Ishq Ki Aag Mein Teen Auratien Teen Kahaniyan |
خدایا چہرہ کسی کو دکھائے۔ جب میں نے اپانک اسے دیکھ، چین نکل گئی۔ دوڑ کر بھوسے والی کو تھری میں چھپ گئی۔ ہائی اس وقت بوری میں بھوسہ بھر کر باڑے کو بارہات۔ مجھ کو بد حواس دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ کیا ہوا ہے ملوکاں کیوں اور کو چھپا رہی ہے؟ بجائی ! وہ باہر جھوت کھڑاہے۔ بہت ہی خوفناک شکل والا۔ اتنے میں کسی نے بھائی کے نام کی آواز لگائی۔ وزیرتان..! ارے کلیپ توجیرا ہے، میرے بچپن کا دوست، تو کیا یہ پانی نہیں اسے؟ پانتی ہوں بجھیا۔ مگر! مگر کی؟ ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بھائی نے میری بات مکمل نہ ہونے دی اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ جلنے کے بعد جیرا، بھائی سے ملنے پہلی دفع آیاتا اور اس کا نام سن کر حیرت زدہ رہ گئی تھی۔
کپاپ وہی جراتا۔ ہمارے گائوں کاسب سے خوبصورت نوجوان، اس کو اپنے حسن پر بڑاناز افتا۔ گائوں کی گوریاں اس پر م رتی میں۔ پ اتت بد صورت اور بھیانک شکل کیونکر ہو گی؟ قصب پ ت کہ پہ رمضان شریف کا مبیت تا۔ لوگ بکری کے بعد سوتے نہیں تھے۔ اس روز بھی جب خبر کی اذان ہوئی تو نمازی گھروں سے نکل کر باب سبد رواں دواں ہو گئے۔ اپانک جرے کے گھر سے دردناک چیزوں کی آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی کسی کا گلا دبا رہا ہو۔پ آواز جیرے کی بیوی کی تھی۔ ا س کی دلدوز چیزوں سے اندازہ ہور باھتا کہ وہ اس وقت زندگی اور موت کی جدوجہد میں تڑپ رہی ہے۔ بالاحتر وہ تو پی پی کی زندگی کی بازی ہار گئی اور موت کے بے رحم ہاتھ جیت گئے۔ یہی نہیں، سنگدل تاتل نے اس کے ساتھ ا س کی معصوم ایک ماہ کی بچی کی بھی جان لے کی تھی۔ یہ بات مجھ سے بالاتر تھی کہ ہے گناه نمی لین نمو اور ا س کی نوزائیدہ بچی کا کپ برم ست؟ گھر میں اکیلا پاکر کسی ظالم نے ان کو گلا دبا کر بلاک کر دیا عتا۔
جھی بانتے تھے کہ جپر اپنے کزن کی شادی میں دوسرے گائوں گیا ہو اہتا۔ گھر م یں بیوی اور بیٹی کے علاوہ بوڑھی ماں تھی لیکن جب یہ واقع ہوا، وہ بوڑھی عورت بے ہوش تھی۔ بہو کی ہوشربا چیزوں پر بھی ا س کی آنکھ کھلی۔ معی تا کہ ہ ر وہ شخص تاتل کون ہو سکتاتا جس نے نموائی نیک ، شریف عورت اور اس کی بچی کو اس بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار کر ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے۔ دوسال قبل ہی تو میرے اور نمو کی شادی ہوئی تھی۔ وہ اس شادی پر راضی ن ت لیکن اس کی بہن ، نمو کے بھائی سے قبل ازیں بیاہی باپ کی تھی اور پوٹے سٹے کا سوداکت تھی اس کو والدین کا کہا ماننا پڑا۔ بعد میں میرے اور نمو کی بن گئی۔ دونوں امن اور سکون سے رہ رہے تھے، ان کے درمیان کوئی ناپاق تھی اور نہ کوئی مسئلہ۔
