Urdu Short Story Abb Na Bichrein Gay New Urdu Story |
میری ماں ایک خوبصورت عورت تھی جبکہ والد صاحب معمولی شکل و صورت کے انسان تھے ۔ ماں شادی سے پہلے کسی اور کو چاہتی تھیں۔ یہ ان کا اپنا کزن تھا۔ اس کا نام عباس تھا۔ امی کی شادی اس سے نہ ہو سکی جس کا ان کو بے حد رنج تھا۔ یہی وجہ تھی کہ امی جان نے میرے والد صاحب کو کبھی کبھی دل سے شوہر قبول نہ کیا۔ دونوں کی ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر آن بن رہتی تھی۔ ان لڑائی جھگڑوں میں قصور وار میری والدہ ہوتی تھیں۔ اباجان طبیعت کے حلیم اور بھلے مانس تھے۔ وہ شیر فساد سے نفرت کرتے تھے۔ ائی چونکہ ان کے ساتھ رہناہی نہ چاہتی تھیں اس لئے بات بے بات وہ ان کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھتی تھیں جس کی وجہ سے ہمارے گھر کی فضا مکدر رہتی تھی۔
ایسی فضا سے پچ بچارے خود بخود متاثر ہوتے ہیں، ہم بھی پریشان اور ناخوش رہتے تھے۔ گھر میں اور بھی لوگ تھے مثلا دادا، دادی، پھو پھی اور چھایہ سب امی، ابو کی کشیدگی سے پریشان ہوتے تھے۔ میری دادی سمجھدار اور صابر عورت تھیں۔ وہ ہمیشہ بہو کی طرف داری کر دیں تا کہ بہو کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ وہابا جان کو سمجھا بجھا کر چپ کرادیتی تھیں۔ دادی جان کے اس طرز عمل سے ہونا یہ چاہئے تھا کہ امی جان ، دادی کی قدر کرتیں مگر ہوتا یہ کہ وہ اور بھی شیر ہو جاتی تھیں۔ مجھ کو اسی کی یاد میں قطعی پسند نہ تھیں۔ ان دنوں میں سات سال کی تھی جبکہ میرا بھائی پانچ سال کا تھا۔ پھو پھی کی شادی ہونے والی تھی۔ گھر میں ان کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ چی شہر کے کالج میں پڑھ رہے تھے کہ ایک دن امی اور ابو کا جھگڑا بڑھ گیا۔ امی ہر وقت ابو سے کہا کرتی تھیں کہ ماں کو پیسے مت دیا کرو۔ ماں کے ساتھ بات نہ کیا کرو۔ ابا جان سمجھاتے تھے کہ بیگم ! میں اپنی ماں سے نہ بولوں گا یا نہیں پیسے نہ دوں گا تو کون دے گا؟
ان کے بڑھاپے کا سہارا کون بنے گا؟تب ای جان چی کا نام لیتیں کہ عارف بھی تو ہے، وہ کس لئے ہے۔ ابو کہتے لیکن ابھی تو عارف پڑھ رہا ہے۔ جب اس کی نوکری لگ جائے گی پھر بے شک ہم علیحدہ ہو جائیں گے۔ فی الحال ان لوگوں کو میں بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا۔ بس یہی بات اتنی بڑھ گئی کہ ابا جان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ داد انہیں شہر کے اسپتال لے گئے جہاں ان کو داخل کر دیا گیا اور ان کا علاج ہونے لگا۔ دادا جان جب ابو کو اسپتال چھوڑ کر گھر لوٹے توانی نے طوفان کھڑا کر دیا کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔ مجھ کو طلاق چاہئے۔ دادا نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ میرا بیٹا اسپتال میں ہے، وہ پیار ہے ، تم اس کو گھر تو آنے دو لیکن امی نہ مانیں اور اٹھ کر اپنے میکے چلی گئیں۔ اس وقت میرا چھوٹا بھائی شازی اسکول گیا ہوا تھا۔ امی نے اس کے گھر لوٹ آنے تک کا انتظار نہ کیا اور مجھ کو وہ اپنے ہمراہ لے کر میکے چلی آئیں۔ میکے آنے کے بعد امی نے عدالت میں طلاق کے لئے کیس دائر کر دیا۔ ابو جان نے جب دیکھا کہ بیوی کسی طور پر بھی مجھوتے پر راضی نہیں ہے تو انہوں نے امی جان کو مزید کمیس لمبا ہونے سے پہلے طلاق دے دی۔
طلاق کے چھ ماہ بعد امی نے اپنے اسی کزن عباس سے دوسری شادی کرلی، جس سے وہ پہلے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ وہ عباس کے گھر لے آئیں۔ مجھ کو نہیں معلوم میرا یہ دوسرا بو اچھا آدمی تھا کہ برا ! لیکن مجھ کو اس سے سخت نفرت محسوس ہوتی تھی۔ جب وہ گھر آجاتا تو میں کمرے میں بند ہو جاتی اور اپنے ابو کا پیار یاد کر کے روتی رہتی۔ میرے ابو چند دن اسپتال میں رہے پھر جب وہ ٹھیک ہو کر گھر آگئے تو بونے دادا سے کہا۔ جاکر میری بیٹی عاشی کولے آئو۔ دادا نے شہر سے چچا کو بلوایا اور انہیں میری امی کے گھر بھیجا۔ میں کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی جب میں نے چاکو آتے دیکھا۔ دوڑ کر میں امی کے پاس گئے۔ انہیں بتایا کہ عارف چھا گئے ہیں۔ آئی نے چچ کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ آنے کا مقصد پوچھا۔ چچا نے کہا۔ عاشی کو لینے آیا ہوں۔ باباجان نے کہا ہے کہ جب تمہارا دل ان بچوں سے ملنے کو چاہے تو انہیں اپنے پاس منگوا سکتی ہو لیکن اس مسئلے پر عدالتوں میں جانے یا جھگڑے کو لمبا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ای جان بھی شاید یہی چاہتی تھیں۔ انہوں نے
کہا۔ ٹھیک ہے۔ پھر انہوں نے مجھے آواز دی۔ میں دوڑ کر کمرے میں آئی، سامنے میرے
چچاجان بیٹھے تھے۔ میں جا کر ان کے گلے لگ گئی۔ چھامجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ مجھ
سے پوچھا۔ عاشی ! میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ میرے ساتھ گھر چلو گی ؟ میں نے کہا۔ ہاں
! میں شازی کے لئے اداس ہوں۔ مجھے اس کے پاس لے چلیں۔ میری ماں نے مجھ کو نہلا
دھلا کر اچھے کپڑے پہنائے، پیار کیا اور چچا کے ساتھ روانہ کر دیا۔ گھر آ کر میں
بہت خوش ہوئی۔ دوڑ کر ابو کے گلے لگ گئی۔ سب نے مجھے بہت پیار کیا۔ ابو کی آنکھوں
سے آنسو چھلک پڑے۔ شازی مجھ کو دیکھے کر بہت خوش ہوا اور مجھ سے لپٹ گیا اور
پوچھنے لگا کہ کاش ! امی کیوں نہیں آئیں، وہ کب آئیں گی ؟ جلد ہی چیاکی نوکری لگ
گئی، پھر دادی نے ان کی شادی کر دی۔ پچھی بہت اچھی تھیں، مجھ سے پیار کرتیں، وہ
مجھ کو ذرا بھی دور نہیں ہونے دیتی تھیں۔ ایک سال بعد ان کے ہاں بیٹی پیدا ہو گئی،
پھر چاکی تبدیلی ہو گئی اور وہ چی اور اپنی بیٹی کو لے کر دوسرے
شہر چلے گئے۔
