Search Bar

Dosti ki Aar Main | دوستی کی آڑ میں ,WEEKLY AKHBAR-E-JEHAN, تین عورتیں تین کہانیاں,

 

Dosti ki Aar Main | دوستی کی آڑ میں ,WEEKLY AKHBAR-E-JEHAN, تین عورتیں تین کہانیاں,



پسندیدگی کے جذبات دونوں طرف ہوں تو محبت کی گاڑی سرپٹ دوڑنے لگتی ہے۔ ماہم اور سالار بھی ان راہوں کے مسافر ہو گئے تھے جن کی منزل محبت سے زیادہ محبت کا حصول ہوتا ہے۔ دونوں کی پسندیدگی کی منزل ایک دوسرے سے شادی کرنا تھا لیکن یہ جنت تو قسمت والوں کو ملتی ہے۔ سالار اور ماہم انجام سے بے خبر اپنی منزل کی جستجو میں نے جارہے تھے کہ ایک روز ما ہم نے اپنی پیاری بیٹی سارہ سے کہا۔ تم ہی کچھ تدبیر کرو کہ میری اور سالار کی شادی ہو جائے۔ ادھر مجھ کو والدین کو اپنی مرضی بتانے سے ڈر لگتا ہے تو ادھر سالار بھی اسی مشکل میں پھنسا ہوا ہے، اس کے والدین خالص دیہاتی ہیں، وہ بھی مجھ کو بہو بنانا پسند نہ کریں گے۔


 یہ لوگ رشتے اپنوں میں ہی کرتے ہیں۔ تیری محبت کی کہانی بڑی روایتی ہے۔ بنو !اگر حوصلہ نہ ہو تو دریا میں نہیں اترنا چاہیے۔ چلوحل نکالتے ہیں تمہارے مسئلے کا۔ تم ایم اے تو پورا کر لو اور مجھ کو اپنے اس کانام سے بھی ملائو کہ جس سے شادی کرنے کی آرزو میں تم مری جا رہی ہو۔ سالار گائوں سے پڑھنے آیا ہوا تھا، الذ اپنے والد کے ایک دوست کے مکان میں قیام پذیر تھا۔ گائوں سے وہ ایک ملازم بھی لایا تھا جو اس کا کھانا پکانا اور دیگر کام کرتا تھا۔ گاڑی اس کو اس کے اسی انکل نے دی ہوئی تھی کہ جب ضرورت ہو لے لیا کرو۔ ان سب سہولیات کے میسر ہونے کے باوجود سالار نے بھی اپنے ان کی مہربانیوں سے ناجائز فائدہ  ہیں اٹھایا تھا۔


 وہ چاہتا تھا ہم کو اپنی رہائش گاہ لے جاتا، جہاں وہ اکیلا رہتاتھالیکن اس نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ان کے تعلق کو دو سال ہونے کو آئے تھے مگر بھی تنہائی میں ملاقات نہ کرتے۔ جب بھی ملتے پلک پہیں‘‘پر ،  دونوں کے دلوں میں کھوٹ تھا اور نہ برائی کا خیال۔ اسی سبب دلوں میں ایک دوسرے کی عزت بھی قائم تھی۔ سارہ کی فرمائش پر اہم نے اس کا تعارف سالار سے کرایا۔ وہ بولی۔ کبھی بھلا اتنے لوگوں کی موجودگی میں کیا بات ہو سکتی ہے۔ سالار سے کہو کہ ہمیں اپنی قیام گاہ پر مدعو کرے۔ وہ اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا۔


 ہاں تم کو چائے پلانے کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں لے جاسکتا ہے یا پھر کاٹن کے ساحل پر ، تم کہاں اس سے ملنا پسند کرو گی ۔ دونوں جگہ کیو نکہ میں تمہاری طرح بزدل نہیں اور نہ اپنی بد نامی سے ڈرتی ہوں۔ انسان کو خود اچھا ہو نا چاہیے۔ اپنے پر اعتماد ہو تو کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ما ہم ایک سیدھی سادی لڑ کی تھی۔ وہانی فلسفیانہ باتیں کر نہ جانتی تھی۔ وہ اپنی سہیلی سارہ کے جیسی چالاک بھی نہیں تھی۔ اس نے سالار کو بتایا کہ اس کی عزیز از جان سہیلی اس سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہے۔ کیا وہ تم کو بھی مائنس کر نا چاہتی ہے؟ نہیں بابا۔ پھر تو مجھے بخشو بی بی میں اس سے ملے بغیر ہی ملا۔ یہ بات سالار نے کچھ اس انداز سے کہیں کہ ماہم ہنس پڑی۔


