Bud Duaa Na Lyna Teen Auratien Teen Kahaniyan |
ہمارے آباؤ اجداد عرب سے ہجرت کر کے بلوچستان میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ بعد میں ہم ایک دیہات میں آباد ہو گئے۔ ہمارا گلہ بانی کا پیش ختم ہوگی اور کھیتی باڑی کو ذریعۂ معاش بنایا۔ ساتھ تعلیمی اصل کرنے کا بھی شعور پایا۔ آنے والی نسلوں نے تعلیمی اصل کی اور اکثریت نے پولیس کے منہ میں ملازمت اختیار کرلی۔ ہماری نسل کے پروان پڑھنے تک خاندان کے کافی افراد ت یم یافت ہو چکے تھے لیکن ابھی تک پرانے رواج کے پابند تھے اور برادری سے باہر لڑکیوں کے رشت نہیں کرتے تھے۔ میرے ایک چپاجو محکمہ جنگلات م یں گارڈ تھے ان کا دل اپنے بیلدار کی بیوی بائزہ پر آگیا۔ انہوں نے ا س عورت کے خاوند سے طلاق دلوا کر بارہ سے شادی کرلی۔ وہ بیلدار بیوی سے محبت کر تاتا مگر ہمارے چھپا کے دبائو م یں آکر ا س نے بیوی کو طلاق دے دی۔ وہ بہت افسردہ رہتاتا۔
میرے چچا اور اپنی بیوی کو بد دعائیں دیتا تا جو اس کے ساتھ دولت کی خاطر بے وفائی کی مرتکب ہوئی تھی۔ بیلدار کی ب ابت بیوی بھاری چی بین بانے کے بعد بہت خوش تھی جیسے اس کو دنیا کی تمام خوشیاں مل گئی ہوں۔ تاہم وہ نانماں برباد بیلدار ہم وقت میں الفاظ کہتاتا کہ خدانے پابا تم دونوں کی ایک بیٹی ہو گی جس کی وب سے تم لوگ خون کے آنسورو گے اور وہ لڑکی بھی بھی کھسے نہ رہ پائے گی بلکہ در بدر کی ٹھوکریں کھائے گی۔ جب لوگ اس کی بی بددیانت، پنھ اس کی حالت پر افسردہ ہوتے اور کچھ اس کے منہ سے نکلے ان الفاظ کو مبذوب کی بڑ کہ آگے بڑھ جاتے۔ اللہ کی کرنی کہ چپاسے شادی کے ڈیڑھ سال بعد اس عورت کے بطن سے لڑکی نے بنم لیا، جس کا نام تردوں رکھا گیا۔ پی پی بہت خوبصورت تھی کیونکہ اس کے ماں اور باپ دونوں ہی خوبصورتی م یں اپنی مثال آپ تھے۔ میری پہ گزن فردوس مجھ سے چھ برس بڑی تھی۔ اسی سبب میں اس کو تر دو بانی بلایا کر تا تا۔ ا س نے گائوں کے ایک اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ جب وہ بڑی ہوئی، خاندان م یں ا س کے جوڑ کا کوئی ہم عمر لڑکا تا۔
تاہم لڑکیوں کو بیاہتا ہی ہوتا ہے تبھی ہماری دادی نے اس کا رشتہ خاندان سے باہر دور کے رشتہ دار وں میں کر دیا۔ لڑکے کا نام امب دتا۔ مڈل پاست ا لیکن والدین کا اکلوتا اور ان کی بائیداد بہت تھی۔ اسی کی صرف ایک ہی بہن تھی جبکہ چھپا کے پاس اب پہلے جیسی دولتن رہی تھی کیونکہ سائرہ نے ان کی ساری باید او رفتہ رفتہ بکوادی اور کچھ زمین اپنے نام کروالی۔ جب تر دو بانی کی شادی ہوئی۔ سسرال والوں نے پپاس تولہ سوناح پڑھایا اور دوسرے گائوں م یں جہاں ان کا سسرال تا بهترین پنت مکان بھی بنوا کر دیا۔ ان کا ناوند امحب انتہائی شریف النفس اور نمازی بندہ کھتا۔ اس نے اور ا س کے والدین نے ا س لڑکی کو خوش رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن شاید اپنی ماں کی فطرت پر گئی تھی کہ اس کا دل سرال میں کم ہی لگتاعت احالانکہ سسرال زیادہ بڑی نہ تھی۔
