Teen Auratien Teen Kahaniyan latest story Mein Ne Kiya Bura Kiya |
پرکھوں کی دولت ہمارے گھر کی باندھی رہی۔ میرے دادا کے تہہ خانے سونے، چاندی کی اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ ہمارے پائے کے کم لوگ رہے ہوں گے۔ میں اسی خاندان کی اکلوتی چشم و چراغ ہوں۔ میرے والد نے دو شادیاں کیں، مگر اولاد کی خوشی نصیب نہ ہوئی۔ جب کافی عرصہ گزر گیا اور والد بڑھاپے کی حدوں کو چھونے لگے تب دونوں بیویوں نے مشورہ کیا کہ اب اس گھر میں جائیداد کاوارث آناچاہئے۔ پھر دونوں سوکنوں نے اتفاق رائے سے ایک غریب خاندان کی لڑکی سے میرے والد کی تیسری شادی کرادی۔ میں اس غریب عورت سے پیدا ہوئی۔ میرے بعد والد کو کوئی اولاد نہ ہو سکی۔
الید امیر کی پیدائش بھی خوشی کا باعث تھی۔ تینوں مائوں نے
میری پرورش نہایت پیار سے کیا۔ سب کی آنکھوں کا تارا تھی۔ شہزادیوں کا غرور مجھ
میں اور حوروں کا سا حسن تھا۔ گھر میں کسی کی مجال نہ تھی جو میرے حکم سے سرتابی
کرے ۔
جونہی میں نے ہوش سنبالاء | والدین کو میر کی شادی کی فکر
ہوئی۔ بابا جان خوب جانتے تھے کہ اگر دولت مند باپ کی آنکھیں بند ہو جائیں تو رشتے
دار اس کی جوان بیٹی کا کیا حشر کرتے ہیں۔ خاندان میں دور پانزد یک میرے لائق کوئی
لڑکا نہیں تھا۔ بابا جان بوڑھے ہو چکے تھے اور میرے لئے سخت پریشان تھے۔
غیروں میں شادی کرنے کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا۔ بہت سوچ بچار کے بعد والد صاحب کو
اپنے چچازاد بھائی کے اس بیٹے کا خیال آگیا جو ابھی صرف آٹھ برس کا تھا جبکہ میں
اٹھارہ برس کی دوشیزہ ہو چکی تھی۔ امجد خان سے میرارشتہ طے ہو گیا۔ باباخوش تھے کہ
لڑکا بچہ ہے تو کیا ہوا، رشتہ تو اپنے خاندان میں ہوا ہے۔ دولت گھر کی گھر میں ہی
رہے گی۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ رشتہ تو ایسا ہونا چاہئے جو بیٹی کے ساتھ دولت کو
بھی سنبھال کر رکھ گھر میں اتالیق سے میٹرک تک پڑھائی کی تھی۔ مگر غیر معمولی فہم
و فراست رکھتی تھی۔ اپنی شادی پر میں کچھ بول سکتی تھی ، نہ بغاوت کر سکتی تھی۔
گرچہ ذہن کسی صورت اس ڈرانے کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ چپ چاپ میں دلہن بن کر
بیٹھ گئی، مگر دل رور پا تھا۔ سوچ رہی تھی یاللہ ! یہ کیسا ظلم ہو رہا ہے۔ کیا
شادی اسی کو کہتے ہیں تاہم یہ کوئی انوکھا واقعہ نہ تھا۔
ایک میں ہی نہیں، یہاں مجھ جیسی کتنی بے بس لڑ
کیاں اسی طرح دلہن بنادی گئی تھیں۔ کسی نے اف تک نہ کیا۔ یہاں تک کہ ان کی سنہری
جوانی مٹی ہو گئی۔ میر کی تینوں پھوپیاں بن بیاہی بوڑھی ہو گئیں۔ خاندان کا نام
لیوا اور داداجان کے گھر کا چشم و چراغ لیکن میرے بابا جان موجود تھے، اسی لئے
پچھو پیوں کی شادی ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ مجھے سسرال بیاہ
دینے کی بجائے میرے والد ہی بصورت داماد پچے کو بیاہ کر گھر لے آئے۔ شادی بڑی دھوم
دھام سے ہوگئی۔ جہیز کے چرچے سارے جہاں میں تھے۔ بچے کو گھر داماد بنالیا تھا۔
میری نئی زندگی کا آغاز اس طرح ہوا کہ پہلے جائیداد کے معاملات سلجھانے تھے، اب
ساتھ میں ایک بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بوجھ بھی میرے سر آن پڑا جو شوہر
کم اور بیٹا زیادہ لگتا تھا۔
کسی بات پر بگڑ جائے تو بہلا پھسلا کر چپ کرائی۔ اسی سال
والد صاحب بھی فوت ہو گئے۔ شوہر صاحب ابھی اس قابل نہیں تھے کہ تنہا اسکول جا
سکتے۔ سارے معاملات میرے ذمے ڈال دیئے گئے۔ سسر صاحب بیکار رہتے تھے۔ دور کے رشتے
دار دولت پر دانت نکوستے۔ ان سے ہوشیاری کی باباجان نے سخت تاکید کر دی تھی۔ میں
