Teen Ortain Teen Kahniyan 22 June Story Qabrastan Say Mila Phool |
جس علاقے میں ہم رہتے تھے، قبرستان وہاں سے
نزدیک تھا۔ جہاں ایک پیاری بستی کی آخری آرام گاہ پر ہم وقتا فوقتا فاتحہ پڑھنے
جایا کرتے تھے اور وہ تھیں ہماری نانی اماں ۔ دراصل شروع سے ہی وہ ہمارے پاس رہتی
تھیں، ان کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ میری والدہ ان کی اکلوتی اولاد تھیں۔ یوں ہوش
سنبھالتے ہی ہم نے نانی جان کاشفیق ساتھ پایا۔ والدہ سے زیادہ ان سے لگائو تھا۔
ایک روز اچانک جب دل کے جان لیواد ورے سے ان کا انتقال ہو گیا اور وہ منوں مٹی تلے
جاسوئیں تو ہم بھی صدمے سے نیم جاں ہو گئے۔
یہ چاہے انسان اپنے پیاروں کی جدائی کا درد
جھلانے کو کئی تدبیریں کرتا ہے، ہم بھی ان کی یاد کے زخم پر مرہم رکھنے کو اکثر
کشاں کشاں قبرستان چلے جاتے اور ان کی قبر کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر سکون محسوس کرتے
، فاتحہ پڑھتے۔ اس روز میں اور امی حسب معمول جمعرات کو وہاں فاتحہ پڑھنے گئے تھے
کہ قریب بیٹھی ایک ضعیف خاتون نے ہم کو متوجہ کر لیا۔ اسی کے پوچھنے پر بتایا کہ
میری بیٹی کا چند ماه قبل انتقال ہوا ہے اور میری گود میں اسی کا بچہ ہے۔ میری
والدہ بڑی رحم دل خاتون تھیں۔
انہوں نے اس ضعیفہ سے کہا۔ اماں! ہمارا گھر یہاں
سے بہت قریب ہے، ابھی ہمارے گھر چلئے۔ آپ کی طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگتی۔ والدہ نے
ان کو سہارا دے کر اٹھایا اور اپنے ساتھ گھر نئے آئیں۔ اس بوڑھی عورت کی گود میں
خوبصورت سا گول مٹول بچہ مجھ کو لبھانے لگا۔ میں نے شوق سے اس کو اٹھا لیا کیونکہ
مجھے چھوٹے بچے بہت اچھے لگتے تھے۔ امی نے بڑی بی کو پانی پلایا اور پھر کھانے کو
دیا، ان کو دلاسا دیا۔
ضعیف عورت بے چاری حالات سے بوکھلائی ہوئی تھی۔
اس کی سب سے بڑی پریشانی یہ بچہ تھا۔ امی جان کی محبت اور توجہ پاکر اس عورت نے
چند دن ہمارے یہاں قیام کرنے کی خواہش کی۔ امی نے خوشی سے ان کو اپنے گھر شہر
الیا۔ انسان مایوس ہوتا ہے مگر خدا کی حکمتیں نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ تعالی بے آسرا
لوگوں کے ٹھکانے خود بنادیتا ہے۔ تین دن یہ عورت ہمارے پاس رہی اور چوتھے دن صبح
جب میری والدہ نے اس کو ناشتہ کے لئے جگایا وہ مالک حقیقی کے پاس جاچکی تھی۔
امی نے بچے کو گود میں اٹھالیا۔ جانے والی کو
شاید خالق نے مبیح جگہ پہنچایا تھا کہ اس بچے کی ذمہ داری ہم
لے
لیں۔ جانے والی تو چلی گئی لیکن جانے سے ایک روز قبل اس نے جو کہانی ہم کو سنائی
تھی ، وہ ایک ناقابل فراموش ہے کہ جو سنتا ہے، انگشت به دنداں رہ جاتا ہے۔ اس ضعیف
خاتون کا نام رحمت بی بی تھا اور یہ نواب حشمت خان کی پرانی ملازمہ تھی۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ حشمت خان ایک نواب
گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ ضد کی اور خود سر بھی تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنے
ساتھ پڑھنے والی ایک لڑ کی زر نگار سے اس کو محبت ہوگئی۔ یہ لڑ کی ایک امیر گھرانے