نیب ایک ع ریب مگر شریف دیتی گھرانے کی بیٹی تھی۔ وہ گائوں کے پرائمری اسکول پیپر کی لڑکی ، سوتیلی ماں کے ہاتھوں م یں پلی تھی تبھی شاید وہ شوہر کی خدمت گزار اور وناشار تھی۔ یوں بھی اس کی شادی کی کامیابی کا انحصار ا س کی بھاوج اور بھائی پر کتا۔ وہ دونوں بھی خوش وحترم تھے اذانمو کوئی جھگڑا پیدا کرتی، مبادا اس کے بھائی اور بھائی کا گھر اس کی و ب ے تاب ہو۔ جیے یا اس کے گھر والوں کی کسی سے دشمنیت تھی۔ نمو کے میکے والوں کا بھی کسی سے تنازع، جگر اعتادت تا پر اس کے قتل ہوجانے کا کیا سبب ہو سکتاست اور ت م کون ہو سکتا است؟ پہ بات سمجھ سے بالا تر تھی۔ طرح طرح کے خیالات لوگوں کے ذہنوں میں گھوم رہے تھے۔ بہرحال و قوع پر پولیس پہنچی اور مقدمہ درج ہوگیا۔ تفتیش کے دوران پولیس نے بیرے کو بھی گرفتار کر لی تھی گائوں والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ جیرا تو ایبان کھتا۔ وہ امن پسند ت، ا س کا بیوی سے بھی کوئی جگور است تا تو پھر وہ کیوں اپنی بیوی اور بچی کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیاگیاتا۔ پولیس نے بھی کی گولیاں نہیں کھیلی ہو تھیں، وہ ایک کایاں تھے۔ جیرے کے دوپار چھتر لگائے تو ا س نے اعتراف کرلیا کہ اس نے اپنی بیوی اور بچی کا قتل کیا ہے کیونکہ ان کا وجود اس کی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ بن گیاتا۔ ماں کو پانے میں نث آور گولیاں دے کر اس نے وقوع والی رات سلادیاتا۔ بات یہ تھی کہ شادی سے قبل ہی جیرا گائوں کی ایک حینہ جو اسے پیار کر تانتا۔
دونوں نے دلوں م یں بھیت بھٹنے اور شادی کرنے کی ٹھان رکھی تھی کہ والدین کے دبائو پر جیرے کو نمو سے شادی کرنا پڑ گئی۔ وٹے سے کامعاملہ کت۔ اگر نموے شادی ست کر تا تو ا س کی بہن کو طلاق ہوبانالازم تجبکہ وہ اب پارچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اسی پس منظر میں میرے کی شادی تو ہو گئی لیکن اس نے عہد کیا ہوا تاکہ دوسری شادی وہ اپنی من پسند دوشیزه بین جویری(جویا) سے ضرور کرے گا۔ شادی کے بعد بھی ان کی محبت میں فرق نہ آیا اور جیرا، جو اسے ملتا رہا۔ وہ بھی اپنے محبوب سے ملے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ بان پر شیل کر راتوں کو ندی یار ملنے بنی تھی۔ پہلے وہ میرے سے روٹھی رہی تھی کہ اس نے کیوں شادی کر لی لیکن پھر جب در دفترقتنے بتایا، رہ سنت کی بالاحترام کو ملنے سندهاری تیرنے والا مشکیزہ) لے کر ندی پاراسس کنارے آگئی بدھ کو جبر ارہتات۔ گویا شادی نے آتش عشق کو اور تیر کر دیاتا۔ جیرا، جریا کے سر ہو گیا کہ مجھ سے شادی کر لو۔ وہ بولی۔ م یں کیونکر تم سے شادی کر لوں اور اپنے ماں باپ کے ترلے کروں جبکہ تم تو شادی کر چکے ہو۔ میری اب تم سے شادی کیسے ہو سکتی ہے؟ ہاں !پ وعدہ کرتی ہوں کہ کسی دوسرے سے بھی شادی نہیں کروں گی۔
