Teen Auratien Teen Kahaniyan latest story Guzar Gai Yadon Ki Baarat |
یہ بہت پرانی بات ہے مگر لگتا ہے جیسے کل کی
بات ہو۔ ان دنوں ہم دبلی میں جامع مسجد کے پاس رہا کرتے تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے
کا زمانہ تھا۔ جن دنوں یہ واقعہ ہوا میری عمر صرف چار برس تھی۔ یادوں کی بارات جب
ذہن کی گلیوں سے گزرتی ہے تودل عجیب سا ہو جاتا ہے۔ بچپن کا دور بھی کتنا سہانا
تھا۔ ان دنوں کی ایک ایک بات ایسے نقش ذہن ہے کہ جھلائے نہیں بھولتی۔ ایک دن ایک
آدمی ہمارے گھر آیا۔ کہنے لگا کہ شیخ صاحب نے دفتر سے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہ لینا
ہے گھر میں جو سب سے بڑا برتن ہو وہ دے دو۔ میری والدہ نے سب سے بڑادیکھے اسے دے
دیا۔ جوں ہی وہ شخص ڈیوڑھی سے ہٹا | امی جان کو یہ خیال آیا کہ نجانے یہ کون ہو ،
بیانام پتاپو تھے ہی میں نے یہ برتن دے دیا۔ والدہ نے مجھے کہا۔ تم ذرا دیکھ کر
آنا یہ آدمی کس طرف گیا ہے۔
شام کا وقت تھا۔ میں نے گلی سے باہر کھلی سڑک پر کھڑی ہو کر دونوں طرف دیکھا۔ ایک طرف دور تک سید هار استہ تھا۔ دوسری طرف راستہ جامع مسجد کی طرف مڑ جاتا تھا۔ جس جانب دور تک راستہ نظر آرہا تھا، اس جانب وہ شخص ہیں نظر نہ آیا۔ میں نے سوچاضر ور وہ آدمی دوسرے راستے سے مڑ گیا ہے۔ چنانچہ میں اسی طرف چل دی۔ بہت تیز بھاگتی ، گلی کے کئی موڑ مڑتی ہوئی بہت کھلی جگہ جا پنچھی، جہاں سامنے جامع مسجد نظر آرہی تھی۔ د کا نہیں تمام بند ہو چکی تھیں۔ دوسری طرف ایک بہت بڑا پارک تھا۔ پارک کے ایک طرف چھوٹا سا کمرا تھا جس میں وہ نوجوان رہتا تھا، جو تھاتو لڑکا لیکن لڑکیوں کا سوانگ بھر کر خوشی کی تقریبات میں ناچ گا کر روزی روٹی کماتا تھا۔ بعد میں اسی لڑکے نے مجھے بچایا۔ ہوا یوں کہ جو ابھی گھر سے ہمارا گھر لے گیا تھا اور جس کی تلاش میں گھر سے اس قدر دور نکل آئی تھی، وہ مجھے یہاں نظر آ گیا تھا۔
میں بے اختیار اس کو آوازیں دیتی اس کے پاس
جائچی اور کہا۔ چاچاتم کون ہو ، نام تو بتاور نہ ہمارا | بر تن واپس کرو۔ اس نے
سوچا کہ ضرور اس بچی کے پیچھے اس کے گھر کا بڑا آرہا ہو گا ورنہ یہ اس وقت کی اتنی
دور کیسے دیکر واپس مانگے آسکتی ہے۔ یہ سوچ کر وہ ڈر گیا اور اس نے وہ برتن نہیں
رکھا اور خود بھاگ گیا۔ میں واپسی کا راستہ بھول گئی تھی۔ رات بھی سر پر تھی۔
پریشان کھٹری تھی کہ سامنے مجھے وہی نوشکی و الا نوجوان اپنے چھوٹے سے جھونپڑے نما
کمرے کے باہر نظر آیا۔ وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ
بھی شام کے اندھیرے میں اکیلی یہاں کیا کر رہی ہے، شاید یہ رستہ بھول گئی ہے۔
اس نے مجھ سے پوچھا۔ منی کیا بات ہے ، کیا تم
اپنے گھر کا رستہ بھول گئی ہو؟ ہاں۔ میں نے کہا۔ میں اپنے برتن کے پیچھے یہاں تک
آگئی ہوں۔ ہمارا برتن لے جانے والا و بر تن میہاں چھوڑ کر بھاگ گیا ہے لیکن اب
مجھے واپس جانے کا راستہ یاد نہیں۔ کچھ اپن تومان تب میں نے اس کو بتلایا کہ آپ نے