سے تعلق رکھتی تھی۔ حشمت کے گھر والے کسی صورت زر نگار کو بہو بنانے پر راضی نہ تھے۔
کیونکہ وہ آزاد روش لڑکیوں کو اچھی نظر سے نہیں
دیکھتے تھے تاہم حشمت کی ضد نے اسے گھر والوں سے بغاوت پر آمادہ کر لیا اور اس نے
نگار سے اپنی مرضی کی شادی کر لی۔ اس شادی میں اس کے گھر والوں نے شرکت نہ کی اور
وہ بیوی کو لے کر ایک علیحدہ کوٹھی میں منتقل ہو گیا۔ زر نگار ایک شوخ نظر عورت
تھی جس کو گھر گرہستی سے قطعی و پیسی نہ تھی۔ وہ پارٹیوں کی دلدادہ تھی اور محفلوں
میں ہر کسی کی مرکز نگاهر ناپسند کرتی تھی ۔ کلب اور پارٹیوں میں ہلاگلا کرنے میں
اسے مزا آتا تھا۔ گھر کی چار دیواری کو وہ زنداں اور گھر کو بوریت کا ٹھکانہ بجھتی
تھی۔
اس کے بر عکس، حشمت وضع دار خاندان کا پر ور ده
فرد تھا۔ تبھی بنیادی طور پر مشرقی روایات پسند ذہنیت کا حامل تھا۔ چند دن ہی بیوی
کی آزاد خیالی کا ساتھ دے سکا اور اندر اندر کڑھنے لگا۔ زر نگار کو منع کرتا تو
قہقہے لگانے ملتا۔ کہتی تعلیم یافتہ ہو کر بھی اسی سوچ رکھتے ہو ، تجب ہے۔ اپنی یہ
تنگ نظری چھوڑو ورنہ تمہارا ہمارا ساتھ نہیں رہے گا۔ اس طرح تباہ نہیں ہو سکتا۔
حشمت ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی فطرت کے خلاف زندگی بسر نہیں کر سکتے ،ادھر نگار
بھی اسی قبیل کی خاتون تھی۔
پس اس کا غیر مردوں کے ساتھ آزادانہ مانا جلانا
حشمت کو کھولنے لگا۔ وہ اپنے اندر کے مرد سے ہمہ وقت جنگ و جدل میں مصروف رہنے
لگا۔ اس کی بیوی کے پاس جب چاہے اس کا کوئی مرددوست سامنے آسکتا تھا۔ ان دوستوں کا
گھر میں آنا جانا اور پارٹیاں چلتی رہتی تھیں۔ حشمت کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ حکمرانی
نگار کی ہے جیسے کہ وہ عورت ہو اور نگار مرد۔ وہ شدید ذہنی خلفشار کا شکار ہو گیا۔
ہر وقت بیوی سے اس کی آن بان رہنے لگی۔ انہی دنوں ان کی پہلوئی کی اولاد نے جنم
لیا۔
بیٹی کا نام نگار نے گل نایاب رکھا۔ چند دن بعد
ہی وہ نھی بچی کو آیا کے حوالے کر کے پھر سے اپنے مشاغل میں گم ہوگئی۔ بیٹی کی
کلکاریاں بھی اس کے پیروں کی زنجیر نہ بن سکیں۔ وہ اس معصوم کو سینے سے لگا کر
سونے کی بجائے آدھی رات تک کلب پارٹیوں میں مصروف رہتی۔ بیٹی سے حشمت خان کو بہت
محبت تھی۔ جوں جوں بچی بڑی ہوتی گئی۔ ماں کے پیار اور توجہ کو ترسنے گی ۔ وہاں کی
بے حد کمی محسوس کرتی۔ لا کھ ر حمت بی بی اس کو پیار کرتی مگر آیات ماں کی جگہ
نہیں لے سکتی۔
آیا سے اس کی صحیح نگہداشت نہ ہو پارہی تھی ۔
نایاب بیار رہنے لگی تھی۔ بچی نگار کے پائوں کی زنجیر بن گئی۔ اس کی آزادی کی راہ
میں رخنہ ثابت ہوئی۔ بیٹی کی خاطر حشمت نے بیوی کو گھر میں پابند کرنا چاہا تو اس
نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ تب نواب زاده حشمت نے عزت اسی میں مجھی کہ خاموشی سے
بیوی کو آزاد کر دے۔ نایاب ان دنوں ایک سال کی تھی جب یہ پہلا ظلم ہوا۔ جو سگی ماں
نے اس معصوم پر توڑا۔ حشمت خاندانی آدمی تھا۔ اس واقعے نے اس کے دل اور ذہن پر بہت
