Jigar-Lahu-Lahu-جگر لہو لہو |
منصور کو ساتھ والے گائوں کے زمیندار کی بیٹی پسند آگئی ۔ وہ اپنے باپ کی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی۔ منصور نے والد سے کہا کہ وہ فوزیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ باپ راضی ہو گیا۔ وہ زمیندار اشرف کے پاس گیا جو اخلاق شخص تھا۔ اس کی بیوی جوانی میں فوت ہو گئی تھی اور اس نے بچی کی خاطر دوسری شادی نہیں کی تھی۔ اب یہ بھی جوان ہو گئی تھی۔ اشرف زمیندار کی نور نظر فوزیہ گائوں کی خوبصورت لڑکی تھی ۔ کھلتی ہوئی رنگت، گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ، سروقد۔ اس کے قہقہے گائوں کی پگڈنڈیوں پر اس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے ہوا پھولوں کی خوشبوئوں کو فضائوں میں بھی دیتی ہے ۔ اس حور شمائل میں کسی خوبی کی کمی نہ تھی۔ وہ جب ہنستی تو لگتا کہ جیسے سفید موتیوں سے بھرے سیپ کا منہ کھل گیا ہو۔ ودا گر حور شمائل تھی تو منصور بھی حسن میں کسی سے کم نہ تھا۔ اس کے ساتھ وہ محنتی اور خوش گفتار بھی تھا۔ اس کے گھرانے کی لوگ عظیم کیا کرتے تھے۔
منصور کا باپ علاقے میں باعزت شخصیت جانا جاتا تھا۔ تبھی ملک رحمت بغیر اونچے کا خیال
کئے لڑکی کے والد کے پاس سوالی بن کر چلا گیا۔ اس نے اشرف زمیندار سے بیٹے کے رشتے
کی بات کی تو وہ خاموش ہو گیا۔ ملک صاحب نے خاموشی کی وجہ پوچھی، تب وہ گویا ہوا
کہ میں مجبور ہوں، برادری سے مشورہ کئے بغیر آپ کو کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ مجھ کو
وقت چاہتے تا کہ اپنے بھائیوں سے بات کر سکوں۔ زمیندار اشرف نے اپنی برادری کو
بلایا۔ انہوں نے کہا کہ رحمت زمیندار لا کھ اچھا نہیں، مگر ہم اپنی لڑکی کا رشتہ
کیسے روایت سے ہٹ کر دے دیں۔ ہاں اگر وہ لڑکی کے بدلے اپنی لڑکی کا رشتہ ہم کو دے
تو پھر بات ہو سکتی ہے۔ بھائیوں کے مطالبے کو لے کر اشرف نے ملک رحمت سے ملاقات
کی۔ کہا کہ میری برادری اسی صورت راضی ہوسکتی ہے اگر آپ اپنی لڑکی کا رشتہ بدلے
میں ہم کو دیں۔ آپ کسی لڑکے کے لئے بدلے میں رشتہ لینا چاہتے ہیں؟ ملک نے سوال
کیا۔
ہمارے یہاں ایسا کوئی لڑکا تو موجود نہیں ہے اور میری ایک ہی لڑکی ہے جس کو آپ بہو بنانا چاہتے ہیں، سو یہ شرط برادری کی اس صورت پوری ہو سکتی ہے کہ میں فوزیہ کو آپ کی بہو بنانا منظور کر لوں اور آپ اپنی لڑکی میرے عقد میں دے دیں۔ دوسری صورت میں ہماری طرف سے انکار سمجھیں۔ رحمت کو اشرف کی بات ناگوار گزری ، اہم و متعلق خاموش ہو گیا، کیونکہ اس کو بیٹے کی خوشی ہر حال مقدم تھی۔ اس نے گھر آ کر بیٹے کو لڑکی والوں کی شرط سے آگاہ کر دیا۔ منصور نے برا ماننے کی بجائے باپ سے کہا۔ بابا جان ! آپ نے عذرانی پی کی شادی بھی تو کرنا ہے اس کی عمر کا فی ہو چکی ہے، اس کو زمیندار کے نکاح میں دینے میں کوئی قباحت نظر نہیں آرہی۔
اس طرح اگر اشرف کے اولاد ہوئی تھی تو اس کی ساری ملکیت ہمارے ہی پاس آجائے گی۔ آپ اس معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ آپ مجھ سے دس برس بڑی ہے اور اشرف اس سے پندرہ برس بھی بڑا ہو گا، جبکہ اشرف نہ تو بد قماش ہے اور نہ عیاش آدمی ہے۔ اس کی شرافت تو سارے گائوں پر مسلم ہے۔ عمر کا فرق تو ہے لیکن آپ کو آپ کے لئے شرافت و الا جوڑ ہی دیکھنا چاہئے۔ کچھ دنوں غور کے بعد ملک رحمت راضی ہو گیا۔ سوچا کہ منصور بھی کہتا ہے، کب تک بیٹی کو بٹھائے رکھوں گا جبکہ اب تو عذر انکی شادی کی عمر بھی کی جاتی ہے۔ اس نے اشرف کو عندیہ دے دیا کہ مجھ کو تمہاری شرط منظور ہے۔ میں اپنی دختر آپ کے عقد میں دینے کو تیار ہوں۔ جب اس بات کا علم عذرا کے ماموں کو ہوا، وہ پریشان ہو گیا کیونکہ عذر اس کے بڑے لڑکے کی منگیتر رہ چکی تھی، مگر اس کے بیٹے نے شہر جاکر اپنی مرضی سے شادی کرلی تھی۔