کچھ دن پہلے جہاں ڈانس کیا تھا، اس گلی میں مجھے چھوڑا ، وہاں ہی میرا گھر ہے۔
چنانچہ اس نے بڑا سادگی خود اٹھایا۔ مجھے انگلی سے پکڑا اور اس گھر کے سامنے لے
گیا جہاں پچھے کے عقیقے پر اس نے گانا بجانا اور رقص کیا تھا۔ یہ ہماری ہی گئی
تھی۔ یوں میں بخیریت اپنے گھر چلی گئی۔ اس دن میں گم ہو جانے سے بال بال بھی اپنا
غواشد و دیگچی بھی بازیاب کرالائی لیکن گھر پر سب پریشان تھے۔ ابابی دفتر سے آتے
ہی مجھے ڈھونڈنے نکل گئے تھے۔
پریشان بیٹھی پچھتارہی تھیں کہ انہوں نے مجھے
کیوں اس نامعلوم شخص کو دیکھنے بھیجا لیکن زمانہ اچھا تھا، لوگ ملنسار ، ایک دوسرے
کے دکھ درد میں حصہ لینے والے تھے جو میں واپس گھر پہنچ گئی۔ بعض اوقات ایک ہی
پریشانی بار بار نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ اس روز تو میرے گھر والے پریشانی سے نپی
گئے۔ اگلے دن پھر وہ اس پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ ہوایوں کہ باہر گلی میں میں
اپنی ہم عمر بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، ان میں کچھ میرے برابر کی تھیں اور کچھ
عمر میں مجھ سے ایک دو سال بڑی بھی تھیں۔ ان لڑکیوں سے ایک نے کہا۔ ہم اپنے اباجان
کے پاس جائیں گی جو چاندنی چوک میں دکان پر بیٹھا کرتے تھے۔ میرے اباجی اس وقت گھر
پر نہ تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ اپنے ابا جان کے پاس جارہی ہیں تو میرے ابابی بھی
وہیں کام کرتے ہوں گے۔
یہ سوچ کر میں نے ان سے کہا کہ میں بھی تمہارے
ساتھ چلوں گی۔ میں جیسے ان کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ ویسے ہی بغیر بتائے باہر ہی باہر
ان لڑکیوں کے ساتھ چلی گئی۔ چاندنی چوک بہت رش والی جگہ ہے، جہاں سنیما اور ہوٹل
وغیرہ بھی تھے۔ اب وہ لڑ کیاں تو اپنے والد کے پاس چلی گئیں، ان کو اپنی دکان کا
پتا تھا۔ ان کے ابا جی اپنے کام میں مصروف تھے۔ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا۔ میں نے
ان لڑکیوں کو کہا کہ اب میں اپنے ابا جی کے پاس جارہی ہوں۔ جبکہ مجھے پتا ہی نہیں
تھا کہ اباجی کہاں ہوتے ہیں۔
برسات کا موسم تھا۔ جسم پر صرف ایک فراک تھی۔
جب میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی تو نڈھال ہو کر ایک جگہ کھڑی ہو گئی۔ چہرہ سرخ تھا
اور حالت ابتر ، آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگوں نے پو چھناشروع کیا۔ کسی کی بھی ہے؟
کون ہے ؟ پریشان لگتی ہے۔ میں ہر ایک سے کہتی۔ میرے ابابتی کہاں ہیں؟ کئی لوگوں نے
کہا میں نہیں پتا۔ اب کافی رات ہو گئی تو ایک آدمی نے پوچھا۔ تمہارا نام کیا ہے؟
میں نے نام بنادیا۔ ابابی کا نام پوچھا وہ بھی بتادیا، گھر کہاں ہے، وہ بھی بتادیا
کہ جامع مسجد کے قریب ہے۔ اب وہ نیک آدمی مجھے کندھے پر بٹھا کر اتنی بڑی جامع
مسجد کے چاروں طرف چکر کاتا اور پوچستار باگھر کہاں ہے؟ میر ا بن کام نہیں کر رہا
