Jab Qismat Badalti Hai Teen Auratien Teen Kahaniyan |
دیہات میں رہنے کی وب سے پردے کی پابندی نہ تھی، پھر بھی مجھ کو اپنے چپ کے سپوت نادر سے محباب آتاھتا۔ وہ اپانک سامنے آ تا تو میں چھپنے کی کوشش کرتی حالانکہ ہمارا بچپن ساتھ کیے گزراعت۔ جوانی آئی تو بچپن کا ساتھ رنگ لایا۔ میرے دل م یں محبت کے قتل نے نادر کی تصویر بنا دی اور کسی کے خوابوں نے اس میں گہرے رنگ بھر دیئے۔ دعا کرتی اے خدا میری محبت بھی بے آبرونہ ہو۔ کبھی مجھ سے کوئی ایسی لغزش نہ ہوجائے کہ اس کی پاکیزگی م یں نرق آئے ورنہ تو مجھ کو زندہ نہ رکھنا۔ دل سے نمکی دعا قبول ہوئی۔ ہمارے بڑوں نے ایک روز میں شادی کے بندھن م یں باندھنے کا فیصلہ کرلیا۔
شادی کی رات اس نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہاتا۔ سول بانتی ہے کہ میرے دل میں تھے حاصل کرنے کی کتنی په تھی۔ سوچتاتاپاہے باری برادری سے کیوں نہ کر لینی پڑبائے، میں تجھ کو حاصل کرکے رہوں گا۔ لیکن اللہ کا کرم ہوا کہ نادر کو برادری سے منکر بھی لینی پڑی اور ہم آسانی سے شادی کے پاک رشتے م یں بندھ گئے۔ وہ دن بھی کتنے پیارے تھے جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ لگتاتا کہ ساری دنیا کی خوشیاں میرے دموں میں ہیں۔ نادر مسیر ارضیق حیات بن چکاتا اور وہ مجھ کو سے پاہتاتا۔ وہ میری ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتات۔ میں ایک پھول کی پاہ کرتی تو وہ باراباغ نرید لانے کی سوچنے لاتات۔ کہتاتا کہ تمہیں پا کر سب کچھ پالیا ہے، اب کسی شئے کی آرزو نہیں ہے۔
نان جب ایسی باتیں کر تا ہے تو تقدیر اس پر ہنس رہی ہوتی ہے۔ ایسی باتیں کرنے کی پور پی سزاہوتی ہے کہ کل جب آتی ہے تو آج کی خوشیاں بھی جھپٹ لے جاتی ہے۔ مجھ سے بھی جانے کون سی جھول ہو گئی کہ م یں نے بھی اپنا اکلوتا بیٹا کھو دیا جو دو بیٹیوں کے بعد پیدا ہو ات۔ تبھی میری پھولوں بھری زندگی میں انگاروں کا طوفان امڈ آیا کہ جس میں ہر خوشی جل کر راکھ ہو گئی۔ ہمارا دیہاتی ماحول کھتا۔ ا س نے بیٹا ہونے کے بہانے میری تدرومنزلت گرانے کو نادر کی دوسری شادی کی باتیں شروع کر دیں۔ پہلے پہل تو مجھ کو یقین نہ آیا کہ میرے مضبوط قتلع بیی محبت میں دراڑ پڑ سکتا ہے۔ محبت کا بٹوارہ بھی ہو سکتا ہے، کوئی دوسری عورت میری سوتن بن کر اس نذرانے کو لوٹ سکتی ہے مگر جب نادر نے دوسری شادی پر رضامندی کا اظہار کر دیا تو میں تے م یں رہ گئی۔ ابھی ہماری شادی کو چھ برس ہی تو گزرے تھے کہ ا س کا دل مجھ سے بھر گیا۔ بیٹے کو آرزو بنا کر ا س نے ایک ایسی نوخیز کلی کو چھین لی جس کا حسن ایک پھنکارتی ناگن جیانې کھتا۔
