Zabardasti-Ka-Soda-زبردستی کا سودا |
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈھا کہ فال ہوا تھا۔ احمد بھی اپنے گھر والوں کے ہمراہ مشرقی پاکستان سے آیا تھا۔ یہ لوگ خاصے پریشان تھے۔ نئی جگہ پر پھر سے زندگی کی جد و جہد شروع کرنا تھی۔ کچھ رشتے دار یہاں تھے، پھر وہیں رہ گئے تھے جن کے انجام کا بھی علم نہ تھا۔ ہمارے ہی محلے میں احمد کے چا ہتے تھے۔ یہ کنبہ انہی کے گھر آ کر ٹھہرا۔ احمد کے چھپانے ابابی کو ان کے حالات بتانے اور کرائے کے مکان کے لئے کہا۔ اتفاق سے ہماری گلی میں ایک مکان بہت دنوں سے خالی پڑا تھا۔ مالک مکان کے ابادی سے بہت اچھے مراسم تھے بلکہ ہماری آپس میں رشتے داری بھی تھی۔ ابا جان کی ضمانت پر یہ مکان احمد کے والد کو کرائے پر مل گیا اور یہ لوگ ہمارے پڑوس میں آ بسے۔ احمد کی امی بڑی اچھی خاتون تھیں۔
امی جان سے بہت جلد ان کا بہنا پاہو گیا۔ اس طرح دونوں گھرانے ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے۔ میں احمد کے گھر جاسکتی تھی اور وہ بھی ہمارے گھر آ جاتا تھا۔ میں انگریزی میں کمزور تھی جبکہ احمد کی انگلش بہت عمدہ تھی۔ ایک دن میں نے ایسے ہی کہا کہ میں تو اس بار انگلش کے پرچے میں فیل ہو جائوں گی۔ احمد کی امی بیٹھی سن رہی تھیں۔ وہ کہنے لگیں۔ بیٹی تم احمد سے کیوں نہیں پڑھ لیتیں، اس کی انگریزی بہت اچھی ہے۔ انگلش میڈیم اسکول کا پڑھا ہوا ہے۔ امی نے بھی کہا کہ ہاں بیٹا چند دن اس سے پڑھ لو۔ اس طرح میں احمد کے قریب ہو گئی۔ وہ جب ہمارے گھر آتا، میں پڑھائی کے بہانے اس کے پاس جا نشستی۔ ہم جب بھی ملتے تو عام نوجوانوں کی طرح احمد عشقیہ مکالے نہ بولتا بلکہ زندگی کے حقیقی پہلوئوں پر روشنی ڈالا کرتا۔ وہ واقعی بہت ذہین تھا۔ ہمیشہ اپنی کلاس میں فرسٹ آتا تھا۔
اس کے ارادے بلند تھے اور خیالات پاکیزہ۔ وہ چاہتا تھا کہ انجینر بن کر ملک و قوم کی خدمت کرے ۔ میں اس کی اس بات کا اکثر مذاق بھی اڑاتی کہ تمہاری عمر میں تمام طالب علم میں سوچتے ہیں کہ ڈاکٹر ، انجینر بن کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے مگر جب اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو صرف دولت کے لانے میں اپنا ملک اور اپنے عزیزوں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ احمد مجھے سمجھتا تھا کہ سب کے بارے میں ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ ہر ایک کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ سب ہی دولت کے لا پچی نہیں ہوتے۔ اس کے شوق دلانے سے میں نے کتابوں کی طرف توجہ دی اور پڑھائی میں دو بھی لینے گی ورنہ مجھے پڑھنے کا شوق نہ تھا۔ میں نے جب میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لے لیاتو مجھے اس سے کافی لگائو ہو چکا تھا اور ہماری آپس میں دپی کا اظہار ہمارے گھر والوں پر بھی واضح ہو چکا تھا۔ دونوں گھرانوں میں مراسم اس قدر اچھے تھے کہ ہمارے والدین نے میر کی اور احمد کی محبت کو بھانپتے ہوئے ہماری منگنی کر دی۔
تمام لوگ خوش تھے۔ میری اور احمد کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا۔ اب اس بات میں کوئی شک نہ تھا کہ احمد کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہم ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہو جائیں گے۔ لیکن ایک شخص ہماری منگنی سے خوش نہ تھا اور وہ احمد کا چاغفار تھا جو اپنی لڑکی کی شادی اس جیسے ہونہار نوجوان سے کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ احمد نے اس کی جانب توجہ نہ دی تھی۔ ایک بار چا نے بلا کر اس کو سمجھایا بھی تھا کہ بیٹے غیروں سے اپنے اچھے ہوتے ہیں۔ تم ان لوگوں سے منگنی ختم کر ڈالو۔ میں اپنی بیٹی نہیں دیتے پر تیار ہوں۔ مگر احمد نے صاف انکار کر دیا تھا۔ کہا کہ چچاجان یہ دلوں کے سودے ہوتے ہیں۔
