Urdu Story Jeeney Ki Aass Na Rahe Teen Auratien Teen Kahaniyan |
منی اس وقت پالنے میں اور میں تین برس کی تھی۔
ہماری نئی ماں نے گھر میں قدم رکھا۔ ابا کی دوسری شادی سے قبل ہماری پھوپی سلمی یہ
کہ کر منی کو لے گئی تھیں کہ ابھی بہت
چھوٹی ہے ، ذرا بڑی ہو لے تو واپس کر دوں گی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میں سہمی ہوئی
اب کی سی کے ساتھ کھڑی شوق اور حیرت سے اپنی نی ماں کو تک
رہی تھی جو اس وقت دلہن بنی میرے ابا کی پینگ پر بیٹھی تھی اور میں ایک نکا س کو
دیکھے باتی تھی۔ تبھی اب کمرے میں آگئے اور انہوں نے مجھ کو اٹھا کر اس کے قریب
بٹھا دیا اور بولے۔ اس کو ماں کا پیار دینا۔
قدرت نےاس سے ماں کی پیار بھری گو د چھین لی ہے۔ اس وقت تو ان کی دلہن نے سر ہلا دیاتا مگر بعد میں وہ ایسی سنگدل ہو گئی کہ ماں کی ممتا کو بھی تڑپا دیا۔ شروع کے چند دن پیارسے بلاتی مگر میں خوداس عورت سے دور دور رہتی۔
اپنے شوہر کی خوشنودی اور ان کا اعتادحاصل کرنے
کی خاطر مجھ کو خود سے مانوس کرنے کے جتن بھی کئے مگر میں ، پھپھو پھپھو کی رٹ لگا دیتی تھی کہ ماں کے بعد انہی نے
مجھ کو سینے سے لگائے رکھاتب ہی تو پیارپاہتاہے۔ رفتہ رفتہ نئی ماں کی جانب راغب
ہونے گی۔ یہاں تک کہ اب وقت آگیا کہ م یں نے امی کہ کر سوتیلی ماں کا آنپل مضبوطی
سےتھام لیا۔ انہیں مجھ سے لی بھر
کے لئے بھی اپنا دامن چھڑانا مشکل ہوگیا۔ میں اب اتنی مسرور ہوگئی جیسے بھی میری
اپنی ماں مل گئی ہو۔
ابا
مجھ کو ا س ماں کے ساتھ لاؤ کرتے دیکھتے تو کہتے نیب میں ہی پاہتاتا کہ میری یتیم
بچیوں کو تم بیی ماں ملے۔ عہد کرلیات جو عورت میری اولاد کو ماں کا پیار دے گی،
وہی میرے دل پر راج کرے گی۔ شاید ان کو معلوم نہ تا کہ کوئی دوسری عورت کسی اور کی
کوکھ سےبنم پانے والے بچوں کو بطور اپنی اولاد نہیں اپنا سکتی۔
یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ دل پر بہت جبر کرنا پڑتا ہے مجھ پر آئی اولاد سے رشتہ استوار ہوتا ہے۔ ابان حبانت تھے مگر میں ضرور بنتی تھی کہ شوہر کے دل تک سفر طے کرنے کے لئے صرف پ ایک رستہ ہے کہ اس کی اولاد سے محبت کا ڈھونگ رپایابائے۔ م یں ایک معصوم بچی تھی۔
علم نہ تا کہ ماں کی مجھ سے دکھاوے کی محبت ہے۔م یں نے تو ان کے پیار پر اعتبار کر لیات جیسے پالتوبانور اپنے مالک کی محبت کا
اعتبار کر لیتے ہیں اور اب جو دوسری شادی کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے اور کہتے تھے۔ م یں نے کئی سوتیلی مائیں دیکھی ہیں جو پہلے ماں کا روپ دھار کر گھر م یں تدم جماتی ہیں
