Dil Kanch Kay Khalone Urdu Story 2022 Teen Auratien Teen Kahaniyan |
شانی بڑی نٹ کھٹ تھی۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ خالہ عذرانے اس کا خوب لاڈ کیا تھا، جو من میں آتا کر گزرتی اور وہ متاکی ماری بیٹی کی ہر ادا پر مسکرادیتیں، خواہ شانی کی یہ ادائیں دوسروں کو کیوں نہ کھنکتیں۔ یہ لڑ کی رفته رفته خود سر اور ضدی ہوتی گئی۔ اب مجھے یہ ڈر ہو چلا تھا کہ میری بچپن کی ساتھی کہیں مزید پر پرزے نہ نکال لے۔ امی مجھے سمجھ نہیں کہ تم شانی سے ذرانی کر رہا کر دو۔ یہ تو بے وقوف لڑکی ہے۔ جو جد ھر لے جائے ، یہ اس کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ ایسانہ ہو اس کی حماقتوں کی وجہ سے کل تمہارانام خراب ہو۔ ای جان شانی بے وقوف ہیں، میں تو نہیں ہوں۔ وہ آپ کی بھانجی ہے ، اس کا ہم کو خیال رکھنا چاہیے۔ وہ کوئی غیر تو نہیں کہ ہم اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ خالہ ہی تو ہوتی ہیں سعدیہ تم شان کا خیال رکھا کرو۔ اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل گریجویشن کے بعد داخلہ لینے کا ارادہ نہیں تھالیکن شاہانہ بہ ضد تھی کہ تم بھی میرے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لو۔ ہم ہمیشہ اسکول سے اکٹھی کی گئی ہیں تو کالج میں بھی اکٹھے پڑھیں۔ خالہ نے بھی امی کی منت کی کہ سعدیہ کو داخل کرائو، اس کی فیس وغیر ہمیں دیا کروں گی۔ میری بیٹی بھولی ہے اس کو اکیلا نہیں جانے دے سکتی۔
یوں ان کے مجبور کرنے پر والدہ راضی ہو گئیں اور میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ شانی کے ابو کی وفات کو پانچ برس گزر چکے تھے اور ماں کی وجہ سے بھائی اس کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ اسی سبب وہ فیشن بھی کرنے گئی تھی جبکہ امی مجھے سادہ رہنے کی تلقین کرتی تھیں۔ فیشن نہیں کرنے دیتی تھیں۔ کہیں گھر میں بھی سادہ لباس پہنو اور کا جائو و بالوں کو سمیٹ کر۔ یہی وجہ ہے کہ میں کانچ جاتی تو اس کی چوٹی بنائی جبکہ شاہانہ نے بال نے فیشن کے مطابق کٹوا لئے تھے اور سر پر دوپٹہ بھی نہیں لیتی تھی ۔ کاری کی اور بات تھی مگر اب یونیورسٹی میں تو ہم لڑکوں کے ساتھ پڑھتے تھے۔ میں یہ ہیں ؟ ای که میان کرنابری بات ہے لیکن امی جاجازت نہیں دی تھیں۔ شانی روپے کی پٹی بنا کر گلے میں ڈال کر نکلتی اور امی مجھ کو گھر کیاں دے کر چادر اوڑھاتیں، تب وہ ہستی ۔ گھر سے باہر نکلتے تو شانی کہتی، سعدیہ تم تو بالکل اسی » گئی ہو۔ معلوم ہے لڑکیاں تمہارا مذاق اڑاتی ہیں، تم زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتی ہو۔ تب میں جواب دیتی۔
اچھا بھئی میں ماسی ، تم بیگم صاحب، کیا کروں امی کو ناراض نہیں کر سکتی۔ ہم چار بہنیں اور تم چار بھائیوں کی اکلوتی بہن جو مظہر ہیں۔ تمہارے توسب نے ناز اٹھانے ہیں۔ شانی میں یہ بڑی خوبی تھی کہ وہ اپنی پڑھائی پر دھیان رکھتی تھی پوزیشن نہیں لیتی تھی تو کسی سے پیچھے بھی نہیں تھی۔ اس کی زندگی میں کوئی غم بھی نہ تھا۔ بھائی ٹھیک ٹھاک کمارہے تھے ، ہاں ایک خلش ضرور تھی کہ اس کو اپنے باپ کی شفقت سے محرومی کا بہت احساس تھا۔ اکثر کہتی۔ سعدیہ تم کتنی خوش نصیب ہو کہ تم کو اپنے باپ کا سایہ نصیب ہے، ظاہر کہ بھائی جتنا بھی خیال کریں باپ کی جگہ تو نہیں لے سکتے۔ بھائی اس قدر شفقت بھی نہیں دے سکتے کہ
