Shaheed-Salamat-Rehte-Hein-شہیدسلامترہتےہیں |
ان دنوں روحانیت کے لفظ سے ناآشامیں ایک چھوٹی سی بچی تھی، نہیں جانتی تھی کہ روح اور جسم میں کوئی تعلق بھی ہوتا ہے۔ میں تو اتنا ہی سمجھتی تھی کہ بس سانس نکلی اور انسان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ عالم ارواح کیا ہے؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی کیا ہوتی ہے اور مرنے والے کا کوئی تعلق اس دنیامیں رہنے والوں سے باقی رہتا ہے؟ یہ باتیں تو آج بھی میری سمجھ سے بالاتر ہیں لیکن میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ عمر بھر نہ کھلا سکوں گی۔ پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ گھر میں خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ میں ان دنوں ماں اور باپ دونوں کی امیدوں کا واحد چراغ تھی۔ اکلوتی ہونے کے سبب ماں باپ کا اتنا پیار ملا کہ لگتا تھا نیا کی ہر خوشی میری جھولی میں پڑی ہے۔ امی ابو کے بغیر ایک پل میرے لئے گزارنا مشکل تھا۔
وہ بھی مجھ کو اس قدر چاہتے تھے کہ ہماری تین زندگیوں کا یہ شادث، آفتاب اور انجم و مہتاب کی مانند جگمگارہاتھا۔ میرے والدین حسن میں اپنی مثال آپ تھے۔ دیکھنے والے انہیں دیکھ کر چاند سورج کی تشبیہ دیا کرتے تھے، دولت، شہرت، آسودہ زندگی اور شمع پروانے کی طرح ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے والے میاں بیوی ہوں تو زندگی خوشگوار کیونکر نہ گزرے گی۔ میں اسی پرسکون جوڑے کی بسائی ہوئی جنت میں بے فکری کے دن گزار رہی تھی۔ کتا تھا ہماری خوشیوں کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ دکھ، پریشانی، غم کے سائے کیا ہوتے ہیں، میں نے کبھی ان کی جھلک نہ دیکھی تھی۔
ہمارے پر مسرت گھر کی کسی در ز میں پریشانیوں کی ہلکی سی رمق بھی داخل نہیں ہو پائی تھی۔ اچانک ہی ایک دن پتا چلا کہ جنگ کے بادل ہمارے ملک پر خوب گھن گرج سے منڈلانے لگے ہیں۔ یہ 1971ءکا سال تھا جب میرے والد صاحب اپنے فرائض منصبی کی خاطر بڑے عزم سے وطن عزیز کے دفاع کے لئے اپنا کرادر ادا کرنے روانہ ہوئے تھے۔ جنگ شروع ہوئے پانچ دن گزر چکے تھے۔ اتنے دنوں میں ابو صرف ایک بار چند منٹ کے لئے ہم سے ملنے گھر آ سکے تھے۔
ووجب بھی دشمن کے کسی علاقے پر بمباری کر کے کامیاب لوٹتے، اور اس کی اطلاع ہم کو فون پر دیتے تھے اور ہم خدا کا شکر بجالاتے تھے۔ امی اور دادی ہر لمحہ ابو کی اور وطن کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہتی تھیں۔ ان دنوں زندگی صرف اخبارات ، ریڈیو اور ٹیلی وژن سے عبارت تھی۔ اس روز اونے علی الصباح و همین کے دو تین علاقوں پر بمباری کے لئے پرواز کی تھی۔ اپنے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے فون پر آئی اور مجھ سے بات بھی کی۔ ہمیں تسلی دیتے ہوئے اپنے کامیاب اور بامراد لوٹے کی امید ظاہر کی تھی۔ ابو سے فون پر بات کرتے کرتے میری آواز بھرا گئی تھی۔
تبھی وہ میری دلجوئی کی خاطر بولے کہ تم ایک محافظ کی بیٹی ہو کر آزردہ ہوتی ہو۔ کبھی میری بیٹی ہو کر چڑیا جیسے دل کی مالک کیسے ہو سکتی ہو ؟ زیادہ پریشان نہ ہو ، اپنے مشن کو مکمل کرتے ہی میں فور تمہارے پاس آجائوں گا اور ناشتہ ہم ساتھ کریں گے۔ ابو کی اس بات نے سچ مچ میرے سہمے ہوئے دل کو ڈھارس دی اور بے چینی سے ان کی آمد کا نتظار کرنے لگی۔ محوں پر محیط انتظار کی یہ من گھٹڑیاں، صدیاں کی ہو کر مجھ سے کانٹے نہ کٹ رہی تھیں۔ گھنٹہ دو گھنٹے تین اور چار گھنٹے گزر گئے۔ ابو کانہ فون آیا اور نہ وہ خود ہی آئے۔ ان کے آفس میں فون کر کے معلوم کرنا چاہامگر وہاں بھی کسی کو علم نہ تھا۔
