Search Bar

Khawab-Ne-Rah-Dekhai خواب نے رہ دکھائی TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN KAHANIYAN

 

Khawab-Ne-Rah-Dekhai خواب نے رہ دکھائی TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN KAHANIYAN


میں ایک یتیم بچی تھی۔ چچا کے گھر پرورش پائی اور ان ہی کے بڑے بیٹے سے میری شادی ہو گئی ۔ گھر کی لڑکی گھر میں رہی۔ میری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جیسے پہلے تمام گھر کا کام اور ہر ایک کی خدمت کرتی تھی ویسے ہی شادی کے بعد بھی کرتی رہی۔ مجھے ان سب کی خدمت میں سکون ملتا کیونکہ یہ میرے اپنے تھے۔ میرے شوہر کا نام ایوب تھا۔ وہ بہت ساد دول تھے۔ مجھ سے محبت کرتے تھے۔ ان دنوں وہ بھی کھانے کے لائق نہیں ہوئے تھے۔



ہم اپنے سسر صاحب کے دست نگر تھے۔ اس وجہ سے گھر میں میر کی اور میرے شوہر کی حیثیت ثانوی تھی۔ ہمیں چچاجان کا ہر حکم اور فیصلہ بلا چون و چرامانا پڑتا تھا۔ میری عمر صرف بارہ برس تھی جب میری شادی ہوئی۔ بس ایک دن سرخ جوڑا پہن کر میں پلنگ پر بیٹھی۔ اگلے روز بچی نے کہا۔ بیٹی یہ کپڑے اتار کر الماری میں رکھ دو، تیتی ہیں خراب ہو جائیں گے اور یہ سادا جوڑا پہن لو ، پین کا کام تو تم ہی نے کرنا ہے ، پلنگ پر بیٹھی رہو گی تو کام پڑارہے گا، اسے کون نمٹائے گا۔ سمجھ گئی کہ میرے کیا فرائض ہیں۔ ان سے رو گردانی کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ یوں بھی میں کم سنی سے پچی کے دبائو میں تھی۔


انہوں نے میرے ذہن کو یوں اپنے قابو میں کیا تھا کہ جیسے کوئی نازک سی پری کسی جن یادیو کے قبضے میں ہوتی ہے۔ بے شک وہ مجھ سے بہت کام لیتی تھیں لیکن اتنی بری عورت بھی نہیں تھیں۔ انہوں نے بھی مجھے کھانے پینے میں تکلیف نہیں دی۔ بیمار ہو جاتی تو علاج معاملے میں کوتاہی نہ کرتی تھیں۔ لباس بھی اچھا پہناتی تھیں اور اکثر و بیشتر پیار سے بات کرتی تھیں۔ مجھے ان سے کوئی شکایت نہ تھی۔ جب میرے میاں کمانے کے لائق ہو گئے تو میری بھی اس گھر میں حیثیت بن گئی ۔ ہمارا گھر اب خوشیوں کا گہوارا تھا۔ اولاد کی کمی کے باوجود انہوں نے دوسری شادی کا نہ سوچا۔ ہم نے اولاد کی خاطر کیا کیا جتن نہیں کئے۔ کوئی حکیم، ڈاکٹر نہ چھوڑا، میں مرادیں، دور بار، درگاہیں غرض جہاں کوئی بتاتا، ہم وہاں چلے جاتے۔ ہم نے ابھی تک امید کا دامن تھام رکھا تھا۔


ان دنوں میرے شوہر کے پاس موٹر سائیکل تھی۔ ایک رات سونے سے قبل میں نے انہیں تکلیف سے کراہتے دیکھا۔ بولے آج میں موٹر سائیکل پر جاری تھا کہ اچانک ایک گلی سے ایک لڑکا کا اور میری موٹر سائیکل کے سامنے آگیا۔ اس کو بچاتے ہوئے میں خودزخمی ہو گیا۔ ایوب کی تکلیف پر دل کانپ گیا۔ میں رونے گئی تو کہنے لگے۔ ابھی تو تم میری ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کر پارہی ہو، اگر میں مر گیا ہو تب کیا کر تیں؟ میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ خدا نہ کرے۔ آپ ہمیشہ سلامت رہیں، میں پہلے مروں گی۔ پھر ہم نے کہا۔ ہم اکٹھے جائیں گے اور اکٹھے مریں گے۔ وقت گزرتا ہے۔ اس واقعے کے تیسرے