جس قدر ایک بیٹی کو اس کے باپ سے ملتی ہے۔ یونیورسٹی میں پہلا برس بخیریت گزر گیا۔ سال دوم شروع ہوا تو شاہانہ بھی اور بے باک ہو گئی۔ یہ ہفتے کا دن تھا۔ اس روز موسم بہت سہانہ ہو رہا تھا۔ میں اور شانی مینٹین میں چائے پینے چلے گئے۔ وہاں ایک لڑکا موجود تھا، اس نے شانی سے دو منٹ بات کی۔ بس اس کے بعد تو وہ اس کی راہ تکنے لگی۔ شاہانہ کی نگاہیں اب ہر وقت اسی کو ڈھوندتی رہتی تھیں۔ تمام وقت جب بات کرنے کا موقع ملتا، وہ از خود اسی کاز کر چھیڑ دی۔ میں سمجھائی کہ دیکھو شانی ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں اور ہماری مائیں ہم پر اعتبار کر کے یہاں بنتی ہیں۔ ہم کو بھی صرف اپنی پڑھائی سے ہی غرض رکھنی چاہیے لیکن اس پر میری تقریر کا کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ بات ہی میں ڈال دیتی
یا کہتی کہ تم بہت دقیانوسی ہو۔ زندگی مزے سے گزارنے کا نام ہے ، ہم کوئی دن تھوڑاہی ہیں کہ خشک زندگی گزاریں۔ اب اس نے یہ معمول ہی بنالیا کہ خالی پیریڈ میں مجھ کو گھسیٹ کر کینٹین لے جاتی، اس امید پر کہ شاید وہاں اسی لڑکے سے ملاقات ہو جائے جو اس کے خیالوں میں بس گیا تھا۔ بالآخر اس کی مراد بر آ گئی۔ ایک دن جب ہم کینٹین میں بیٹھے چائے پی رہے تھے ، وہ وہاں آگیا۔ جیسے اسے بھی شانی کا انتظار ہو۔ شابانہ کی آنکھوں میں تو جیسے بہت سے چراغ ایک ساتھ روشن ہو گئے۔ موصوف کی جھلک دیکھ کر اس لڑکی کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔ چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ چہرے پر خوشی کے گلال دیکھ کر لڑکے کو بھی احساس ہو گیا کہ کسی کو اس کا بہت انتظار تھا۔ وہ لمحہ بھر کے توقف کے بعد ہماری طرف آ گیا اور نزدیک پڑھی خالی کرسی پر بیٹھنے کی اجازت چاہی۔ اس کو اجازت کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تووالوں کے معاملے تھے۔ دونوں طرف ہی آس و امید کے دیئے جل بجھ رہے تھے۔ تبھی دونوں آپس
میں یوں بات کرنے لگے جیسے کہ ان کی دوسری ملاقات نہ ہو بلکہ دونوں مدتوں سے ایک دوسرے کے شناسا ہوں ۔ میر اما تھا اسی دن تھنک گیا کہ یہی لڑکاشانی کی بربادی کا سبب بنے گا۔ اس لڑکے کا نام نعمان تھا، بہت پر کشش شکل و صورت اور جگمگاتی شخصیت کا مالک تھا۔ مطلب یہ کہ ظاہر کیپ ٹاپ سے اے ون للتا تھا۔ اس قسم کے لڑکے جو اپنے لباس اور بالوں کے اسٹائل سے منفرد ہوں، اپنے پہناوے پر خاص دھیان دیتے ہوں، عموم لڑکیوں کی توجہ جلد اپنی جانب مبذول کر لیتے ہیں۔ دلچسپ