مجھے گھر والوں نے مجبور کیا تو دریا میں کود کر جان دے دوں گی مگر تیرے سوا | کسی اور کی نہیں بنوں گی۔ م یں نے ماں باپ کو متال اکتا کہ دوسری شادی اپنی م رضی سے کروں گا تبھی تو پہلی شادی ان کے کہنے پر کیا ہے۔ پ نہیں ہو سکتا جبکہ تم شادی کر چکے ہو اور ایک بچی کے باپ بھی بن چکے ہو۔ جب تک تمہاری بیوی اور بچی گھر میں موجود ہیں، میری تم سے شادی نہیں ہوتی۔ جویا حالانکہ بانتی تھی کہ بیٹے کی شادی وٹے سٹے کی ہے ا س لئے وہ کسی صورت بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا پھر بھی اس نے ایسی شرط لگا دی۔ اس کا مطلب توسان تا کہ میرے نے شادی کر کے اس کو ترپاد یانتا۔ وہ بھی اب اس کو اسی طرح تر پاپا ہوتی تھی۔
جویا کے تو وہم و گمان میں بھی ن تا کہ اسے پانے کی خاطر ج رادیوانہ کیا کر گزرے گا۔ اس نے باور کر لیا کہ نمو سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر جویریہ کو دلہن بنا کر گھر نہیں لانے کا بھی ایات دم الطالب پولیس کو بیان دیتے ہی جیسے اور جو یورپ کی محبت طشت از بام ہو گئی۔ کچھ دن کی چلتا رہا۔ ایک ہی خاندان کا جھگڑاتا تو تم بھی انجات۔ تم قتل ہو گئی۔ ا س کی بھابی اپنے گھر کی بربادی کور ور ہی تھی اور ماسٹر بیپاره د کھ سے دہر اہوا اسی سوچ و بپرمیں تا کہ اگر بیٹی کے قتل کے بدلے داماد کو پھانسی لگتی ہے تو بھی بھتیجے کو پھانسی لگتی ہے۔ تب اس کا بیٹا بیوی کو طلاق دے۔ اس کے پارچے چھین کر گھر رکھ لے تو میکے چلی جائے گی تب ان پر معصوموں کو کون پالے گا؟ بڑھیا دادی بہو کے غم میں کھل رہی تھی۔
ماسٹر صابر کسی طور سحبل کی طلاق نہیں پاہت احتا۔ وہ اس کی بہو ہی نہیں بھی بھی تھی۔ وہ بے قصور تھی۔ قتل تو جیرے نے کیات، سزا بسپاری کو کیوں مل رہی تھی۔ وہ بھی اسی سوچ بسپار م یں تا کہ میرے کا باپ برادری کے کچھ لوگوں کے ساتھ ماسٹر صابر کے گھر آیا کہ اس کا چھوٹاگانائی متا۔ بانی اور بھائی نے اس کے پیر پکڑ لئے اور بیٹے کی باں کشی کے لیے منت زاری کرنے لگے۔ برادری کے بزرگوں نے بھی ماسٹر کو کہا کہ بھتیجے کو پھانسی پڑھوانے کی بجائے مسل کر لو، دیت پر فیصلہ کر لو۔ بیٹی کا خون معاف کرنے کا تم کو اختیار ہے۔ اس طرح تمہاری بہن در بدر نہ ہو گی اور پوتے اور پوتیاں بھی مال سے بات ہوں گے۔ ماسٹر پاراب صورتحال سے دوپار کیتا۔ اس کی بیٹی نمو تو مر گئی بیرے کو پھانسی لگنے سے وہ واپس نہیں آ تی تھی لیکن اس کے بیٹے کا بابایا گھر بھی تو ابٹن کوتا۔ ا س نے برادری کا کہا مان لیا اور نمو کانون بالے کر جینے کو پھانسی سے بپالیا۔ اس طرح برادری کے بزرگوں نے مل ملا کر معاملہ دبا دیا۔ کچھ عرصہ قید بھگت کر جیراگھر آگیا۔