وہ بہنوئی کے پاس آ گیا اور کہا کہ تم عذرا کی شادی کسی اور سے نہیں کر سکتے، یہ میرے لڑکے کے نام ہو چکی اور اسی کے نام رہے گی۔ اشرف کو صاف جواب دے دو۔ کی بات کرتے ہو قاسم ! جب تمہارے لڑکے نے خود میری لڑکی کو رد کر کے اور جگہ شادی کر لی ہے تو پھر اس کے ساتھ منگنی کا استحقاق کہاں باقی رہ جاتا ہے۔ کیا اب میں اس کی کسی اور جگہ شادی نہیں کر سکتا؟ عمر بھر اس کو اپنے در پر بٹھائے رکھوں گا اس وجہ سے کہ بچپن میں اس کی منگنی تمہارے بیٹے سے ہو گئی تھی۔ یہ تو سراسر ظلم ہے۔ تم جانتے ہو کہ ہمارے یہاں مرد اور جگہ شادی کر لیتے ہیں مگر وہ اپنی منگیتر سے دستبردار پھر بھی نہیں ہوتے۔ مرد دوسری شادی کرتے ہیں اور عذر اسے میرے مزمل کی دوسری شادی ہو گی۔ میں ابھی جا کر برادری کو اکٹھا کر تا ہوں، اگر انہوں نے اس بات سے اختلاف کیا تو پھر تمہارا اختیار ہے کہ جو چاہے کرو۔
ماموں کی باتیں سن کر منصور سخت پریشان ہوا، کیونکہ اس کا باپ ادھر اشرف کو ہاں کہ آیا تھا، ادھر ماموں نے اڑچن ڈال دیں۔ اب اگر یہ لوگ عذر کار شته اشرف کو دینے سے پیچھے ہٹے تولازم تھا کہ ادھر سے بھی انکار ہی سنے کو ملتا، | تب تو منصور کی جان پر بن جاتی۔ اس نے باپ کو ایک بار پھر سمجھایا کہ ماموں کو من مانی کرنے دو۔ عذرا کو وہ مزمل سے بیاہتے ہیں اور بیٹے کی دوسری شادی کرتے ہیں تو اس سے ہم کو کیا فرق پڑتا ہے۔ منگنی تو موجود ہے، ہم نے اس کو بھی بنانا ہے۔ عذر کی بجائے مسلم کو اشرف کے عقد میں دے دو۔ تمہاری دونوں لڑکیاں اپنے گھر کی ہو جائیں گی اور فوزیہ کارشتہ ہمیں مل جائے گا۔ منصور بیٹے ! پہلے والی بات تو ٹھیک تھی ۔ تمہاری تجویز میرے ہی کو گی، لیکن اس بار یہ رشتہ مناسب نہیں رہے گا۔
سلمی بہت چھوٹی ہے۔ اشرف تو اس سے تیس بتیس برس بڑا ہو گا۔ میں اپنی بیٹی پر یہ ظلم نہیں توڑ سکتا۔ باباجان ! ہم بھی ماموں سے مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ ایک تو ہمارے خاندان کا وہ سب سے خوشحال آدمی ہے۔ اس کا برادری پر زور چلتا ہے، اوپر سے وہ ہم سے دشمنی پال لے گا تو بھی ہم کو بے وقعت ہوناپڑے گا۔ وہ میری شادی بھی اشرف کی بیٹی سے نہ ہونے دے گا۔ بیٹے کی منت سماجت سے رحمت کا دل مٹھی میں آگیا۔ بیٹیاں بھی اپنی ہو تی ہیں مگر حیثیت بھیوں کی گائوں والوں کی نظروں میں ہوتی ہے۔ بیٹیاں اس کی گرد کو نہیں بن سکتیں۔ لڑکیاں ہوتی کس لئے ہیں۔ اپنے بھائیوں پر قربان ہونے کے لئے ہی ناں ۔ یہ کوئی نی اور انہونی بات تونہ تھی جو منصور کہہ رہا تھا۔ کچھ کشمکش کے بعد رحمت نے عملی کو اشرف کے عقد میں دینا قبول کر لیا کیو نکہ اشرف کبھی توز میندار تھا اور دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں لیا جاسکتا۔
سلمی ، باپ اور بھائی کے اس فیصلے سے بے خبر سارا دن کھیتوں میں بھاگتی پھرتی۔ اس کے ابھی ہنسنے کھیلنے کے دن تھے۔ ابھی تو وہ گڑیوں کے گھر بنائی اور ان کی شادیاں کرتی تھی، اسے نہیں معلوم تھا کہ بہت جلد اسے کبھی گڑیا بنا کر اس گھر سے رخصت کر دیا جائے گا وہ بھی ایک عمر رسیدہ شخص کی دلہن بنا کر! سلمی کی ماں ایسانہ چاہتی تھی، کیونکہ وہ اس کی شادی اپنے چھوٹے بھائی کے بیٹے امین سے کرنا چاہتی تھی جو گائوں کا بیلا اور بہادر جوان تھا۔ وہ بھی سلمی کو پسند کرتاتھاتاہم پندرہ برس کی سلمی ابھی تک پسند کے مفہوم سے ناآشنا تھی۔ گائوں میں لڑکی کی زندگی ہی کیا ہوتی ہے۔