گفتگو میں تو اسے ملکہ حاصل تھا کہ ایک منٹ کی گفتگو میں وہ کسی کا بھی دل موہ لیتا تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ دونوں ضرور ایک دوسرے سے رابط رکھنے والے ہیں اور ان کا یہ تعلق آگے تک جائے گا۔ وہی ہوا، جی میں نے انداز ہوگیا تھا۔ شانی کلاس سے تھوڑی دیر پہلے نکل جاتی، مجھ سے کہتی میری طبیعت خراب ہے۔ آخری پیریڈ تک نہیں رک سکتی، گھر جارہی ہوں۔ اس طرح وہ آخری ایک دو پیریڈ چھوڑ کر جانے گئی۔ میں جان چکی تھی کہ وہ کہاں جاتی اور کیوں؟ | ایک دن میں نے شانی سے کہا۔ تم لوگ کب تک یونہی چھپ چھپ کر ملتے رہو گے۔ تم نعمان سے کہو کہ وہ اپنے والدین کو لے کر تمہارے گھر آ جائے اور رشتے کی بات کر لے۔ اس نے نعمان سے جب یہ بات کی، اس نے جواب دیا۔ تم کیوں فکر کرتی ہو شابانه تم تو میری زندگی ہو، میں شادی کروں گا تو صرف تم ہی سے کروں گا کسی اور سے؟ |
بھی نہیں۔ اس بات پرہی وہ خوش ہو گئی کہ اس کو اس کا آئیڈ میں مل گیا تھا۔ میری بات کب سنے والی تھی۔ متعدد بار سمجھا چکی
تھی۔ اب میں نے اس کو سمجھانا عبث جانا۔ کیا کرتی ؟ جانتی تھی کہ وہ جس راستے جارہی ہے ، اب رکے گی نہیں جب تک کہ اسے خود سے ، ٹھوکر نہ لگے۔ اس کو ٹھوکر سے ہی تو بچانا چاہتی تھی۔ کچھ دن یونہی گزر گئے۔ دل کو اس کی فکر تو گی ہی تھی۔ آخر میری خالہ زاد بھی تھیں اور ہم بچپن کے دوست تھے۔ ایک دن پھر میں نے اس کی کلاس لی۔ پوچھا۔ تم نعمان سے ملنے سے باز نہیں آرہی ہو۔ اگر گھر والوں کو پتا چل گیا تو؟ | سوچا ہے تم نے اس بارےمیں تمہارے چار بڑے بھائی ہیں اور باپ کے نہ ہونے سے تم ان ہی کی محتاج ہو۔ ابھی تو چاہت ہے ان کے دل میں، کسی دن اپنی لاپروائی کے سبب ان کی چاہت کو بھی کھو دو گی تو پھر کہاں جگہ رہے گی تمہاری ان کے گھر میں ؟ وہ میری زبانی، حقیقت کا آئینہ دیکھ کر خوف زدہ رہ گئی۔ بولی۔ اس طرح مجھ کو تم ڈرائو تومت سعدیہ ۔ ڈرا نہیں رہی جو حقیقت ہے، وہ یاد دلارہی ہوں اور صداقت نہیں ہے کہ اگر تم باز نہ آئیں تو نہ صرف تمہاری درگت بنے گی، نعمان کی بھی خبر نہ ہو گی۔ اس نے ایک بار پھر نعمان سے بات کی۔ پوچھا کہ کیا تم نے اپنے والدین سے میرا ذکر کیا ہے ؟ وہ کیا کہتے ہیں ؟ کل جا کر بات کروں گا۔ اس نے بات کال پر ٹال دی۔ بس اسی طرح نعمان آج کل، آج کل کر کے بات کو مانتا ہے۔ مجھے یقین ہونے لگا کہ نعمان میری خالہ زاد کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہے، وہ اس کو بے وقوف بنارہا ہے۔ ایک دفعہ پھر میں نے اس جذباتی لڑکی کو سمجھایا کہ دیکھو، یوں کسی پر اعتبار نہ کر ناچا ہے۔ ابھی بھی کسی کے نہیں ہوتے اور ان کو بدلتے دیر بھی نہیں ملتی۔
میر کی بار بار کی باز پرس اور روک ٹوک سے وہ پریشان ہوگئی اور کچھ دن نعمان سے ملنے نہ گئی۔ پہلے کی طرح چھٹی تک میرے ساتھ رہتی ، ساتھ ہی گھر آجاتی۔ ایک روز خود نعمان ہمارے ڈپارٹمنٹ میں آیا اور اس کو چائے پلانے لے گیا۔ اس نے مجھے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو گر میں نہیں گئی اور سیدھی گھر آگئی۔ شانی اس روز بھی گھر لیٹ ، پی ۔ وہ تو تقر یبروز ہی دیر سے بنتی۔ خالہ