 ہنس کیوں رہی ہو۔ میں تو اس وجہ سے تمہاری سہیلی سے ملنا چاہ رہا تھا کہ اس کے ذر یے ہم آسانی سے مل سکتے تھے۔ تم میرے ساتھ اکیلے سیر کو جانے پر کپکپاتی ہو نا۔ جب ہم تین ہوں گے تو نہیں ہچکچائو گی۔ خیر اس کے بعد ماہم اور سالار کی ملا قا تیں آسان ہو گئیں۔ پہلے وہ صرف یونیورسٹی کی حد تک بات  چیت کر لیتے تھے۔ اب سارہ ہمراہ ہوتی تو باہر بھی ملنے میں آسانی محسوس کرتے، کیونکہ ساروان دونوں کے در میان رابطہ بن گئی تھی۔ وہ ان دونوں کو ملاقات کے لئے موقع فراہم کرتی تھی لیکن خود بھی ان کے ساتھ ہوتی۔ ا ہم تو پہلے ہی سارہ کی گرویدہ تھی اب اور احسان مند ہو گئی۔ اہم خوبصورت تھی لیکن بہت سادہ طبیعت اور دیانتدارانہ سوچ کی مالک جبکہ سارہ قدرے چالاک اور فیشن پیل تھی۔


 وہ ہمہ وقت خود پر توجہ مرکوز رکھتی اور اپنے آپ کو نک سک سے درست رکھتی تھی۔ اپنی بھی صورت کے سبب اس کی شخصیت میں احساس کمتری نے جگہ پائی تھی جس کو وہ اچھے لباس اور میک آپ سے پورا کرنے کی کو شش کرتی۔ باتیں بھی خوب چٹک مٹک والی کرتی، تبھی محفل میں اہم سے زیادہ توجہ کا مرکز بن جاتی تھی۔ دراصل وہ بھی یہ برداشت نہ کر سکتی تھی کہ ماہم کے مقابل کوئی اس کو نظرانداز کرے ۔ اگر ایسا محسوس کرتی تو بہت زیادہ افسردہ ہو جاتی تھی۔ اپنی یہ دوست ماہم کو اتنی پیاری تھی کہ وہ اس کو افسردہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ سو اس کی آزردگی کا خیال کر کے خود سے آگے آگے رکھتی اور اپنا آپ پس منظر میں رکھنے کی کو شش کر تی تا کہ سارہ کو تکلیف نہ ہو۔


 جب یو نیورسٹی میں سالار فری وقت میں ڈپارٹمنٹ آتاتو وہ سارہ کی تعریفیں کرتے نہ کھلتی، شعوری طور پر اس کے دل میں سہیلی کے لئے جگہ بنانے کی سعی کرتی تا کہ سالار کبھی اس کو اتنی ہی اہمیت دے جتنی وہ دیتی تھی۔ وہ ساتھ ہوتی تو سالار کو موقع دیتی کہ وہ اس سے باتیں کرے اور خود اپنی توجہ ادھر ادھر کر لیتی۔ سالار ماہم کی اس مجبوری کو سمجھتا تھا۔ تبھی سارہ کو توجہ دینا اور اس سے خوب گپ شپ کرتا۔ اب سارہ نے جان لیا کہ ماہم اور سالار کی ملا قا تیں تو معصوم ہیں۔ ان کی سوچوں میں کسی قسم کی آلودگی کا دخل نہ تھا۔ وہ سیدھے سادے طریقے سے البتہ جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھ جانا چاہتے تھے جس کے لئے ماہم کو سارہ کی مدد درکار تھی۔