یہاں مرد سمجھتے ہیں کہ اس کے اپنے کوئی جذبات اور احساسات ہی نہیں ہوتے۔ وہ پیدا ہوتے ہی مال مسروقہ کی طرح بانٹ دی جاتی ہے، اگر اس وقت ایسانہ کریں تو بڑے ہونے کے بعد بھیڑ، بکریوں کے بھائو بیچنا پڑ جاتا ہے۔ سلی تو ایسی گائے تھی کہ باپ اور بھائی جس کے کھونٹے سے چاہیں باندھ دیں۔ اس کو کچھ سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ سلمی کی ماں بھی اسی نظام کی پروردہ تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی بیٹی کی طر فدار یانہ کر سکی اور یوں رحمت، منصور کی خوشی پوری کرنے کی خاطر بیٹی کو ایک بوڑھے کے عقد میں دینے پر راضی ہو گیا۔ بے شک اشرف لڑ کی سے عمر میں دگنے سے بھی زیادہ بڑا تھالیکن کردار سے شریف آدمی تھا۔
اس نے سلمی کی نو عمری کا خیال رکھا۔ اس کو بہت محبت دی اور رانی کی طرح رکھا۔ وہ اسے گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتا تھا اور گھر والوں سے اس کی عزت بھی کرواتا تھا۔ اس کو سیر و تفر تک کو شہر گھمانے، پھر انے لے جاتا، جو زیور، کپڑا، سامی پسند کرتی خرید کر دیتا تھا۔ سلمی ابھی چکی تھی۔ اس کی شخصیت خود کو اسی طرح ڈھل گئی جیسا کہ شوہر نے چاہا۔ وہ بھی اشرف کی دل سے عزت وخد مت کرتی۔ اس کی فرمانبردار ہوتی تھی ۔ بھلا اشرف کو اور کیا چاہئے تھا۔ سلمی کی جب شادی ہوئی، اس کے ارمان نہیں جاگے تھے۔ اس کے من میں کوئی نہ تھا۔ تبھی اس نے اپنے عمر رسیدہ شوہر کو بھی د یوتابیان لیا تاہم کبھی کبھی اشرف کو یہ احساس شدت سے ہوتا تھا کہ سالی اس کی بیٹی فوزیہ سے بھی چھوٹی ہے اور یہ رشتہ ہے جوڑ ہوا ہے۔
منصور کو تو فوز بی مل گئی ، وہ اپنی من چاہی بیوی پا کر بہت خوش تھا۔ اس کو اس بات سے کچھ سروکار نہ تھا کہ سلمی عمر رسیده شوہر سے وہاں خوش ہے یا ناخوش !فوزیہ بھی منصور کو پاکر خوش تھی۔ ان دونوں کی زندگی گویاجنت جیسی تھی۔ ولی پسندیدگی، عمرایک جیسی ، مزاج میں ہم آہنگی، سوچ ایک کی۔ ان کی حیات پر کوئی جبر تھا اور نہ کوئی احساس محرومی تھا۔ اس سارے فسانے میں اگر کسی کا کھلا تھاتو وہ یامین تھاجو دل سے سالی کو چاہتا تھا۔ وہ بہت اداس رہنے لگا تھا۔ رحمت کے گھر آنا جاناہی ترک کر دیاتھا۔ اس کو ہر لے ملین کی یاد ستاتی تھی جس کی فرمائش پر وہ روزانہ بھی بیری کے درخت پر چڑھ کر لال لال میٹھے بیر توڑ کر اس کی جھولی بھر دیتا تو بھی کھجور کے اونچے درختوں پر کھجوریں نیچے گرات اور سلمان کو چن چن کر دامن بھر لیتی تھی۔
وہ امین کے احساسات سے بے خبر تھی، اس کو اچھا بھی لگتا تھا۔ وہ عرصے تک اداس کھیتوں میں پھرتا پھر جہاں پگڈنڈیوں پر وہ اس کو بھاگتی نظر آتی تھی، بھی تو اس کو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ سلمی کی یاد میں پاگل ہو جائے گا۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ ان اداس رکھنے والی یادوں سے بہت ٹوٹ گیا تو ایک دوست کے توسط سے دبئی چلا گیا۔ سلمی جوں جوں بڑھی ہورہی تھی ، وہ شعور کی منازل طے کرتی جارہی تھی۔ اب اس کو محسوس ہونے لگا کہ اس کی زندگی میں کوئی خلا ہے۔ وہ کچھ بے چین کی رہے گی، بھی اشرف کے بڑے سے گھر میں بولائی بولا ئی سی پھرنے گی، یہ بات اشرف نے بھی محسوس کر لی۔ سردیوں کے موسم میں چاندنی اس کو بے قرار کرتی تو وہ شوہر کو بلا کر کہتی کہ مجھے کھیتوں میں لے چلو دیکھیں تو کھیتوں میں رات کو چاند کی روشنی کیسی دکھتی ہے۔ اشرف یہ کہہ کر سو جاتا کہ تم تو پاگل ہوگئی ہو ، سو جائو اس وقت بھلا چاندنی دیکھنے کوئی کھیتوں میں جاتا ہے۔