دوپہر گزر گئی، شام ہوگئی، رات کی تاریکی ہر سو پھیل گئی، لیکن ابو کو نہ آناتھانہ آئے۔ میں اور اسی سخت پریشان تھے۔ بار بار ان کے آفس فون کرتے ۔ قرآن پاک کی جتنی سورتیں یاد تھیں، دل ہی دل میں ان کاور در کھتے ہوئے ان کی سلامتی کی دعا کرتے رہے تھے۔ دوسرے دن کا سورج بھی طلوع ہوا اور پھر شام ڈھلے دور کہیں افت کے اس بار غروب ہو گیا اور دن گزرتے رہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہو گیا۔ ہمارے ہزاروں جڑی قومی دشمن کے نرغے میں پھنس گئے۔ آئے دن قیدیوں کے ناموں کا اعلان ہوتا لیکن ان میں میرے ابو کاکہیں نام نہ ہوتا۔ شہید ہونے والوں کی سرکاری طور پر اطلاعات ان کے گھروں کو بھیجی جارہی تھیں۔ جس جس گھر میں شہادت کی اطلاع پیت، وہاں کہرام مچ جاتا۔
ہمارے علاقے میں چونکہ سب وطن کے محافظوں ہی کے گھر تھے۔ اسی لئے ہر گھنٹہ دو گھنٹہ بعد کسی نہ کسی کے گھر شہادت کی اطلاع آجاتی تھی۔ انسان اپنے جذبات کو کتنا بھی قابو میں رکھنے کی کو شش کیوں نہ کرے مگر جذبات پر بند تو نہیں باندھا جاسکتا اور نہ آنسوئوں کو سینے سے روکا جاسکتا ہے۔ پاس پڑوس میں اکثر گھرانوں میں شہیدوں کے لئے فاتہ خوانی ہوتی، قرآن پاک کے ختم ہوتے اور لوگ پھر سادینے آتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر ہمار اؤ دکھ اور سوا ہو جاتا۔ میں کہتی۔ ای ہم کتنے بد نصیب ہیں ابو کو زندہ سمجھ کر نہ تو خوش ہو سکتے ہیں اور نہ ان کو شہید سمجھ کر فاتحہ کے لئے ہاتھ بلند کر سکتے ہیں۔
یہ لوگ جس کو اطلاعات مل جاتی ہیں کم از کم ان کو یہ کشش تو نہیں رہتی کہ جانے ہمارے پیارے کس جگہ کس حال میں ہیں یا ان پر کیا بیتی ہے؟ کب لوٹیں گے وو، ان کی شہادت پر صبر کر لیتے ہیں مگر ہماری گومگو کی کیفیت تو بس جیے اور مرنے والی تھی۔ ان دنوں مجھے ابو کی یا شدت سے آیا کرتی تھی۔ چکے چہکے خدا سے دعامانگتی۔ اے الله ابو کے بارے میں بس میں صورت حال سے آگاہ کر دے۔ وہ زندہ تو ہیں۔ اگر شہید ہو گئے ہوں تو بھی ہمیں اس کا علم ہو جائے اور میرے رب ہمیں حوصلہ و صبر بھی دینا۔ میں اکثر شام کو اکیلی ہی مہلتی ہوئی دور تک نکل جاتی، چونکہ ہمارا علاقہ الگ تھلگ تھا، لہذا کسی قسم کا ڈر خوف یہاں نہیں تھا۔ ماری پور کے اس علاقے میں رات تو کیادن کو بھی دور دور تک رش نہیں ہوتا تھا اور کوئی نظر نہیں آتا تھا۔
مجھ کو یہاں چہل قدمی کرنے سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اکیلی ہی یو نہی واک کرتی دور تک جانکلتی۔ اس روز چہل قدمی کرتے اور بے حد یاد آرہے تھے۔ راستے بھر ان ہی کے بارے سوچتی جارہی تھی۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو میں نے واپسی کا سوچا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی گھر کی سمت آرہی تھی کہ معا ابو کی شبیہ ذہن میں ابھری اور آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ اس روز کے دل سے ان کو یاد کیا تھا کہ احساس ہو اور میرے ساتھ چل رہے ہیں۔ کچھ دیر چلتی گئی تو احساس ہوا کوئی میرا تعاقب کر رہا ہے۔