اور بی کوڈائن بن جاتی ہیں۔ کبھی کسی عورت کو اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ بیوی بن کر آئے اور ڈائن بین کر میری بچیوں کو کھابائے۔ میری مسرت اور ماں کے پیار کا عرصہ بہت مختصرتا۔ جو نبی امی نے اپنی بچی کو بنم دیا، خود بخود ان کے تربت سے محروم ہو گئی۔ اب م یں اس کا دامن پر تھی تو وہ غصے سے جھٹک دیں۔ تریب بانے کی ض د کرتی، دھتکار ملتی، گھنٹوں روتی رہتی اور ماں کو پروا نہ ہوتی۔ میری روں روں سے تنگ کر وہ مجھے کو اندھیری کوٹھری م یں بند کر دیتی۔ اسے میرای بروقت کا رونا بسور نا ایک
آنکھ نہ جاتا۔
ا س عورت کا گھر ہی ہیں دل بھی آباد ہو چکاتا اور گود حقیقی اولاد کے وجود سے آسودہ تھی۔ اب ملا اس کو میری کی پروا تھی۔ میرا جو دیوں کھنکتا جیسے پھولوں بھری ڈالی میں کانٹے ہوتے ہیں۔ پاہتی تھی کسی طرح بلد از جلد پکانٹاسی کی زندگی سے شکل بائے لیکن اس کانٹے کو نکالنے کی کوئی تدبیر اس کے پاس نہ تھی۔ میں نے تو ابا کے گھر رہتات اور بادل میں چجنات۔ ان دنوں بالکل بھی ماں کے دل کی ا س کیفیت کو نہیں سمجھتی تھی ۔ جتنی وہ مجھ سے پڑتی، اسی میں ا س کی پاہ کرتی۔ اب تو ابا کو بھی ہماری پروانہ رہی تھی۔ یکے بعد دیگرے دوسری بیوی سے ان کے تین پے ہو گئے تھے تواب کا پیار ان بچوں کے ریلے
میں خ و ناشاک کی طرح بہہ گیا۔ اب پوچھو کہتی کہ منی سمجھ دار ہو گئی ہے بھائی ہیں، اس کو گھر لے بائو، وہ ان کی بات پر بھی کان دھرتے جیسے منی کو اپنی بہن کی گود م یں دے کر اسے بھول گئے ہوں، لیکن میں بہن کی بہت کمی محسوس کرتی۔ وہ بچوں کے ہمراہ گھر آتی، بی پاہت روک لوں، اپنے پاس رکھ لوں۔ پھوپ کے ساتھ د بانے دوں۔ جب پہلی بار ماں بنی اور اس کے بیٹی ہو گئی تو میں اسی نئے پیار کو پانے کے جتن کرتی رہی۔ رتی اور تجھگڑتی رہی۔ غم کرتی، کھولتی پیارسے مناتی روٹھ جاتی۔ اطاعت کرتی، بلکتی مگر جوں جوں میری طلب بڑھتی اس کے دل میں میرے لئے تھپی ہوئی بیزاری بھی بڑھتی جاتی تھی۔ اس نے ن صرف مجھ کو مارا، ڈانٹ ڈپٹا، دھتکارا، حبلایا۔ دھکے دے کر گرایا کہ بہانے بہانے ابا سے بھی خوب پٹوایا۔ انہی دنوں چھپھو علی پڑگتیں تو منی کو زبر دستی باپ کے گھر چھوڑ گتیں۔ اگر پ اس کے آنے سے مجھے خوشی ہوئی مگر خون بھی تا کہ اب کہیں منی سوتیلی ماں کی نفرت کانشا ن ہ بنے۔ وہ تو پچھو کے وہاں پیارے پلی تھی، سوتیلی ماں کی نفرت کیونکر سہہ سکتی تھی۔