مجبور تھی۔ برے رواجوں سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھی۔ لذا شوہر کو ایک بے ضررشتہ
تصور کر کے میں نے این ایران زندگی سے سمجھوتا کر لیا۔ نہایت عمل اور شرافت سے وقت
کاٹے گی۔ دن مہینوں اور مہینے سالوں میں گزرنے لگے۔ شوہر اب ایک مضبوط اور خوبرو
جوان بن چکا تھا اور میری جوانی آہستہ آہستہ بڑھاپے کی طرف سفر کر رہی تھی۔ امجد
مجھ سے یوں جھینپتا
جیسے اولاد والدین سے بیاشاگرد استاد سے دبتے ہیں۔ ہمارے خیالات میں زمین آسمان کا
فرق تھا۔ صرف دنیا کے ڈر سے ہم اکٹھے رہنے پر مجبور تھے ورنہ میں اس کی بیوی رہنا
چاہتی تھی اور نہ وہ میرا شوہر ! شادی کے اٹھارہ برس بعد ہمارے یہاں ایک لڑکی پیدا
ہوئی۔ زندگی بھر میں پہلی خوشی نصیب ہوئی تھی اور میں اس کی محبت میں کھو گئی تھی۔
شوہر نے میری توجہ بھی پر دیکھی تو پرزے نکالنا شروع کر دیئے۔
مجھے معلوم ہو گیا وہ اپنی ایک ہم عمر لڑکی سے عشق کرتا ہے
جو ہمارے مزاری کی بیٹی تھیں۔ وہ اس سے چھپ چھپ کر ملتا تھا۔ اس کو خرچہ وغیرہ بھی
دیتا تھا۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ تھا، نہ ہی اس کی پروا تھی کیونکہ عموما
زمینداروں کے لڑکے مزارعوں کی بیٹیوں سے عشق کرتے ہیں۔ میرا وقت تو میری نیکی اور
جائیداد کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا اور میرے شوہر کا اپنی محبوبہ کے پاس ! ہم
دونوں ایک دوسرے سے فرار چاہتے تھے ، سو اپنی اپنی راہوں پر ایک دوسرے سے بے نیاز
رواں دواں تھے۔ زندگی جس قدر روکھی پھیکی گزرتی ٹھیک تھا، مگر اب میری بھی تیزی سے
عمر کی منزلیں طے کرتی جارہی تھی۔ مجھ کو اس کی شادی کی بڑی فکر تھی، جیسے ہر ماں
کو ہوتی ہے۔ مشکل یہ کہ اس کے جوڑ کا کوئی رشتہ اپنے خاندان میں نظر نہ آتا تھا۔
دو ایک رشتے جو تھے ، وہ یا تو اس کی عمر سے بڑے
تھے یا پھر بہت چھوٹے تھے۔ وہ دن بھی آہی گیا جب میں اپنی بیٹی کی تقدیر کا فیصلہ
کرناتھا۔ بزرگ سب گھر کے ایک کمرے میں جمع ہوگئے۔ وہ ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے
کہ رشتہ یاتو لڑکی کے والد کے چچازاد بھائی سے طے ہو جائے، جس کی پہلے سے دو
بیویاں تھیں یا پھر میری سوتیلی والدہ کے بھائی کے لڑکے سے جو ابھی صرف چھ برس کا
تھا۔ دوسرا کوئی رشتہ ہمارے خاندان میں نہیں تھا۔ میں اس بات پر اڑی تھی کہ رشتہ
ہوگا تو موزوں، چاہے غیروں میں کیوں نہ ہو۔ مجھے اپنی بیٹی کی زندگی اور اس کی
خوشیاں زیادہ عزیز تھیں۔ آخر میں نے فیصلہ سنا دیا کہ میں رشتہ وہاں کروں گی جہاں
میری لڑکی چاہے گی۔ اس بات پر قیامت اٹھ کھڑی ہوئی۔ خاندان کے سب ہی افراد آگ
بگولا ہو گئے۔ انہوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا مگر میں نے بھی کسی کی بات کی
پروانہ کیا۔ میری شاه بانو ور ہی تھی۔ اجلاس کے آنسوئوں سے زیادہ تھی اور کیلاشے
ہو سکتی تھی۔
تبھی شاه بانو نے میرے اصرار پر بتادیا کہ وہ گل خان کو پسند کرتی ہے۔ گل خان ہمارے غریب میجر ک لڑکا تھا جو ہماری زمینوں کا انتظام سنبھالتا تھا۔ یہ ہمارے یہاں برسوں سے کام کر رہا تھا۔ اس کا دادا، میرے دادا کا اور اس کا باپ میرے باپ کا وفادار تھا اور یہ سلسلہ پشتوں سے چلا آرہا تھا۔ ان کی وفاداری پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن ہمارے خاندان کی روایات کے مطابق انہیں ہم اپنے برابر نہیں بڑھا سکتے تھے۔ یہ لوگ بہر حال ہمارے پرورده تھے۔ میں نے گل خان کو دیکھا تھا۔ میری بچی کی عمر کا ایک خوبصورت لڑکا تھا۔ باتمیز ، ہوشیار کالج میں پڑھتا تھا۔ کبھی کبھار باپ اس کو زمین کے کاغذات دے کر میرے پاس بھیجا کرتا تھا۔ ہمارے یہاں پشتوں سے اس خاندان سے پردہ بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ ہمارے یہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کہیں
