Khushiyon Ki Talash Mein Teen Auratien Teen Kahaniyan |
والد ایک ہوائی کمپنی میں آفیسر تھے۔ میں ان کے ساتھ اکثر ائیر پورٹ بنتی تو ائیر ہوسٹس مجھے بہت اہمیت دیتی
تھیں۔ پیارسے ملتیں اور میراخیال رکھتیں۔ مجھے ان کی وردی اچھی لگتی تھی۔ تصور م یں بتایا کہ بڑی ہو کر ان ہی کی طرح فصتائی میزبان بنوں گی۔ ہم ایک اچھے گھر م یں رہتے تھے۔ والد کی تنخواہ بھی اچھی تھی۔ زندگی کی بھی آتشیں میسر تھیں۔ ہمارا طرز زندگی بہترین نعت تبھی معزز گھرانوں سے رشتے آنے لگے۔ لیکن میں نے ہر رشتے ٹکرایا کیونکہ بچپن سے ائیر ہوسٹس بنت امیر اخواب کتا۔ جبکہ والدین نے پاہتے تھے کہ ملازمت کروں بلکہ وہ جلد از جلد میری شادی کے مرض سے سبکدوش ہوناپاہتے تھے۔
میں ضد پر اڑ گئی۔ والد صاحب کو اجازت دیتے بنی ، انہی کے توسط سے درخواست دی۔ انہی دنوں ائیر ہوسٹس کی کچھ اسامیاں کی تھیں، خوبصورت تھی لہن الغير سفارش کے منتخب ہو گئی۔ اتنی خوشی ہوئی بتا نہیں سکتی کیونکہ یہ میری پسندیدہ "باب تھی۔ میر اوہ خواب پورا ہو گیا جو میں نے بچپن میں دیکھاتا۔ ٹریڈنگ مکمل ہوتے ہیں ڈیوٹی م ل گئی۔ دن یا رات کی جو بھی ڈیوٹی ملتی ، ذرا بھی تمکنت ہوتی۔ گھر آتی خوش باش، ہشاش بشاش چہک رہی ہوتی جبکہ دوسری لڑکیاں تھکن کی شکایت کر تھیں۔ لگتات میں بنتی ہیں اسی باب کے لئے تھی۔ یہ میری پسندیدہ زندگی تھی۔ دوبال کی سروس میں تقریبا تمام ملکوں کی سیر کرلی۔
میری کار کردگی اچھی تھی لہذا انٹر نیشنل لائن پر بانے گئی تھی۔ میں نے پارسال سکون سے سروس کی، والد صاحب
بیمار پڑ گئے ، دل کا عارض تشخیص ہوا تو انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اب انہیں بچیوں کو ان کے گھر کا کرنے کی فکر ستانے لگی۔ وہ اصرار کرنے لگے کہ پہلے م یں شادی کے لئے سنجیده ہوبائوں مگر مجھے تو ملازمت میں مزا آرہات۔ ابھی سے شادی کے بندھن میں نہ بندھناپاہتی تھی۔ میں نے کہہ دیا کہ آپ پہلے میری دونوں چھوٹی بہنوں کی شادیاں کر دیں۔ م یں بعد م یں دیکھ بھال کر خود اپنی زندگی کا بھی منتخب کروں گی۔ م یں بغیر دیکھے جانے کسی اجنبی سے شادی نہیں کرناپاہتی تھی۔ جو لڑ کی ملکوں ملکوں گھومتی ہو ، رات دن کی ڈیوٹی کرتی ہوں، گھر سے باہر رہی ہو۔ اس میں اتنا اعتاد با تاہے کہ وہ والدین سے اپنے مستقبل کے بارے م یں بات کر کے اور م یں سمجھتی تھی کہ
میراحت بھی بنتایتا۔
والدین کو م یں نے دلائل دے کرتائل کر لیاوه خاموش ہو گئے اور چھوٹی بیٹیوں کے بیاہ کی تیاریاں کرنے لگے۔ دوسال اور گزر گئے۔ اب میری شادی کی عمر آگئے کو سرک رہی تھی ۔ خود مجھے نکر ہوئی۔ ایبان ہو کہ وقت شکل حبانے اور پیر کی زیادہ عمر کے بال بچوں والے سے ناتاجوڑناپڑے۔ م یں اپنی پسند سے شادی کر سکتی تھی
لیکن مشکل یہ تھی کہ ابھی تک مجھے اپنے معیار کا خص نہ ملاتا۔ دل ایک ایسے ب ھی کی تلاش م یں تاجو مجھ پر اعتاد کر تا ہوں۔ مجھے ملازمت سے منع نہ کرے بلکہ اتنی آزادی دے جتنی ابیان ایک روزن لائنٹ کے دوران ایک نوجوان سے ملاتات ہو گئی، جس کی شخصیت نے مجھ کو مسحور کر لیا۔ وہ مجھے اچھا لگا اور میں اس کو بھی گئی۔ اس نے میرا فون نمبر اور پتا مانگا میں نے بلا تا مل دے دیا۔