اب م یں سارے گھر کا کام کرتی اور منی ابا کے بچوں کو کھلاتی۔ اگر چھوٹی بہن یا بھائی اس سے نجات یا از خودگربانتا۔ ماں منی کے بالوں سے پکڑ ا س کو خوب جھوٹے دیتی۔ کھانا اسے سب بچوں کےبعد ملتا۔ آج جب منی کا مسکن یاد آتا ہے تو کلیب مت کو آنے لگتا دیکھتے دیکھتے ماں کی کوکھے کے بچے بھی بڑے ہو گئے۔ اب وہ ماں کو منع کرتے کہ آیا اور منی سے برا سلوک نہ کیا کرو، وہ ان کو بھی گھر کی دی۔ اس معاملے میں وہ ماں کے سامنے منہ مار سکتے تھے۔ وہ تو کیا، اب بھی ان کے سامنے نہیں بول سکتے تھے کہ وہ گھر کی مالکہ منی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ ناشتا میری ماں بھی بہت خوبصورت میں۔ نیب امی تو ہم کو آدھا پیٹ
کھانے کو دیتیں کہ پ بلد بڑی نہ ہوجائیں لیکن ہم دونوں بہنیں حوروں کی طرح نکھرتیباتی تھیں۔ اب جو بھی رشتہ آتا وہ میرے لئے ، بڑی ہونے کے ناتے پہلے میرابیاہ ہوتات مگر میاں میری گن ان کو نہ بتائیں تا کہ ان کے گھر کا کام کر تیار ہوں۔ ایک بار ایک اعلی تعلیم یافتہ افسر کا رشتہ آیا، ماں نے ابا سے گٹھ جوڑ کر کے اپنی بیٹی عالم کی ا س کے ساتھ شادی کروادی کیونکہ لاڈ پیار کی وب سے سال کے چھن ٹھیک نہ رہے تھے۔ وہ سہیلی کے گھر کا کہہ کر باتی اور پڑوسی کے آوارہ لڑکے مشتاق سے ملاتا نہیں کرتی۔ جب ماں کو پتاپلا۔
تبھی جھٹ پٹ اس کا بیاہ کر دیا۔ غالب کے شوہر مظہر م یں کوئی کی تھی مگر ماں کے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ باز نہ آئی۔ میکے جب آتی، اسی آوارہ چھو کرنے سے ملتی۔ آدھی رات کو چھت پرباکر اس سے ملاتات کرتی، شوہر سے بہانہ کر کے دنوں میکے میں پڑباتی۔ وہ بڑی سرکش لڑکی تھی۔
کسی سے ڈرتی تھی۔ منی کو عیال سے راز داں بنالیتا۔ وہ پاری ڈر کے مارے بہن کا ساتھ دینے پر مجبور تھی لیکن مجھ کو کہتی تھی آپاپ باز نہیں آتی۔ دیکھ لینا کسی دن مجھ کو بھی چسوائے گی۔ اگر ابا نے دیکھ لیا۔ آپ ہی اس کو منع کریں۔ وہ اپنی ماں کے کہنے سے باز نہیں آتی، میری کیا گیا۔ م یں جواب دیتی۔ ابا بہت غصے والے تھے تبھی ماں بیٹی کے کرتوت ان سے چھپاتی تھی ۔ بالاحتر وہ منحوس گھڑی آگئی جس کے آنے سے ماں ہی نہیں، م یں بھی ڈرتی تھی۔ ایک رات بارہ بجے کے قریب جب
ہم سب سو گئے تھے، عال منی کو لے کر چھت پر چلی گئی ۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ہماری چھت پر پارپائیاں پڑی رہتی تھیں۔
ا س نے منی کو اپنے چہرے پر بٹھا دیا کہ اگر کوئی اوپر آنے لگے تو ہم کو ہوشیار کر دیتا۔ اپانک دولہا مائی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد اپنے گھر جانے کی بجائے ہمارے گھر کی طرف آگئے۔ ان کی گاڑی کی آواز سن کر میں نے اوپر سے جھانکا۔ اس کا دل دھکے رہ گیا