اتنا بڑا مشن ہے، انہیں دیکھ لو اور مجھے سونے دو، مجھ کو سردی لگ رہی ہے۔ کوئی اور کیا خود سلمی کو خبر نہ تھی کہ اس کو کیا ہو جاتا ہے۔ بس اسی قسم کے عار نے اب اس نادان روح کو لاحق ہونے لگے تھے کہ بہار کی ہوا، گیندے اور گلاب کے پھول، اب اس کو اشارے کرتے، اپنی طرف بلاتے تھے اور وہ بے اختیار کیاریوں کے پاس جا کر دیر تک پھولوں کے بوٹوں کے بیٹھی رہتی۔ ان کی خوشبو اس کو مست کرنے لگتی اور اشرف اب زندگی کے اس دور میں تھا جب یہ ساری چیز میں اس کے لئے کشش نہ رکھتی تھیں۔ وہ چاہتی اس کا شوہر حسین موسم میں بارش کی بوندوں کو چہرے پر پڑنے دے، اس کے ساتھ صحن میں بھیگے ، پھولوں اور رنگوں کی باتیں کر کے خوشبو سے محبت کرے اور اس کے حسن کی تعریف کرے، لیکن وہ یہ سب کچھ نہیں کرتا تھا بلکہ اور بہت سے اہم معاملات اس کے ذہن کو الجھائے رکھتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اس کی ان بچگانہ خواہشات پر سلی کو ڈانٹ بھی دیتا تھا۔ تب وہ دل مسوس لیتی اور کبھی خود کو ملامت بھی کرتی، لیکن اس کے دل میں چھری سے نجانے کیسے کیسے خیالات آنے لگے تھے۔
اس کی بڑھتی عمر نے سلمی کو اور بھی حسین و دلکش بنادیا تھا۔ اس کو بنائو سنگھار کا طریقہ بھی آگیا تھا۔ جب اس کے عین شباب کے دن آئے تواشرف بیمار پڑ گیا اور سمجھی اس کی بیماری نے طول پکڑ لیا۔ سلمی اپنے جیون ساتھی کی پیاری سے بہت پریشان ہوئی۔ اس نے بھی جان سے اشرف کی خدمت کی۔ چاہتی تھی کہ وہ جلد از جلد ٹھیک ہو جائے، اس سے تو اس کے عورت ہونے کامان تھا۔ دیور ، لورائیاں بھی جھک کر سلام کرتے تھے۔
خدا کی کرن که بناشرف کا علاج ہورہا تھا تھا اس کی باری بڑھتی جارہی تھی۔ وہ شوہر کی عدالت سے حواس باختہ ہو گئی۔ اس کو اپنا بھی ہوش نہ رہا، دن رات اشرف کی تیمار داری میں کیتی گئی۔ اب بڑے میاں کو شدید احساس ہوا کہ اس نے اس معصوم کلی سے شادی کر کے بہت زیادتی کی ہے۔ اپنی عمر کی عورت سے ہی دوسری شادی اس کو زیب دیتی تھی۔ اب اس نے سوچا کہ موت تو بر حق ہے۔ اگر سلامی بھری جوانی میں بیوہ ہوگئی تو اس کی کون سی راہ ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر اس نے اپنے بھائیوں اور سلامی کے بھائی منصور کو بلوایا اور کہا کہ میں اپنی آدھی زمین سالی کے نام کر تاہوں تاکہ میرے بعد یہ بھی سکھی زندگی گزار سکے اور سسرال میں اس کی قدر اسی طرح تیار ہے جیسے کہ اب میرے ہونے پر ہے۔
اگر میرے بعد یہ شادی کرنا چاہے تو بھی اس کی ملکیت میں جو زمین دے کر جارہا ہوں، وہ زندگی بھر اسی کی ملکیت رہے گی۔ بعد میں یہ جب چاہے میری بچی کو دے لیکن کوئی اس کے نام لکھی گئی زمین اس کی مرضی کے بغیر نہیں لے گا ورنہ قیامت کے دن میں اس کا گریبان پکڑوں گا۔ اشرف کی زندگی کے دن گنے جا چکے تھے۔ وہ آدھی ملکیت بیوی کے حوالے کر کے چل بسا، کیونکہ سالی کے بطن سے اشرف کی ایک بچی بھی تھی لن اس کو اس ننھی کلی کا تحفظ بھی مطلوب تھا۔ اشرف کی وفات کے بعد سلمی اپنی بھی سائرہ کے ساتھ سسرال میں ہی رہتی ہیں۔ کچھ وقت گزرا کہ اشرف کے بھائیوں نے زمین سلمی سے واپس لکھوا لینی چاہی کیونکہ بھروسہ نہ تھا کہ کس کو لکھ دے ۔ سلمی نے حالانکہ واضح کر دیا کہ یہ ملکیت وہ سائرہ کو دے گی کیونکہ باقی آدھی میں سے جو شرعی حصہ فوزیہ کو آنا ہے ، وہ اس کو مل جائے گا، نگر کا بھی دیواروں کو یہ کب گوارا تھا۔