برا اثر ڈالا۔ اب سارا خاندان اس پر افسوس کرتا کہ اپنی پسند کا د یکھ لیا نتیجہ بھی
تو ہم مثال دیتے تھے کہ شادی اس سے کرنا جو خاندانی ہو چاہے وہ ہو کانی اس مثال کا
یہ مطلب تھا کہ بے شک کوئی عورت شکل و صورت میں دیتی ہو لیکن اگر وہ شریف خاندان
سے ہے تو اس کی صورت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کے خاندانی لوگ ہیں
کہ نہیں۔
کچھ رشتہ دار تو تمسخر کرتے کہ پسند کی شادی کر
کے کیا پایا بیوی تو کسی اور کے ساتھ چلی گئی۔ اسی باتیں کانوں میں پر نہیں تو
حشمت کا دل چاہتا کہ خود کشی کر لے مگر معصوم بچی کا خیال آجاتا تھا۔ حشمت کے
سامنے اب سب سے بڑا مسئلہ اس کی چکی کی پرورش کا تھا لیکن اس کی غیرت نے یہ گوارا
نہ کیا کہ وہ اس کو لے کر خاندان میں جائے اور اس کی پرورش کا مطالبہ کرے یا اس کے
لئے محبت کی بھیک مانگے۔ تمام جائیداد فروخت کر کے وہ شہر چلا گیا۔ پر اپنی ملازمہ
رحمت بی بی بد ستور نایاب کی پرورش کر رہی تھی اور وہ بھی کی خاطر ان کے ساتھ شہر
آگئی تھی۔ رحمت بی بی نے اپنی گود کی گرمی دے کر نایاب کو بڑا کیا اور جب وہ اسکول
جانے لگی تور حمت بی بی نواب صاحب کے کان کھانے گی کہ آپ اور شادی کر لیجئے۔
میں کب تک جیوں گی۔ بوڑھی ہو چکی ہوں ، آپ اور
نایاب تنها زندگی نہ گزار سکیں گے۔ رحمت بی بی کی کوششوں سے حشمت خان نے ایک شریف
گھرانے کی لڑکی سے نکاح ثانی کر لیا۔ نی ماں کے آتے ہی گھر کا ماحول بدل گیا۔ پہلے
نایاب سب کچھ تھی اور اب گھر پر کسی اور کی حکومت ہو گئی۔ کبھی کبھار نایاب کے
کانوں میں ایسی باتیں بھی پڑ جائیں کہ یہ آوار ماں کی بیٹی ہے۔ جانے یہ میں نکلے۔
یہ باتیں اس کو بہت زیادہ ڈسٹرب کر دیتی تھیں۔ خدا کی کربنی که حشمت خان کا ایک
حادثے میں انتقال ہو گیا۔
اب سوتیلی ماں ہی مختار کل تھی۔ ان دنوں نایاب
یونیورسٹی میں تھی اور وہاں ہوسٹل میں رہتی تھی۔ اس کا ہوٹل اور تعلیم کا خرچہ بھی
بند کر دیا گیا۔ یہی نہیں سوتیلی ماں صائمہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر نایاب کو
جائیداد سے محروم کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا۔ پہلے سے کچھ جائیداد حشمت خان نایاب
کے نام کر گئے تھے۔ اس نے اسی پر اکتفا کیا اور دوسری جائیداد جواس کو وراثت میں
ملتی تھی اس سے وہ اپنے سوتیلے بھائی کے حق میں از خود دست بردار ہو گئی کیو نکہ
وہ صائمہ (سوتیلی ماں) سے تصادم نہیں چاہتی تھی۔ صائمہ ایک روز بیٹے کو لے کر میکے
چلی گئی ۔ گھر میں نایاب اور آبار حمت بی بی رہ گئیں۔
تنہائی نے نایاب کی روح میں الائو سے بھٹکا
دیئے۔ وہ اپنی سگی ماں کے بارے میں رحمت بی بی سے کرید تھی۔ اپنے سوتیلے بھائی سے
مانوس تھی، سو وہ بھی گھر میں میں نہ رہا تھا۔ آیا نے اس کو سمجھایا کہ آپ پڑھائی
پر دھیان رکھو، تعلیم ہی ہے جو آپ کے کام آئے گا۔ نایاب نے پھر سے پڑھائی پر توجہ
دی۔ اس نے سالانہ امتحان میں اتنے اچھے نمبر لئے کہ اسکالر شپ پر بیرون ملک چلی
گئی۔ اس کا ارادہ پی ایچ ڈی کرنے کا تھا مگر تھوڑے عرصے بعد اس کے سر میں درد رہنے