ماسٹر نے بے شک بیٹی کا خون معاف کیات لیکن وتدرت نے نہیں کیا۔ میرے کی سزا مقرر ہو چکی تھی۔ بے گناه نمو اور اس کی بچی کا خون رنگ لا کر رہا۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ میرے کی ماں، بیٹے کے لیے جویری کارشتہ طلب کرنے گئی جو اس کے بیٹے کے نام کے ساتھ بدنام ہو چکی تھی مگر تیلی نے یہ کہہ کر کہ تمہارے تاتل بیٹے کو م یں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے سکتا۔ ان دونوں کی طرف سے حقارت سے منہ پھیر لیا بلکہ مزید چوکنا ہو گیا۔ ا س نے بیٹی کی کڑی نگرانی شروع کر دی کہ وہ گھر سے باہر کھیتوں م یں کبھی اکیلی نکلنے ن پائے۔ ان کا خیال تا کہ جیرایب گھتائونا برم کرنے کے بعد جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے عمر بھرسٹر تارہے گایا چیر پھانسی پابائے گا مگر وہ نہ صرف می سلامت زندان سے نکل آیا تا بلکہ ان کی بیٹی کے ساتھ پولیس کے سامنے عشق کا اترار کر کے اس نے ان کے چہروں پر کالک بھی مل دی تھی۔
ا س کے کالے کرتوتوں کے سبب صرف جویا کے والدین ہی نہیں ، گائوں کی عورتیں بھی ا س کو دیکھ کر مت چپ لیتی ہیں۔ میرے کا گھر گائوں میں مگر بیٹھک ندی پارکیٹوں میں تھی جہاں وہ جیل سے چھوٹبانے کے بعد سویا کر تاتا۔ عشق کے مارے محبتوں کی ایسی باتوں کی پروا کرتے ہیں۔ ایک رات ہمت کر کے جویا میرے سے ملنے رات کو ندی کی بانب نکل پڑی۔ دبت موں، سانس روکے اس نے گھ
رکی دہلیز کوپار کیا۔ کانوں کی بالیوں کے سوا سارے زیور اتار کر رکھ
دیئے کہ اس کے کنگنوں، نسلی اور پازیب میں پاندی کے کھرو چھن چھان بولتے تھے۔ پ احتیاط اس نے اس وب سے کی کہ
اس کا بھائی محن میں پار پائی ڈالے سوربات لیکن جب تدرت کو کچھ اور منظور ہوتا ہے، تب ساری احتیاطیں دہری رہ جاتی ہیں۔ وہ دبیز تو بیا آہٹ کے پیار کر گئی لیکن اس کے بھائی کی تھپٹی باگ رہی تھی۔ ابھی اس نے آدھا کھیت پار کیا تا کہ بادل کی آنکھ کھل گئی ۔ گھر کا چکر لگایا اس کمرے میں بھی جھانکا جہاں جویا کی پارپائی پڑی تھی۔ وہ کمرے میں تھین معین میں اور برآمدے میں۔ دیبات کے کمروں میں لیٹرین وغیرہ نہیں ہوتے کہ گمان ہوتاوہ وہاں ہوگی۔ پیش کر سب اول دروازے کی طرف گیا۔ ڈیوڑھی سے ادھر
در کھڑا ہو امت مگر کنڈی نہیں گئی تھی۔ گویا جویا گھر کی دہلیز پار کرتے وقت پ تھیٹر کر چلی گئی تھی۔ وہ سائے کی مانند ا س کے پیچھے نکل کھٹرا ہوا۔ پگڈنڈیاں اور نالے چھلانگتی وہ رات کی تاریکی م یں ندی کی بانب بارہی تھی۔ مشکیزے پر لیٹ کر وہ ندی پار اترنے کا فن حبانتی تھی لیکن سباول کو سندیداری کی بھی ضرورت نہ تھی۔ بغیر مشکیزے اس کے پیچھے وہ منٹوں م یں تیرتا ہو اندی پار کر گیا۔ جویارات کی تاریکی میں محبوب سے ملنے کو اڑی حپلی بارہی تھی۔ ا س کو گمان بھی نہ ہوا کہ اس کا بھائی موت کا فرشتہ بن کر اس کے تعاقب میں پلا آرہا مندی اگر پچھوٹی سی تھی،
پھر بھی پانی م یں اترنے سے کپڑے تو بھی گئے تھے، وہ بھیگی کپڑوں کے ساتھ بیرے کی بیٹی تک پچی تو خنکی جسم م یں اتر چکی تھی اور اسے کپی گئی تھی۔ بیٹھک م یں دیا جل رہات جس کا مطلب تا کہ وہ ابھی تک کسی کا انتظار کر رہا ہے۔ وہاں ایک کمرے کی بیٹھک میں اکیلابگ رہاتا۔ جویانے در واہ بھایا۔ ا س دستک کو وہ پہپانتات، فور در کھولا اور وہ بیٹھک م یں پلی گئی۔ میرے سے کہا کہ ندی کا پانی بہت ٹھنڈات، مجھ کو سردی لگ رہی ہے، مجھ کو ان کو خبر تھی کہ سب اول بین تک بن چکا ہے اور دریا پر کان ر کھے ان کی باتیں سن رہا ہے۔ جوش جذبات میں اس نے گھر سے کوئی ہتھیار نہیں الا یاتا۔