خاوند کی صرف ایک بہن تھی وہ بھی شادی شدہ تھی۔ امحب کو بیوی سے محبت تھی اور وہ ہماری اس کزن کو ملکہ بنا کر رکھتاعت مسگری پر بھی خاوند کی تدرت کرتیں اور زیادہ تر اپنے میکے م یں رہتیں اور ماں کو چوری چھے روپے دیتیں۔ پاپ فوت ہو گئے تو تردوں کی والدہ زیادہ تر مٹی پر انحصار کرنے لگی کیونکہ اب خاوند کی پہلی بیوی کے بچے جوان تھے۔ میری کزن کو الله تعالی نے ایک بیٹی اور بیٹے سے نوازا تو اس کی ماں بائزہ منتقل بیٹی کے گھربیسی۔ وہ مزاج کی شوتین عورت تھی اور اسے روپی تیزی سے خرچ کرنے کی لت تھی۔ بیٹی کا ناوند امیر شخص تہذا یہاں روپے پیسے کی تو کسے پروا تھی مگر یہ روایتی قسم کے خاندانی لوگ تھے۔ ان کو ہماری بچی سائرہ کے طور اطوار بالکل بھیت جاتے تھے تاہم مجبور خاموش تھے۔ باجی ترووس کی کافی عادات اپنی ماں بیں تھیں۔ وہ بھی اولاد کی تعلیم و تربیت سے غافل رہتی تھیں، زیادہ وقت آرام طبی میں گزار دیتیں، نقیبی نکلا کہ بیٹا الحنان مڈل سے آگے نہ پڑھ سکا اور بری صحبت کا شکار ہو گیا۔ فردوس بات نے اس خارے کا احب ت کیا کہ ان کا اکلوتا فرزند کس طرف بارہاہے، مگر ابدتان بیٹے کے کرتوت دیکھ کر پریشان کھتا۔ اس کا انجام سوچ کر لرز جاتا۔
جب حاصل نے حد سے زیادہ نش شروع کر دیا توپ غم اس کے والد کو دیمک کی طرح پاٹنے لگا۔ وہ جب ا ن کو نصیحت کرتا اراه راست پر لانے کی کو شش کر تا تو بیٹا گستاخی سے پیش آتا۔ ایک روز سنا کہ حاصل نے کسی سے بہت زیادہ تجھگڑا کیا اور پیستول بازی کے سبب ایک شخص زد میں آکر زخمی ہو گیا ہے۔ انہیں اس خبر سے اتناصدم ہوا کہ تاج کا حملہ ہو گیا۔ چند روز اسپتال میں رہنے کے بعد وہ گھر واپس آگئے مگر اب ان کی دماغی حالت ٹھیک نہ رہی تھی۔ کوئی کام صحیح طریقے سے نہیں کر پاتے تھے۔ دایاں بازو بھی مفلوج ہو گیاتا۔ یہ وہ وقت تاجب امبدین ان کو بیوی کی توبہ کی اشد ضرورت تھی لیکن نردوں کے منان میں مل تا۔ کچھ دن کی دیکھ بھال سے اوب گئی اور ناوند کو ان کی بہن کے گھر چھوڑا کہ اب تم ان کو سنبالو۔ م یں تھک جاتی ہوں۔