پر چھتیں دیر کیوں ہوئی تو کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتی۔ اک راز راز نہیں رہتے کہ راز تو کھلنے کے لئے ہوتے ہیں۔ شانی کی سخت تاکید کی وجہ سے بے شک میں نے اپنی زبان بندرکھی تھی لیکن ایک روز جب وہ نعمان کے ساتھ اس کی موٹر سائیکل پر جارہی تھی، اس کے بھائی نے ان کو دیکھ لیا۔ گھر آ کر بھائی نے ماں کو بتایا کہ میں نے شانی کو کسی لڑکے کے ساتھ موٹر بائیک پر جاتے دیکھا ہے۔ اس طرح دوسرے بھائیوں کو بھی اس معاملے کی خبر ہوگئی۔ بس پھر کیا تھا۔ کبھی غصے میں تھے۔ وہ جب گھر پہنچی تو وہ منتظر ہی تھے۔ شانی کو آڑےہاتھوں لیا، بڑے بھائی نے تو پٹائی بھی کر ڈالی۔ اس کا یو نیورسٹی جانا بھی بند ہو گیا۔
جب کئی دنوں وہ یونیورسٹی نہ آئی میں اس کے گھر گئی۔ ان کا مکان ہمارے گھر سے چند قدم پر ہی تھا۔ وہ مجھ سے خفا تھی۔ بھلا مجھ سے خفا ہونے کا کیا جواز تھا جبکہ کیا دھرا تو اس کا اپنا تھا، جس کی سزا سکتی تھی۔ میں نے تواس کار از خالہ پر بھی اس وجہ سے نہ کھولا ہیں تعلیم سے نہ ہٹالیں، اسی کو سمجھاتی اور روتی رہی تھی۔ تھوڑی دیر چپ میٹھی مجھ کو ڈبڈبائی آنکھوں سے گھورتی رہی اور پھر پیچھک پڑی۔ اب اپنے کیے کی سزا بھگتو۔ میں نے کہا۔ پہلے دن سے سمجھارہی تھی۔ تم مان کر نہ دیتی تھیں۔ اسی دن کور و کتی تھی میں تم کو کچھ دیر و در وقتی رہی، پھر بولی۔ سعد یہ پلیز تم میری اتنی مدد کرو کہ نعمان کو ساری بات بتاد و کیو نکہ میر اتو اب گھر سے نکلنا بند کر دیا گیا ہے۔ پچ تھانہ کہ شانی کو اس کے بھائیوں نے سخت پابندیوں میں جکڑ دیا تھا۔ وہ اب بالکل گھر سے باہر نہ نکل
سکتی تھی۔ ہمارے گھر تک آنے کی بھی اس کو اجازت نہیں تھی۔ ان حالات کی تاب نہ لاکر وہ بیمار پڑ گئی کیونکہ بھائیوں کا سلوک اس کے ساتھ اچھانہ رہا تھا اور ماں بھی اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتی تھی کہ میرے پیار کا یہ صلہ دیا کہ ہماری ناک کٹوادی بالآخر مایوسی نے اس کی رگوں میں اند میرا بھر دیا۔ اس کو ہر وقت بخار رہنے لگا۔ اس کو گھر والوں کی نظروں سے گر جانے کا احساس کھائے جاتا تھا۔ جب ایک ماہ تک اس کام پر پچر نارمل نہ ہو اتوماں کو تشویش ہوئی اور وہ اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی ۔ ڈاکٹر اس کے بخار کی توجہ نہ جان سکا۔ ادھر ادھر کی دوائیاں دیتارہا۔ بخار نہ اتر اتوا بکشن لگائے کہ بخار کسی طرح اترے ۔
مرض تو کچھ اور تھا اور دو اور دی جارہی تھی۔ وہ بہت کمزور ہو گئی۔ پہلے تھوڑا بہت کھا لیتی تھی۔ کھانا پینا بھی بند ہو گیا۔ بھوک اڑ گئی۔ وہ اور کمزور اور زرد پڑ گئی۔ حکیم کے پاس لے کر گئے ، اس نے بتایا کہ یر قان ہے جگر متاثر ہوا ہے۔ حلیم صاحب کی دواسے کبھی بھی خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا، تو بھائیوں کو خیال آیا اور اس کو اسپتال لے گئے، جہاں اسے داخل کر لیا گیا۔ میں نے سنا کہ شاہانہ اسپتال داخل ہے تو می ماندہ ہو گیا۔ عیادت کو گئی ، مجھے دیکھ جھل کھل آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے بولی۔ سعدیہ ۔۔
