Naiki Ko Bara Dil Chahyeah Urdu Story Teen Ortain Teen Kahaniyan |
جام پور میں ہمارے چارہتے تھے۔ وہاں سے کئی بار بلاوا آیا کہ میری بیٹی کی شادی ہے، آپ لوگ گوہر کی شادی پر ضرور آنا۔ چاچا کی بیٹی گوہر سے میری بڑی دوستی تھی۔ ملتان سے جام پور جانا یا کے لئے مشکل تھا کیونکہ ان کو مل سے چھٹی نہ ملتی تھی۔ بہر حال امی اور میرے اصرار پر انہوں نے بھائی فاخر کے ہمراہ ہم کو شادی میں شرکت کو جام پور اور ہم میں شادی کے دن پہنچے تھے۔ رات کو بارات آنی تھی۔ ہم نے تھوڑی دیر آرام کیا، پھر نہاد تو کر لباس و غیره تبدیل کیا اور شادی میں شرکت کو تیار ہو گئے۔ چونکہ بارات دور کے ایک گائوں سے آئی تھی لہذا گوہر کو بھی سر شام و من بنادیا گیا تھا۔ دولہا والے شام چھ سے بارات لے کر آگئے۔ ان کے آتے ہی شادی کی رسومات شروع ہو گئیں۔
جب دلہن کی رخصتی کا وقت آیا تو خوش خوش رخصت ہوئی مگر اس کی بیٹی پھوٹ پھوٹ کر رونے گئی تھی میں نے اس لڑکی کے بارے میں صنوبر سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور اس قدر کیوں رورہی ہے؟ میری کزن نے بتایا کہ اس کا نام نور ہے۔ یہ ہمارے محلے کی لڑکی ہے اس کو شادی کے سال بعد طلاق ہوگئی تھی، اپنی گزری ہوئی خوشیوں کو یاد کر کے رو پڑی ہے شاید اسی کو یہ سن کر بڑا دکھ ہوا۔ بھائی فاخر بھی قریب موجود تھے۔ انہوں نے کبھی صنوبر کی بات سن لی اور نور کے دکھ کو دل سے محسوس کیا۔ نور ایک بے حد خوبصورت لڑکی تھی۔ ایسا حسن کم ہی دیکھا تھا۔ فاخر بھائی کو یہ لڑکی اچھی لگی۔ اگلے روز امی سے کہا کہ آپ میرے لیے لڑ کی تلاش کر رہی ہیں، اگر نور کو بہو بنالیں تو نیکی ہوگی۔ طلاق یافتہ ہے تو کیا ہوا، اس کو دوبارہ گھر بنانے کا حق تو ملنا چاہیے۔
ماں نے چاچی سے بات کی۔ وہ بولیں لڑ کی اچھی ہے ، طلاق بھی اس کو ناحق ہوئی تھی۔ حالات ہی ایسے بن گئے تھے، مگر ایک بات اور بھی ہے کہ نور کا ایک بیٹا بھی ہے۔ کیا آپ لوگ اس کے بیٹے کو قبول کر لیں گے کیونکہ اس لڑکے کے باپ کو پھانسی ہو چکی ہے قتل کے الزام میں اب ہم کو نور کی زندگی کی کہانی سے اور بھی چھپی ہوگئی ۔ چاچی سے استدعا کی کہ سارا واقعہ بتایئے کہ اس لڑکی کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کو کیوں طلاق ہوئی اور اس کے شوہر نے کس کو اور کیوں قتل کیا تھا۔ تب چاچی نے بتایا کہ نور کے والدین پر اپنے پڑوسی ہیں ۔ یہ بچپن میں گوہر کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، ہنس مکھ اور چنچل کی تھی۔ جب پندرہ برس کی ہو گی، اس کے باپ نے اس کی شادی اپنے ایک رشتہ دار کے لڑکے سے کر دی اور یہ بیا کر گائوں چلی گئی۔
اس کے سسرال والے کافی سخت لوگ تھے اور نور سے بہت کام لیتے تھے۔ یہ کھیتوں میں کام کرنا نہ جانتی تھی مگر گائوں والوں کا تو اپنا طرز زندگی اور اپنی ریت پریت تھی۔ وہ کام تو لیتے مگر پیار بھر اسلوک بالکل نہ کرتے تھے۔ نور کا شوہر دیہاتی نوجوان تھا۔ وہ شینی باز قسم کا غصہ والا شخص تھا۔ ایک بار پانی لگانے کی باری اس کی تھی ۔ وہ پڑوسی سے الجھ پڑا جو پانی کی باری مانگ رہا تھا۔ دونوں میں تلخ کلامی ہوگئی اور پھر گالم گلوچ تک نوبت پنی و طیش میں آکر جانباز بین نور کے شوہر نے پڑوسی کے سر پر درانتی اچھال دی جس کی نوک اس کے سر میں جا کر پیوست ہو گئی۔ دماغ کے اندر جانے کہاں ضرب آئی کہ وہ آدمی آنافانا بے ہوش ہو گیا۔ اس کو شہر کے اسپتال لے گئے لیکن اسے ہوش ہی نہ آیا اور وہ بے ہوشی کے عالم میں فوت ہو گیا۔ جانباز گرفتار کر لیا گیا۔ کیس چلا اور اس کو عمر قید کی سزا ہوگئی۔ جب جانباز گرفتار ہوا اور امید سے تھی لیکن ایک ماہ تک خود اس کو بھی علم نہ تھا کہ وہ امید سے ہے۔
جب اسے علم ہوا تو اس نے کم عقلی کے سبب ساس کو نہ بتایا کہ اپنی ماں کو بتایا۔ اس کی ماں نے سوچاجانے جانباز کو کیا سزا ہوتی ہے۔ وہ جیل سے زندہ بھی نکلے گا یا نہیں، کیا پتا اس کو پڑوسی کے قتل کے جرم میں پھانسی ہو جائے۔ ایسے میں اگر میری بیٹی نے بچی یا بچے کو جنم دیا تویہ پابند ہو جائے گی اور بچے میری لڑکی کی دوسری شادی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ پس اس نے بیٹی کو تلقین کی کہ ایک دو ماہ صبر کر لو اور ابھی یہ خبر کسی کو نہ دو۔ وہ نور کو اپنے گھر لے آئی جبکہ جانباز جیل میں تھا۔ ادھر جانباز کو اندازہ تھا کہ اگر وہ پھانسی لگنے سے یہ بھی گیا توعمر قید ہو گی تب وہ طویل عرصے تک جیل میں ہی رہے گا۔ اس نے یہ سوچ کر نور کے باپ کو بلوایا اور پوچھاچاچاتم بیٹی کے بارے میں اب کیا سوچ رہے ہو ؟ میرے کیس کا کچھ پتا نہیں، کیا فیصلہ ہو ۔ کیاوہ لمبے عرصے تک میرا انتظار کر سکتی ہے۔ نور کے والد نے کہا۔ بیٹا بھی تو ہم تمہارا انتظار کرتے ہیں اور اللہ سے اچھی امید رکھتے ہیں۔
لیکن تم کو اگر عمر قید ہوگئی تو ہم تمہارا انتظار نہیں کریں گے۔ میری بیٹی کم عمر ہے، اس کی دوسری جگہ شادی کا تو سوچنا پڑے گا۔ سر کے منہ سے یہ بات سن کر اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور دل کو گھیس گی۔ کہا کہ ٹھیک ہے میں آپ کی مجبوری پر کچھ دن غور کرنے کے بعد جواب دوں گا۔ جانباز نے سوچا، غور کیا اور پھر نور کو جیل سے ہی طلاق بجھوادی کہ وہ تو فق کے جرم کا مرتکب ہو چکا تھا، خواہ طیش میں یا غصے میں ، دوسرے کی جان تو چلی گئی تھی، فریقوں نے تگڑاو کیل کیا ہوا تھا جبکہ اس کے باپ کے پاس اچھے وکیل رکھنے کے بھی پیسے نہ تھے۔ یقین تھا کہ سزا ہونی ہی ہے۔ لذا اس نے مبی سوچا کہ میری زندگی برباد ہو گیا، بھاری نور کو کیوں پابند رکھوں۔ اس کو آزاد کر دینا ہی ٹھیک ہے۔ نور کو طلاق مل گئی۔ وہ بہت روئی۔ ماں سے کہا کہ میں جانباز کی قید سے تو آزاد ہو گئی مگر ایک اور پابندی کی تواسیر ہوں، اوپر سے تم نے میرے امید سے ہونے کی خبر بھی چھپائی۔
اب ساس سسر کو بھی علم نہیں ہے کہ میں ان کے بیٹے کی اولاد کو جنم دینے والی ہوں ، ماں اب بتائو میرے ہونے والے بچے کا کیا بنے گا؟ بہتر ہے کہ اب بھی جانباز اور اس کے والدین کو خبر کر دو۔ ماں نے کہا کہ ابھی تمہارا کچھ نہیں بگڑا۔ کیوں نہ اس کو اس دنیا میں آنے ہی نہ دیا جائے۔ ویسے بھی عمر بھر ایک قاتل کا بچہ ہی کہلائے گا۔ بھلا ایک قاتل کی اولاد کا کیا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ یہ تو عمر بھر تمہارے لئے بھی کلنک کا ٹیکہ بنارہے