 سالار کو ماہیم کی بیٹی کے ساتھ ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کو ہر گز دھوکا دینا نہ چاہتاتھا اور نہ ہی اہم ایسی لڑکی تھی جو محض تفرع طبع کے لئے فلرٹ کرتی۔ وہ تو خود کو اس کی شریک حیات دیکھنا چاہتی تھی۔ بے شک یہ دونوں شادی کے خواہاں تھے لیکن ان کے گھر والے اڑچن ڈال رہے تھے۔ ان کو رضامند کر نا چھ آسان نہ تھا۔ ایک طرف شہری اور دیہاتی زندگی کا تصاد تھا تو دوسری جانب ماہم کے خاندان میں ایک سے ایک اچھے رشتے موجود تھے جبکہ ماہم کسی رشتے پر راضی نہ تھی۔ جس دل کو کسی کی کن کی ہو اس کے ساتھ زبردستی کا سودا نہیں کیا جاسکتا۔ والدین کے انکار پر جب وو داس و پژمردہ رہنے گئی تو ماں باپ کو اس بارے سوچناہی پڑا۔


 آخر ودان دل کا ٹکڑا تھی اور والدین کو اس کی خوشیاں عزیز تھیں۔ وہ اس بات میں حق بجانب تھی کہ اپنی پسند کے کسی شریف لڑکے کے ساتھ زندگی گزارتی۔ کسی اور سے اس کو زبردستی شادی پر مجبور کرناوالدین کو اپنا ظلم لگا۔ جب دیکھا کہ بیٹی بیمار پڑ گئی ہے تو انہوں نے ہار مان لی اور سالار کو گھر بلا کر ماہم کے والد نے اس کے ساتھ بات چیت کی۔ انہوں نے لڑکے کو پسند کیا لیکن اس کے سامنے ایک شرط بھی رکھ دی کہ اگر وہ اپنے والدین کو راضی کرلے تو شادی ہو سکتی ہے۔ اب مشکل سالار کی طرف سے بھی۔ او ھر ماہم کا دم لبوں پر ان کا ہوا تھا۔ امید و بیم کی کیفیت نے اس کو اور زیادہ پیار ڈال دیا کہ کیا خبر سالار کے والدین راضی ہوں یا نہ ہوں۔


 وہ بار بار سارہ سے کہتی۔ ابونے کیسی شرط لگادی ہے؟ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ سالار کے والدین راضی نہیں ہوں گے ۔ اس کا تو مطلب انکار کر ناہی ہوانا۔ سب ٹھیک ہو جائے گاذر اصبر کرو۔ میں سالار کو سمجھاتی ہوں کہ اسے کیا کرنا چاہئے کہ اس کے والدین بھی راضی ہو جائیں ۔ سارہ اس کو تسلیاں دیتی۔ بالآخر سالار نے بھی وہی حربہ استعمال کیا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا اور ایک روز بیگ میں چند جوڑے رکھ کر گھر والوں سے کہا کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کا گھر چھوڑ کر جارہا ہے۔ اگر اس کو روکنے کی کو شش کی گئی تو وہ خود کشی کر لے گا۔ والدین جانتے تھے کہ لڑکا جوان ہے ،اسے خود کشی کر نے کی بھی کیا ضرورت ہے۔


اگر وہ خود جا کر شہر میں اس لڑکی سے نکاح کرلے تو بھی کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ میں ہاتھ سے نکل جائے گا اور کچھ حاصل نہ ہو گا۔ سالار کے والد نے سوچا۔ بیوی نے بھی شوہر کو سمجھایا کہ یہ نئے زمانے کے چکے ہیں، ان پر ہم زبردستی اپنی مرضی کہیں گھوس سکتے ۔ یوں سالار کے والدین با نام کو بہو بنانے پر راضی ہو گئے اور رشتے کا پیغام لے کر ماہم کے والدین کے پاس چلے گئے۔ تھوڑی سی حیل و حجت کے بعد رشتہ منظور کر لیا گیا۔ منہ میٹھا کر ان کو مٹھائی منگوائی گئی اور رسم منگنی کی تاریخ مقرر ہوگئی۔ یوں سالار اور ماہم کو زندگی کی وہ خوشی نصیب ہوئی کہ جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ دونوں بے پناہ خوش تھے۔


 وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ ان کا مسئلہ یوں بھی حل ہو سکتا ہے۔ بہت زیادہ نا امیدی کے بعد خوشی ملے تو دی حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ ماہم تواتنی خوش تھی کہ سارہ سے پیٹ کر رو پڑی، سارہ کہتی ا ہم تم بھی عجیب لڑکی ہو۔ لوگ خوشی میں قہقہے لگاتے اور تم رورہی ہو۔ منگنی کے بعد دونوں کا آپس میں ملنادشوار ہو گیا۔ خاندانی روایات کے مطابق اب شادی تک وہ نہیں مل سکتے تھے۔ دونوں خاندان ہی اس روایت کے پابند تھے۔ ان کی ملا قات صرف سارہ کرواسکتی تھی لیکن اس نے کبھی ان کی ملاقات کا ذریعہ بننے سے انکار کر دیا۔ بولی، اگر انکل اور آنٹی کو پتا چل گیا وہ مجھ سے بد ظن ہو جائیں گے لیذاب دونوں تھوڑے عرصے کی دوری برداشت کر لو۔ البتہ وہ ان کے نامہ پیغام کا ذریعہ ضرور بنی رہی۔