اس کی ماں نے بیٹی سے کہا کہ تمہارا شوہر معذور ہو چکا ہے ایان ہو کہ ا س کی دولت بائیداد رشتہ دار اپنی نگرانی م یں کر لیں۔ تمہارا بیٹا جوان ہے ا س کے ذریب آہستہ آہستہ بائیداد اور زمین کو تیار ہو اور دولت روپی جو حاصل ہو سکے وہ تم ماں بیٹا اپنی تو میں میں کر لوتاکہ کل کو جب تمہارا خاوند اس دنیا میں نہ رہے تو تم کو آئندہ زندگی م یں بھی روپے پیسے کی کمی نہ رہے۔ امحب کی بہن بپاری تو معذور بھائی کی تیمارداری م یں گئی تھی۔ بیوی اور بیٹابائیداد کرامبد کو کنگال کرنے م یں لگے تھے۔ وہ دولت بے دریغ اپنے عیش و آرام پرلٹارہے تھے۔ اسی کمپری م یں ابدتان پر دوسری بار ان کا حملہ ہوا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے با ملا۔ ابنردوس اور اس کا بیٹا آزاد تھے۔ اسلحتان نے نث کے ساتھ عتاط جگہوں پر بھی دبانا شروع کر دیا جاتا۔ یوں ایک بار گانے والی کے کوٹھے پر ا س کا وہاں موجود دو آدمیوں سے جھگڑا ہو گیا اور نشے کی حالت م یں اس نے ان پر وار کر کے دونوں کو زخمی کر دیا جو بعد میں چل بسے۔
پولیس نے م ل تان کو تحویل میں لے لیالیکن یہاں روپیہ کام آیا، ساتھ ہی ایک سیاسی جماعت کے کارکن سے دوستی کی بدولت وہ سزاسے بھی بن گیا۔ وہ سراسے تو نے گی مگر اب اس کی حبان کو مقتولین کے ورما کی طرف سے خطرہ لاحق رہنے لگا۔ تبھی ا س نے اپنی ذاتی حفاظت کی خاطر رائل بر دار باڈی گارڈ رکھ لئے، ساتھ ساتھ والد کی زمینیں بھی بیچتا رہا۔ ا س نے شادی بھی نہ کی، باپ کا رہائشی کمر تک فروخت کر دیا۔ ماں بیٹا شہر ایک کرائے کے مکان م یں آگئے۔ نردوں کی بیٹی کانام حنانتا۔ وہ بھی جوان ہو چکی تھی۔ ماں اپنے خاوند کا تمام اثاث تو گنوا چکی تھی۔ بیٹا بھی او با سش کلانت۔ بیٹی سے آ س لگالی۔ وہ ا س کی شادی ایسی جگ کر ناپاہتی تھی جہاں پیسے کی ریل پیل ہو۔ اس کی نظر اپنے ایک رالی رشتہ دار کے بیٹے پر تھی جو کیل ختا۔ اس شخص کا نام ارباب نان اور عمرپالیس برس تھی۔ شادی شدہ اور تین بیٹوں کا باپ تا۔
اس کی بیوی شہر بانو بہت خوبصورت تھی۔ ارباب نے اس کے لئے شہرم فردوس بات کا آنا حبانا ان دنوں ارباب کے گھر ہوا جب اس کا بیٹا قتل کے کیس م یں پھنساتا۔ وکیل نے ان کی مدد کی اور وہ سزاسے پاگیا۔ چونکہ پبر ادری کے لوگ تھے اس وحب سے بھی انہوں نے حاصل کی مدد کی تھی۔ اس دوران حسنانے شہر بانو سے دوستی گانٹھ لیا۔ روز است شام کو بین سنور کر ارباب کے گھر بنباتی۔ اور شہر بانو کو جانی کہانی کہہ کر گھریلو امور میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ یوں اس نے اپنی ماں ایسی ط اری سے کام لے کر سیدھی سادی شہر بانو کو شیث میں اتار لیا۔ بانو اس پر اعتبار کرنے گی۔ اپنی تین بیٹیوں کی پرورش میں ا س کو ادھر ادھر کی باتیں سوچنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا کہ اپنے شوہر کو بھی وہ بھرپور توب نہ دے پاتی۔ وکیل صاحب کے اکثر کام وہ مناہے کہ دیں۔ مثلا ان کی کتابیں می کر کے رکھنا اور ان کے کپڑے وغیروالماری میں نہالت یا استری کر دینا۔