وہ تو چاہتے تھے کہ اشرف کی بیٹیوں کو بھی اس وراثت سے محروم ہی رکھیں اور تمام زمین اپنے نام کر لیں۔ اس معاملے میں اگر کوئی خار بن کر کھٹک رہا تھا، وہ ان کی بھی فوزیہ کا شوہر تھاجو سلم کا سگا بھائی تھا۔ وہ آڑے آ سکتا تھا، تبھی انہوں نے منصور کو بھی ساتھ ملا لیا۔ کہا کہ تمہاری بیوی کا حصہ اسی شرط پر ملے گا اگر تم اپنی بہن سے زمین لکھوالو۔ ہم تمام ملکیت بانٹ لیں گے ، آدھی تم لے لیا اور آدھی ہم لے لیں گے۔ سلمی جوان ہے ، اس کی شادی کر دینی چاہئے۔ اس کی اچھی سائرہ کو ہم خود پروان چڑھائیں گے ۔ وہ ہمارے بھائی کی اولاد ہے۔ اس کی دیکھ بھال کا حق ہمارا ہے۔ منصور تو پہلے ہی اسی فکر میں تھا کہ باپ کی جائیداد سے فوزیہ کو اس کے حصے سے محروم کر دیا جائے گا اور اشرف کے بھائی آسانی سے حصہ لینے نہ دیں گے ، شاید مقد مہ کرنا ہو گا۔ مقدے پر نہ فوزیہ تیار تھی اور نہ منصور میں اتنا تھا کہ وہ اپنے س ر کے بھائیوں کے مقابل مقدمہ لڑتا۔
اب جبکہ وہ خود آدھی ملکیت اس کی بیوی کو دینے پر راضی تھے تو منصور اور اس کے بچے کا فائدہ اسی میں تھا کہ وہ صلح صفائی سے ان لوگوں کی بات مان لے ورنہ یہ لوگ آسانی سے وراثت میلیوں اور بہنوں کو دینے والے نہیں تھے۔ جب دیکھا کہ کام اتنا آسان ہو گیا ہے تو وہ سالی کے دیوروں سے مل گیا اور بہن کے رشتے کو پس پشت ڈال دیا۔ وہ بھی لانے میں آ گیا۔ اس طرح ان سب نے سلمی سے واپس ملکیت لینے کا پلان بنالیا۔ اپنے سگے بھائی منصور اور دونوں دیوروں کے ارادوں سے بے خبر بھاری سلمئ تو ابھی تک بیوگی کی چادر اوڑھے دیکھ کے اندھیرے میں دفن تھی۔ وہ رورو کر اپنی بیٹی کو گلے لگاتی جو اس کی تسلی دینے کے قابل بھی نہ تھی۔ ایک دن سلامی کا دیور اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا۔ بھابی ! زمین بھائی نے تمہاری دلجوئی کی خاطر تمہارے نام کی تھی، شاید ان کو ہم پر اعتماد نہ تھا۔ اب تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ زمین واپس کر دو، کیونکہ یوں بھی ہم بھائیوں کا مشترکہ کھاتی ہے۔
ہم جب تک اراضی کے معاملات نہیں دیکھیں گے ، جب تک کہ تم ہم کو مختار نامہ نہ دو گی ، یہ زمین في الحال تو تمہارے کسی کام کی نہیں ہے۔ نہ تو تم اس پر فصل اگانے کی سبیل کر سکتی ہو اور نہ معاملات اراضی خود دیکھ سکتی ہو۔ تم کون سا اس پر ہل چلا سکتی ہو۔ سلمی خاموش تھی۔ سوچا کہ پہلے منصور بھائی سے مشورہ کر لوں تو ان لوگوں کو جواب دوں۔ اس بات کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ منصور آیا اور بہن کے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر تک ہمدردی کی، پھر اصل موضوع کی طرف آگیا۔ کہا کہ یہ زمین جو تم کو لی ہے، وہ میری بیوی کے حصے کی تھی۔ وہ بھی تو اشرف کی اولاد ہے۔
اشرف نے اس کے حصے کی زمین تواس کو لکھ کر دی ہی نہیں۔ اب اس کے چھادیں نہ دیں، میں کہاں مقدسے لڑتا پھروں گا۔ بہتر ہے کہ تم اپنے حصے میں سے آدھی زمین مجھ کو لکھ دو۔ بھائی کا مطالبہ سن کر وہ حیران رہ گئی کہ یہ اس کے ناز اٹھانے والوں کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ سب کیوں اس قدر لابی ہو گئے ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ زمین کسی کو نہ لکھ کر دے گی بلکہ اپنا اور اپنی بینی کا تحفظ کرے گی۔ بھائی نے دیکھا کہ بہن مطالبہ نہیں مان رہی۔ وہ اس کے دیوروں سے جا کر مل گیا۔ دوسرے دن جبکہ یہ سب بال کمرے میں بیٹھے میٹنگ کررہے تھے کہ سلمی کی زمین کیسے اس سے واپس لی جائے، اس کی دیورانی نے ساری باتیں سن لیں ۔ وہ نیک دل عورت تھی۔