جب بھی ساره سالار کاخط ماہم کو لا کر دیتی ، وہ اس کے ہاتھ چوم لیتی، کہتی تمہارے بغیر تو میں مر ہی جاتی۔ ان دنوں موبائل فون کا رواج نہ تھا۔ خطوط ہی آدھی ملا قات کا ذریعہ ہوتے تھے۔ اب اکثر ماہم کے پیغامات پہنچانے کے باعث سارہ کو سالار سے ملنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اس پر تو سالار سے ملنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ وہ جب چاہتی اس سے ملنے چلی جاتی۔ بار بار کی ان ملاقاتوں سے سارہ کا دل سہیلی کے منگیتر کی جانب مائل رہنے لگا۔ اسے سالار سے ملے بغیر چین نہ آتا۔ سج سنور کر جاتی تو سالار کو بھی اس کی طرف دیکھنے کا موقع ملا۔


 اب ماہم تو نگاہوں سے اوجھل ہوئی، ایک اور لڑ کی مسلسل روبرو آتی رہتی اور وہ مروت میں محبوبہ کی سہیلی کو چائے پرانے ریسٹورنٹ لے جانے لگا۔ احسان مند تھا کہ اس کی محبوبہ کے خط وہ پہنچانے آتی تھی کسی کو کیا خبر کہ اپنے دل کی مجبوری سے بھی آتی ہے۔ وہ اکثر اس سے کافشن چلنے کی فرمائش کرتی۔ گاڑی میسر تھی، سالار کو انکار کئے نہ بنتی۔ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ دیوانی لڑکی اس کی قربت میں نہال ہوگئی ہے ، خوب چک چہک کر باتیں کرتی ہے، میر کے وقت کو طول دینے کی کوشش کرتی ہے۔ شام سے رات ہو جاتی تو بھی وہ یہی کہتی ذرا اور ر کو ابھی سیر سے ہی نہیں بھرا۔ تمہارے کون سے ایسے کام رکے ہوئے ہیں کہ جلدی کی دہائی مچادیتے ہو۔ پہلے یہ گھومنا پھرنا بھی کبھار ہوتا، اب روز ہونے لگا۔ ایم اے کے امتحان ہو چکے تھے ، رزلٹ بھی آ گیا تھا۔


سالارای شہر میں ہی نوکری کی تلاش میں تھا۔ باقی وقت بور ہوتا۔ ما ہم سے تو پردہ ہو گیا تھا۔ اس کے گھر جانا بھی تو وہ اپنے والد اور بھائیوں کے لحاظ کی وجہ سے اس کے سامنے نہیں آتی تھی۔ لذا یہ خلاسارو کی کمپنی سے پورا ہونے لگا۔ ادھر ساره کی زندگی میں کبھی کوئی رنگ نہیں تھا، سوائے تنہائی کے ، جو اسے تھکادیتا تھا۔ شروع میں تو وہ سالار سے ملاقاتوں کی باتیں ماہم کو مزے لے لے کر سناتی پھر اس سے باتیں چھپانے لگی۔ وہ اب اس کے خط بھی سالار تک پہنچانے کی بجائے پھاڑ کر پھینک دیتی اور اس کے پیغامات گول کر جاتی تھی۔ ماہم کریدتی تو کہتی ۔ تمہیں کیا مشکل ہے ؟ شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ اتنی بھی کیا ہے قرار کی۔