لگا۔ طبی معائنے پر پتا چلا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہے۔ علاج معالجہ کے
لئے بڑی رقم درکار تھی۔ اس نے رحمت بی بی کو لکھا، اسے علاج کے
لئے رقم کی ضرورت ہے۔ آیا نے اس کی جائیداد اونے پونے اس کے والد کے وکیل کے ذریعے
فروخت کر کے رفتم بجھوادی۔
جن دنوں وہ بستر علالت پر تھی۔ اس کا کلاس فیلو
ٹر کا عیادت کو آیا۔ یہ ایک افغانی طالب علم تھا۔ جو اسلامک سوسائٹی کی جانب سے اس
کے لئے ڈونیشن لے کر آیا تھا۔ اس لڑکے کا نام محب خان تھاوہ بہت اچھا اور آداب و
اخلاق کی دولت سے مالا مال تھا۔ اس نے جب نایاب کے حالات سنے۔ اس کو اس بے بس لڑکی
سے بہت ہمدردی ہو گئی۔ وہ باقاعدگی سے اس کی عیادت کو آنے لگا اور پھر نجانے کس
کھاتی جذبے سے مغلوب ہو کر اس نے نایاب سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ حالانکہ ڈاکٹروں
نے بتادیا تھا کہ یہ لڑکی کینسر کی مر تضہ ہے۔ محب خان کے والدین امیر لوگ تھے۔ وہ
اس کی شادی محب کی چچازادی سے کرناچاہتے تھے۔
انہوں نے بیٹے کو پاکستانی لڑکی سے شادی کی
اجازت نہیں دی لیکن محب نے ان کی نہ سنی اور نایاب سے چند دوستوں کی موجودگی میں
شادی کر لی۔ شادی کے بعد محب نے کرائے پر فلیٹ لے لیا۔ اور نایاب کو بھی اسپتال سے
رخصت مل گئی، کیونکہ وہ محب کی محبت کو پاکر حیرت انگیز طور پر صحت یاب ہورہی تھی۔
زندگی میں پہلی بار کوئی اپناملا تھا۔ یہ خوشی نایاب کے لئے کسی سرمائے سے کم نہ
تھی۔ محب خان نے اپنے خاندان میں شادی کی اطلاع نہ دی۔ وہ لوگ افغانستان میں رہتے
تھے۔ ان کو علم بھی نہ ہو سکا کہ ان کے بیٹے نے بیرون ملک میں گھر بسالیا ہے۔
البتہ نایاب نے رحمت بی بی کو خط لکھ کر تمام احوال سے آگاہ کر دیا کیونکہ اس کا
اس دنیا میں آیا ماں کے سوا کوئی نہ تھا۔ محبت کا اپنا ایک الگ رنگ ہوتا ہے اور اس
کی قوت کسی سے پوشیدہ نہیں۔
حیرت انگیز طور پر نایاب کی صحت بہتر سے بہتر
ہوتی گئی۔ ڈاکٹر بھی اس معجزے پر ششدر تھے ۔ پچ کہا ہے کسی نے کہ موت اور محبت میں
، ہر ایک میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ ہر شے کو بدل دے۔ جس کیس کو معاج لا
علاج سمجھتے تھے۔ اس کا علاج روحانی خوشیوں سے خود بخود ہو رہا تھا۔ محب خان سے
نایاب سے ایسی بھر پور محبت ملی کہ جینے کی امنگ اور زندہ رہنے کی خواہش نے تریاق
کا کام دیا۔ گاتا تھا کہ محبت نے موت سے پنجہ آزمائی کی ہے اور اس میں کینسر جیسی
لا علاج بیماری کو شکست دے دی ہے۔ انہی دنوں افغانستان کے حالات دگرگوں ہونے لگے
اور محب خان کا خاندان بھی ان حالات کی لپیٹ میں آ گیا۔ محب خان کو اپنے عزیز
واقارب کی طرف سے پریشان کن خبر میں ملنے لگیں تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور
گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے وطن چلا گیا۔
جہاں وہ ناگہانی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو
گیا اور کسی کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ نایاب کو محب خان کے قریبی دوست نے آ کر