سال اللہ تعالی نے میرے خاوند کو کاروبار میں اتنا منافع دیا کہ انہوں نے ایک بنی گاڑی خرید لیں۔ ہم اس نئی گاڑی میں کسی کی بتائی ہوئی جگہ پر گئے۔ بچے کے لئے دعامانگی اور وہاں ایوب کے دوست کے ہاں ایک دن مظہر گئے۔ میرے شوہر

کو مجھ سے اتنی محبت تھی کہ جہاں ہم جانتے، ایوب نہ صرف بہت اصرار کرتے ، سب سے اچھا سوٹ پہنے کو کہتے بلکہ تمام زیور بھی مجھ کو پہنادیتے۔


اس دن بھی میں نے سب سے اچھے کپڑے پہنے اور کافی زیور پہنا ہوا تھا۔ میری نند بھی ساتھ تھی۔ ایک جگہ گاڑی کھڑی کر کے ہم نے کولڈ ڈرنک پی۔ ہنستے مسکراتے، خوش خوش واپس آرہے تھے کہ اچانک ایک تیز رفتار ٹرک سامنے آگیا، مجھ کو بس ایک دھماکا سنائی دیا تھا اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ میرے شوہر کا نام جم گاڑی میں اس کے بھی ہو چکا تھا۔ انہیں رک رک کر سانس آرہاتھا اور جسم سے خون میں اہل کر گاڑی کو نہیں کر رہا تھا۔ مجھے بھی کافی چوٹیں آئی تھیں ۔ زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ میری سانس بھی برائے نام چل رہی تھی۔ البته میری نند جو پچھلی نشست پر بیٹھی تھی، اس کو بہت معمولی چوٹیں لگی تھیں۔ وہ پوری طرح ہوش و حواس میں تھی۔ جائے حادثہ پر بہت لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ہمارے پیچھے ایک گاڑی آرہی تھی جس میں میاں بیوی سفر کر رہے تھے۔ در حقیقت ان ہی لوگوں نے ہماری مدد کی، وہ ہمارے محسن تھے۔ انہوں نے اپنی کار رو کی اور ہمیں کچھ لوگوں کی مدد سے نکالا۔ انہوں نے دیکھا کہ میرے شوہر کی سانس باقی ہے جبکہ بے حس و حرکت ہونے کی وجہ سے میں تقریبا مرچکی تھی۔


وہ ہم کو جلد از جلد اسپتال لے گئے۔ اس عورت نے کسی کو بھی ہمارے قریب نہ آنے دیا اور تمام زیور اور گھٹڑی اتار کر پرس میں رکھ لی۔ لوگوں کی مدد سے کار میں میں ڈالا اور پولیس کی کارروائی کا انتظار کئے بغیر اسپتال لے آئے۔ یہاں میرے شوہر اور میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کر لئے گئے جبکہ نیند کی مرہم پٹی کر کے اس کو رخصت کر دیا گیا۔ میری نند نے گھر فون کر کے اطلاع دی۔ اطلاع ملتے ہی گھر والے اسپتال آگئے۔ شاید میرے شوہر کی سانسیں گھر والوں کے انتظار میں انکی ہوئی تھیں۔ ان کے آتے ہی انہوں نے دم توڑ دیا، اب ڈاکٹروں نے میری جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان محسنوں نے تمام زیور اور سامان میرے گھر والوں کے حوالے کیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں یادداشت کھو چکی تھی۔ سب گھر والے میرے گرد جمع تھے مگر میں انہیں پہچان نہ پارہی تھی۔