جیب میں صرف ایک ماچس کی ڈبی تھی کیونکہ وہ بیٹری پیاست تاہم اس کے اندر تو جھن جھٹک رہاتا۔ بیٹھک کاور اندر سے بندھتا اور وہاں ا س کی بہن ایک غیر مرد کے ساتھ تھی۔ اس کا خون کھول اٹھا اور جسم وبان غصے کی بھٹی م یں گئے ا س نے اپنے کھیسے م یں ہاتھ ڈالا ، ماچس کی ڈ بیا نکالی اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر پاگل جنونی کی ط رح جیرے کی بیٹی کو آگ لگا دی۔ بیٹھک لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ جبیرے نے کھر کی اور دروازے کے باہر سے گئی کنڈیوں کی زنجیریں بھی پڑھادیں۔ بینک کی دیوار کے ساتھ کپاس کی سوکھی لکڑیوں کے ڈھیر رکھے ہوئے تھے تبھی آگ ن ے تیزی سے ان کو گھیر لیا۔ بانوروں کے پارے کے لیے خشک گھاس کے منوں من ڈھیر بندھے رکھے تھے، آگ نے ان کو بھی کھینچ کر جیرے کی بیٹی کو جہنم بنا دیا۔ اس خشک پ ارے نے آگ پکڑ لی تو شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ جب پاروں طرت ے کجھوے نے آگ پکڑ لی، لکڑی کی انگار چ ت راکھ بن گئی۔ جویا کے لباس کا ایک تارت بپا، اس کا جسم بھی سرے کی مانند بھر گیا۔
پاندی کی بالیاں تک پل کر اس راکھ میں مل گئیں۔ بلتی ہوئی کھڑکی کا ایک پل گرا تو اس میں سے چھلا این کر بھاگ نکلنے کا بیرے کو راستہ مل گیا۔ اس نے ایک خبیث روح کی طرح چھلانگ لگا، خود کو سستی ہونے سے پالیا۔ سب اول تو بائے وقوع سے فرار ہوگیات۔ ہیرے کی حالت یہ تھی کہ اس کے ہونٹ اور مت جھلس کر ٹیٹھے میٹھے ہو گئے تھے ۔ پلکیں ، بال اور بنویں تک نائب لیں اور جسم کی کھال جگ جگ سے گر کر تباہ ہوگئی تھی۔ آگ کی لپٹوں سے وہ اتنا بھیانک اور مکروہ ہو چکاتا کہ اس کی طرف دیکھ بھی ن با تاتا۔ وہ اب ایک ایکی بلی ہوئی تصویر مت جس کا وجود دیکھنے والوں کے لیے باعث کوفت تا۔ وہ عبرت کا ایک تازیان تجسس کو زندہ لوگوں کی آنکھیں برداشت نہیں کرنا پاتی تھیں۔ اپنی بے قصور بیوی اور ننھی منی پھول کی بچی کا گلا دبانے کا نہایت بھیانک انتتام تدرت نے اس سے لے لیاتا۔
جیے کے جلسے وجود اور اس کے مسخ شدہ چہرے سے اب لوگ خون کھاتے تھے اور بے خوف زدہ ہو کر دور بھاگتے تھے سوائے چند ایک کے لوگ اس کے باتھ راہ و رسم رکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ سب اول کو سزا ملی کہ اس کے خلاف وہاں کوئی ثبوت تات عینی شاہدپ آگ کیسے اور کیوں گی، پ کسی طرح کوئی ثابت نہ کر سکنات مگر جپر از ندگی کے بانے سے خوشت تا۔ وہ کہتاتا کہ اس سے بہتر ت کہ مجھ کو پھانسی ہوجاتی۔ پانی ہوتی تو شاید میں اس کی سزاسے بتا
0 Comments