نعمان کو ڈھونڈ کر میری حالت کے بارے میں ضرور بتادینا۔ میں اس سے اب مل تو نہ سکوں گی۔ اک تم ہی میرا آخری سہارا ہو۔ دیکھو اس حال میں ، اب مجھ کو تنہا مت چھوڑنا۔ ضرور بتادوں گی۔ میں نے اس سے وعدہ کیا۔ میں نے نعمان کو بہت ڈھونڈا، اس کی کلاس اور تھی اور کافی دوری پر تھی۔ وہ مجھے نہ ملا۔ جب میں نے یہ بات شانی کو بتائی ، وہ بہت روئی۔ تب اس کو تسلی دی کہ تم صحت مندہونے کی آرزو کرو، ایک دن ضرور اس کو تمہارے پاس لے آئوں گی۔ دیکھ کر افسوس ہوتا کہ اب شانی وہ شانی نہ رہی تھی۔ جس شوخ پر کبھی نظریں نہ سکتی تھیں۔
وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔ خدا جانے کیا مرض تھا اور کیا علاج ہورہا تھا۔ جب وہ چھوٹے سے اسپتال میں روبہ صحت نہ ہوئی تو اس کو بڑے اسپتال لے گئے، جہاں بڑی بڑی اسکین مشینیں تھیں۔ رپورٹ آئی تو پتا چلا کہ اس کو جگر کا کینسر ہے۔ یہ خبر سب کے لئے ایک قیامت سے کم نہ تھی۔ اب خالہ روتی تھیں اور کہتی تھیں کہ کاش مجھے پتا ہوتا کہ میری بھی اس حال کو پانچ جائے گی۔ بھی اس کو تعلیم سے نہ روکتی۔ خود نعمان سے ملتی اور بات کو سلجھا لیتی۔ مجھ کو کہتیں، اس لڑکے کو تلاش کرو، میر ی نور نظر تو چند دنوں کی مہمان ہے۔ میں اس کی دلی تکلیف دور کرنا چاہتی ہوں۔ اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو عمر بھر خود کو معاف نہ کر سکوں
گی۔ خالہ نے منت مان لی کہ شانی صحت یاب ہو جائے گی تو وہ اس کی شادی اس کی مرضی اور پسند سے کر دیں گی اور جس لڑکے کو وہ پسند کرتی ہے، اس سے مل کر اس کے خاندان کے حالات معلوم کر لیں ۔ خالہ اپنے چاروںبیٹوں سے بھی تاسف سے کہیں کہ کیوں نہ ہم لڑکی کا رشتہ کرنے سے پہلے اس کی پسند جان لیں۔ اگر لڑکا ٹھیک لگے تو پھر اپنی بچی کا دل نہ توڑناہی جلا ہے کہ وہ بیکار ہو کر اس حال کو پہنچ جائے۔ بے چاری خالی ماں تھیں اور انہیں اولاد کو بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ تبھی وہ ایسا سوچتی تھیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ ہر لڑکی کی پسند میں ہویا غلط ہو۔ آنا کا مسئلہ بنائے بغیر رشتے بارے اگر ٹھیک طرح سے دیکھ بھال کر لی جائے تو خوشیاں مل بھی سکتی ہیں۔ ان دنوں شانی کی حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔ سبھی سمجھ چکے تھے کہ وہ اب تھوڑے دنوں کی مہمان ہے، تبھی میں کبھی بہت پریشان رہنے لگی تھی، اس کی آخری خواہش جان کر نعمان کو بہت تلاش کیا مگر وہ کہیں نظر نہ آرہا تھا۔ شاید اس نے یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔ ایک دن یہ عقیدہ بھی حل ہو گیا۔ چھٹی کے بعد گھر لوٹ رہی تھی کہ راستے میں وہ
مجھے مل گیا لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔
اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ نعمان کے اچانک نظر آجانے سے اتنی خوشی ہوئی کہ کار میں اس کے برابر براجمان ہم سفر لڑکی کی موجودگی کا بھی احساس نہ رہا۔ میں نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور دوڑ کر اس کی کار کے پاس گئی ، شانی کی