ڈاکٹروں نے ہر مکن کوشش کی کہ میری یاد داشت لوٹ آئے۔ اگرچہ میٹرک پاس نہیں تھی لیکن میر از بین اس طرح کام کر رہا تھا جیسے کسی اعلی تعلیم یافتہ آدمی کا ہین ہوتا ہے۔ اس تبدیلی پر سب ہی حیران تھے۔ ایک ماہ تک میری یاد داشت کم رہی، میں

بے تحاشاز نمی تھی۔ بازوئوں کا ڈاکٹر نے تین بار آپریشن کیا۔ رفتہ رفتہ زخم اچھے ہونے لگے۔ اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ ایوب فوت ہو چکے ہیں۔ گھر والے مجھے بتاتے بھی نہیں تھے اور نہ ہی میں سمجھ سکتی تھی۔ ڈاکٹروں نے میرے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ وہ مجھے دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں تو شاید میری یادداشت لوٹ آئے۔ میری نندیں ساتھ تھیں۔ کار میں ہم جارہے تھے کہ اچانک سامنے ایک تیز رفتار ٹرک آگیا کار کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور مجھے محسوس ہوا جیسے میں ابھی نیند سے جاگی ہوں۔ یکدم ہی مجھے ہوش آگیا۔ میں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ کار چل رہی تھی۔ میری نندیں میرے گرد بیٹھی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا۔ گاڑی تو ایوب چلا | رہے تھے ، وہ کہاں ہیں؟ اچانک میری یاد داشت لوٹ آئی تھی۔ مجھے وہ خوفناک حادثہ یاد آ گیا۔ بہنوں سے پوچھا، ہم کار میں کہاں جارہے ہیں اور میرا شوہر کہاں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کار کے حادثے میں زخمی ہو گئے تھے ، ابھی تک اسپتال میں ہیں۔

انہوں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ دوران سفر مجھ کو اس اندوہناک حقیقت سے آگاہ کر دیں کہ ایوب فوت ہو گئے ہیں۔ البته انہوں نے یہ بتادیا کہ میر کی یاد داشت کھو گئی تھی اور وہ مجھے علاج کے غرض سے اسپتال لے جارہے تھے۔ مجھے پتا چلا کہ میں دو ماہ تک ہوش و حواش سے بیگانہ رہی ہوں، تو بہت حیران ہوئی۔ مری یادوں کی زنجیر یاد داشت گم ہونے سے لوٹ آنے تک محدود تھی۔ اب میں نارمل باتیں کر رہی تھی۔ سب کو پہچان رہی تھی، اس لئے گھر والے اسپتال لے جانے کے بجائے گھر لے آئے۔ مجھے اپنے محبوب شوہر کی موت کے صدمے سے بحالی میں ایک سال لگ گیا۔ سال بھر تک میرے سسرال والوں نے کچھ نہ کہا۔ اس کے بعد ان کا رویہ بدلنے لگا۔ نندیں مجھے فالتو شے سمجھنے لگیں کیونکہ اب میں پہلے جیسا کام کاج کرنے سے بھی قاصر تھی۔ حادثے کی وجہ سے بازو کی ہڈیاں ٹوٹی تھیں۔ اس لئے زیادہ کام کاج نہیں کر سکتی تھی۔ ساس مجھ کو دیکھتے ہی ٹھنڈی آہیں بھرنے لگتی تھیں کہ ان کو اپنا مر حوم بیٹ یاد آجاتا تھا اور چپکا خیال یہ تھا کہ میری شادی کر دی جائے تاکہ باقی ماندہ زندگی کا کوئی آسراتو ہو۔ اب تمام گھر والے اس کشمکش میں تھے کہ میرا کیا کریں ؟ میری کوئی اولاد بھی نہیں تھی جس کے سہارے باقی زندگی کاٹ لیتی۔ ندوں کو مجھ سے تبھی دپ ی ہوتی اگر میں ان کے کام دوڑ دوڑ کے کرنے کے قابل ہوتی۔ زیادہ پڑھی بھی نہیں تھی کہ کہیں ملازمت کر لیتی۔ بے کار آدمی کسی کو بھاتا ہے ، وہ تو ایک مستقل بوجھ ہوتا ہے۔ اب سوائے دیوار کے گھر میں کسی کو میرا خیال نہ تھا۔