گا۔ نور اس امر پر راضی نہ ہوئی۔ اس نے کہا کہ بے شک مجھے طلاق مل گئی ہے لیکن میں اپنے بچے کو زندگی دوں گی اور اس کو ہر گز دنیامیں آنے سے پہلے ختم کرنے کی کوئی تدبیر نہ کروں گی۔ اس ظلم پر خدا بھی مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ غرض اس نیک سوچ کی لڑکی نے ماں کا کمانہ مانا اور چھ ماہ بعد بیٹے کو جنم دیا۔
اس کو یقین تھا کہ اگر جانباز کی زندگی ہو گئی، وہ اس خبر پر خوش ضرور ہو گا۔ اس نے سسرال میں اور جانباز کو بھی جیل میں اطلاع کرائی کہ اس کے بیٹے نے جنم لیا ہے۔ جاندار جیل میں اس خبر سے خوش ہوا اور اس نے خدا سے دعا کی کہ اس بچے کی خاطر وہ اس کو مین سلامت جیل سے نکال لے لیکن یہ قدرت کو منظور نہ تھا۔ جانباز کو سزا ہو کر رہی۔ نور اور اس کا بچہ اپنے نانا کے گھر پرورش پانے لگے۔ چونکہ اس کی بے وقوف ماں نے اس خبر کو سب سے چھپائے رکھا تھا، اس وجہ سے محلے کے لوگ بھی نور کی طلاق کے بارے میں غلط انداز سے سوچنے لگے۔ کچھ بد فطرت قسم کے لوگوں نے تو اس قسم کی باتیں اڑادیں کہ شوہر نے اس کو اسی سبب طلاق دی کہ نور کے کسی سے مراسم تھے۔ اس نے قتل بھی اسی رقابت میں کیا۔ نور کے ساس سسر نے بھی اس بچے کو پنتاما نے سے انکار کر دیا۔ جبکہ یہ باتیں سراسر غلط تھیں۔ جانباز تو نور کو بہت چاہتا تھا اور اس نے طلاق بھی اس لئے بھیجی تا کہ وہ آزادی سے جیسے چاہے زندگی بسر کر سکے۔ اس کو بیوی کے کردار پر کوئی شک نہ تھا کیونکہ نور ایسی لڑکی تھی ہی نہیں۔ اس بچے کا طعنہ ایک بار نور کے باپ کو محلے کے ایک آوار و نوجوان نے دیا تو وہ غصہ میں آگ بگولہ ہوا تھا۔ اس نے سامنے پڑ کی اینٹ اٹھا کر اس آواره فقرے کسنے والے کو دے ماری جو اس کے سر پر جائگی۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں ہی تڑپ کر مر گیا۔ ایک سانحہ پہلے جانباز کے غصے کی وجہ سے ہو چکا تھا، ایک اور ہو گیا۔ نور کا باپ جیل بن گیا۔ اس پر بھی قتل کا کیس بن گیا۔ دونوں بد قسمت مرد جیل کی نذر ہو گئے تھے۔ نور اور اس کی ماں ہے آسرا ہو چکی تھیں۔
محلے کی عورتیں طعنہ زنی کر تھیں کہ پہلے شوہر کو جیل کرائی اور پھر باپ بھی اسی کے کارن جیل گیا ہے۔ جس کو پھانسی ہو جائے گی۔ خدائی بد بخت بھی کسی کو نہ دے ۔ ان باتوں کا نور کے دل پر بہت اثر ہوتا تھا۔ وہ پہلے کون سی سھی تھی۔ میں بھی اس کو برا بھلا کہنے گئی تو وہ اپنی زندگی سے تنگ آگئی۔ ایک دن جب اس کے بیٹے نے دودھ کے لئے روناچلانا شروع کیا تو دور کی ماں نے بیٹی اور نواسے کو کوسنا شروع کر دیا کہ انہوں نے یہاں گھر میں بھینس نہیں باندھ رکھی ہے جو یہ لاڈلا ہر وقت دودھ کے کٹورے چڑھائے۔ یہ بات سن کر نور اس قدر دلبراشتہ ہوئی کہ بیٹے کو اٹھا کر گھر سے نکل گئی اور تو کچھ نہ سوجھا، ریلوے اسٹیشن جا کر ایک ٹرین میں بیٹھ گئی جو شہر جارہی تھی۔ رستے میں روتے پاکر ایک خداترس عورت نے اس کا کھٹ ہوا اور پھر اس کو اپنے ساتھ لے آئی۔ یہ عورت ملتان سے کراچی اپنے بھائی کے گھر جارہی تھی جو کراچی میں اچھی پوسٹ پر تھا۔ اس کے بھائی کا نام اکرم اور بھائی کا زاہدہ تھا۔
