت کی قسمیں کھائیں اور وہ شوہر کے دل پر راج کرے ۔ جب شوہر ہی ایاگیا گزرا ہو کہ جس کو اس کی عفت و عصمت کی پروانہ ہو ، جو دوسروں کی بہو بیٹیوں پر بری نظر رکھتا ہو اور چور آپکے بد معاش ا س کے سنگی ب ھی ہوں تو ایسے شخص سے کوئی عفت مآب عورت بمائی کی کیا توقع کر سکتی ہے؟ چاہے نشہ آدمی کے ضمیر کو مار دیتا ہے۔ اس کو نہ صرف بے حمیت بنادیتا ہے بلکہ آدمی ہی نہیں رہنے دیتا۔ شہزاد کے عیب و ثواب بھی تجھ چھے رہ سکے جب تک ا س کا بڑا بھائی محترپ بھیجتارہا۔ جونہی وہاں سے پ من و سلوی بند ہوا، ان لوگوں کے حواس باتے رہے۔ میرے بیٹے نے وہاں شادی کرلی اور ہمارے ترچھے سے ہاتھ کھینچ لیا کہ اب شہزاد کبھی کچھ کمانے کی سعی کرے۔ م یں کب تک ا س کو پالتا رہوں گا۔ ی دور اندیش لوگ نہ تھے کہ برے وقت کے لئے کچھ بھپا کر رکھتے۔ نتیبی نکلا کہ پہلے سے ٹھاٹ باٹ رہے بلکہ دال روٹی کے لالے پڑ گئے۔ شہزاد کو لگانے سے کیالات، وہ تو تھووں کی منڈلی کا سردار بنتا۔ اب پیسے نہ ہونے کی وب سے پسر داری بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اس بات بات پر مجھ سے اٹھے گی کہ جب سے تم آئی ہو، ہم پر برے دن آگئے ہیں۔ میکے والوں سے کہو کہ اس برے وقت میں داماد کا ساتھ دیں۔ والد صاحب کو حالات کا اندازہ ہوا تو وہ مالی مدد کرنے لگے۔ دو سال تک انہوں نے ہمارا ن پ اٹھایا۔ اب پتا چلا کہ شہزاد کمانے کا ڈھنگ بانتاہی نہیں ہے۔ پڑھالکھ بھی نہیں ہے کہ کہیں ملازمت دلوادیتے۔ شہزاد کے ماموں نے رکھ لیا کہ اب شہزاد بھی کچھ کمائے۔ انہوں نے اپنی جمع پونجی سے دکان ڈال کر دی ۔ بھانجے نے چند ماہ م یں سارا مال اڑا دیا اور دکان بیٹھ گئی۔ ماموں نے جوتا اٹھا لیا کہ اب جو کر وہ م زدوری کرو مگر کچھ بھی کما کر لاؤ تا کہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہو۔ ناپار ایک لنگوٹھے پیار کو خط لکھا جو لاہور میں رہتاتا۔ اس نے کہایہاں میرے پاس آباؤ تو چھے بیل کر پاؤں گا۔ ا س بولیں۔ بیوی کو ساتھ لے کر باد | مجھے تمہارا اعتبار نہیں، ایسے تو اور برباد گے پھر وہاں کون تم کو پکا کر دے گا۔ کتنے دن ہوٹلوں کا کھاؤگے ، بیار پرباگے۔ ان بیپاری نے اپنے زیور نیچے کر شہزاد کی جیبیں بھر دیں کہ پردیس میں کرائے کا گھر لے گا۔ بہو کے ساتھ ٹھوکریں کھاتا ہ ے اور جب تک وہاں کام ملے گا، ت پ بھی تو کرنا ہو گا۔ رفتم جیب میں ڈال کر میرے ساتھ لا ہور زیبنانی دوست کے پاس آگئے جو اکیلارہتاتا۔ وہاں ہی اس کے ساتھ مجھے گ رادیا۔ پتاپلا کہ پ تو منشیات کا کاروبار کرتا ہے اور بڑے لوگوں سے ا س وحب سے بان پھپان ہے کہ ان کی عیاشی کے انتظامات کرکے رتم کماتا ہے۔ ایسے شخص کو عرف عام میں لوگ دلال کہتے ہیں۔ اس کے گھر کئی طرح کے بدقت شوں کا آنابانارکار ہوتا اور شہزاد مجھ سے کہتے کہ زیب کے مہمانوں کے لئے پائے اور کھاناوغیرہ تم کو بتانا ہو گا، تبھی وہ مجھے کسی کام پر لگوائے گا۔ أن الاعتناط ماحول کہ کبھی تصور بھی ن کپ تا کہ ایسی جگ رہنا پڑے گا۔ میر اتو | دم گھٹتا اور کیب مت کو آتاتا۔ زیب تان اس بازار سے لڑکیاں لاتا اور آگے عيش سیٹھوں کو پنپتا کسوت درگھناؤنا کاروبار کیتا۔ بلد ہی مجھے اپنی بھی عزت خطرے میں نظر آنے لگی کہ شہزاد نے گویا میری حفاظت سے ہی ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ اب میں کلی طور پر اس کے دوست کے رحم و کرم پر تھی۔ جب یقین ہوگیا کہ کسی دن ب ے ضمیر میری عزت کا بھی سودا کر گزرے گا تو میں نے اپنے والد کو خط لکھا۔ سو دالانے والے لڑکے کی منت کی کہ کسی کو پتا ن پے، تم یخط پر وڈا ک کر آئے وہ بیپاراشریف دل انسان تا۔ اس نے بھی خطرے کی بوپالی تھی۔ بڑی راز داری سے میرا خط پوسٹ کر آیا۔ ادھر میرے والدین پریشان تھے کہ شہزاد مجھے لے کر کہاں پلا گیا ہے۔ میراط ملا تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ والد فور میرے لکھے پتے پر پہنچ گئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور طلاق کے لئے عدالت م یں کیس کر دیا۔ یوں انہوں نے میری خلع کراکر نشیوں کے گینگ سے میری حبان چھالی۔ انہوں نے سوپ بھی ت ت کہ جس بیٹی کی اتنی حفاظت کی ایسی پابندیوں میں پالا، اس کی این طرح مٹی پلید ہو گیا۔ وہ بھی اس شوہر کے ہاتھوں کہ جوعز ت کا رکھوالا ہو تا ہے۔ اب ایا پچھتائے کہ کیوں بیٹی کو پڑھنے نہ دیا۔ جوی پہتی تھی اگر ہم اجازت دے دیتے تو آج اس کی زندگی بن جاتی۔ کی خبر اس کے اندر کوئی ڈاکٹر، انجبینت یا ادیب چھپاہوات۔ لیکن شاید میری قسمت ہی میں تھی۔ اب کہتے، پڑھو جہاں تک پڑھناپاہوگی، میں نہ روکوں گا لیکن میرا دل بری طرح ٹوٹ جاتا۔ کاش! وہ اس وقت سمجھ لیتے کہ ا میں میں صلاحیت ہو تو اس کو پڑھنے اور آگے بڑھنے سے نہ روکتاپا ہے ورنی آبدار موتی، اگر شوہر اچھا ملے تونگر ہی بن کر رہ باتاہے
0 Comments