حیران تھی جس گھر کو پیدائش کے وقت سے اب تک اپنا گھر سمجھتی آرہی تھی، اب وہی میر انہیں رہا تھا۔ اپنے ہی گھر میں میں اجنبی بن گئی تھی۔ مجھے اجنبیت سے دوچار کرنے والے کون تھے۔ وہی لوگ جنہیں میں اپنا کہتی تھی اور اپنا سمجھتی تھی۔ یہ صورت حال میرے لئے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی لیکن میں مجبور تھی، دوسری شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے اپنے مرحوم شوہر سے اتنی محبت تھی کہ اب تو ان کی یاد میں ہی میری زندگی کا سرمایہ تھیں۔ چی بھی عجب گو مگو کی کیفیت میں تھے۔ ایک طرف بیٹے کی موت کا صدمہ تھاور دوسری جانب بھیجی کی آئندہ زندگی کی فکر۔ ابھی میری نندوں کی شادیاں بھی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ میری دوبارہ شادی کے تذکرے کرنے لگے تھے۔ ایک تو شوہر کی موت کا اتنا صدمہ تھا کہ جانے میں

زندہ کس طرح تھی۔ میری تو نالٹ گئی تھی۔ ایک لیے میں سب کچھ بدل کر رہ گیا تھا۔ مجھے چپ سی لگ گئی۔ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا ہو جائے گا۔ میرے سسرال والے جانے کیوں اتنے پریشان تھے۔ انہیں دن رات ایک ہی بات سوجھتی تھی، اب اس کا کیا بنے گا۔


یہ زندگی کیسے گزارے گی؟ صرف ایک میر اولیور ایسا تھا کہ جو کہتا تھا کہ اس کے حال پر چھوڑ دو، جو اس کا نصیب ہوگا، وہی ہو جائے گا، آپ لوگ کیوں اس کو پریشان کرتے ہو۔ جب میں نے دیکھا اس گھر میں ایک دیور ایسا ہے جو میرے بارے میں ہمدردی سے سوچتا ہے تو اس کو اپنا ہمدرد سمجھنے گئی۔ سوچتی تھی گھر میں بس ایک انسان ایسا ہے جس کو میرے دکھ کا احساس ہے۔ اور وہ میرادلیور تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ میری مرضی کے بغیر کوئی مجھ کو در بدر کر دے ۔ وہ کہتا تھا کہ یہ گھر زہر کا ہے۔ جیسے پہلے تھا ویسے ہی اب بھی ہے، اگر کسی نے اس کی کفالت کو بوجھ سمجھا تو میں اس کی کفالت کروں گا۔ یعقوب کی بار بار حمایت سے گھر والوں کاؤ ہن دوسری طرف چلا گیا۔وہ سمجھنے لگے کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ جب یہ خیال ان لوگوں کے ذہن میں

آیا تو بات زبان پر بھی آ گئی۔ اس بات کا سننا تھا کہ دل کو دھچکا لگا۔ میں نے کہا، | اب یہ ظلم کبھی مجھ پر ہونا تھا۔ میں تو دیور کو اپنے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھتی تھی اور آپ لوگوں نے ایسا کہہ کر میرا ایجہ ہی نکال لیا ہے۔


میرے رونے اور دیکھ کر نے پر یعقوب نے تسلی دی کہ تم کچھ بھی مت سوچو اور جو دوسرے سوچتے ہیں انہیں سوچنے دو۔ ہر انسان کو اپنی سمجھ کے مطابق سوچنے اور اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق بات کرنے کا حق ہے۔ پہلے تو میری ساس اس بات کا بے حد برامناتی تھیں کہ یعقوب کیوں میر کی حمایت کرتا ہے اور مجھ سے ہمدردی کرتا ہے، بعد میں جب چا نے بچی کو کچھ سمجھایا تو وہ کسی