اس میں زبردستی اچھی نہیں ہوتی۔ پھران شریف لوگوں میں منگنی ہو چکی ہے۔ اگر منگنی ٹوٹ گئی تو وہ لوگ اپنے رشتے داروں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ احمد کے چا یہ جواب سن کر چپ ہو گئے۔ احمد سے کچھ نہ کہا۔ احمد بھی یہی سمجھا کہ چچا جان کی سمجھ میں اس کی بات آگئی ہے۔ منگنی کے دو ماہ بعد اچانک احمد کو اسکالر شپ مل گیا اور وہ انجینئرنگ کی اعلی تعلیم کے لئے بیرون ملک روانہ ہو گیا۔ وہ تو شادی کر کے جانا چاہتا تھا لیکن اباجان نے سمجھایا کہ اس طرح شادی کر کے لڑکی کو پابند کر جانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ پھر ذکیہ کو سسرال میں اور تمہیں غیر ملک میں رہنا پڑے گا۔ ابھی تو ہمارے یہاں ہے تو کچھ پڑھائی کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ کم از کم اس کو بی اے تو کر لینے دو۔ یہ تمہارے مستقبل کا سوال ہے۔ چند دنوں کی تکلیف برداشت کر لو۔
یوں بڑی مشکل سے احمد جانے پر راضی ہوا۔ ہم سب اس کو امیر پورٹ رخصت کرنے کے لئے گئے تھے۔ وہ ہماری دعائوں اور آنسوئوں کے درمیان ہاتھ ہلاتا ہوا رخصت ہو گیا۔ چھ ماہ بیت گئے۔ احمد کے خطوط آتے تھے جس میں وہ لکھا کرتا تھا۔ اس ڈیز تھوڑے دنوں میں آنے والا ہوں اور پھر شہنائیوں کی گونج میں تمہیں اپنے گھر لے آئوں گا۔ احمد کے تمام خطوط اس کے والد اور چھیا کے دفتر کے پتے پر آیا کرتے تھے۔ دونوں بھائیوں کا دفتر ایک ہی تھا، اس لئے بھی احمد کے والد اور بھی چاہمارے گھر خطوط دے جایا کرتے تھے۔ ایک دن احمد کا ایک خط ابا جان کے نام آیا۔ اس میں اس نے معذرت کے ساتھ لکھا تھا کہ اس نے ایک انگریز لڑکی سے شادی کر لی ہے اور اب وہیں مستقل قیام کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی قسم کا ایک خط اس کے والد کے نام بھی تھا۔
تحریر وہی ایک جیسی تھی، شے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، پھر بھی مجھے یقین نہ آتا تھا۔ میں نے آنسوئوں سے بھیگا ہواخط احمد کو لکھا، جس کا جواب بھی و بیانی ملا کہ جواباجان کو وہ لکھ چکا تھا۔ یہ خط پڑھا تو میرا دل ٹوٹ گیا۔ اتنا صدمہ ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ میرے تو سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ چراغ ہی بجھ کر رہ گئے جنہوں نے میرے دل کی دنیاروشن کر رکھی تھی۔ میں پیار ہو گئی۔ ایک ماہ سر پیکار رہی۔ یہ بات سارے خاندان میں پھیل گئی کہ ذکیہ کے منگیتر نے بیرون ملک جا کر شادی کر لی ہے۔ اسی دوران میرے ماموں جان اپنے بیٹے کے لئے میرا رشتہ لے آئے۔ امی تو پہلے ہی افسرده تھیں۔ ایسے وقت بھائی کو انکار نہ کر سکیں اور یوں میر کی شادی طے ہوگئی۔ شادی تو کہیں نہ کہیں ہوناہی تھی۔
چاہے میں انکار کر تی یا قرار۔ اب ماں باپ کو صدمه دینامیرے بس کی بات نہ تھی۔ جو میں نے چاہا تھا اس کا انہوں نے احترام کیا تھا۔ میرے نصیب کہ بنی ہوئی بات بگڑ گئی۔ اس میں میرے والدین کا کوئی قصور نہ تھا۔ پھر میں انہیں کس بات کی سزادیں۔ انہوں نے مجھے سمجھایا اور التجا کی کہ اب میں ان کی خواہش کا احترام کر لوں اور مجھے احترام کرتے بھی، میر کی شادی ماموں زاد بھائی سے ہو گئی۔ میں فرخ کی دلہن بن کر ان کے گھر چلی گئی۔ وقت گزرتا گیا۔ تین سال پک جھپکتے گزر گئے۔ احد لوٹا تو اس کی د نیاند ھیر ہو چکی تھی۔ جب وہ اباجان سے ملا تو پتا چلا یہ سارا چکر ان کے چچاجان کا چلایا ہوا تھا۔ یہ وہی تو تھے جو لفافوں میں خطوں کو تبد یل کر دیتے تھے۔ احمد کے خطوط اپنے پاس رکھ لیا کرتے تھے اور ان کی حسب منشا نقول تیار کر کے ہم لوگوں کو دے دیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے احمد کو میر کی شادی کے بارے میں بھی لکھ دیا تھا۔
اس طرح وہاں احمد بھی کچھ کم پریشان نہ ہوا۔ وہ مضبوط اعصاب کا انسان تھا۔ تعلیم
ادھوری چھوڑ کر نہیں بھاگا، اپنا کورس مکمل کر کے ہی لوٹا۔ یہاں آکر جب اس نے طرح
طرح کے سوالات کئے تواصل حالات سامنے آگئے اور اصل حالات جاننے کے بعد ہم دونوں
گھرانوں کو کافی کھانا پڑا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ ایک بد خواہ کی چالاکی سے جو ہونا
تھا ہو چکا تھا۔ دو دلوں کو اجاڑ کر نہ جانے اس بدبخت کو کیا ملا۔ میں آج تک اس
بات کا افسوس کرتی ہوں ۔ کاش! ایسانہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ خیر اب تو تقدیر کا
کھ مار کر زندگی بسر کر ہی لیا ہے لیکن نہ جانے احمد کس حال میں ہے۔ وہ توگھر چھوڑ
کر ہی چلاگیا تھا۔ خدا کرے وہ جہاں بھی ہو مجھے بھول چکا ہو اور خوش ہو۔ تاہم اس
نے اپنے بچی کی لڑکی سے پھر بھی شادی نہیں کی کیونکہ شادی زبردستی کا سودا نہیں
ہوتا۔
0 Comments