کیونکہ عالم اور مشتاق چھت پر بنے کمرے میں تھے اور منی زینے کے پاس کھڑی تھی۔ وہ دوڑ کر ان کے پاس گئی اور ان کو آگاہ کیا کہ مظہرجائی آگئے ہیں۔ تبھی عال پارپائی پر لیٹ کر سوتی بنی گئی۔ امی بھی گاڑی کی آواز سن کر اٹھ گتیں۔ انہوں نے دیکھا کہ عالم اپنے بستر پر موجود نہیں ہے۔
ان کو شک ہو گیا۔ وہ در کی طرف بھاگیں۔ دروازے کا پٹ کھول کر دیکھا تو داماد کو گاڑی سے اترتے پایا۔ تبھی وہ بھاگتی ہوئی زینے کی طرف گنیں تا کہ اوپر باکر بیٹی کو تنبیہ کریں۔ ابھی انہوں نے چند زینے طے کئے تھے کہ مظہر اندر آگئے اور ا س کو زمین پڑھتے دیکھ کر بولے۔ آنٹی کیا آپ اوپر بارہی ہیں؟ در کلات، سومیں اندر آگپ ہوں۔ وہ بولیں ہاں تم بیٹھو۔ غالب اور منی گرمی کے باعث چھت پر سونے چلی گئی تھیں۔ میں ان کو نچلے آتی ہوں۔ کھہریئے۔ آپ تکلیف نہ کریں میں یاد پر پا باتا ہوں۔
ان کی باتوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ منی مجھ کو عیال کے بارے م یں بتا چکی تھی کہ چھت پر مشتاق سے ملتی ہے اور مجھ کو پہرہ داری کے واسطے ساتھ لے جاتی ہے۔ م یں نے دیکھا کہ امی کے پیچھے مظہر بھائی سیڑھیاں پڑھنے لگے ہیں۔ تبھی مجھ سے رہات
گیا۔ ان کے پیچھے پلی حالانکہ پائوں مین مین کے ہو گئے تھے۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن م یں۔ کلیب تام کر رہ گئی۔ ابا بھی بتایا کے گھر
گائوں گئے ہوئے تھے۔ ماں کی سٹی گم تھی۔ بانتی تھی کہ عالم چھت پر کیا کرنے جاتی ہے۔ جونہی پہ اوپر پہنچے، دوائے دیکھے، تبھی ایک تو منڈیر پھلانگ کر پڑوس کی چھت پر چلا گیا اور دور او ہیں ہی رہ گیا۔ ماں نے تریب باکر اس کو بازو سے پکڑا، روشنی کی طرف لائیں۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ عال نہیں منی تھی۔ ان کی حبان میں حبان آگئی لیکن عالوہ چھت پر پڑی پارپائی پر سورہی تھی۔ معنی پی تم ؟ اور وہ کون کتا۔ انہوں نے پڑوسی کی چھت کی طرف چلا گتے سائے
کے بارے سوال کیا۔ وہ مشتاق تا۔ مجھ سے ملنے آیا ھتا۔ ماں نے ا س کے سر پر دو تھپڑ مارے۔ کہا۔ افسوس منی تو اتنی بری نکلی۔ جب میری بیٹی سوباتی ہے توپ کر توت ہوتے ہیں تیرے۔ اسی واسطے اس کو منت کر کے آج اوپر لے آئی تھی۔ پھر بیٹی کی پارپائی کی طرف دبا کر ا س کو اٹھایا کہ نیچے پلو تمہارا شوہر آیا ہے۔ نانس اور داماد آگے آگے، یا ، میں اور منی پیچھے۔ ہم زمین اتر کرنے آئے۔ مظہر نے منی سے کہا۔ میں تو بیوی کی بہن حبان کر تمہاری عزت کر تاتا اور تمہارا رشتہ اپنے