میں نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ سوچا وہم ہے یہ میرا۔ یہ سوچ کر میں نے گھر کی راہی اور قدم تیز کر لئے۔ تھوڑا سا آگے چلی ہوں گی کہ مجھ کو پھر سے کسی کے ساتھ ساتھ چلنے کا احساس ہوا۔ قبل اس کے کہ پلٹ کر دیتی، کھلی آنکھوں سے کیا سمجھتی ہوں ابو میرے سامنے کھڑے ہیں اور وردی پر خون لگا ہوا ہے مگر چہرے پر تکلیف نہیں ہے، مسکرارہے ہیں ، لبوں پر دلکش خفیف سی مسکراہٹ ہے، چہرے پر سکون ہے۔ لب ہلتے ہیں۔ کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کہتے نہیں ، چپ ہو جاتے ہیں۔
خون سر کے بالوں میں لگا ہوا تھا اور خون کی لکیریں ماتھے سے بہہ کر چہرے پر آرہی ہیں جیسے سر پر زخم گئے ہوں۔ میں ان سے سوال کرتی ہوں ۔۔ ابو کیا آپ شہید ہو گئے ہیں؟ وہ من موہنی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر کو ہلاتے ہیں۔ ابو کیا آپ ہی بتانے آئے ہیں؟ ان کے لب جنبش کرتے ہیں۔ ”ہاں“ کے انداز میں مگر آواز مجھ تک نہیں آتی۔ ابوں کی جنبش سے بات کو سمجھ جاتی ہوں۔ اچھا ابو ھر چلنے میں وفور جذبات سے ان کے گلے سے لگ جانے کو آگے بڑھتی ہوں تو وہ ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیتے ہیں، پھر گھر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مطالب یہ کہ بس آپ کھیر جائو۔ جی میں قدم ان کی طرف بڑھاتی ہوں اور وہ میری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ میں ششدر کھٹری تھی، سوچ رہی تھی یہ کھلی آنکھوں سے جیتے جاگتے میں نے کیا دیکھ لیا۔
اپنے والد کو کیسے دیکھ لیاز نده گر زخمی ان سے کلام بھی کیا، انہوں نے جواب بھی دیا، بغیر بولے اور ان کے جواب کو میں نے سمجھ بھی لیا۔ اللہ یہ تونے مجھے جاگتی حالت میں کیا کھادیا؟ کیسی انہونی کہ کوئی اور تو یقین کرے گا ہی نہیں۔ اس بات کا خود مجھ کو بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ دن رات ایک ہی بات سوچتی تھی۔ ابو کہاں ہیں؟ کسی حال میں ہیں؟ میں ان کو دیکھنا، ان سے ملنا چاہتی تھی۔ شدید آرزو تھی ان سے ملاقات کی۔ دن رات دعائیں کرتی تھی۔ اللہ ابو میرے جہاں بھی ہیں، سلامت رہیں اور پھر گھر کے راستے میں میر کی جاگتی آنکھوں نے ان کو زندہ سلامت دیکھ لیا۔ کس حال میں تھے یہ بھی دیکھ لیا۔ گویا میر ان سے روح کا تعلق قائم ہوا تھا۔ لمحہ بھر کو اور میری دعا بھی قبول ہو چکی تھی کہ جہاں ہوں زندہ سلامت ہوں، تو انہوں نے میرے رو برو آ کر بتادیا کہ میں شہید ہوں اور زندہ سلامت ہوں کہ شہید مرا نہیں کرتے۔
یہاں تک کہ ان کو رزق بھی اللہ کی طرف سے ملتا رہتا ہے۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ میرے دل سے نکلی د عا اثر تھاجو میں جانے کو بے تاب تھی، وہ جان گئی۔ انہوں نے خود آ کر مجھ کو اپنے بارے میں اطلاع دے دی تا کہ میر اضطراب ختم ہو اور سکون مل جائے۔ ان کے نظروں سے اوجھل ہو جانے کے بعد کتنی ہی دیر تک میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس راستے کو دیکھتی رہی۔ میری نگاہیں ان کو تلاش کرتی رہیں مگر وہ نظر نہ آئے۔ روح کا رشتہ بس ایک ساعت کو قائم ہو اور پھر ٹوٹ گیا۔ بانی کانی بمشکل گھر بھی گھر آ کر اسی کو سارا واقعہ سنایا۔ ممکن ہے کہ لوگ اس واقعے پر یقین نہ کریں لیکن جو میں نے دیکھا، محسوس کیا، اس پر مجھے پورا یقین ہے کہ میں نے ان کی ایک جھلک زندہ حالت میں دیکھی تھی۔ اس میں تصور یاخواب کا دخل نہیں ہے۔ تاہم آج بھی میں اس مکھی کو حل نہیں کر سکی کہ مرنے والے کی روح کیا واقعی اپنے کی زندہ پیارے رشتہ دار سے رابطہ کرتی ہو گی یارو میں واقعی اس دنیا میں واپس آسکتی ہیں ؟
0 Comments