خوف خدا رکھتی تھی۔ اس نے سلمی کو آگاہ کیا کہ تم اگر ان کو زمین لکھ کر نہ دو گی تو یہ تم کو مار کر قصہ ختم کرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ افسوس کہ تمہار اس کا بھائی بھی اس پلان میں شامل ہے۔ اب تمہار ایا تمہاری ملکیت کا تحفظ کون کرے گا؟ انہوں نے یہ منصوبہ بنایاتھا کہ سلمی کو ختم کر کے اس کی لاش کو غائب کر دیا جائے۔ حیرت کہ اس وقت دیوروں سے زیادہ اس کا بھائی سفاک ترین انسان ثابت ہوا۔ اس نے کہا کہ کسی کو مار کر ندی میں لاش بہا دیتے ہیں اور سب کو بتائیں گے کہ وہ کسی کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔ دیور بولے ،مارنے سے بہتر ہے کہ اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر دور دراز علاقے میں نیاد ہیں۔ پچھی تو ہماری ہے ہی ، سائرہ کو ہم رکھ لیں گے۔ پھر وہ لوگ یک زبان ہو گئے کہ ہاں قتل میں کئی طرح کی پیچیدگیاں ہیں۔ ممکن ہے کہ پولیس کو سراغ مل جائے۔ دیورانی، سامی سے کہے گی ۔ دیکھے تو ! تیری زندگی زمین سے زیادہ نیتی ہے اور تیری بچی کو زمین کی نہیں اس وقت تیری ضرورت ہے۔ یہ لوگ اپنے سفاک عزائم میں کامیاب ہو گئے تو کیا ہو گا۔
یہ سن کر سامی ڈر گئی۔ دوسرے دن اس نے بھائی اور دیوروں کے نام دس دس بیٹھے ز مین لکھ دی جو اس کا شرعی حق بنتا تھا اور باقی ملکیت کے بارے میں کہا کہ یہ میری بھی سائرہ کی ہے اور وہ نابالغ ہے۔ جب اٹھارہ برس کی ہو جائے گی تو اس کے نام کر دوں گی۔ یہ میری پی کی امانت میرے پاس اس کا باپ رکھوا کر گیا ہے۔ میں اس کو کسی اور کے حوالے نہ کروں گی۔ انہی دنوں یامین بیرون ملک سے گائوں لوٹ آیا۔ اس نے جب اسلامی کے بیوہ ہو جانے کا سنا تو اس کے شوہر کی تعزیت کو اس کے پاس گیا۔ سلمی نے اس کو تمام احوال سے آگاہ کیا۔ وہ بہت سال سے بیرون ملک نوکری کر رہا تھا اور کافی دولت کما کر لایا تھا۔ اس نے سلمی کو دلا سادیا کہ تم حوصلہ رکھو، میں پہلی فرصت میں کسی وکیل سے مشورہ کرتا ہوں۔ دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں۔ ابھی سلی پچھلے واقعے کو بمشکل بھول پائی تھی کہ اس کا جیٹھ بھی آگیا۔ کہا کہ جب تم نے ان تینوں کو زمین لکھ دی ہے تو باقی زمین مجھے ملنی چاہئے کیونکہ میں بڑابھائی ہوں۔ میں ہی تمہارا اور تمہاری بیٹی کا سرپرست ہوں۔
تم عورت ہو، تم کیا کرو گی۔ میری بیوی وفات پا چکی ہے، تم مجھ سے نکاح کر لو تاکہ میں تم کو اور تمہاری بیٹی کو تحفظ دے سکوں۔ جیٹھ کی بات سن کر سلمی صدمے میں رہ گئی۔ وہ تو جیٹے کو بڑا بھائی جانتی تھی۔ وہ نہ تو زمین اس کو دینا چاہتی تھی اور نہ اس سے نکاح کرنا چاہتی تھی۔ یامین آیاتو سلم نے اس کو آگاہ کیا کہ بات ایسی ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگا۔ نکاح کرنا ہے تو مجھ ہی سے کر لو۔ جیٹے تو تمہارے مرحوم شوہر سے بھی بڑا ہے اور ابھی تمہاری عمر تیس، بیس سال ہے۔ میں تمہارا ہم عمر ہوں ۔ یہ بوڑھا کیا تم کو تحفظ دے گا۔ سلم کو بھی سہارا چاہئے تھا، وہ بولی۔ ٹھیک ہے میں راضی ہوں۔ تو پھر میں نکاح کا بندوبست کرتا ہوں۔ لیکن میرے سسرال والے ایسا بھی نہ ہونے دیں گے۔ یہ نکاح پہلے خفیہ ہوگا بعد میں، میں معاملات سدھار لوں گا۔ خالہ کے بیٹے کی شادی تھی۔ سلمی شادی میں شرکت کرنے کے لئے میکے گئی۔ ماں کو تمام احوال سے آگاہ کیا اور ساتھ دینے کے لئے کہا۔ وہ راضی ہو گئی اور اس نے یامین کے والدین اپنے بھائی کو راضی کیا۔