منانے میاں کی ہدایات پر عمل کیا۔ اپنے اور اپنے بھائی کے تحفظ اور ماں کے بڑھاپے کی اسے کبھی فنگر تھی۔ ان لوگوں کو ارباب تان جیسے مضبوط اور تجربہ کار وکیل کا تحفظ پاہے کھتا۔ تم یہ کہ جہاں آنے والے برے دنوں کے خدشات میری کزن کو سہارہے تھے ا س کی ماں لیکن ہماری پیازہ بھی اب ا س پر ایک مستقل بوجھ بنی ہوئی تھی جو ہڈیوں کی بیماری کے سبب ایک گٹھری سی بن گئی تھی اور چلنے پھرنے سے معذور تھی۔پ وہی بیلدار کی بیوی تھی ج س کو اس کا سابق شوہر نے وفائی کی وب سے بد دعائیں دیا کر تاھتا، اب ی عورت خود سے پانی پی سکتی تھی نہ گلاس پکڑ سکتی تھی۔ کیو نکہ ہاتھوں کی انگلیاں ہتھیلیوں کی باب ت نر بم گئی تھیں، جس عورت نے شوہر کی دیکھ جہالت کی، ا س کو رات دن معزور ماں کی دیکھ بھال کرنا پڑ گئی تھی۔ ماں کی لاپاری کے سبب نردوس بابت زیادہ پریشان رہا کرتی تھی۔ ان حالات میں اس کی دعائیں رنگ لے آئیں۔
وکیل صاحب نا کیا خوبصورتی اور اس کی ادائوں پر م ر مٹے اور ہماری کزن، اس کی شادی ار باب تان سے کرنے میں کامیاب ہو گتیں۔ ارباب خان نے پہلے تو کرائے کا مکان شہر میں لیا جہاں فنر دو بارتی، اس کی معذور والدہ سائرہ بچی اور حنا کو رکھا۔ بعید میں بیوی کا اجمائی حاصل بھی وہاں آکر تک گیا۔ بیوی کاباراتاند ان ہی ارباب کے گھر رہنے
لگا۔ دو مربع اراضی جو اب دن ان کی بیوہ بہن کے حصے کی تھی اس کو چ کے تھے۔ جب حاصل کی ہے اولاد چھولی بیمار پڑ گئی تو مل نے خوشامد و مدارات کرکے اس سے زمین بھی اپنے نام کر لی اور احتری پر بھی ا س نے شراب و کباب کی محفلوں م یں اڑا دی۔
ارباب خان کی پہلی بیوی کے بھائی تگڑے لوگ تھے۔ انہوں نے بہنوئی سے جھگڑا کیا۔ بات اتنی بڑھی کہ ارباب نے شہر بانو کو طلاق توت دی مگر اس کو اس کے وہ روتی و صوتی اپنے بیٹوں سمیت بھائیوں کے گھر چلی گئی ۔ گھر سے باتے وقت اس نے بھی اسی طرح بلک بلک کر تر دوس اور حنا کو بد دعائیں دیں جیسے کہ بیلدار دیا کر تانتا۔ شہر بانو کا میکہ دیہات میں متا۔ بھر اپر اگھر چھوڑ کر اس نے میکے میں حبابیر اپ۔ میکے والے چو نکہ کھاتے پیتے لوگ تھے، انہوں نے بیٹی کے ساتھ نواسوں کو بھی رکھ لیا اور ارباب سے قطع تعلق کر لیا۔ وہ اب اپنے بیٹوں سے بھی ملنے سے رہ گیا۔