ہماری چند ملاتاتیں ہوئیں، اور ہم نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ پہلے تراز نے مجھ کو اپنی والدہ سے ملوایا۔ جب انہوں نے مجھے پسند کر کے رضامندی دے دی تو م یں ایک روز تراز کو گھر لے گئی، والدین سے ملوایا۔ تراز م یں کیا کیا تھی کہ وہ ا س کو ناپسند کرتے۔ وہ انجیرفت، خوش شکل اور بر د بارکھتا۔ والد صاحب نے اس سے گفتگو کی ان کو فراز کو داماد بنانے میں کچھ مسئلہ نہ لگا۔ یوں انہوں نے میری پسند پر رضامندی دے دی۔ میں بہت خوش ہوئی، کیونکہ راز میں
بے حد کشش تھی۔ مجھے تو پہلی ملاتات میں لگاتا کہ جس کی بطور بیون ساتھی تلاش تھی، یہ وہی انسان ہے۔
ایک دن تراز اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے گھر آیا اور آنے کا مدعا بیان کیا۔ والدین تو اسی دن کے انتظار م یں تھے۔ انہوں نے ان لوگوں کو خوش آمدید کہا اور رشتے کی بات چیت طے ہوگئی۔ یوں میری تراز سے شادی ہو گئی۔
میں نے ایک ماہ کی پٹی لے لی اور ہم نے زندگی کے پی یادگار دن سیر و تفریح میں گزار دیئے۔سال بھر توحالات ٹھیک ہے، پیرباس صاحب نے اپنی تکالیف بتائی شروع کر دیں۔ دراصل میری کوئی سند نہ تھی۔ دو دیور تھے، وہ پاہی تھیں کہ ان کی عمررسیدگی میں ہو اب گھر پر رہے، جبکہ میری ملازمتی ایسی تھی کہ دین ہویار است، جب ڈیوٹی ہوتی گھر سے باہر رہتاہی ہو تاھتا۔
جن لڑکیوں نے ائیر ہوسٹس کا پیشہ اپنایا ان کو بخوبی علم ہو گا کہ اس ملازمت میں کمرے غیرحاضر رہنے کے باعث کیسے کیسے مسائل حبنم لیتے ہیں۔ میں تو انٹر نیشنل لائن پر رہتی تھی، سو کئی کئی دن گھر سے دور رہتی۔ جب کوئی ایسی غیر ملکی وتلائٹ ہوتی کہ بھی ہفتہ دس دن بھی باہر لگ جاتے۔ اس کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ انہوں نے کہنا
شروع کر دیا کہ لوگوں سے کیا کہوں جو کہتے ہیں کہ وہ بہو کی جو گھر م یں ت رہے اور اسکی بیوی کسی کام کی کہ شوہر راتوں کو بھی اکیلارہے۔
شروع میں اس کی ان باتوں کو درگزر کیا۔ سوپ پرانے وقتوں کی ہیں، جب تراز کو میری ملازمت سے مسئلہ نہیں ہے توپ جو کہتی ہیں کہ تیار ہیں۔ رفت رفت جب ووتراز کے زیادہ ہی کان کھانے گئیں تو وہ بھی الجھن محسوس
کرنے لگے۔ مال کو ناراض نہ کرناپاہے۔ وہ کہتی تھیں کہ بیوی سے نوکری چھڑو اور ہمیں اس کی کمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ اتنی ہی نوکری کی شوقین ہے تو کسی اسکول میں ٹیمپرنگ بائے۔ جبائے، دوپہر کو گھر آبائے لیکن یہ دن رات کا غائب رہتا مجھ کو گوارا نہیں۔ جو رشتے دار آتے ہیں، یہی کہتے ہیں، تراز کی بیوی گھر
میں نہیں رہتی۔ یہ ہمارے لئے بڑی بے عزتی کی بات ہے۔ اسی نوکری حبائے باڑ میں، تم کھارہے ہو۔ وہ گھر بار دیکھے اور آرام سے تمہاری کمائی کھائے۔ میں اب بوڑھی ہو چکی ہوں۔ مجھے سے گھر کی تمام ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ ترازنے روز روز کی ماں کی ہی سے تنگ آکر باختر ایک روز مجھے کہہ دیا کہ تم اب ملازمت سے استعفی دے دو ورنہ اماں مجھے جینے نہ دیں گی۔