دادا جان کا انتقال ہو گیا۔ گھر میں دادی کے پاس صرف میں اور شاز ہی رہ گئے۔ ابو مسیح کام پر چلے جاتے۔ میں اور شازی اسکول چلےجاتے۔ دادی گھر میں اکیلی رہ جاتیں۔ لوگ بہت کہتے، تم اکیلی ہو گئی ہو، بڑے بیٹےکی دوسری شادی کر دوں مگر ابو دوسری شادی پر رضامند نہ ہوتے۔ وہ کہتے تھے ، سوتیلی ماں آکر میرے بچوں کو پریشان کرے گی۔ شازی نے میٹرک کر لیاتو ابو نے اس کو شہر کے کالج میں داخل کر دیا۔ ایک دن میں گھر میں اکیلی تھی۔ دادی پڑوس میں گئی ہوئی تھیں اور ابو کام پر گئے تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے پوچھا۔ کون ہے؟ جواب ملا۔عاشی! دروازہ تو کھولو۔ تمہاری امی نے بھیجا ہے۔ اسی کا نام سن کر میں نے دروازہ کھول دیا۔ ایک نوجوان دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے کہا۔ میں عباس کا چھوٹا بھائی ہوں لیکن تمہاری والدہ کا دیور ہوں۔ انہوں نے مجھے تمہاری اور تمہارے بھائی کی خیریت معلوم کرنے بھیجا ہے اور یہ عید کے لئے کچھ تھے بجھے ہیں۔ میں نے اس کا نام پوچھا۔ وہ کہنے لگا۔ میر انام ریاض ہے۔ میں نے ریاض کو اندر بلالیا، اس سے چائے وغیرہ کا پوچھا۔ میں چائے وغیرہ نہ پیوں گا، تمہاری دادی کہاں ہیں؟ شازی شہر کے کالج میں پڑھتا ہے، دادی نہیں گئی ہوئی ہیں ؟ اچھا ! تم گھر میں اکیلی ہو ؟ ہاں ! میں نے سادگی سے جواب دیا۔ ریاض نے مجھے اکیلا پا کر کچھ چالاکی سے کام لینا چاہالیکن میں گھبرا کر رونے گئی تو وہ چلا گیا کیونکہ اس کو یہ خوف بھی تھا کہیں دادی اچانک نہ آجائیں۔
جب دادی آئیں تو میں نے انہیں وہ چیز میں دکھائیں جو الی نے ہمارے لئے بھیجی تھیں مگر در میان والے واقعہ کا ذکر نہ کیا کیونکہ مجھ کو ڈر تھا کہ اگر میں نے ریاض کی جسارت دادی جان کو بتادی تو وہ آند های جان سے رابطہ ختم کر دیں گی۔ یہ صرف میں نے اس لئے کیا کہ میری امی کو تکلیف نہ ہو۔ اس واقعہ کے دو سال بعد دادی کا انتقال ہو گیا۔ اب گھر میں ابو اور میں اکیلے رہ گئے۔ انتقال کی خبر امی کو ملی تو وہ اچانک ہمارے گھر آئیں۔ اس روز دادی جان کو فوت ہوئے پندرہ دن ہو چکے تھے۔ میں اپنے کمرے میں سورہی تھی کہ مجھ کو سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ میں اٹھ بیٹھی اور ابو جان کے کمرے کی طرف گئی۔ دیکھاتوای کرسی پر بیٹھی رورہی ہیں۔ انہوں نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپارکھا تھا۔ ابوان کے سامنے پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ افسردہ اور خاموش تھے اور کسی سوچ میں غرق تھے۔ امی کو اچانک گھر میں دیکھ کر مجھ کو خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ یہ کیسے ہو گیا۔ جب سے امی اس گھر سے گئی تھیں، وہ پھر بھی یہاں لوٹ کر نہ آئی تھیں ، نہ ابو کے سامنے آئی تھیں۔ آج کیسے آگئی تھیں جبکہ ان کی اور جگہ شادی ہو چکی تھی۔ ائی نے مجھے سر اٹھا کر دیکھا۔
میں نے انہیں بہت غمزده ایالات میں ضبط