باہر نہیں جاتی تھیں مگر میں نے خاندان بھر کی مخالفت مول لے کر شاہ بانو کو کالج میں داخل کروادیا۔ شاہ بانو نے بتایا کہ گل خان اس کا ہم جماعت ہے۔ مجھ کو یہ جان کر خوشی تھی کہ شاہ بانو، گل خان سے محبت کرتی ہے۔ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہ
تھا کہ وہ کیوں گل خان سے محبت کرتی ہے۔ محبت کرنا اس کی عمر کا تقاضا تھا۔
آخر وہ کیوں نہ محبت کرتی یہ اس کا پیدائشی حق
تھا کہ اس کی شادی میں اس کی بھی مرضی شامل ہو۔ میں نے اسی
وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ شاہ بانو کی گل خان سے شادی ہو گی۔ یہ خبر بھی ایک بم کی
طرح خاندان پر گری۔ پھر ایک ردعمل میرے خلاف تیار ہو گیا۔ دور اور تقریب کے رشتے
داروں نے بندوقیں اور تلواریں نکال لیں کہ جس روز خاندان کی عزت ایک نوکر کے گھر
دلہن بن کر جائے گی،ای روز وہ شاه بانو اور گل خان کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔
مخالفت اتنی بڑھی کہ مجھے تنہا عورت کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ مجھے یقین ہو گیا
کہ با قاعد و رواج کے مطابق دھوم دھام سے میں شاہ بانو کو دلہن بنا کر رخصت نہیں
کر سکتی۔ یہ وحشی لوگ جو کہہ رہے ہیں، کر گزریں گے۔ یہ سب بڑے بڑے جاگیر دار اور
زمیندار تھے۔ ان کا کسی کو قتل کر دینا اشاه بانو کو زہر دینا، کوئی دشوار بات نہ
تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ایسا قدم اٹھا لیا کہ جس کا کوئی ماں تصور بھی
نہیں کر سکتی۔ میں نے اپنی بیٹی کو اس کے محبوب کے ساتھ جا کر شادی کر لینے کی نہ
صرف اجازت دی بلکہ معاونت بھی کی۔
اپنے ذاتی اثر ورسوخ سے کام لے کر میں نے پہلے سے شاہ باد
اور گل خان کا پاسپورٹ بھی بنالیا تھا۔ میرے بابا جان باہر کے ملک میں کافی ر تم
میرے نام بینک میں رکھا کرتے تھے۔ آج میر تم ان دونوں کے کام آئی۔ ایک رات میں نے
شاہ بانو اور گل خان کو باہر چلے جانے میں یوں مدد کی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ
ہو گئی۔ دوسرے روز البتہ یہ بات سارے گائوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ شاہ
بانو، گل خان کے ساتھ فرار ہوگئی ہے۔ میں بھی سب لوگوں کے دکھاوے کو روتی دھوتی
رہی اور میر کی ملازمہ ہر ایک سے یہ کہتی تھی کہ شاہ بانوی بی کو جب ماں نے گل خان
سے شادی سے منع کیاوہ رات بھر روتی رہی اور یہ کہیں چلی گئی۔ میں نے سیاہ لباس زیب
تن کیا جیسے میں خدانخواستہ اپنی بچی کی موت کا سوگ منارہی ہوں ۔ دل ہی دل میں میں
تو بڑی خوش تھی کہ میری بچی کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے اور یہ بات مجھے خوشی سے
پاگل کر دینے کو کافی تھی کہ میری شاه بانو ایک جاہل ماحول سے دور ایک پیار کرنے
والے شخص کی دلہن بن چکی ہے۔ وہ میری طرح ایک نابالغ بچے کی دلہن بنے
سے کی گئی تھی۔ شادی تو مناسب رشتے سے جڑنے اور جیون ساتھی کے ساتھ ہنسی خوشی
زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔
بے جوڑ شادی زندگی کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ
نہیں۔ مگر ہمارے جیسے کچھ دولت مند خاندان دولت بڑھانے یا اپنی زمین کو تقسیم سے
بچانے کی خاطر اسی طرح کی بے جوڑ شادیاں کر کے اپنی معصوم بچیوں اور بچوں کو
بوڑھوں، نابالغ یا پھر پہلے سے شادی شدہ مردوں سے شادی پر مجبور کر دیا کرتے ہیں۔
اب جبکہ زمانہ بدل چکا ہے۔ اب بھی نہیں ہیں ایسے ہی رواج موجود ہیں جس پر غور کریں
تو ایسے لا پی لوگوں کی سوچ پر حیرت ہوتی ہے۔
0 Comments