اطلاع دی جو امریکا میں پڑھ رہا تھا۔ خبر سنتے ہی وہ سکتے میں رہ گئی۔ یہ خبر اس
کے خرمن پر بجلی بن کر گری اور اس کی خوشیوں کو جلا کر راکھ کر گئی۔ ان دنوں وہ
امید سے تھی۔ وہ اس قدر دل گرفتہ ہوئی کہ بیمار پڑ گئی۔ بھلا اب اس کا دل کہاں
لگتا۔ دل شکستہ نایاب نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے لئے تو زندگی کا حسن
ختم ہو چکا تھا۔ محب خان کے بنا جینے کی امنگ بھی نہ رہ گئی۔ اگر دنیا میں کوئی اس
کو پوچھنے والا تھا تو وہ اس کی خاندانی پرانی ملازمہ رحمت بی بی ہی رہ گئی تھی۔
وہی اس کا سہارا تھی کیونکہ اس کی نظروں میں وہ
ماں کا درجہ رکھتی تھی۔ رحمت بی بی اب بھی حشمت خان کے اس گھر میں رورہی تھی جو وہ
نایاب کے نام کر کے گئے تھے۔ نایاب کے نام پر دو مکان تھے۔ ایک کرائے پراٹھاہواتھا
جس سے رحمت گزر بسر کرتی تھی۔ یہ انتظام بھی حشمت خان کے دوست وکیل نے کر کے دیا
تھا۔ نایاب نے آتے ہی ان مکانات کو فروخت کر دیا۔ اس کور وپوں کی اشد ضرورت تھی۔
دونوں ایک کرائے کے گھر میں منتقل ہو گئیں، جہاں نایاب نے بیٹے کو جنم دیا اور پھر
وہ کچھ عرصہ بعد خالق حقیقی سے جاملی کیونکہ کینسر کا موذی مرض پھر سے عود کر آیا
تھا۔ اس کا نتھا بچہ بھی ماں کی طرح رحمت بی بی کی گود میں پناہ لینے پر مجبور ہو
گیا۔ اب وہ بوڑھی ہو چکی تھی۔ ذریعہ معاش بھی کوئی نہ رہا تھا۔ وہ اس بچے کی زمہ
داری سنبھالنے سے قاصر تھی تاہم اس کو پھینک کونہ سکتی تھی
اور نہ کی اور کے حوالے کریتی کیونکہ اس کو نایاب سے محبت ھی۔
ہی محبت آڑے آجانا اور وہ اس کے بچے کو سینے سے
لگا لینے پر مجبور ہو جاتی تھی۔ حالات سے گھبرا کر اس روز وہ بچے کو گود میں لئے
نایاب کی قبر پر بیٹھی رورہی تھی۔ جب میری اور امی جان کی اس سے
ملاقات ہو گئی۔ میں تو گمان بھی نہ تھا کہ جارہے ہیں نانی اماں کے لئے فاتحہ پڑھنے
اور آگے خدا ایک پھول سا معصوم بچہ ہمارے دامن میں ڈال دے گا۔ یہ ایک ایسی ذمہ
داری تھی کہ شاذ ہی لوگ اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ لیکن میری
ماں کو حوصلہ اور سوچ بھی اسی خالق نے دی تھی، جس نے اس بچے کو دنیا میں بھیجا کہ
جس کے ماں باپ دونوں ہی نہ رہے تھے۔
سو والدہ نے کہا کہ اللہ تعالی کو اس نیکی کے
بدلے ہمارا امتحان مطلوب ہے تو میں بھی قدم پیچھے نہ ہٹانے چاہئیں۔ شاید یہی رب کی
رضا ہے۔ اپنے رب کی رضا سمجھ کر ہم نے اس معصوم کی دیکھ بھال شروع کر دی اور اس کا
نام اکرام رکھ دیا کہ یہ اللہ پاک کا ہم پر کرم ہی تھا جو ایک ایسی نیکی نے ہمارے در
پر دستک دی تھی۔ جس کی بڑائی کو سنبھالنے کا ہم میں حوصلہ نہ تھا۔ بہر حال اکرام
کی پرورش ہونے لگی۔ بتاتی چلوں کہ اب اکرام ماشاء اللہ جوان ہے اور خود کو امی کا
بیٹا ہی سمجھتا ہے۔ ہم بھی اس کو یہ باور کراتے ہیں وہ ہمارا بھائی ہے۔ ہم نے اس
کو نہیں بتایا کہ وہ ہمارا کچھ نہیں لگتا۔ بتانے سے فائدہ بھی کیا۔ اس کا بھی اس
جہان میں ہمارے سوا کوئی نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو ہم کو علم نہیں ہے۔
0 Comments