وہ بہت بے سکون ہوتی ہیں تمہاری دن رات کی غیر موجودگی کے باعث۔ دراصل ان کا کہنا بھی درست ہے وہ شوگر کی م ریض ہیں، سارا انتظام نہیں سنبال سکتیں ، تھک جاتی ہیں۔ ان کو گھر میں تمہاری اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس بات کو تم سمجھویات جو تراز ، لیکن تم نے تو مجھے شادی سے قبل اس بات کی ابازت دی تھی کہ میں ملازمت جاری رکھوں گی اور تم منع نہیں کرو گے۔ معاملہ ہمارے درمیان طے ہو گپ ہوالت لیکن عمر بھر کے لئے نہیں، اب مجبوری ہے۔ ماں پریشان رہتی ہیں۔ آخر کار ان کے بارے میں ہمیں ہی تو سوچتاہے۔ وہ خواہ مخواہ پریشان رہتی ہیں، گھر میں نوکر ہیں، ملازم ہے، ان کو کام کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میری آپ سے یہ بات شادی
سے پہلے کی طے ہو چکی ہے کہ ملازمت نہ چھوڑوں گی اور آپ نے منظور کر پاتا۔
آپ بھی جانتے تھے کہ اس ملازمت کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے گھر سے بھی زات ، دن باہر رہنا پڑتا ہے، اپنی
والدہ کو سمجھائے کہ ہر وقت ملازمت کو ایشو بنا کر میت اج کریں ورنہ میرا آپ کا تعلق ختم ہو بائے گا۔ م یں نے بھی حتمی بات کہ دی۔ تراز نے والدہ کو سمجھایا، وہ نہ سمجھ سکیں۔ بولیں میرے بیٹی نہیں ہے ، سوپاست کہ بہو بیٹی کی طرح بن کر رہے گی۔ اب تمہارے چھوٹے بھائیوں کی شادی کرنی ہے۔ شادی کی تیاری کے لئے بازار کے چکر لگانا، بری بناناپ سب مجھے اکیلی کے بس کی بات نہیں ہے، بتائوں کا سہارالوں۔ بس تم بیوی سے کہو کہ نوکری چھوڑ دے۔ جب ہمارے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں تو آتراسے نوکری کرنے کی ضرورت کیاہے؟
بات تو یہ تھی کہ تراز اچھی پوسٹ پر تھے، گھر م یں کسی شے کی کمی نہیں تھی مگر میں ملازمت روپے پیسے کے لئے نہیں کررہی تھی۔ مجھے تو بس شوق مت اور آدمی اپنے شوق کی تسکین کے لئے کیا نہیں کرتا۔ یہ بات بہت بعد میں مجھ میں آئی کہ مرد کی بھی گھر میں ایک حیثیت ہوتی ہے۔ اگر وہ شوہر ہوتا ہے تو بیٹا بھی ہوتا ہے۔ دونوں رشتوں
میں توازن نہ رکھ سکے تو گھر کا شیرازہ بھر بات ہے۔ کسی نہ کسی طرح دوبال اور نکل گئے۔ میرے دیوروں کی بھی شادیاں ہو گتیں۔ وہ ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہروں پلے گئے تو بیویاں بھی ساتھ لے گئے۔ میری بات کی آرزو پھر ادھوری رہ گئی کہ کوئی بہو گھر م یں ان کے ساتھ موجود ہو۔ سال بعد دیورانی کے بیٹا ہوا۔اس خوش ہونے کی بجائے رونے لگیں کہ مجھے تو بڑے صاحبزادے کی اولاد دیکھنے کی چاہ تھی
مگر اس کی بیوی گھر بیٹھے تبنا۔ ان کی بات ٹھیک تھی لیکن م یں ابھی پانچال اور روس میں رہناپاہتی تھی تا کہ ملازمت چھوڑنے کے بعد کے فوائد کی حق دار ہوتائوں۔ تب ہی اولاد کے ہونے سے اجتناب برت رہی تھی اور فیملی پلاننگ کے طریقوں پر عمل پیرا تھی۔ میں نےشادی کو ابھی تک اپنے دفتر والوں سے پوشیدہ رکھات۔ میری ملازمت کے اوتات کار ایسے تھے کہ میرے لئے بچے کی پیدائش کے مراحل طے کرنا اور اس کی پرورش بہت دشوار امرت۔ میں کیسے ماں بنی؟ آن مانتی ہوں انسان کے بعض شوق ا س کو لے ڈوہتے ہیں۔ اگر مجبوری مالی ہو تو اور بات ہے لیکن میرے ساتھ ایا تا۔ اولاد بھی ایک نعمت ہوتی ہے اور وقت پر اولاد کا | ہوناہی احسان ہوتا ہے۔ م یں ا س نکتے کون سمجھ سکی اور ملازمت کا جنون مجھے لے ڈوبا۔ رفتہ رفتہ ا س نے مجھ سے بحث و تکرار بند کر دی اور اب کیلئے نہیں بانی تھی کہ ان کی پ ن موشی کسی خطرناک صورتحال کا پیش نیب ہے۔ جب ان کی آرزو حسرت میں بدلنے گئی تو انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کچھ ایا گٹھ جوڑ کر لیا کہ مجھے کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ اور وہبازش تیار ہو گئی جس نے میراگھر تباہ کر دیا۔ این دنوں میری ا س بیمار تھیں۔ ان کو دیکھ بھال کے لئے کسی ایسی ہمدرد کی ضرورت تھی جو بیٹی کا کردار ادا کر سکے۔ انہوں نے اپنے گائوں پیغام بھجوادیا۔
تو ان کے بھائی نے فورا اپنی اشارہ برس کی بیٹی کو ان کی خدمت گزاری کے واسطے ہمارے گھر پہنپ دیا۔ نبیلہ نے آتے ہی اپنی پچ پچھو کی دیکھ ب ال شروع کر دی۔ وقت پر کھانا بنانا، ان کو نہلانا دھلاناء کپڑے تبدیل کر اتناء عترض تمام کام دلجوئی اور محبت سے کرتی۔ اس نے ہمارے گھر کا سارا انتظام سنبھال لیا اور اپنی پھوپھی کو پلنگ
پر بٹھادیا۔ یہی نہیں تراز کو بھی بہت آرام ملا۔ نبیلہ کے ہاتھ کا پکا کھانانو کروں کے ہاتھ کے کھانے سے کہیں بہتر تا۔ ان کے کے کھانوں میں وہ لذت کہاں جو نبیلہ کے ہاتھ م یں تھی ۔ وہ تمام کام بھی لیتے اور توب سے کرتی تھی۔ اس کے والد نے بیٹی کو نصیحت کی تھی کہ میری بہن کا بہت خیال رکھنا۔ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، کوئی کوتاہی نہ کرنا کہ ان کا بڑھاپاہے۔ مجھ کو نفر از پر کتنیقین محتا۔ لگتاتا کہ ہمارے درمیان اعتبار کارشتہ بھی نہ ٹوٹے گا۔ وہ بھی کسی اور عورت کون پاہیں گے ،
مجھ سے بھی دھوکا نہ کریں گے۔ بعد م یں پتاپلا کہ پیار کا سپنا، پناہی ہو تا ہے اور اصل حقیقت وہ شے ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ میاں بیوی کے رشتے بھی ضرورت کے دھاگے سے بندھے ہوتے ہیں۔ میں توتلانٹ پر ہوتی ، گھر پر تراز اور نبیلہ ہوتے۔ وہ گائوں کی سیدھی سادی لڑ کی تھی جو صرف آٹھویں پاس تھی مگر اس میں وہ گن تھے جو اس بہو میں دیکھنا پہتی تھی۔ پس اس کی قسمت باگ رہی تھی کیونکہ میری قسمت سونے والی تھی۔ مال نے تراز کو اپنی تم دی کہ تم میری مجھ سے شادی کر لو تا کہ م یں تمہاری اولاد کی خوشی دیکھ کر مسروں، تمہاری بیوی ائیر ہوسٹس رہناپاہتی ہے تو اس کو ائیر ہوسٹس ہی رہنے دو۔ وہ ن تو ماں بنناپاہتی ہے اور نہ ہو اور بیوی۔ پھر وہ ہمارے کس کام کیا
ہے؟ عرو پیٹ کر انہوں نے تراز سے اپنی بات منوالی اور مجھ سے چھپ چھپاکر ، نبیلہ کا نکاح ناموشی کے ساتھ فراز سے کروا دیا۔ لڑکی کے والدین نکاح م یں بلوا لئے ، نہ کوئی برات، نہ دھوم دھڑکا لڑ کی تو پہلے سے ہی گھر م یں رہ رہی تھی۔ فراز کی ماں کی خدمت داری کرتے کرتے وہ میری ان کی حصہ دار بن گئی۔ اس نے اپنی سہاگ رات میری