اور ہی نہج پر سوچنے لگیں۔ ایک دن جب میں بخار میں پڑی چھنک رہی تھی، وہ میرے کمرے میں آئیں۔ ہمدردی سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔ بیٹی، میں کب چاہتی ہوں کہ تم ہمارے گھر سے کہیں اور جائو، اگر تم مان جائو تو ہم تمہاری شادی یعقوب سے کرنے کو تیار ہیں کیونکہ رات تمہارا خاوند میرے خواب میں آیا تھا، اس کے ہاتھ میں پھول تھے، اس نے مجھ سے کہا ماں یہ پھول یعقوب اور زہرا کو دے دو۔ اس خواب سے میں نے یہی مطلب نکالا ہے کہ تمہاری شادی لیعقوب سے کر دوں تا کہ تم کو اپنا گھر چھوڑ کر کہیں نہ جانا پڑے۔ ایک تو بخار کی گرمی میرے وجود کو جلارہی تھی، اوپر سے ساس نے ایسی بات کہی کہ میں جہنم جیسے الائو میں جائے گی۔ میں نے اس کی طرف سے نفرت سے منہ پھیر لیا اور کہا۔ مجھے چند دن کی مہلت دے دیئے ، ٹھیک ہو جائوں گی تو خود ہی نہیں چلی جائوں گی۔ چی میر ایہ جواب سن کر خاموش ہو گئیں اور کمرے سے چلی گئیں۔



میں سوچنے لگی یہ لوگ کتے خود غرض ہو گئے۔ کیا ان سے میرا کوئی دو سر ارشتہ نہیں ہے، سوائے بہو ہونے کے ۔ اگر میں ان کی بہو نہیں رہتی تو اس گھر میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنے کمرے میں منہ لپیٹے پڑی رہتی تھی اور گھر کے تمام افراد سر جوڑ کر میرے بارے میں مشورے اور منصوبہ بندیاں کرتے رہتے تھے۔ سوچ لیا تھا کہ ان لوگوں کا ساتھ نہیں دوں گا۔ یہ گھر چھوڑناپڑا تو چلی جائوں گی۔ چھ ماہ تک اندر ہی اندر کچھو کی پکار ہیں، کسی نے مجھے کچھ نہ کہا۔ ایک دن چھی اور چائے اور کہنے لگے۔ بٹی ہم تیرے بزرگ ہیں، یہ توتم مانتی ہو۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم ہمارا گھر چھوڑ کر کسی اور گھر دور کی بہو جائو۔ پہلے تو ہماری بہو تھی اب بیٹی بھی، تمہارے بارے میں سوچنا ہمارا فرض ہے، ہم نے یعقوب کو سمجھایا ہے اور وہ مان گیا ہے، اب تم بھی مان جائو تا کہ دو بول نکاح کے پڑھوا کر ہم ایک طرف ہو جائیں اور بڑا بوجھ ہمارے سر سے اتر جائے۔ اس وقت میں نے ان سے الجھنا مناسب نہ سمجھا۔ بس اتنا کہا آپ مجھے دو چار دن سوچنے کی مہلت دیجئے۔ دل میں ٹھان لی کہ اب اس جھگڑے کو ختم کر دوں گی۔ پچھے کھا کر زندگی ختم کر لوں گی یا گھر سے نکل کر کسی دارالامان میں جاکر پناه لے لوں گی۔ اس رات بہت رورو کر دعائیں مانگ کر سوئی کہ اے اللہ تو ہی میری رہنمائی کر اور مجھے کوئی اچھار استہ بجھادے۔ لیتوب سے تو شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آدھی رات تک کروٹیں بدلتی رہیں۔ نجانے رات کے کون سے پہر نیند آگئی ۔ کیا سمجھتی ہوں کہ ایوب خواب میں آئے،ان کے ہاتھوں میں پھول ہیں، انہوں نے کچھ پھول میری جھولی میں ڈالے اور کچھ یعقوب کو دیئے اور کہہ رہے ہیں کہ تم یعقوب سے سمجھوتا کر لو، میں اس میں خوش ہوں۔