تاہم وہ لڑ کوں کےتایی احترابات اور بیوی کا نان نفق دینے لگا۔ شہر بانو پچھتاتی تھی کہ ا س نے ایک ہیلی پر کیوں آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا کہ وہ اسی کے گھر اور شوہر کی مالک بن بنی تھی۔ وہ خوبصورت بنگلہ جو ا س نے ارناطر بنوایا تا کہ وہاں رہ کر اس کے بیٹے شہر میں تعلیمی اصل کریں گے، اس پر بھی حتا اور اس کے میکے والے تبض ہوچکے تھے۔ بنیت، عیش، شوہر کی محبت، نوکرپاکر گاڑیاں، ہر شے ہی تو حنا کے حصے میں باپ کی بھی اور اب بابھی نردوں
کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔
دن اپنی خوبصورتی اور نوعمری کے سبب وکیل صاحب کے دل پر راج کر رہی تھی۔ اس کو الٹنے اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا۔ پہلے مٹی لالہ رخ پ ر دو بیٹے ہو گئے۔ خوبصورتی تواس خاندان کی وراثت م یں تھی۔ حنا کی بیٹی بھی بہت حسین تھی۔ جو دیکھتا، دیکھتاره باتا لیکن اس کو شاید کسی کی نظر ہی گئی کہ آٹھ سال کی عمر میں چوٹ لگنے سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ ماں بیٹی کو پھر بھی عقل ت آئی کہ شہر بانو کی دنیا برباد کرنے سے مکافات عمل شروع ہو چکا ہے اور ا س کا پہلا شکار ان کی معصوم بچی لالہ رخ بنی ہمارے خاندان م یں ایک فوتگی پرتر دو بانی اور حت میری والدہ سے ملیں
، تبھی تا مجھ کو کمزور گی کیونکہ وہ پہلے بہت صحت مند تھی ، چہرہ تو اس کا پاند کی طرح دمکتانتا۔ اماں نے پوچھا۔ فردوسی تمہاری بیٹی کو کیا ہوا ہے؟ کیا اپنے گھر میں خوش نہیں ہے؟ کہنے گی۔ بچی اس کا مرض سمجھ میں نہیں آرہا۔ من م یں پانی پڑ استا، پسلی تو گر گئی، کمر م یں تھوڑی سی تکلیف رہی۔ ملتان نشتر اسپتال لے گئے۔ ایکسرے وغیرہ ہوئے، علاج ہورہاہے مگری روز بروز کمزور ہوتی بات ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں اعصابی کمزوری ہے۔ دعا کریں الگ اسے شفادے۔ میری نواسی لالہ رخ بھی اسی وب سے آج کل اسکول نہیں جارہی ہے۔ کچھ دنوں بعد ہی ہم نے سنا کہ حنا کی طبیعت کافی حضراب ہے اور وہ نشتر اسپتال میں داخل ہے۔ ہفتہ بعد اطلاع آئی کہ وہ فوت ہو گئی ہے۔ کل مسجد کے اس کا جنازہ ہے۔ ہم بھی وہاں گئے۔ فردوس بابای غم سے نڈھال تھی۔ جنازے م یں ارباب کی پہلی بیوی شہر بانو بھی آئی ہوئی تھی۔ حالات کی ستم ظریفی کہ وہی عورت جس کے عیش و آرام کو چھین کر حنا کی سوتین بن گئی تھی آج وہ اس کے جنازے پر آئی بیٹھی تھی اور اپنے گھر م یں سوتن کی ماں کو غش کھاتے دیکھ رہی تھی۔ شہر بانو کے چے جوان ہو چکے تھے۔ بڑا بیٹاصمت در وکیل بن چکاکتا۔ اپنے جوان بیٹوں کو گلے سے لگایا۔