نور کی داستان سن کر ان لوگوں نے اس کو پناہ دے دی کیونکہ اکرم کی زمین بھی مظفر گڑھ کے پاس تھی اور نور نے جب ماں باپ کا نام بتایاتو اکرم نے کہا کہ میں تمہارے والد کو جانتا ہوں۔ اکرم کی بیوی کو ایک ملازمہ کی ضرورت تھی اور یہ جوڑا بے اولاد بھی تھا۔ نور کے پچ کو ان لوگوں نے گود لے لیا اور وہ ان کے گھر کا کام کرنے لگی۔ وہ یہاں بہت خوش و خرم تھی ۔ ان لوگوں کے حسن سلوک سے گویا پچھلے غم بھول گئی تھی۔ جب اکر م صاحب اپنی زمینوں کی خبر گیری کرنے مظفر گڑھ گئے تو نور کے والد کے گھر بھی گئے اس کی ماں کو تسلی دی اور احوال بھی بتایا کہ تمہاری بیٹی اور نواسا ہمارے گھر میں ہیں۔ وہ مٹی اور نواسے کی گمشدگی سے کافی پریشان تھی۔ اکرم صاحب اس کو بھی کراچی لے آئے اور ماں بھی نور کے ساتھ انہی کے گھر میں رہے گی۔ جب چار برس بیت گئے تو اکر م صاحب کو انہوں نے کہا کہ ہم واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہیں، دیکھنا چاہتی ہیں کہ گھر کا کیا حال ہے۔
وہ ان کو ملتان لے آئے۔ یہاں آ کر انہوں نے رشتہ داروں کے کہنے پر جام پور میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ توا کرم صاحب نے انہیں مجبور نہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نور کے والد کی پھانسی پر عملدرآمد ہونا تھا۔ اسی سبب دونوں والپیس کراچی نہ گئیں۔ اس سانحے کے بعد سے نور کا یہ حال ہے کہ وہ ہر وقت روتی رہتی ہے کہ کسی کی خوشی ہو کہ غم، اس کو بس رونے کا بہانہ چاہیے۔ گوہر سے اس کا دل لگارہتاتھا تبھی اس کی رخصتی پر اسے رونا آگیا۔ چاچی کے منہ سے یہ تمام قصہ سن کر نور کے لئے فا خر بھائی کے دل میں اور زیادہ ہمدردی پیدا ہو گئی۔ ہم بھی بھائی کی ضد سے مجبور ہو گئے اور یوں نور میری بھائی بن کر ہمارے گھر آگئی۔ جب ہم بھائی کو ملتان سے لاہور لارہے تھے تب ان کی والدہ نے کہا کہ اس کا بیٹا مجھ سے بہل گیا ہے اور میں اکیلی ہوں تو نواسہ میرے پاس رہے گا۔ ہم نے ان کی خواہش کا احترام کیا۔ فاخر بھائی کو بھی نور کے بچے سے کوئی مطلب نہ تھا۔ ان کو نور چاہیے تھی، سو مل گئی۔
ہم ملتان آگئے۔ میں خوش تھی کہ میرے بھائی کی فیاضی سے ایک افسردہ لڑکی کو خوشیاں ملیں اور وہ آباد ہو گئی اور ہمارے درمیان خوش و خرم رہے گی۔ ہم بھی ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے تھے۔ فاخر بھائی اور نور کی شادی کے چار برس بعد اس کی ماں فوت ہوگئی، بھائی کے ہمراہ ہم کبھی جام پور گئے، واپسی میں وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے آئیں، مجھے اور اسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بظاہر تو بھائی جان کو بھی اعتراض نہ تھا کہ بچہ اکیلا رہ گیا تھا ماں کے پاس نہ ر ہتا تو ہاں رہتا۔ بچے کو اسکول میں داخل کروایا گیا۔ بھائی اس پر بہت توجہ دیتیں۔ بیٹے کا بہت خیال رکھیں کہ اس کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائوں گی۔ ہر مالی کی سہی فطری خواہش ہوتی ہے۔ سوبھائی کی بھی تھی۔ میرے بھائی نے نیکی کی تھی اور نور کو بیوی بنایا تھا تو ان کو اس فیصلے پر کوئی پچھتا وانتونہ تھا بلکہ وہ خوش تھے۔ ان کو بیوی سے کسی قسم کی شکایت نہ تھی تاہم کچھ عرصہ بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کبیدہ خاطر سے رہنے لگے ہیں۔ نور اور ان کے نت فاصلہ بڑھتا جاتا تھا۔ بیوی تو ان کو اچھی لگتی تھی لیکن گانوں سے جب ایک اجڈ گنوار سا بچہ ان کے بیڈ روم میں آ گیا تو ان کو کوفت رہے گی۔ وہ یوں محسوس کرتے کہ ان کی بیوی ایک بے وقوف اور بد تمیز بچے اٹھائی ہے کہ جس کی ان کو نہ چاہتے ہوئے کبھی دلداری کرنا پڑتی ہے۔ جب فرقان اپنی ماں سے پستا، چیتا، فرمائشیں کرتا اور ضد پر آ جاتا توبھائی کو بجھن ہونے لگتی۔ ان کا جی چاہتا کہ لڑکے کے تھپڑ لگا دیں مگر وہ اور اٹھ کر کمرے سے نکل جاتے۔
رفتہ رفتہ بھائی اور بھائی میں دوریاں بڑھنے لگیں کیونکہ فرقان روز رات کو ضد کر کے ماں کے پاس سو جاتا تھا۔ جب بھائی قاخر کی حثن زیادہ بڑھ گئی تو بنی کھنچائونے ان کو چڑچڑا اور بد مزاج بنادیا۔ وہ بات بات پر بچے کو روکنے اور ٹوکنے لگے۔ اس وجہ سے نور ان سے کھینچے گی۔ دونوں میں آن بن رہنے لگی۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ بھائی فرقان کو تھپڑ رسید کر دیتے۔ تب نور کا کلیجہ ہل جاتا اور وہ بھی پچ کے ساتھ رونے لگتی تھی۔ میری بھالی حد درجہ بے سکون ہو گئی تھیں۔ شوہر سے کہتی تھیں کہ تم میرے پچ کو برداشت نہ کر سکتے تھے تو کیوں کی تھی مجھ سے شادی۔ ہمدردی کی ہے اور اب نیا نہیں پارہے۔ تم ہی بتائو کہ اس کو برداشت نہ کرو گے تو پھر ہم کیسے ساتھ رہ پائیں گے ۔ فرقان کا ہمارے سواہے کون؟ اس کو اب عمر بھر یہاں ہی رہنا ہے۔ یہ نہ رہے گا تو میں بھی یہاں نہ رہوں کی۔ اب معاملہ سلجھنے کی بجائے مجھے لگا تھا۔ بھائی کہتی کہ فاخرتم میرے بچے سے نفرت کرتے ہو۔
بار بار یہی بات ان کے لبوں پر آجاتی۔ بالآخر ایک دن بھائی نے بھی کہہ دیا کہ ہاں میں اس سے نفرت کرتا ہوں، نہیں کر سکتا اس کو برداشت ، بے شک تم اس کو اس کے ددھیال میں دے آئو۔ پتا نہیں کیوں اس کے دو هیال والے اس کو قبول نہیں کرتے، کہیں ان کا کہنا ہی نہ ہو۔ میں تو بھائی کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر سناٹے میں آگئی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ ایسے لفظ منہ سے نکال سکتے ہیں۔ بس وہ دن آخر ہوا۔ نور بھائی کا یہ طعنہ دل میں پیوست ہو گیا۔ اس روز وہ بغیر کسی سے کچھ کہے فرقان کو لے کر گھر سے چلی گئیں۔ اس دن سخت گرمی تھی۔ کھانا کھا کر سب سو رہے تھے۔ بھائی آفس میں تھے جب دبے قدموں بھائی نے گھر چھوڑ دیا تھا۔ برسوں گزر گئے، آج تک بھائی اور ہم ان کو نہیں ڈھونڈ سکے۔ اب بھائی پچھتاتے ہیں کہ کاش! میں نے ایسانہ کیا ہوتا۔ کاش میں نے پیچھے سے حسد کرنے کی بجائے اس کو باپ کا پیار دیا ہو تا۔ پیار نہ دے سکتا تھاتو برداشت ہی کر لیا ہوتا لیکن انسان بھی عجیب مخلوق ہے، خود کو بھی سمجھ نہیں پاتا، نیکی کرنے کے لئے بھی بڑا حوصلہ چاہیے۔ اگر بھیانے حوصلے سے کام لیا ہوتا تو دور کیوں پھر سے در بدر ہوتی
0 Comments