اسی وقت میری آنکھ کھل گئی۔ کیسا عجیب خواب تھا۔ میں کانپ کر رہ گئی۔ بستر پر پڑی لرزرہی تھی۔ پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے ہی خواب میری ساس نے دیکھا تھا اور میں سمجھتی تھی کہ وہ ایک جھوٹا خواب مجھے سنا کر اپنا مطلب نکالنا چاہتی ہیں۔

اور میرے خدا! تو کیا وہی خواب میرے لاشعور نے ڈہرایا تھا۔ واقعی خواب تھا یا واقعی خواب میں ایوب آئے تھے۔ بستی میں جاگتی رہی اور سوچتی رہی، یہاں تک کہ اذان کی آواز میرے کانوں میں آئی تو میں ایک حتمی فیصلے پر پانی چکی تھی۔ سوچ لیا کہ کیا اور بچی میرے بزرگ ہیں اور انہیں میرے بارے میں سوچنے کا حق ہے۔ میں نے کلی طور پر اپنے آپ کو ان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب پچی نے میرا فیصلہ پوچھا تو میں نے انہیں کہہ دیا۔ چچی جان جیسی آپ کی مرضی، میں آپ کی بیٹی ہوں اور ماں باپ بیٹیوں کے بارے میں برا نہیں سوچ سکتے۔ یوں میں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کا نکاح مجھ سے کر دیا۔ کئی دن تجھی بجھی سی رہی۔ دل اپنے پہلے شوہر کو بھلا نہیں پاتا تھا اور دیور کو بطور شوہر ذ ہن قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ وقت بڑا طاقتور منصف ہے۔ یہ ظالم و جابر حکمران ہے، اس کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ رفتہ رفتہ ماضی کے گھائو مندمل ہونے لگے۔ ذہن نے یعقوب کو بطور شوہر تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ اس میں الیعقوب نے بھی میری مدد کی۔ وہ مجھے سمجھاتا۔ زہر ا ہم سب تمہاری بہتری چاہتے تھے اور ہم سب تم سے پیار کرتے ہیں اس لئے بہر حال جو منهن وقت تھاوہ گزر گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے جسم میں توانائی آنے گی .... زندگی میں دپی لینے لگی۔


ایک دن یعقوب نے بتایا کہ میں نے بھیا کو خواب میں دیکھا تھا، اپنے گلے سے پھولوں کا ہار اتار کر میرے گلے میں انہوں نے ڈالا تھا۔ جب یہ خواب دیکھا تو تم سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ ہم سب جو اپنی اپنی جگہ پریشان تھے، کسی فیصلے پر نہ پارہے تھے ، ایوب نے ہر ایک کے خواب میں آ کر ہماری مدد کی ۔ ایک شخص کا بیان جھوٹا ہو سکتا ہے لیکن تین کا نہیں۔ تبھی سے مجھے یقین ہو گیا کہ مرنے والوں کا اپنے پیاروں سے تعلق ضرور ہوتا ہے، بشرطیکہ ہم انہیں دل سے یاد کریں۔ رشتے نے ایک بار پھر مجھے اس گھر کے ساتھ ٹوٹی ہوئی زنجیر کو جوڑ کر جکڑ دیا۔ اگرچہ وہ حادثہ جس نے میرے شوہر کو مجھ سے جدا کر دیا تھا، بھولتا نہیں ہے۔ میر اذ ہن اب بھی کبھی بھی خلائوں میں جھانکتا ہے۔ اکثر میں چہرے بھول جاتی ہوں لیکن میری زندگی کو نئے راستے پر ڈالنے والے میرے محسن میرے پچپاور پچی ہیں، جن کو علم تھا کہ میں بانجھ ہوں۔ اگرچہ میں بعد میں یعقوب کے کئی بچوں کی ماں بنی، پھر بھی انہوں نے دوسری بار مجھے اپنے گلے سے لگایا اور میری تمام بے رخی و مخالفت کو سہہ گئے ورنہ جس یتیم مینی کا شوہر وفات پا چکا ہو، اس سے پیچھا چھڑانا کون سا مشکل  


Post a Comment

0 Comments