یہ وہی بچے تھے جو بھی روتے ہوئے ماں کے ساتھ ا س گھرسے نکلے تھے۔ جس عورت کے کارن ان سے ان کا باپ اور عیش و آرام چھن گیتا، آج وہی ناصرف 35 سال کی عمر میں قبر میں باسوئی تھی۔ کچھ ع رص توتر دو بانی داماد کے گھر اپنی نواسی اور نواسوں کے ساتھ رہتی ہیں مگر پر ان کا بھی ماند ہونے لگا کیونکہ شہر بانو کے لڑکے باپ کے گھر م یں بے دھڑک آنے بانے گئے۔ ان کے والد کا ک رتا، بھلا کون ان کو آنے سے روک ٹوک ستاتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ ان کا اپنا ہی گرتا۔ اب یہاں فردوس باجی ، ان کی والدہ اور بال بن بلائے مہمانوں کی طرح رو رہے تھے۔ ایک روز تینوں بیٹوں نے باپ سے کہا کہ اب تو آپ کی دوسری بیوی وفات پاگئی ہیں۔ اس گھر کو پھر سے ہماری ماں کی ضرورت ہے۔ آپ ہماری والدہ کو واپس گھر لے آئے۔ جوان بیٹوں کی بات وہ نہیں ٹال سکتاعت الہذا شہر بانو کے بھائیوں سے معافی طلب کی اور ن ے کی درخواست کی، لڑکوں نے بھی ماموگوں پر زور ڈالا، یوں وہ شہر بانو کو گھر لے آئے جو اس گھر کی اصل مالکہ تھی۔
اس کے آنے سے کیا تو پیٹنی تھی، سو پلٹ گئی۔ ا س کی بد نصیبی کے دنوں کا پرتم ہو چکاتا اور پھر خوش بختی کے دن شروع ہو گئے تھے۔ وہ میرے گھر پر راج کرنے لگی اور وتر دو بانی کو دیوار سے لگا دیا۔ یہ بات ہماری کزن کی برداشت سے باہر تھی کہ جس عورت کو گھر سے نکالا گپاتاوه دوبارہ ہر چیز کی مالک بن گئی تھی۔ اب ا س کے پوچھے بنا کوئی کام نہ ہوتا اور گھر میں کھانا پکتا۔ جب وہ نوکروں کو حکم دیتی تھی سارے کام شروع ہوتے، وہ بھی اسی کی رضی اور پسندے ۔ حنا کی بیٹی لالہ ان حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ نانی ا س کو بھڑکاتی اور وہ سوتیلی ماں کے ساتھ بد تمیزی کرتی۔ باپ سمجھاتا تو اس کی بھی ت سنی۔ شہر بانو پر بھی شوہر کی بھی بان کر صبر کا مظاہرہ کرتی اور ا س لڑکی کی بد تمیزی کو نظر انداز کر ربات جب ارباب نے دیکھا کہ معاملات اس کے لئے زیادہ پریشان کن ثابت ہوتب رہے ہیں تو انہوں نے فاو کی اصل برلین تر دوس باجی کو گھر سے چلتا کر دیا۔
ان کی بوڑھی ماں اور نالائق چوتبال بھی تو انہی کے دم سے یہاں رہ رہے تھے۔ سوارا خاندان ہی شہر بانو کے گھر سے کوچ کرنے پر مجبور ہوا۔ ان لوگوں کے رہنے کا ٹھکان کوئی تکتا۔ زمین جوریوں میں تھیں، باسل ڈکار گیا۔ اس کی ماں نے بھی بے عملی میں اپنے رہنے کا ایک گھر بھی نہ پایا۔ حال اپنے جیسے ایک عیاش دوست کے پاس عارضی قیام کو پاگیا اور بابی بیعانہ پچھی تنہا رہ گتیں۔ کچھ دن میری والدہ نے ترس کھا کر ان کو اپنے گھر میں رکھا۔ مگر ان کی عادات ناندانی تھیں۔ ہمارے گھر بھی میری جب کبھیوں کے ساتھ م ل کر والدہ کے لئے پریشانی کے اسباب پیدا کرنے لگیں تو ایک روز میرے بڑے بھائی نے ان کو کہہ دیا کہ باجی آپ والدہ کو لے کر الگ گھر میں بار ہیں۔ بے شک ہم کراپ دے دیں گے لیکن آپ ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ کچھ دن ایک چھوٹے سے کراپ کے مکان م یں رہیں۔ ادھر اصل کو مقتولین کے ورثا نے آلپاجو موقع کی تاک میں تھے۔ جب حاصل، ارباب کے تحفظ سے محروم ہوا، ان کی بن آئی اور ایک روز انہوں نے ح ا ل کو گولی مار دی۔ بیٹی کا غم مت تا کہ بیٹے کی موت کا بھی صدیب سہنا پڑ گیا۔ باجی فنردوں کی حالت غیر ہو گئی۔ وہ اب بائزہ چینی کو سجانے سے قاصر تھیں کہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھیں۔ پخبر بیلدار کے لڑکوں کو ہوئی جو اس کی دوسری بیوی سے تھے۔
انہوں نے ترس کھایا اور اپنے باپ کی مطلق بیوی مین بابی تر دوس کی امی کو لے گئےکیونکہ وہ اب بول و براز م یں لتھڑی پڑی رہی تھیں اور وتر دو سر باجی کو ماں کی اس حالت کی بدھ بدھ مت ہوتی۔ وہ تو اپنے غم میں پڑ گئی ہیں۔ ایک دن ایسا آیا کہ فردوس باری بھری دنیا میں تناره گتیں۔ حنا کے چے باپ کے پاس تھے، سوتیلی ماں نے ان سے
اچھا سلوک کیا۔ وہ اپنے باپ کے ک ر رہے تھے۔ انہوں نے نانی کو فراموش کر دیا لتا۔ جبکہ یہیں پر صرف بابی نردوس کے اپنے تھے۔ انہوں نے بھی ونان کی۔ ایک روز ایک شخص آیا، در ببایا۔ م یں نے ہی دروازہ کھولا۔ ا س نے کہا کہ م یں نردوس کا پڑوسی ہوں، وہ مکان م یں کئی دنوں سے بیمار پڑی ہیں۔
مجھے انہوں نے بتایا ہے کہ آپ لوگ ان کے رشتہ دار ہیں، اگر ان کو لے بایئے ، وہ اب تنہا رہنے کے قتبل نہ رہی ہیں۔ بڑے بھائی ہر گز ان کو گھر لانات پاہتے تھے لیکن والدہ کو رحم آگیا۔ انہوں نے بڑے بھائی کو سمجھایا اور مجھے لے کر فردوس بانی کے پاس گتیں۔ بے شک ان کی والدہ فی ن تون ت تھیں اور ہمارے خاندان میں ان کو عزت کی نگاہ سے ن دیکھا بتاتیکن فردوس بابھی تو میری چچازاد تھیں۔ ہم کیونکر ایسے حالات میں ان کو چھوڑ دیتے۔ بالاتر م یں اور امی ان کو لے آئے۔ جب ہم ان کے گھر گئے وہ بستر پر پڑی تھیں۔ بل ب ن سکتی ہیں۔ بیماری ، غم اور بھوک پیاس نے ان کو کھالیات، ہم ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کو سمیٹ لائے تھے کہ جس سے بدبو آرہی تھی۔ امی نے ان کو صاف ستھرا کپ، کپڑے بدلوائے، اسپتال لے گئے ، لیکن ان کی زندگی کے دن تمام ہو چکے تھے۔ وہ اسپتال سے زندہ گھر لوٹ لیں۔ پندرہ روز کا حبیون بھی کرو ہیں وفات پاگتیں۔
بیلدار کی بد دعابائرہ بچی کو تو گئی ہیں مگر ہماری بپاریپ کزن تردوں بابھی بھی اس بد دعا کی لپیٹ میں آکر ر ہیں، شاید ان کو شہر بانو کی بد دی گئی ہو۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ بے شک کسی کا دل نہ دکھاناپاہئے کیونکہ اللہ تو ہر دل میں بستا ہے۔
0 Comments