پھر اس ناگن کاز ہر رفت رفت میری بستی بستی زندگی کونیلا کرنے لگا۔ م یں شٹر کر رہ گئی۔ آهاب تا کہ میرا شوہر ایک نئی نویلی دوشیزہ کے دام الفت م یں گرفتار وہ ایک گوالے کی سولہ سالہ لڑکی کندن سے شادی کر رہا ہے۔ آهای خبر سننے سے پہلے میں م ر ہی کیوں نہ گئی۔ مرنا توپ بات مگر برنابھی اختیار میں ن کتا۔ نادر بن جینے کو دل ن پاہتات مگر وہ مجھے مت نہ لگا انت۔ لوگ کہتے تھے کہ محبت سے دل جیتے جاتے ہیں اور میں اپنا آپ ہار کر بھی اس بھولے ہوئے مبانر کو راہ پر لا سکی۔ کیونکہ اب میں ان کی منزل نہ رہی تھی۔ اب ا س کو میری کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ مجھ میں نہ آتاتا کہ مجھ سے کپتلطی ہوگئی ہے کہ میرا پیارا حبیون بھی دور ہو گیا ہے۔ بہت کوشش کی کہ وہ ا پنی توب سے مجھے محروم نہ کرے کہ م یں گھر میں ایک پالتو بکری سے بھی گئی گزری روحب ائوں لیکن جس نے آگے تم بڑھائے تو پھر پیچھے م ڑ کر نہ دیکھا۔
یہاں تک کہ دوری اتنی بڑھ گئی م یں اپنی دنیا کے ایک کنارے پر رہ گئی اور وہ دوسرے کنارے پر نظر آنے لگا۔ ہم ایک ہی گھر میں رہ کر ایک دوسرے اجنی ہو چکے تھے۔ نادر کو بلاتی تو جواب نہ دیتے۔ ان کی بے رخی کے طمانچے ان کی بیزاری کے تیر، ان کی بے وانائی کے گھائو، سب اپنے دل پر سہ لئے مگر بھی بر اسوپا اور بھی میرے دکھی دل سے نادر کے لئے بد دعا نکلی۔ نوبت یہاں تک کبھی بھی کہ انہوں نے مجھ سے کلام ترک کر دیا۔ پا ن کی دوسری بیوی کی شرط تھی کہ اگر تم پہلی بیوی کے پاس گئے تو میں تم کو چھوڑ کر پلی بائوں گی۔ میں اپنے سر سے منت کرتی کہ تایانی آپ ان کو سمجھایئے، جیا دوسری بیوی کانت ہے میرا بھی ہے۔ وہ کیوں میری حق تلفی کرتے ہیں۔ تایا تو میرے دکھی ہونے کا مال ضرور ت یکن نادر باپ کے کہنے میں نہیں سکتا۔ وہ بے بس تھے۔ مجھے ہی تسلی دیتے۔ بیٹی تو ہی صبر کر۔
اللہ تعالی ایک نہ ایک دن صبر کرنے والے کی ضرور سنتا ہے ، وہ تجھ کو بھی صبر کا بہترین ابر دے گا۔ م یں بتایا کی ڈھارس پر ہی تو اس گھر میں رہ رہی تھی عورت میری سوتن کب کا مجھ کو یہاں سے چلتا کر پی ہوتی ا س کو میری دونوں بچیاں پیاری تھیں۔ وہ ان کی خاطر مجھے رکھنے پر راضی تھی۔ کہتی کہ بچیوں کی وب سے تم کوئی گھر نہیں چھوڑنا ہے، ایسی غلطی مت کرنا۔ سوتن تیری قسمت میں تھی مگر اپنا گھر بے وقوف عورت چھوڑتی ہے۔ تم ایامت کر ناورت تیری بیٹیاں زل بائیں گی۔ تایا کی وفات کے بعد م یں اور بھی اپنے گھر م یں بے سہارا ہو گئی۔ ایک ان کی ذات تھی جس کا نادر کولی اظھتا۔ ان کے م ر تے ہی مجھ پر ہاتھ اٹھانے سے بھی ت چوکتا۔ بات بات پر بات کرنے لگا۔
