Urdu Story Saat Pardon Mein Teen Auratien Teen Kahaniyan |
چندن ایک معزز گھرانے کی عزت تھی کیونکہ اس کے والد صاحب داد راجن پور کے ایک خوشحال زمیندار تھے اور وہ اپنے قبیلے کے سردار بھی تھے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب معزز گھرانے کی لڑکیوں کا گھر سے باہر قدم رکھنا معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ یوں بھی چندن کی پرورش سات پردوں میں ہوئی تھی۔ وہ صابر و شاکر، حیا کا پیکر اور وفا کی پتلی تھی۔ علم کی بھی پیاسی تھی لیکن پرانے رواجوں کے اسیر اس کے والد نے بیٹی کو صرف چھٹی جماعت تک اسکول جانے دیا تھا۔ خدا نے چندن کو بے بہا حسن سے نوازا تها گرچہ اس کا اصل نام عالم آرا تها لیکن اس کی دادی اپنی خوبصورت پوتی کو اسے چاند سے مکھڑے کی نسبت سے چندا اور چندن بلاتی تھیں، تبھی اس کا نام چندن ہی پڑ گیا۔ بڑے سے، انسانوں بھرے گھر میں بھی چندن کو تنہائی کا احساس ہوتا تھا، کوئی سنگی سہیلی نہ تھی جس سے وہ باتیں کر کے جی بہلا لتیں۔ چندن سولہ برس کی تھی کہ اس کی سوتیلی پھوپھی بیوہ ہوگئی۔ رابعہ گرچہ سوتیلی بہن تھی لیکن تھی تو صاحب داد کے باپ کی بیٹی۔ پس وہ اپنی بیوہ بہن کو گھر لے آئے اور مستقل اپنے پاس رکھ لیا۔ رابعہ پھوپھو کا ایک ہی بیٹا تها جس کا نام شاہ جمال تھا اور وہ رعنائی میں اپنی مثال آپ تھا۔ شاہ جمال کے آتے ہی جیسے صاحب داد کو حویلی میں موسم بہار نے ڈیرے دال دیئے، اب چندن کا دل لگ گیا۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے سے پیار ہو گیا۔ ان کی زندگی کے یہ دن ایسے تھے کہ پر لگا کر اڑتے جاتے تھے۔ چندن کی ماں ایک معزز گھرانے سے بیاہ کر لائی گئی تھی اور نامی گرامی زمیندار کی بیٹی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ چندن کی شادی ان کے ہم پلہ خاندان میں ہو۔ جبکہ شاہ جمال کی ماں رابعہ نے ایک مزارع کی بیٹی کے بطن سے جنم لیا، اس کے حسن کی بدولت چندن کے دادا نے اس عورت کو دوسری بیوی بنا لیا تھا۔ خاندان میں یہ بات سبھی کو کھٹکتی تھی لیکن صاحب داد نے اس وجہ کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اس نے اپنی سوتیلی بہن کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسی طرح عزت و تکریم دی جیسا کہ شرفاء کیا کرتے ہیں۔ شاه جمال بے شک حسن میں بے مثال، لیکن عادات و اطوار میں اپنے والد کے خاندان پر نہ تھا۔ اس کا ننهيال مزارعوں کا تھا اور وہ سبھی تعلیم سے محروم لوگ تھے۔ شاہ جمال کو بھی علم سے لگائو نہ تھا۔ مارے باندهے آٹھ جماعت پڑه پایا، پھر بدقسمتی سے باپ وفات پا گیا تو اس نے اسکول کو خیرباد کہا اور کھیل کھلیانوں میں نکما پهرنے لگا۔ جب صاحب داد کو پتا چلا کہ اس کی سوتیلی بہن کا اکلوتا بیٹا آواره منش اور آرام طلب ہو رہا ہے تو اس نے رابعہ کو مجبور کیا کہ میکے لوٹ جانے کی بجائے میرے ساتھ چلے تاکہ میں تمہارے لڑکے کی زندگی سنوارنے کی سعی کر سکوں۔ اس نے بھانجے کو اسکول میں دوباره داخل کرا دیا تاکہ وہ میٹرک کر لے اور اس کو شہر کے کالج بھیجا جا سکے۔ شاہ جمال نے میٹرک کر کے نہ دیا۔ ٹیوشن لینے کے باوجود وہ دوبارہ میٹرک میں فیل ہو گیا تو چندن کی ماں نے شاه جمال کا رشتہ رد کر دیا اور اپنی بیٹی کی منگنی اپنی ہم پلہ خاندان میں کزن کے بیٹے احسن خان سے کروا دی، جس پر صاحب داد نے بھی اعتراض نہ کیا کیونکہ اس کو بھی بیٹی کا مستقبل زياده عزیز احسن سے منگنی چندن اور شاہ جمال دونوں کے لئے ایک سانحہ ہوش ژبا تھا، کیونکہ وہ ایک دوسرے کو دل و جان سے چاہنے لگے تھے۔ وہ جدائی کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے لیکن صاحب داد کا رعب اس قدر تھا کہ چندن کی مجال نہ تھی کہ وہ اس فیصلہ پر اف بھی کرتی۔ اس نے ماں سے احتجاج کیا تو اس نے بھی ایک نہ سنی، تب آن دو متوالے دلوں نے وہی کیا جو ان حالات میں نادان لڑکیاں اور جذباتی نوجوان کرتے ہیں۔ نقدی اور زیورات لے کر یہ دونوں رات کی تاریکی میں گھر سے روانہ ہو گئے، کسی انجان منزل کی طرف۔ لاہور آکر شاہ جمال نے ایک مضافات میں معمولی سا کرائے کا مکان لے لیا۔ جب تک نقدی نے ساتھ دیا، آرام سے گزر بسر کی۔ جونہی جمع پونجی ختم ہوئی پریشانی نے آدبوچا، زیورات بک گئے اور نوبت فاقوں تک آ پہنچی۔ رابعہ، بھائی سے شرمندہ تھی لیکن صاحب داد جانتا تھا کہ اس واقعے میں اس کی بہن بے قصور بے اور چندن کو شاہ جمال کے ساتھ فرار کرنے میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، لہذا اس نے بیوی کو تاکید کردی کہ خبردار میری بہن کو تم برگز اس معاملے میں دوشی مت ٹھہرانا اور نہ ہی اس کے ساتھ بے رخی یا طعنہ زنی سے مخاطب ہونا، وہ بیچاری بیوه تو خود اپنے اکلوتے بیٹے کے چلے جانے سے نیم جان ہورہی تھی۔ ادهر چندن اور شاہ جمال حالات کی گرفت میں آ چکے تھے۔ پلے پھوٹی کوڑی نہ رہی تھی اور خود داری کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے دیتی تھی۔ تن آسانی مشقت کے آڑے تھی اور کم تعلیم اچھی نوکری کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ غریبوں کی بستی میں رہائش اور پهر ناواقفیت کوئی اخلاقی سہارا دینے پر آمادہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ چوکیداری کے لئے بھی شجره نسب مطلوب تھا۔ مجبور، برابر والے گھر کے پڑوسی کو حال زار بتایا، وہ ایک غریب مزدورتھا۔ اس نے شاہ جمال کو مزدور اڈے پر ساتھ چلنے کو کہا۔ ناچار وہ اس کے ساتھ جانے لگا لیکن مزدوری بھی روز نہیں ملتی تھی، کبھی دیہاڑی لگ جاتی اور کبھی نہ لگتی۔ تب اس روز بھوکا ہی سونا پڑتا تھا، خوشحال گھرانے کے یہ نازک بدن آرام پسند، کب تک اس پتھریلی زندگی کا مقابلہ کرتے؟ محنت مزدوری شاه جمال کو راس نہ آئی۔ اس کی صحت جواب دینے لگی اور بخار نے آلیا۔ پھر یہ بخار مستقل رہنے لگا۔ ڈاکٹر کے پاس پڑوسی لے گیا۔ چیک اپ ہوا، ڈاکٹر نے گردوں کی تکلیف بتائی اور آرام کرنے کی ہدایت کی، باقاعدہ علاج کرانے کی بھی تاکید کی۔ اتنی پونجی پاس نہ تھی کہ علاج ہوتا۔ ایک روز شاہ جمال کی حالت خراب ہو گئی، غشی طاری