اس طرح مسمی کا نکاح اس کی ماں اور ماموں نے یامین سے کرادیا۔ یہ کام انہوں نے بہت خاموشی اور راز داری سے کیا۔ حتی کہ سالی کے بھائیوں کو بھی علم نہ ہونے دیا گیا۔ بہت راز داری برتنے کے باوجود گائوں میں کسی طور یہ بات نکل گئی کہ سلمی کا نکاح یامین سے ہوا ہے۔ خبر اس کے بیٹے اور دیوروں تک بھی پہنچ گئی، وہ آگ بگولہ ہو گئے ۔ انہوں نے سلمی کے والد کو بلایا اور کہا کہ تمہاری بیٹی نے نکاح کر لیا ہے اور یہ ہماری بے عزتی ہے۔ اب تو اس کو ہماری بھی سائرو اور اس کی زمین ہمارے حوالے کرنا ہو گی، چونکہ وہ اب ہماری بھائی نہیں رہی ہے تو اس گھر میں بھی قدم نہیں رکھ سکتی۔ حیرت تو یہ تھی کہ اس مخالفت میں خود منصور پیش پیش تھا کہ جس کی خوشی پوری کرنے کے لئے باپ نے بیٹی کو قربان کیا تھا۔ وہ اب پچھتارہا تھا کہ اسلامی کی زندگی برباد کی اور اب یہ لوگ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ اس نے مسلم کو سمجھایا کہ تم زمین واپس دے کر زندگی بی اور نہ وہ تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔
نے کہا کہ میں نہ تو بی ان کو دوں گی اور نہ زمین۔ یہ میری میں کیا ہے اسی کو دوں گی، جو میر احصہ تھا، اسے بھی زیادہ ان کو واپس کر چکی ہوں، اب اگر وہ جان لینا چاہتے ہیں تو لے لیں۔ باپ بیٹی کی ضد دیکھ کر لوٹ گیا۔ کہا کہ پھر میں تم کو تمہارے حال پر چھوڑتا ہوں۔ اگر تمہاری طرف داری کی تو وہ اپنی میں لے جائیں گے اور منصور کا گھر اجڑ جائے گا۔ میں پوتے پوتیوں کو ماں سے جدائی کاد کھ نہیں دے سکتا۔ ایک رات سمی کو دیورانی نے جگایا اور کہا کہ اب تو یہاں کس لئے اور بھی ہے ، چھی میرے سپرد کر اور اس گھر سے چلی جا۔ وہ آج رات تیرے قتل کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔ پچھی تو یوں بھی تیرے بن رہ جائے گی۔ وعدہ کرتی ہوں ماں بن کر اس کی دیکھ بھال کروں گی۔ اس نے سالی کو کھیتوں میں چھپانے کا انتظام کر دیا۔ سردی میں رات بھر زندگی بچانے کی خاطر وہ کھیتوں میں بھی رہی ۔ دور سے آتی کتوں کی خوفناک آواز میں اور خوف بھر اندھیرا تھا۔
اور وہ دیورانی کے ڈرانے پر زندگی بچانے کو سردی میں ٹھٹھر رہی تھی کہ اس سے کچھ فاصلے سے آتی قدموں کی چاپ سنی۔ لگتا تھا موت جو کے گدھ کی طرح دبے قدموں اس کو کھوجتی پھر رہی ہے۔ یہ موت کی آہٹ نہیں، اس کے بھائی اور دیور تھے، جو اسے کھیتوں میں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ رات دو ڈھائی بجے تک یہ لوگ اس کو ڈھونڈتے رہے، جب تھک گئے تو گھر جا کر سو گئے۔ تب صبح طلوع ہونے سے قریب اس کی دیورانی نے اپنے پرانے بوڑھے ملازم چراغ دین کو بھیج کر اس کو اس جگہ سے نکالا جہاں وہ چھپادی گئی تھی۔ نوکر نے اس کو شہر لا کر دار الامان میں چھوڑ دیا۔ سائرہ، دیورانی کے پاس تھی، تبھی سلمی کو بیٹی کی طرف سے اطمینان تھا کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ جب وہ گھر سے غائب ہوئی تو منصور نے یامین پر پرچہ کٹوادیا کہ وہ اس کی بہن کو لے کر غائب ہو گیا ہے مگر اس کے دوروں نے کھوج نکال لیا کہ سالمی دارالامان میں ہے۔
وہ وہاں اس سے ملنے پہنچ گئے مگر اسلامی نے ملنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے عملے کو کچھ دے دلا کر سالی سے ملاقات کی اور ایک بار پھر پیشکش کی کہ وہ اگر جیٹھ سے شادی کر لے تو اس کو پھر سے عزت دیں گے اور زمین کبھی واپس نہ لیں گے۔ سلمی نے نہ صرف انکار کیا کہ ان کو بتایا کہ وہ اب یامین کی منکوحہ ہے، لہذا جیٹھ سے شادی نہیں کر سکتی۔ البته زمین گورنمنٹ کی تحویل میں دے سکتی ہے تاکہ جب اس کی بیٹی بالغ ہو جائے تواس کی وراثت اس کو مل جائے۔ اب تو یوروں کا غصہ دیدنی تھا۔ بہر حال سر توڑ کوشش پر بھی ان کا بس نہیں چلا کہ وہ سلمی کو دارالامان سے لے آتے۔ کیس عدالت تک پہنچ گیا۔ عدالت میں کیس کا فیصلہ سلم کے بیانات سننے کے بعد اس کے حق میں ہو گیا اور اس کو یامین کے ساتھ جانے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق مل گیا۔ عدالت نے اس کو اس کے شوہر یامین کے حوالے کر دیا اور بیٹی کو بھی اس کی تحویل میں دینے کا حکم صادر کر دیا، کیونکہ وہ ابھی ماں کے ساتھ رہ سکتی تھی۔ سلامی اور یامین ، پچی کے ہمراہ کسی دور کے شہر جال سے تا کہ ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں، جو ان کی جان لینے کے درپے تھے اور وقت گزرنے سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔
سات برس گزر گئے۔ امین کے ساتھ سلم اپنی خوشی سے زندگی جی رہی تھی۔ ایک روز اس کو اپنے والد کی وفات کی خبر ملی تو وہ نہ رہ سکی اور باپ کے جنازے کے وقت وہاں یامین کے ہمراہ چلی گئی۔ اس کا خیال تھا کہ اب تو اس کے دیوروں نے اس بات کو بھلا کر ناراضی ختم کر دی ہو گی۔ باپ کے گھر میں ایک منصور ہی اس کا مخالف رہ گیا تھا۔ وہ تو سگا بھائی تھا جھلا اس سے اسے جان کا کیا خطرہ تھا۔ موت کے گھر میں بھی رونے پیٹنے میں لگے تھے۔ جناز هدفنا کر مرد گھروں کو لوٹ آئے۔ رات کو ماں نے بیٹی کو کہا۔ سامی ! اب اس وقت تمہار دوسرے گائوں جانا درست نہیں۔ بہتر ہے کہ یامین سے کہو کہ میہیں سو جائے ۔ تم لوگ صبح چلے جانا۔ یامین نے سلمی سے کہا۔ یہ ٹھیک نہیں۔ یہ پرانی دشمنی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ تمہارے دیوروں اور بھائی کے دل میں غصہ آگ کی مانند ابھی تک وقت کی راکھ میں سلگ رہا ہے۔ ہمارا اس وقت نکل جانا ٹھیک ہے۔ سلمی اگر ماں کے اصرار پر مجبور تھی ۔ اس نے کہا کہ صبح سورج نکلنے سے پہلے نکل چلیں گے۔ تم اپنے چچا کے گھر سو جائو اور جب جانا ہو مجھے لینے آجانا۔ جاذب کے وقت یامین اپنے رشتے دار کے گھر سے آ گیا اور سالی کو چلنے کو کہا۔ وہ آنکھیں ملتی اس کی موٹر بائیک پر بیٹھ گئی۔ منہ تک نہ دھویا۔ ابھی وہ آدھے راستے میں تھے کہ تعاقب میں آنے والے دشمن نے آلیا اور فائروں کی بوچھاڑ کر کے دونوں کو چھلنی کر دیا۔ یہ قالی سالی کے دیور نہ تھے بلکہ اس کا اپنا سگا بھائی منصور تھا کہ جس کی خاطر وہ بڈھے زمیندار سے بیاہی گئی اور اس کی زندگی برباد ہوئی۔ ہے کہ زمین ، زر کے پیارے نہیں ہوتے اور اس کے لا کہ میں تو بھائی بھی اکثر بہنوں کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ تو بہنوں کی جان کے محافظ بھائی نے ان کی جان لے ہی لی۔ اشرف کے بھائیوں نے جب اپنی بہن فوزیہ کو وراثت کی زمین میں سے حصہ نہ دیا تو منصور نے اس کا بدلہ اپنی بہن کی جان لے کر لیا۔
خود اس کی ماں نے تھانے میں گواہی دی کہ سلمی اور امین کے گھر سے نکلنے کے بعد اس کا بیٹا منصور بندوق لے کر ان کے پیچھے گیا۔ میں نے بہت روکا وہ نہیں رکا۔ کہا کہ آج تو میں سمیٹی کو اس کی ہٹ دھرمی کا مزہ چکھا کر رہوں گا۔ منصور گرفتار ہو گیا۔ اس نے اقرار کر لیا کہ زمین واپس نہ کرنے پر اس کے دل میں بہن کے لئے غصہ تو پہلے ہی بھرا تھا، اس نے یامین سے اپنی مرضی سے شادی کر کے اس غصے کو اور بڑھادیا۔ تبھی سے وہ موقع کی تلاش میں تھا۔ باپ کی وفات والے دن اس کو موقع مل گیا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ آج اپنے اندر کے انتقام کو ٹھنڈا کر کے دم لے گا۔ منصور کو عمر قید ہو گئی مگر سلامی اور امین تو جان سے گئے۔
0 Comments