تھا۔
مجھے گھر کا محل وقوع یاد نہ آیا اور میں اس
آدمی کی ذ مہ داری بن گئی۔ اس وقت وہاں گمشدہ بچے کو کوتوالی میں جمع کروا دیا
جاتا تھا۔ اس نے مجھے کوتوالی میں چھوڑ دیا۔ وہاں اور کبھی میرے جیسے کا فی بچے
تھے۔ ایک رات خیریت سے گزر گئی۔ دوسرے روز گھنگھور بادل گھر آئے۔ پھر دیکھتے
دیکھتے زبردست بارش شروع ہوگئی اور خوب اولے پڑے تو کوتوالی والوں نے بچوں کو بر
تن دیئے کہ اولے برتنوں میں ڈالو۔ چنانچہ میں بھی باقی بچوں کے ساتھ برف کے اولے
چنے لگ گئی اور ان بچوں میں ایسی گھل مل گئی کہ مجھے اپنے والدین بالکل یادنہ آئے۔
لیکن والدین کو کب چین تھا۔ جب سے میں کھوئی تھی، وہ مجھے ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے۔
جب نہ ملی تو آخر انہوں نے اخباروں میں میری تصویر چھپوائی۔ ریڈیو پر بھی اعلان
کروادیا اور ڈھنڈر ابھی پٹوایا گیا۔ ہمارے سب رشتہ دار د بلی میں جمع ہو گئے۔
انہوں نے بھی ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اس طرح پانچ دن گزر گئے۔
سردی کا فی شروع ہوگئی تھی۔ میں تو یہاں اور بچوں میں کھیل کود کر سو جاتی لیکن والدین به حال ہو چکے تھے۔ ان کا میری گمشدگی سے برا حال تھا۔ رات کو والدہ چادر اتار کر پھینک دی ہیں۔ گھر والے کچھ اوڑھے کو دیتے تو کہیں نجانے میری شمیم کس حال میں ہے؟ اس کو بھی سردی تنگ کر رہی ہو گی تو پھر میں کیسے چادر اوڑھ لوں۔ کھانا کھلاتے توای کے حلق سے نوالہ نہ اترتا کہ جانے میری بچی نے کچھ کھایا بھی ہو گایا کھو کی ہو گی۔
یہ تھاحال ماں باپ کا میر کی جدائی میں اور میں تھی کہ سب کچھ بھول بھال اپنے جیسے دوسرے گمشدہ بچوں کے جھرمٹ میں کھاپی کر ہنس کھیل کر اور نگرانی کرنے والیوں سے مزے مزے کی کہانیاں سن کر سو جاتی تھی۔ اب ای ابو کے صبر کا پیانہ لبریز ہو گیا۔ وہ نیم پاگل سے ہو چکے تھے۔ سب کہتے ، کچھ اور دن لڑکی نہ ملی تو یہ دونوں چ پ پاگل ہو جائیں گے۔ میری ایک رشتے دار کی پھوپھی جو گونگی تھیں۔ جب میرے جتنی بھی تھیں، وہ بھی ایک دن ایسے ہی گم ہوگئی تھیں۔ ان کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کی ماں بھی نیم پاگل ہوگئی تھی۔ سب خاندان والے اس واقعے سے بھی ڈرے ہوئے تھے۔ پچ پچھو ابھی تک نہیں مل سکی تھیں۔ میری دادی جان کو کسی جوتشی کے بارے میں بتایا گیا کہ نجومی ہے، ستاروں کا علم جانتا ہے، فال نکالتا ہے، باتھ بھی دیکھ کر بتا دیتا تھا۔ دادی امی کو لے کر اس کے پاس پہنچ گئیں۔ اس نے اسی کا ہاتھ دیکھ کر کہا۔ جلد ہی خوشی ملنے والی ہے۔ لڑ کی مغرب کی طرف ہے۔ ایک تعویذ بھی دیا کہ اس کو جتنے وزن کے نیچے دباؤ گے بھی جلد مل جائے گی۔ ہمارے گھر ایک آٹا پیسنے والی چکی تھی۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے یہ تعویذ چکی کے نیچے و بادیا۔ بس دوسرے دن پتا چلا کہ مغرب کی طرف جو کو توالی ہے ، ادھر کھوئے ہوئے چپے جمع کرادیئے جاتے ہیں، ادھر پت کر لیں۔ یہ اتفاق تھا کہ جو میں نے کبھی مغرب کی طرف کہا۔ بہر حال سب وہاں گئے ۔ انہوں نے کہا۔ جب بھی خود پہچانے گی پھر دیں گے۔