ہونے لگی، چندن دوڑی ہوئی ایک محلے دار کے پاس گئی جو کچھ بہتر مالی حالات رکھتا تھا، اس کا نام جہان خان تھا۔ اس نے جو چندن کا بے مثال حسن دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس وقت چندن بری طرح گھبرائی ہوئی تھی۔ جہان خان نے تسلی دی، اس کے بمراه گهر آ گیا اور فورأ سواری کا انتظام کرکے بیمار شاه جمال کو اسپتال لے گیا۔ چندن بھی ساتھ تھی۔ ڈاکٹر نے داخل کر لیا۔ ٹیسٹ وغیره بوئے، ڈاکٹر نے بتایا کہ سخت گرمی میں مزدوری کرنے سے اس کے گردے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سن کر چندن کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ اس کا شاہ جمال کے سوا اور کون تھا۔ وہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ کہاں جاتی اپنی کشتیاں تو وہ جلا کر آئی تھی۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھنا تو موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس کے دل کی کلی مرجھا گئی۔ کیونکہ
علاج مہنگا اور بچنے کی امید کم تھی۔ وہ رو رہی تھی۔ جہان خان نے کہا۔ گھبرائو نہیں، مجھے اپنے گھر کا پتا بتائو۔ میں تمہارے والد کے پاس جا کر منت سماجت کر کے ان کو منا کر لے آئوں گا۔ اس وقت وہی تمہارا سہارا بن سکتے ہیں اور ان کے علاج کرانے سے شاہ جمال کی زندگی بچ سکتی ہے۔ وہ اپنے علاقے کی امیر اور قبیلے کے سردار ہیں۔ ان کا شملہ اونچا ہے، علاقے میں چار کونوں ان کی عزت تھی جس کو میں خاک میں ملا آئی ہوں۔ اب وہ مجھ کو قبول نہ کریں گے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یہاں سے لے جا کر
میری زندگی کا خاتمہ کردیں۔ چندن کے منہ سے یہ الفاظ سن کر جہان خان کی نیت میں فتور آگیا۔ شاہ جمال تو اب چند دن کا مہمان تھا۔ اس کو مرنے دوں، پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لوں گا۔ شاه جمال فوت ہو گیا۔ جہان خان نے روتی بلکتی چندن کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اس کو جهوٹا سہارا دیا۔ مکان کا کرای ہ دیا۔ راشن بهر دیا اور کہا کہ ابھی عدت تو عزت کے ساتھ گزار دو۔ بعد میں سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ چندن سسکتی چپ ہو بیٹھی اور کیا کرتی۔ لیکن جہان خان بڑا خوش تھا کہ اچھی چیز باته لگی ہے۔ اچھی چیز کے سو خریدار ہوتے ہیں۔ ہیرا ہاتھ میں ہو تو جوہری بھی مل جاتے ہیں۔ مشکل مگر یہ تھی کہ ان دنوں چندن اسید سے تھی اور جہان خان کے اپنے بڑے عزائم کی تکمیل کے لئے کچھ انتظار لازم تھا۔ وه باقاعدگی سے چندن کو خرچہ دے رہا تھا اور ساتھ جھوٹی تسلیاں بھی، جن کا بھیانک انجام نکلنے والا تھا۔ آخر وہی ہوا جس کا انتظار تھا۔ ادھر چندن نے بچی کو جنم دیا أدهر جہان خان نے حسن و جوانی کے اس خزانے کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔ آب گهر پر جہان خان کا راج تھا اور چندن کو دن رات رونے سے کام تھا۔ سمجھتی تھی کہ بھری دنیا میں اب اس کا کوئی نہ رہا ہے۔ گھر سے قدم نکالتی تھی تو باہر بھوکے بھیڑیئے موجود تھے اور گھر میں جہان خان کی وحشت تھی۔ جہان خان کا یہ حال کہ اس کے غلط ارادوں کے آگے سر نہ جھکاتی تو وہ اس کی بچی کو اس سے دور کر دیتا۔ ننھی جان بھوک سے بلکتی رہتی مگر وہ اس وقت تک معصوم کو تڑپاتا جب تک کہ چندن ہار نہ مان لیتی۔ تنگ آکر چندن نے جہان خان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے، تاہم مطالبہ کیا کہ مجھ سے نکاح کر لو. جہان خان کے نزدیک وہ ایک کھلونے جیسی تھی۔ اس نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ چندن اس کی فطرت سمجھ گئی ،وہ اب اس سے بھی زیادہ برے دنوں کی منتظر رہنے لگی۔ کیونکہ وہ جان گئی تھی کہ جہان خان عورت کو دل بستگی کا سامان سمجهتا ہے۔ لہذا جلد اس سے گلو خاصی چاہے گا۔ چندن کا حسن بلاشبہ ایک مشعل کی مانند تھا۔ روشن اور پرکشش، جس کے گرد ہزاروں پروانے جمع ہو سکتے تھے۔ جہان خان نے اس ہیرے کو بازار میں بیچنے کی ٹھان لی، جہاں میرے پتھروں کے مول اور پتھر ہیروں کی مانند بک جاتے ہیں۔ ایک رات وہ دھوکے سے وہاں پہنچا دی گئی جب چندن کی آنکھیں کھلیں، دنیا اسے گهومتی نظر آنے لگی۔ یہ عجب جہاں تھا کہ جہاں حسن کی ہر ادا پر نوٹوں کی برسات ہوتی تھی اور ہر جهنکار پر پیروں میں دولت پھینکی جاتی تھی۔ باسی پھولوں کی ایسی خوشبوں سے گلیاں مہکتی تھیں، کہ دن کو شرفا منہ پر رومال رکھ لیتے، مگر رات کو اسی خوشبو کے دیوانے اور اچھے بھلے عقل والے بھی اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ کر بالا خانے تک آجاتے چندن کو خود سے زیادہ اپنی بچی کی فکر ستانے لگی جو اس کے ساتھ مفت میں بک گئی تھی۔ ماں کی جوانی کا سودا ہوا تو یہ معصوم کلی اس کی گود سے نوچ کر پھینکی جا سکتی تھی۔ خریدنے والی نے سوچا کہ جب چندن ماضی بن جائے گی تو یہ بچی اس کا مستقبل بن کر جگمگائے گی۔ تاریخ خود کو دہرائے گی اور یہ سودا سود در سود رہے گا۔ اس میں گھاٹا کیا سراسر فائده ہی فائدہ ہے۔ آج کی رات بالا خانے پر چندن کا پہلا خریدار آنے والا تھا۔ اس کو زبردستی بنا سنوار کر اس کی روح کے زخموں پر غازه پاؤڈر مل دیا گیا۔ آج اپنے بابل کا آنگن یاد کر کے اس کا دل رو رہا تھا۔ اور شاہ جمال ... جس کی