 میں اس سے مل ہی نہیں پائی تو تم کو اس کا حال کیا بتائوں ؟ ادھر سالار سے ملتی تو ہیلی کی با تیں کم کرتی اور اپنی باتیں زیادہ۔ یا پھر ادھر ادھر کی ہانکنے لگتی۔ اس لڑکی کی خود سپردگی والے رویئے پر سالار پہلے تو ششدر ہوا، پھر دل گلی کے طور پر انجوائے کرنے لگا۔ اس نے سارہ کے سامنے اپنی منگیتر کاذکر کر نا چھوڑ دیا اور اسی کی ذات کو مد نظر رکھنے لگا۔ وہ محض سارہ کو خوش کرنے کو ایک کر رہا تھالیکن یہ لڑکی اس دھیان میں ایک چکی ہو گئی کہ ماہم کو اپنار قیب سمجھ لیا اور اس کو سالار سے دور کرنے کے طریقے سوچنے گی۔ دونوں خوب گھومتے پھرتے، آپس میں یوں وقت بتاتے جیسے ان دونوں کے در میان باہم تھی ہی نہیں۔ سارہ نے سہیلی کے منگیتر کی قربت حاصل کر لی تھی۔ وہ اب ماہم کورستے سے ہٹانے میں کسی قسم کے شش ونچی سے کام نہیں لے رہی تھی۔


 سالار توسوچتا ہی رہ گیا اور اس خود غرض لڑکی نے جو کرنا تھا، کر دیا۔ ایک روز اس نے گھر پر اپنی سالگرہ کی تقریب رکھی اور ماہم کو بھی مدعو کیا۔ اس نے ہوشیاری سے ماہم کی پلیٹ میں کچھ ایسی شے ملادی کہ کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد ہی اس کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ اس نے تقریب کی خوشی کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی سے کچھ نہ کہا اور سارہ سے جلد اپنے گھر جانے کی التجا کی۔ سار و تو چاہتی ہی تھی کہ وہ جلد سے جلد اپنے گھر چلی جائے۔ اس نے اپنی گاڑی میں ماہم کو اس کے گھر بجھوادیا۔ گھر جا کر اس کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے اور خراب ہو گئی، اسے متلی ہونے گئی تو اس کی ماں نے کہا کہ بیکری کی چیزیں کھانے سے شاید تم کو فوڈ پوائزنگ ہوگئی ہے ،


 میں ابھی تم کو اسپتال لئے چلتی ہوں۔ وہ پڑوس میں گئی تاکہ شوہر اور بیٹے کو فون کر کے کہے وہ دکان بند کر کے جلد گھر پہنچیں ، ماہم کو اسپتال لے جانا ہے۔ دکان زیادہ دور نہ تھی لیکن باپ اور بھائی کے آتے آتے ماہم نے گھر میں ہی دم توڑ دیا۔ کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ وہ اتنی جلد اس دنیا سے چلی جائے گی۔ ان لوگوں نے سارہ پر شک نہ کیا۔ سہی سمجھا کہ اتفاق سے ان کی بیٹی زہر خورانی کا لقمہ بن گئی ہے۔ انہوں نے رو دھو کر بیٹی کو دفنادیا۔ عجیب اتفاق کہ جس روز اس کو دفنایا گیا، ایک ہفتہ بعد ایک روز اسے دلہن بنا تھا۔ لوگوں نے نصیب کا لکھا سمجھ کر والدین کو صبر کی تلقین کی مگر ماہم کی موت کی خبر سالار پر بجلی بن کر گری۔ وہ در حقیقت اس سے محبت کرتا تھا۔ سہیلی سے تو محض دل لگی میں پھنس گیا تھا۔ وہ بہت افسردہ تھا، خوب جی بھر کر رویا۔


اس کے آنسو پر مجھے اس کو تسلی دینے والی بھی سارہ تھی۔ سالار نے ساری پر شک نہ کیا کہ وہ اپنی سہیلی کو زہر دے کر موت کی نیند سلاسکتی ہے۔ جو بھی ہو وہ اس کی بہترین سہیلی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ بہترین سہیلی جو ہمہ وقت ماہم کی آستین میں رہتی تھی، اسے ڈس بھی لے گیا۔ کچھ دنوں وہ بے حدافسر دور ہے۔ اس دوران وہ سارہ سے مل کر ہی سکون دل تلاش کرتارہا۔ بالآخر اسے سکون دل میسر آہی گیا۔ اس نے سارہ کو اپنا لی اور روحانی سہارا بنا لیا اور اس کے ساتھ شادی کر لی کہ ما ہم تو اس دنیا میں نہ رہی تھی۔ اب اگر اس کو کسی اور لڑکی سے سکون مل سکتا تھاتو وہ اس کی پیاری اور عزیز از جان مایلی سارہی تھی۔


Post a Comment

0 Comments