کزن سے کروایا اور تم کسی لڑکے سے ملتی ہو۔ پھر بیوی کو مخاطب کیا۔ عال تم کو میکے میں زیادہ دن ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں کا ماحول خراب ہے، اور اب اس بہن سے کبھی واسطہ مت رکھنا۔ انہوں نے اسی تدر کہتا کہ عالنے خود کو پاک صاف ثابت کرنے کے لئے منی کو بالوں سے پکڑ لیا اور منہ پر تھپڑ مارے گی۔ بولی منی تجھ کو شرم نہ آئی۔ مجھ کو یہ کہہ کر اوپر لے گی کہ صحن م یں گرمی سے نیند نہیں آتی اور ماتات تھے اس منحوس چھوکرے سے۔ بتا تو سہی کب سے توپ پکرپارہی ہے۔ آنے دے ابا کو تیری کی درگت بنواتی ہوں۔ تم نے تو ہم کو کہیں کا نہیں رکھا۔ اس کے بعد بھی اپنے شوہر کے سامنے میری بے قصور بہن کے ساتھ نہایت حقارت بھرا سلوک روارکھا۔ یوں منی کی منگنی بھی ختم ہو گئی جو مظہر بھائی نے کروائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اپنی آنکھوں سے ا س لڑکی کو چھپ کر پڑوسی کے لڑکے سے ملتے دیکھ چکا ہوں۔
مجھے اپنے کزن سے دشمنی نہیں ہے کہ ا س کے ساتھ ا س کی شادی کر ائوں۔ ماں جوبارا احوال بانتی تھی، اپنی بیٹی کا گھر
بپانے کی خاطر گوگی بنی رہی بلکہ ا سے بھی دو پر باتیں منی کے بارے م یں جھوٹی بڑ دیں تا کہ ا س کی بیٹی کی کرنی پر پردہ پڑارہے۔ ابا کو ایسی غیرت آئی کہ منی کو پار چوٹ کی مار دی۔ وہ پارپائی سے لگ گئی۔ تب بھی اس نے لب کھولے۔ م یں تو اس کی ماں بائی تھی، البتہ مجھ کو بتایا کہ آپاتت وقت نہیں،۔
تبھی عالنے میرے پیر پکڑ لیے اور پارپائی پر لیٹ کر سوتی بن گئی۔ اس کی بالا م یں نے اپنے سر لے لیا۔ سیڑھیوں پر سے تو امی اور مظہر بھائی کی آواز آرہی تھی، پھلانگ کر اپنے گھر کی چھت کو بانے کی خاطر مشتاق کو زپینے کے آگے سے گزرناپڑتا۔ جب کہ آپ لوگ اوپر آپکے تھے تبھی میں اور مشتاق جہاں کھڑے تھے، ساتھ بڑ کر بیٹھ گئے تا کہ مظہرجائی کوعال پر بالکل بھی شک نہ ہو اور اس کا گھر ابٹنے سے نبائے۔ غم کی وب سے تین ماہ تک میری بہن بستر پر پڑی رہی۔ بالاتر وہ تقدیر کے وار سے ہار گئی۔ دلگرفتگی اور بے بسی نے ا س کی جان لے لی کیونکہ وہ ابا کی نظروں میں بے قصور مبرم بنی تھی۔ تاہم مرتی مر گئی
اس نے عالی کا معاملہ کسی کو بتایا۔ آہ ! میری معصوم بہن نے اپنی سوتیلی بہن کے لئے کتنی بڑی ق ربانی دی۔ ا س عورت کی بیٹی کا
ک ر پانے کے لئے جس نے اپنے مفاد کے لئے ہم کو تربانی کا بکرا بنایا۔ کبھی ماں بن کر اپنی اولاد سمجھا۔ منی نے خود کو اس پر وار دیا۔ کاش منی کچھ دن اور زندہ رہتی تو م یں ابا کو اصل حقیقت سے آگاہ کر دیتی۔ منی نے م ر کرمجھ کو بھی سزا دے دی۔ جب تک بیوں گی، اپنے ضمیر کی سزا بھگتوں گی۔ مجھے خبر ہے میری بہن نے ہر ایک کی طرف سے مایوس ہو کر جینے کی آ س چھوڑ دی تھی۔ پھر جملازندگی اس سے بے ونائی کیوں کرتی
0 Comments