جو مجھے لینے آئے تھے، رشتے میں میرے نانا تھے۔ کچھ عرصہ قبل میر کی والدہ نے بتایا تھا کہ تمہارے نانا ہیں۔ مجھے شکل یادرہی، انہیں دیکھ میں فور آنانا نانا نانا ہی ان کے پاس چلی گئی۔ جس عورت نے مجھے گود میں بھر کے نانا کے حوالے کیاوہ گونگی تھی اور اس کے ماتھے پر ایک بڑا ساقتل ، جس کو عرف عام میں مکوڑی کہا جاتا ہے ، وہ تھا۔ نانا اس نوجوان لڑکی کی صورت تکئے گئے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ بھی نانا کو حیرت سے تکتی تھی۔ دفعتا اس نے مجھے گود سے اتارا اور نانا سے لپٹ گئی۔ پتا چلا کہ یہ ان کی کھوئی ہوئی گونگی بھی ہے جواب سے بیس سال پہلے کھو گئی تھی۔ یوں میر کی وجہ سے ان کی چھٹی کی بھی مل گئی۔ اس کا نام بانو تھا۔ بانو اپنے باپ کو پہچانتی تھی لیکن نانا نے ماتھے کے نشان اور گولی ہونے کی وجہ سے اپنی لخت جگر کو پہچان لیا۔ یوں ضروری کارروائی کے بعد ہم ایک ہیں، دو مشدہ لڑ کیاں اپنے خاندان کو واپس مل گئیں۔ اسے قدرت کا کرشمہ ہی کہنا چاہیے۔
جب باہر آئی تو وہاں بہت ساری رشتے دار عور تیں کھڑی تھیں جن میں میری والدہ بھی تھیں۔ میں بھاگ کر اپنی والدہ سے جالیا۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ کچھ لینا ہے ؟ وہاں بچوں کی چیزیں بک رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ کچھ نہیں لیتا، بس گھر چلیں۔ جب میں اپنی والدہ کے پاؤں سے لپٹ گئی تو سب نے خوشی سے رونا شروع کر دیا۔ نانا اور ان کی گو گی لڑکی کے ملنے پر تو و توالی والے بھی خوشی سے رو پڑے ۔ یہ ایک ناممکن امر تھا جو ہو گیا تھا۔ اور میر امانا کیا کم معجزہ تھا۔ ایک بہت چھوٹی لڑکی کا پانچ دن بعد مل جانا معجزہ نہیں تو اور کیا تھا۔ ان ہی دنوں پاکستان بن گیا اور یہ رشتے کے نانا بھی ہمارے ساتھ اپنی اس گو ئی بی کو لے کر آگئے اور ہم جڑانوالہ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ ہم سب کی ایک ہی مکان میں رہائش تھی لینی نانا اور ہماری گو گی پھو پھی بانوی بھی ساتھ تھیں۔ و جوان تھیں ان کی شادی تو کرنی تھی۔ اسی دوران میرے ناناجی نے یہ منت مان لی کہ جو سب سے پہلے بانو کا سوالی ہو گا اسی سے شادی کر دیں گے۔
خواہ کیسا ہی ہو، کسی بھی ذات سے ہو۔ حالانکہ اس وقت غیر ذات سے رشتہ کرنا بھی معیوب تصور کیا جاتاتھا۔ پچھو بڑی گھر تھیں۔ سلائی بھی سیکھ چکی تھیں ۔ بہت عقلند، کھانا نانا، سینا رونا ہر طرح کا سلیقہ تھا۔ گھر کو صاف ستھرا رکھتی تھیں لیکن گونگی ہونے کی وجہ سے رشتہ نہیں ملتا تھا۔ اچانک خدانے نانا جان کی دعا قبول کی اور جڑانوالہ میں ان کا ایک دوست ملا۔ اس سے انہوں نے بات کی کہ میری بچی اس طرح کی ہے ، اس کا نکاح کی شریف شخص سے کرنا چاہتاہوں ۔ ان کے دوست نے کہا کہ ایسے شریف لوگ ہمارے ہمسائے میں رہتے ہیں۔ وہ باپ بیٹا ہیں۔ یہ باپ بیٹا نہایت شریف اور دین دار تھے۔ باپ بہت بوڑھا تھا۔ بیٹا بھی اچھی عمر کا تھا، پھر اس بیٹے کے بھی تین بیٹے