ہی خواب گاہ میں بسر کی اور مجھے اتنے بڑے معاملے کی ہو اسکن لئے دی۔ حتی کہ نوکروں تک نے لب کیا لئے۔ میں گھر آتی نبیلہ پہلے بیی بے زبان، مسکین، خدمت گزار بن حباتی۔
مجھے کھانا ہاتھ میں دیتی اور میری بھی خدمت کرتی۔ میرے سامنے تراز ظاہرت ہونے دیتے کہ ان کا نبیلہ سے کوئی تعلق ہے۔ وہ بھی ان سے دور دور رہتی ۔ عترض جس طرح اس کو میری باسنے سمجھایات وہ ویسے ہی کرتی۔ بال بدی بھی تب کھلا جب وہ ایک بچے کی ماں بنے والی تھی۔ ظاہر ہے اب اس راز کو کیسے پوشیده رکاب استاتا۔ جب خبرباس نے مجھے سنائی تو میرے حواس باتے رہے۔ پہلے تو بھی پایا کہ ہر کسی کو شوٹ کر دوں، پیرول پایا کہ خود کشی کر لوں۔ یہ دونوں کام ہی ناممکن تھے۔ رونے سے توہین کا احساس اور بڑھ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا توبیگ میں چند کپڑے ڈالے اور ایک سہیلی کے گھر چلی گئی۔ میرے بہت رو چکنے کے بعد اس نے سمجھایا کہ اب میں اس صدمے کو حوصلہ سے برداشت کروں کیونکہ قصور میرا بھی کھتا۔ روبین نے مجھے سمجھایا۔ دیکھو۔ مرد شادی کر تا ہے تو گھر آباد کرنے کے لئے، اپنے سکھ کے لئے اور نسل آگے بڑھانے کے لئے۔ تم نے راز کو کون سکھ دیا ہے؟ تمہیں تو اپنی نوکری کی پڑی رہی۔ یہاں تک کہ نماز کو تمہاری ضرورت ہی نہ رہی اور اب تمہاری عمر پینتیس سال ہو چکی ہے۔ اولاد نہ ہونے کے لئے گولیاں کھا کھا کر اپنی صحت تباہ کر چکی ہو۔ م یں نے حالات کا تحبنب کیا، قصور اپنا ہی نکلا۔ میں فراز کو نبیلہ کے بغیر دیکھتاپاہتی تھی جب کہ اب وہ اس کے لئے اہم ہو چکی تھی کہ ا س کے بیٹے کی ماں بن گئی تھی۔ سوپا کہ اب تو بربادی ہو چکی۔ گھر کی مالکہ دوسری عورت بن گئی تو اب کسی کے لئے ملازمت چھوڑوں ؟ بعید میں تراز اور ا س کے والدین نے میرے والدین سے معافی مانگی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے
ترازے عمل کے لئے کہا۔ کیونکہ دوائوں کے مسلسل استعمال کی وب سے میں ماں نہیں بن سکتی تھی۔
اس نے بھی مجھے منانے میں کوئی کسر نہ رکھی تب میں اپنے گھر چلی آئی کیو نکہ اپنے گھر کے سوا مجھے کہیں سکون بھی توت ماتاتا۔ اولاد کے علاج کے لئے تراز مجھے لندن لے گئے لیکن ڈاکٹرزنے بتادیا کہ میں ماں نہیں بن سکتی۔ نبیلہ کو خدانے چھ بیٹوں سے نوازا۔ اس کا دل شاد اور گھر آباد ہے اور میں اس کے بچوں کی بڑی ماں ہوں۔ نبیلہ اور ف رازنے بچوں کی سی تربیت کی ہے کہ وہ مجھے بڑی ماں ہیں، مجھیں اور میرا ادب کریں۔ وہ میرا ادب کرتے ہیں۔ میں سوتیلی سہی، وہ مجھے ماں ہی کہتے ہیں اور فرمانبرداری کرتے ہیں۔ پخدا کی شان ہے کہ وہ کسی درخت کو پھل پھولوں سے لاد دیتاہے اور کچھ عور تیں بول کی جھاڑیوں م یں کہ جن پر صرف بول ہی اگتے ہیں۔ وہ عورتیں خوش نصیب ہوتی ہیں جو ماں کہلاتی ہیں اور ماں کے رہے کو بیت ہیں کیونکہ عورت کی عظمت اور شان اسی م یں ہے کہ وہ ماں کہلائے۔ میں نے ملازمت چھوڑ دی ہے مگر اب پچھتاتی ہوں۔مرد ہو یا عورت، انسان کو پاہیے کہ وہ حقیقی زندگی ہے اور تخیل پرست ہے کیونکہ غیرت د رتی زندگی بسر کرنے والوں کو چھی خوشیاں نہیں ملتیں
0 Comments