وجہ سے وہ اس جہنم تک آپہنچی تھی۔ اے کاش وہی زندہ رہ جاتا تو اس پر دوزخ کے یہ دروا نہ ہوتے۔ ابھی تو سورج کے سرخ کنارے ایک روٹی کی طرح آسمان پر جلتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ رات نے اپنا سیاه آنچل پوری طرح نہ پھیلایا تها، در پر دستک ہوئی۔ وہ چونک گئی۔ کیا عجلت پسند خریدار وقت سے پہلے آ گیا تھا؟ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس کو دیکھا... یہ کوئی خریدار نہ تھا بلکہ وه مشاط تھا جو روز آن چوباروں میں پھولوں کے گجرے پہنانے آیا کرتا تھا۔ یہ لنگڑا منجو تها...گرچہ وہ پوری طرح لنگڑا نہ تھا لیکن ایک ٹانگ کو ذرا سا دبا کر چلتا تھا۔ وہ موتیا کے گجرے ہاتھوں میں لئے کھڑا تھا۔ وہ ان گجروں کے عوض دو وقت کی روٹی کا اپنے لئے انتظام کرتا تھا۔ یہ چالیس برس کا مرد غربت کے کارن بن بیابا رہ گیا تھا۔ وہ پہلے ایک پارک میں سرکاری ملازم تھا۔ محنت سے گٹھیا کا مریض بن چکا تھا اور اب مزید سخت کام نہ کر سکتا تھا تو پھول بیچ کر گزر بسر کرتا تھا۔ وہ چندن کو اس جگہ پر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس لڑکی کو وہ اچھی طرح جانتا تھا، جن دنوں شاه جمال نے بستی میں کرائے کا گهر لیا تھا وہ بھی وہیں رہتا تھا۔ شاه جمال کی وہاں پہلی ملاقات جس شخص سے ہوئی وہ یہی منجو مالی تها جس کو بستی والے لنگڑا منجو کہتے تھے۔ جبکہ اصل نام اس کا منعم جان تھا، اسی نے ان کو کرائے پر گهر دلوایا تھا اور اس نئے شادی شدہ جوڑے کو روز شام کو پھولوں کے گجرے لاکر دیا کرتا تھا۔ ان دنوں شاہ جمال کے پاس پیسے ہوتے تھے، سو وہ ان گجروں کے عوض منجو کو اچھی خاصی رقم دیاکرتا۔ اپنے سامنے منجو میاں کو دیکھ کر چندن گنگ رہ گئی، تو وہ بولا۔ بی بی آپ...؟ آپ یہاں کیسے...؟ چندن رونے لگی۔ منت کرنے لگی۔ منجو میاں بدقسمتی نے یہاں لا پٹکا ہے۔ خدا کے لئے اس جہنم سے نکال لے جائو، ورنہ میں مر جائوں گی۔ منجو سیانا تھا۔ اس نے کہاخاطر جمع رکھو۔ میں تم کو اس جگہ سے لے جا سکتا ہوں، مگر ایک طریقے سے۔ تم مجھ سے نکاح کر لو، پھر میں اپنے دوست پولیس انسپکٹر کے ذریعے تم کو یہاں سے نکال لے جائوں گا۔ چندن نے لمحے بھر کو سوچا، اپنی بیٹی کا خیال کیا اور پھر اس نے جیتے جی خودکشی کو قبول کر لیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر ایک بار اس بازار میں بکی تو پھر وہ بار بار بکے گی اور خریداروں کی بھیڑ لگ گئی تو پهر ادهر سے راه پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ کیا کرنا ہو گا؟ وہ بولی۔ میں انسپکٹر کے ساتھ نکاح نامہ اور قاضی کو لاتا ہوں۔ اسی کمرے میں تم نکاح نامہ پر دستخط کر دینا۔ آگے انسپکٹر جانے اور بم جانیں۔ آدھ گھنٹے بعد منجو انسپکٹر کے ہمراہ آ گیا، چوبارے کی مالکن سے کہا کہ انسپکٹر صاحب ذرا اپنی ڈیوٹی نباہنے کو آئے ہیں۔ ابھی کے ابھی چلے جائیں گے۔ یوں یہ پھولوں والا چندن کو مع اس کی بیٹی کے پولیس کی گاڑی میں بٹھا کر پہلے تھانے لایا اور پھر وہاں سے اپنے گائوں لے گیا۔ چوبارے کی مالکہ کو پولیس انسپکٹر نے قابو کیا اور چندن منجو میاں کے گهر، اس کی گھر والی بن کر رہنے لگی۔ یہ وقت اس کی زندگی کا سب سے کٹھن دور تھا مگر صبر سے گزاره کیا۔ یہاں تک کہ وہ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ آفرین ہے چندن پر کہ اس نے باره | برس اسی ادھیڑ عمر کے مالی کے گھر میں عزت کے ساتھ گزار دیئے مگر کبھی اس کی مفلسی کا شکوہ نہیں کیا۔ اتفاق سے ایک روز چندن کے والد کا ایک پرانا ملازم اور اس کی بیوی منجو کے گائوں آئے اور انہوں نے چندن کو پہچان لیا۔ انہوں نے بتایا کہ صاحب وفات پا چکے ہیں۔ چندن اس خبر کو سن کر بہت روئی لیکن ان کے ساتھ گھر جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے چندن کی ماں کو جا کر بتایا کہ تمہاری بیٹی فلاں گائوں میں فلاں آدمی کے گھر پر ہے۔ ماں نے اپنی نند شاه جمال کی والده کو بمراہ لے کر گائوں منجو کے گھر پہنچی اور بیٹی کو ساتھ چلنے کو کہا۔ مگر وہ راضی نہ ہوئی کیونکہ وہ اب منجو میاں کے گھر کو ہی اپنا گهر سمجھتی تھی۔ ماں سے بولی۔ میرے چار بچے ہیں۔ جن کے باپ کی اس عمر میں خدمت کرنے والا کوئی نہیں۔ اس شخص نے برے وقت میں میرا ساتھ دیا تھا، اب میں اس کو چھوڑ کر کہیں نہ جائوں گی۔ اگر آپ مجھے لے بھی جائو گی تو میرے بھائی اور سارا خاندان مجھ پر اور میرے بچوں پر تھو تھو کرے گا۔ بہتر ہے مجھ کو یہیں رہنے دو، تب شاه جمال کی ماں بولی۔ تم میرے بیٹے کی بیٹی میرے حوالے کر دو. اس کو ہم یہاں نہیں چھوڑ سکتے۔ ورنہ میں تمہارے بھائیوں کو لے کر آئوں گی، وہ اس کو لے جائیں گے۔ خدارا پھوپھو ایسا ظلم مت کرنا۔ میرے بھائیوں کو یہاں مت لانا۔ تم اپنے شاه جمال کی بیٹی لے جائو... میں ایک کی جدائی سہہ لوں گی۔ باقی چاروں کی جدائی نہ سہہ سکوں گی۔ چندن نے اپنی سب سے بڑی
لڑکی جو شاہ جمال کی نشانی تھی، اپنی پھوپھی کے حوالے کی۔ یوں آخری زخم بیٹی کی جدائی کا بھی سہہ لیا۔ جس کو برائی کی زندگی سے بچانے کی خاطر اس نے ایک غریب مالی سے شادی کرنا قبول کیا تھا۔ آج ایک بار پھر اسی بچی کے مستقبل کی خاطر چندن نے دوباره در جدائی کا زہر پیا تھا۔ اس کے بعد وہ نہ ماں اور پھوپھی سے ملی اور نہ اپنے مرحوم باپ کے گھر گئی، جہاں اس کے بھائیوں اور بھابھیوں کا راج تھا۔ وہ وہاں جا کر کرتی بھی کیا... بهائی اس کو قبول بھی کر لیتے تو اس کے وه چار بچے جدا کر دیئے جاتے جو مالی سے تھے۔ جن کی جدائی وہ نہ سہہ سکتی تھی۔ اس بات کی بھی اس کو قطعی امید نہ تھی کہ اس کے بھائی، باپ کی وراثت سے ایک کوڑی اس کو دیتے، بلکہ زمین تو ایسی چیز تھی کہ جس کی خاطر چندن کے بھائیوں جیسے مرد بہنوں کی شادیاں نہیں ہونے دیتے تھے کہ کہیں ان کی وراثت کے اور دعوے دار پیدا نہ ہو جائیں۔ چندن تو پھر گھر سے بھاگی ہوئی عورت تھی۔ شاہ جمال کی وراثت میں سے بھی انہوں نے پھوپھی اور اس کی پوتی کو حصہ نہ دیا۔ البتہ جب چندن کی یہ بیٹی جوان ہو گئی تو اسکے بھائیوں نے ایک امیر گھرانے میں اس کی شادی کرادی اور جہیز بھی اپنی حیثیت کے شایان شان دیا، کیونکہ شاہ جمال کی بیٹی ان کے گھر سے رخصت ہوئی تھی۔ یوں چندن سات پردوں میں پلی پڑهی تو منجو مالی کے گھر بھی سات پردوں میں ہی رہ کر فوت ہو گئی۔
0 Comments