تھے۔ گھر میں کوئی عورت نہ تھی۔ بہو میں
دونوں فوت ہو چکی تھیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ دادا کھانا پکا تھا اور بیٹا کام
کرتا تھا اور پوتے گھر میں ہوتے تھے جن کی پرورش باپ اور داداخود کرتے تھے۔ نانا
جی کے دوست نے اپنے ہمسائیوں سے بات کی۔ میرے ابا جی نے ان کو یہ کہا کہ لڑ کی
گونگی بہر کی ہے، خوبصورت بھی نہیں ، رنگ سیاہ اور ماتھا چپاندر کو دھنسا ہوا ہے،
پھر بھی وہ لوگ اتنے شریف تھے کہ قبول کرنے پر راضی ہو گئے۔
ان دنوں نئے نئے پاکستان میں آباد ہوئے تھے،
رشتے داروں کا پتا نہ تھا۔ مالی حالت بھی خستہ تھی۔ بالکل خالی ہاتھ تھے۔ نانا جان
نے صرف چائے اور بسکٹ پر نکاح کر دیا۔ وہ بہت نیک لوگ تھے۔ مسجد کے امام تھے اور
بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے اور کھڈیوں پر سوئی گیس بنایا کرتے تھے۔
گھر سامان سے بھرا ہوا تھا۔ رزق حلال تھا، خوب برکت تھی۔ پچے کبھی سعادت مند تھے،
بڑا بیٹا میری چچھو کو ماں جی کہتا۔ امی نے کہا کہ بانو تو چھ سن سکتی نہیں، تم جو
بھی کہو ۔ وہ بولا، میرے ابادی کے گھر آگئی ہیں، اس لئے اب یہ میری ماں
بھی ہوئیں اور جب میں انہیں ماں جی کہہ کر پکارتا ہوں تواللہ تو سنتا ہے۔ غرض نیک
باپ کے نیک فرماں بردار بیٹے تھے۔ یہ چے ہی کیا، ان کے سارے رشتے دار خوش ہو
گئے کہ آجڑاگھر آباد ہو گیا تھا۔ بانو پھپھو کے پانچ بچے ہوئے۔ تین بیٹے دو بیٹیاں
۔ اب ماشاءالله یہ سب چھ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ماں باپ فوت ہو چکے ہیں۔ جب پچھو
بیکار ہوئیں لیکن وہ آخری سفر پر جانے کی تیاری کر رہی تھیں تو سب بیٹوں ، بہوؤں،
پوتوں، پوتیوں نے مل کر بہت خدمت کی۔ سوتیلے لڑکوں نے بھی زندگی میں ہمیشہ بہت
خیال رکھا اور عزت کرتے رہے۔
سب بہو میں بھی مالی ،
مال بھی کہتی تھیں حالانکہ وہ ماں بی کا لفظ اپنے کانوں سے سن بھی نہیں سکتی تھیں۔
میر کی یہ پچھو بھی ایک فرشتہ صفت خاتون تھیں۔ نماز کی پابند ، عبادت گزار ،رات کو
جاگ جاتیں اور مصلے پر انھیں بند کر کے اللہ کا ذکر کرتی تھیں اپنی زبان میں ، جس
کو صرف الله تعالی ہی سن اور سمجھ سکتا تھا۔ سوتیلے بچوں کی پرورش س
ر اور شوہر کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ اللہ نے گو گی اور بہری بنایا مگر
وہ اوصاف ان کی شخصیت میں بھر دیئے کہ جو جنتی لوگوں میں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی نیک
پھوچھا اور ان کے بچے تھے۔ آج بھی جب میں ان کے بچوں بچیوں ، پوتے پوتیوں کو اپنی
گمشدگی کے ذریعے بانو کے چودہ برس بعد واپس مل جانے کا واقعہ سناتی ہوں تو سب اللہ
کی اس قدرت پر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
0 Comments