حالت کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا۔۔ کون؟ میں تو کسی شانی کو نہیں جانتا۔ ایسا اس نے یقینا | اس لڑکی کی وجہ سے کہا تھا۔ کیونکہ وہ اس کے سامنے شانی کا ذکر کرنا نہیں چاہتا تھا، کہنے لگا۔ آپ کو ضرور غلط ہی ہوئی ہے۔ میں تو آپ کو بھی نہیں جانتا۔ یہ الفاظ سن کر میرا سر چکرانے لگا اور اس نے کار آگے بڑھادی۔ اس کے بعد مجھے نہیں پیاگھر کیونکر پیچی اسپتال گئی، سوچ رہی تھی کہ اب کیا کہوں؟ شانی سوالیہ نظروں سے مجھے تکتی تھی۔ میری خاموشی سے اس نے بھانپ لیا معاملہ مبھیر ہے۔ کہنے لگی۔ سعدیہ ، جانتی ہوں تم حقیقت مجھ سے چھپانے کی سوچ بچار میں ہو ، کہ دو۔ تم تو مجھ کو ہمیش حقیقت کا آئینہ دکھاتی رہی ہو تو اب یہ سوچ بچار کمیسی ؟ مجھ میں حوصلہ ہے کہ لوں گی مگر تم سچ کہا، جھوٹ مت کہنا۔ اب میں پچ کو نہ چھپا سکی، جب شانی کے بارے میں بتایا کہ مجھے ملا تھا لیکن اس نے مجھے اور تمہیں پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ شانی کے چہرے پر مایوسی کے بادل چھا گئے۔ میں اتنی سفاک تو نہیں تھی لیکن یہ اس لئے بتادیا کہ وہ خواہ مخواہ جھوئی اس میں نہ رہے کیونکہ جھوٹی آس بھی تو ہر دم انسان کو اذیت دیتی رہتی ہے۔ انتظار بہت بری چیز ہے۔ جب انسان کی اس ٹوٹ جاتی ہے تو کم ہوتا ہے لیکن وہ بالآخر حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے۔ کسی کے انتظار میں آنکھیں در پر گئی ہوں تو آدمی سکون سے مر بھی نہیں سکتا۔ جان کنی کی اذیت میں بھی آنے والے کے انتظار میں آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ آج شانی اس دنیامیں نہیں ہے۔ مجھے احساس ہو چکا ہے کہ کسی راہ چلتے پراندھا اعتماد کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
نعمان بھی انہی راہ چائے لڑکوں میں سے ایک تھاجو ل کر بھی نہیں ملتے۔ دھوکا دیتے ہیں۔ جب بھی اس کا خوبروئس ماضی
کے پردے پر ابھرتا ہے ، دل سے آہ کے ساتھ بد دعا نکلتی ہے ، حالانکہ بد دعا دینا اچھی بات نہیں مگر شانی کی تصویر، اس کی زندگی کے آخری ایام کی تکلیف رلا دیتی ہے۔ اس معصوم کا کھ کیسے بھلا دوں جس کو بے و فا نعمان نے بر باد کر دیا۔ جھوٹے خواب دکھائے اور پھر خبر نہ کی اور مزے سے ایک اور لڑکی سے شادی کر لی۔ وہ بے آس ہو کر موت کے منہ میں چلی گئی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کو نعمان کے ساتھ موٹر بائیک پر جاتے دیکھ کر اپنوں نے ماہین سے بہت برا برتائو کیا تھا، بعد میں اپنی نفرت کا وہ برملا اس طرح اظہار کرنے لگے تھے جیسے شانی ان کی بہن نہیں، اچھوت ہو۔ اگر وہ بھائی اس کو پیار سے سمجھاتے، محبت میں کمی نہ لاتے اور معاف کر دیتے تو وہ نعمان کو جلا دین اور شاید روبہ صحت ہو جاتی۔ انہوں نے علاج میں بھی شروع دنوں کوتاہی کی، جس کے باعث اس کو غلط دوائیں ملتی رہیں۔ پہلے ہی دن کسی ماہر ڈاکٹر سے علاج کراتے تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔ بے شک پیاری سے شفابر وقت علاج معالے سے مل جاتی ہے مگر دل تو کراچی کے کھلونے ہوتے ہیں ٹوٹ جائیں تو پھر نہیں جڑتے۔
0 Comments