نہ کر سکی۔ دوڑ کر ان سے لپٹ گئی۔ ہم دونوں ماں بیٹی رورہی تھیں اور اب بھی رورہے
تھے۔ اسی کی زبانی معلوم ہوا کہ ان کی عباس سے طلاق ہو گئی ہے کیونکہ عباس اچھا
انسان نہیں تھا۔ اس نے اس عرصے میں امی کو بہت دکھ دیئے اور پریشان رکھا۔ آخر امی
کو طلاق دے دی۔ امی نے رورو کر ہر بات ابو کو تفصیل بتادی۔ وہ بار بار کہتی تھیں
کہ اپنے ان بچوں کے واسطے تم مجھے معاف کر دو۔ مجھ سے بڑی بھول ہو گئی جو اس
بے وفا شخص کی خاطر میں نے اپنے پیارے بچوں اور
اس گھر کو چھوڑا تھا۔ ائی یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ اگر آج میری ساس یاسر زندہ ہوتے
تو مجھ کو اس گھر سے نہ جانے دیتے، وہ مجھے دو بار روک لیتے۔ میں نے امی کی باتوں
سے مجھ لیا کہ وہ دوبارہ اس گھر میں لوٹ کر آناچاہتی ہیں۔ تب میں نے ابو جان سے
کہا۔ آپ ہی امی جان کو معاف کر دیئے۔ بے شک ای قصور وار
ہیں مگر اس کی انہیں کافی سزا مل چکی ہے۔ عباس سے ان کو طلاق ہو چکی ہے۔ آپ ان سے
دوبارہ نکاح کر کے انہیں ان کا گھر واپس کر دیے ، جب میں نے بہت کہا تو ابو جان
بولے۔ اچھا میں سوچوں گا، پہلے شازی سے پوچھ لوں، تب تک یہ میکے چلی جائیں۔ میں
پھر خود جا کر ان کے والد اور بھائیوں سے بات کروں گا۔ جب سے امی کو طلاق ہو گئی
تھی۔ دادا جان اور دادی نے اس کے بعد میں اپنے ننھیال بھی نہ بھیجا تھا۔ ہم اس کے
بعد پہلی بار ابو کے ساتھ نانا کے گھر گئے۔ نانا جان ابو کے آنے کا مطلب سمجھ چکے
تھے۔ انہوں نے میرے والد کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا کیونکہ ابو کا
تو میرے نانا جان سے جھگڑانہ ہواتھا۔ نانا اب بھی ابو کی عزت کرنے پر مجبور تھے۔
پھر ہم نواسوں کے ناتے بھی ان کا ابو سے رشتہ
برقرار تھا۔ میں اور شازی نے نانا کو منت سماجت کر کے منالیا اور وہائی کا نکاح
ابو سے دوبارہ کرنے پر راضی ہو گئے چونکہ اس سارے ایسے میں قصور وارامی تھیں،
المذاہر ایک نے ابو جان کو دوبارہ گلے لگانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ دس سال کے بعد
اسی پھر سے اپنے گھر لوٹ آئیں لیکن ایک نئی عورت کے روپ میں ! وہ پہلی سی عورت نہ
تھیں، نہ ابو سے لڑتی جھگڑتی تھیں بلکہ ان کی بے حد خدمت، عزت اور قدر کرتی تھیں۔
انہیں اپنے کئے پر ندامت تھی، اپنی غلطیوں کا احساس تھا۔ ابو نے انہیں معاف کر کے
عظمت کا ثبوت دیا تھا اور امی ان کی احسان مند تھیں، شکر گزار تھیں۔ اس کے بعد
ہمارا گھر سکون کا گہوارہ بن گیا۔ میں اب شادی شدہ ہو چکی ہوں ۔ شازی کی کبھی شادی
ہوگئی ہے لیکن امی، ابواب کبھی آرام و سکون سے رہتے ہیں۔ ان کے در میان بھی لڑائی
نہیں ہوئی۔ میں اللہ کے اس معجزے پر اس کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے ابو کا گھر
پھر سے بسادیا اور وہ بھی سکون کے ساتھ ! بے شک انسان غلطی کر کے ہی سدھرتا ہے۔
0 Comments