جب وہ اپنی چین کے سامنے جھک ڈانٹتا، میرا دل نگٹے کھڑے ہوجاتا۔ جیسے ڈھبارے شیشے ٹوٹ کر میرے دل میں اتر گئے ایک دن کت دن اپنے میکے چلی گئی۔ اس کی ماں بیمار تھی۔ آج موقعیت میں چپکے سے نادر کے کمرے م یں داخل ہو گئی اور ان کے پیروں پر اپنا آنسوئوں سے بھیگا ہوا چہرہ رکھ دیا۔ وہ نیند سے بیدار ہو گی اور غصے م یں آپے سے باہر ہو گیا۔ محبت سے جواب دینے کی بجائے دھکا دے دیا اور میں دیوار کے پاس رکھے ٹر نک سے بائی ۔ میرا برٹرنگ کے کنڈے سے زخمی ہو گیا اور خون بہنے لگا۔ اٹھ کر باہر آ گئی کہ پوشی مجھ کو پیٹ نہ ڈالے، تبھی میرابھائی آگیا۔ اس نے جو میرے سر سے خون بہتے دیکھا۔
پوچھا۔ تجھ کو کیا ہوا ہے۔ مردوں میں جھگڑے سے بپائو کی خاطر میں نے کہا کہ المباری کاپٹ لگنے سے چوٹ آگئی ہے۔ اتنے م یں نادر باہر آگیا۔ کہ کہ یہ جھوٹ بولتی ہے۔ م یں نے اسے مارا ہے۔ اب تم اپنی بہن کو ساتھ لے بائو اور ا س کا برا حال کر دوں گا۔ بھائی نے پوچھا۔ آخر تم نے اس کو کیوں ماراہے؟ یہ بات اس سے پوچھ لو۔ نادر نے جواب دیا۔ بھائی کو بہت غصہ آیا۔ کہا کہ ابھی اور اسی وقت پلو، نہیں تو پھر بھی تم میرامن نہ دیکھ سکوگی۔ معاملہ بگڑتے دیکھ کر بار در میان میں آگئی۔ میرے بھائی کو سمجھانے گئی اور اس کا غصہ ٹھنڈا | کرنے کو خاطر مدارت کرنے لگی۔ اس وقت تک کندن دو بیٹوں کی ماں بن چکی تھی، اس لئے اکڑ کر رہی تھی۔
اب تو و باس کو بھی نہیں گردانتی تھی، تب پانی کو افسوس ہوتا کہ تاحت بہو پر سوتین لائی۔ اسی سے خدابیٹا بھی دے ہی دیتا۔ آج دو تنکے کی چھوکری نے ان کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ لپ بیت۔ بعض اپنے حسن کے زور پر لیکن حسن تو آنی بانی چیز ہے۔ کل جب اس کی جوانی ڈھلے گی اور حسن ماند پڑبائے گا تو نادر کی تیسری بیاہ کر لے آئے گا؟ اب ی میری باس کا کہناتا۔ باس کے تاسف کا اور اب ایسی باتوں کا تانده است تا کہ وقت ہاتھ سے نکل چکا کتا۔ اس نے خود ہی تو بیٹے کو دوسری شادی کا رستہ دکھایات اور کندن کی چھب اس کو دکھلائی تھی۔ وہ اگر ایات کرتی تو آج کھاٹ پر بیٹھ کر میرے ہاتھ سے عزت کی روٹی کھاتی اور چھوٹی بہو کے آگے پانی بھرتی۔ سچ ہی کہتے ہیں کہ جو جی ابوے ویب کاشتاہے۔ پاچی نے ہائی کہا۔ حوصلہ کر، جھگڑے سے نہیں، میں صلح صفائی سے اس کو بھیجتی ہوں۔ تبھی م یں بھائی کے ہمراہ میکے آ گئی۔ پہ بھی سچ ہے انسان خود کے کھڑے ہوتے سہہ سکتا ہے لیکن اپنی محبت کے کھڑے ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ م یں نے بھی سوپاشاید ان کی نظروں سے اوجھل ہو کر ہی مجھ کو سکون مل جائے۔ میکے میں آئی تو باپیوں کی برائی سے پینت ملا جن کو نادر نے میرے ساتھ آنے بت دیانتا۔ رات کو سوتے سوتے اٹھے باتی اور ان کا نام لے لے کر پکارنے لگتی۔ ماں اور بھائی بہن مجھ کو سمجھاتے کہ ا س بے وفا کی اولاد کو یاد کر۔ جیا باپ ہے وی ہی بیٹیوں م یں بھی خون دوڑ رہا ہو گا۔ کچھ دن تو آرام سے یہاں رہے ۔ جب بنا ہو گا پلی بانا۔ وہ تو مجھ کو طلاق لینے کا کہتے مگر میں اپنی بچیوں کی خاطر طلاق بھی ن لیناپاہتی تھی۔
بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ اب اس کو سسرال ت بھیجیں گے لیکن اولاد سے برائی میرے بس کی بات نہ تھی۔ م یں اپنی لڑکیاں سوتن کے ہاتھوں م یں دینات پاہتی تھی۔ بے شک داری ان کا خیال رکھتی تھی مگر وہ بھی کب تک زندہ رہتی، اتر تو بچیوں کو ماں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے بمشکل تین بر سر میکے میں جوتے مرتے نکالے۔بس ، بپیوں کو ایک ماہ م یں دو بار مجھ سے ملانے لے آتی۔ وہ بھی رو تھیں اور م یں بھی ان کے گلے لگ کر بلک بلک کر روتی تھی۔ میری حالت سے ماں اور بھائی مجبور ہو گئے کہ مجھے واپس سسرال بھیج دیں کیونکہ میرے دل میں اولاد کی محبت ایسے گڑی تھی جیسے زمین کے سینے میں پہاڑ پیوست ہوتے ہیں۔ اسی اثناء میں، میری سوتن پار بیٹوں کی ماں بن گئی لیکن چوتھے بچے کی پیدائش کا م رحلہ کسی پیچیدگی کے باعث آسان نہ رہا۔ اسے اسپتال لے گئے جہاں آپ تو بخیریت وعافیت اس دنیا میں آئی لیکن ماں کی بان پلی گئی۔ یہ ایک بڑابانیت ۔ میرے شوہر اور اس کے لئے اب گھر میں چھ چکے تھے جن کو سنبھالنے والی ماں کہیں کوئی ہستی نہ تھی۔با س بوڑھی تھی ، وہ کیونکر اتنے بچوں کو سنبھالتی اور ان کے لئے کھانا پکاتی۔ ایسے آڑے وقت م یں اگر کوئی ان کے کام آسکتا تا، ان کے مسائل سمیٹ کر د کھ اپنی جھولی میں بھر سکتاتا تو وہ میں تھی۔ اب کیوں میراخیال آتا جب نادر کانو زائیدہ بی بلکتا اور رات رات بھر اس کو جگاتا، جب دوسرے بچے روتے اور میری لڑکیوں سے ن نجلتے، جب بوڑھی دادی ان بچوں کے کام نہ کر سکتی تو لامحالہ میری یاد تو آتی تھی۔ چند دنوں م یں ہی پاچھی بیمار ہو کر کھاٹ سے لگ گئی تب نادر مجھ کو لینے آگیا۔ جو کہتاتا کہ آنا ہے تو خود آبائے، م یں تو بھی سو میل کولین ا س کے در پر نہیں بائوں گا۔ آج تدرت نے اس کی پگڑی کو نیو دیات یعنی اس کا سر جدا و یا کتا۔ اس نے میری والدہ اور بھائیوں کے پیروں پر اپنی پگڑی رکھ دی اور ہاتھ جوڑ کر مجھے وا پس گھر لے جانے کا سوال کیا۔
مجھے بھی اپنی بچیاں یاد آتی ہیں اور کندن کے بچے وہ بھی تو میرے بچے تھے۔ میری بیٹیوں کے پار بھائی اور میرے شوہر کے بڑھاپے کا بارا۔ میں نے ماں اور بھائیوں سے کہا۔ اب ضد نہ کرو اور مجھے گھر ب نے دو۔ آج پ ت ے لے بانے آیا ہے، اس کا مان رکھ لو کیونکہ بیٹیاں اپنے ہی گھر میں اچھی لگتی ہیں اور میں کرائی ہوئی ایک بار بھی عزت و احترام سے شوہر کے ساتھ واپس گھر کو لوٹ آئی کہ جس کی گردن اب میرے احسان سے تجھکی رہتی
0 Comments