Search Bar

Pardes Kion Gae Teen Auratien Teen Kahaniyan Story

 

Pardes Kion Gae  Teen Auratien Teen Kahaniyan Story

ایک دن میں اپنی دوست منورہ کے گھر گئی تو اس کی ملازمہ شاداں کو روتے دیکھا۔ پوچھا۔ اس کو کیا ہوا ہے؟ منوره نے بتایا۔ اس کا خاوند بہت بیمار ہے تبھی بیچاری پریشان ہے۔ وہ تو اچھا خاصا تندرست تھا اور ان کے حالات بھی ٹھیک تھے تو کیونکر بیمار ہوا؟ میں نے سوال کیا۔ کہنے لگی۔ کئی سال سے مکہ میں تھا اور عمارتوں کی تعمیر میں مزدوری کا کام کرتا تھا۔ اپنے گائوں میں بھی ہم لوگ سالہاسال سخت گرمی اور سردی میں کام کرتے ہیں مگر یہاں اجرت اتنی نہیں ملتی کہ بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی مل سکے۔


 ان حالات سے تنگ اگر رحیم بخش ایک دوست کی وساطت سے سعودی عربیہ کمانے کی غرض سے گیا تھا۔ دو سال بعد وہاں کی کمائی سے گهر کو پکا کرلیا۔ ہمت بندھی دوباره ویزا خرید کر گیا تاکہ کچھ اور رقم اکٹھی کرسکے۔ خیال تھا گائوں آكر اپنی دکان ڈال لے گا۔ رحیم بخش نے اسی کارن دیار غیر میں سخت جان ماری۔ بیس برس وہ مسلسل محنت کی چکی میں پستا رہا، تب کہیں جاکر اتنا روپیہ اکٹھا ہوا کہ کاروبار کرسکے مگر اس طویل مشقت نے اس کو بیمار کردیا۔ بیماری بھی ایسی کہ اچھے ہونے کی امید جاتی رہی۔


 تبھی میں نے سوچا کہ سچ ہے پردیس کی پوری روٹی سے گھر کی آدھی روٹی بھلی ہے۔ تیل کی دولت نے عربوں کو مالا مال تو کردیا۔ وہ غریبوں کو اجرت اچھی دیتے ہیں مگر ان سے مشقت بھی خوب لیتے ہیں۔ وہاں کا موسم بھی شدید ہوتا ہے۔ برسوں سخت گرمی اور دھوپ کی تپش سہہ سہہ کر رحیم بخش کے پھیپھڑوں نے جواب دے دیا تو اب کھاٹ پر پڑ گیا اور جمع پونجی علاج پر لگ گئی۔ رحیم بخش نے وطن واپس آکر مکان تو پکا کرا لیا، گیٹ بھی لگوا لیا، دكان بھی بنوا لی مگر دکان میں سامان نہ ڈال سکا کیونکہ باقی مانده رقم علاج پر اٹھ گئی تھی۔


 اس کو جب پھیپھڑوں کی تکلیف شروع ہوئی، ڈاکٹروں نے مشوره دیا کہ وہ مزید کام نہ کرے لیکن اس نے پروا نہ کی۔ یوں اور زیادہ کمانے کے لالچ میں صحت برباد کرلی۔ کیونکہ اس بار وہ ذاتی زمین خریدنے کے خواب آنکھوں میں سجا کر مکہ گیا تھا۔ اس دفعہ پانچ سال بعد وطن لوٹا تو پلے کافی رقم تھی۔ پس سارا گائوں عقیدت سے ملنے کو آیا۔ لوگ ہاتھ چومتے، دعوت پر بلاتے، احترام کی نظروں سے دیکھتے۔ اپنے بچے بھی اس کی جی حضوری کرتے نہ تھکتے تھے کہ باپ مالدار ہوکر لوٹا تھا مگر بظاہر ٹپ ٹاپ والا رحیم بخش ایک کھوکھلے درخت کی مانند ہو چکا تھا۔ شوہر کے پاس سعودی عربیہ کی کمائی نے خود شاداں کو سارے گائوں کی عورتوں میں منفرد اور ممتاز بنا دیا تھا۔


 دن بھر ملنے کو آنے والوں کا جمگھٹا لگا رہتا۔ لوگ کرید کرید کر اس سے وہاں کی باتیں پوچهتے۔ وہ بھی ان کو اپنے تجربات بتاتا۔ اب وہ عربی بول اور سمجھ لیتا تھا، اسی وجہ سے گائوں والوں نے اس کو ایک بزرگ ہستی کا درجہ دے دیا تھا۔ عورتیں اپنے بچوں کو اس کے پاس دم درود کرانے لے کر آتی تھیں۔ اس کی روحانی باتوں سے دیہات کے معصوم لوگ بہت متاثر ہوتے۔ عقیدت سے اس کے پائوں چھو لیتے تھے۔ اس کی تمام فیملی کو گائوں والے احترام کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔


 گائوں کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں نذر نیاز نہ ہو. نیاز کی دیگ بنیں تو درود فاتحہ کے لئے خواتین شادان کو عزت سے نہ بلائیں۔ جب تک وہ نہ جاتی، نیاز بانٹنے کا عمل شروع نہ کیا جاتا۔ وہ جس گھر جاتی، واپسی پر نیاز کا اچها خاصا کھانا اس کے ساتھ کردیا جاتا حالانکہ ان میاں، بیوی کی اسلام کے بارے میں معلومات واجبی سی تهیں۔ آخری بار ہمت کرکے وہ صرف عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ گیا تھا۔ جب میں نے اس کو وہاں دیکھا تھا۔ میں بھی عمرہ کی نیت سے وہاں گئی تھی۔ یہ ایک نورانی صبح تھی۔ جب میں نے الله کے مقدس گهر میں قدم رکھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے نور آسمان سے اتر رہا ہے۔ فجر کا وقت تھا۔


 نماز فجر کی ادائیگی میں وہاں موجود سبھی لوگ محویت کے ساتھ عبادت میں مصروف تھے۔ کوئی بھرائی آواز میں تلبیہ پڑھ رہا تھا، کوئی پوری توجہ سے سجده ریز تھا، کسی کی آنکھیں اشک برسا رہی تھیں تو کوئی طواف کے دوران ہچکیوں سے رو رہا تھا غرض عجیب روح پرور سماں تھا۔ طواف کرتے ہوئے اچانک میری نظر ایک شخص پر پڑی جو خانہ کعبہ کی اوٹ میں جھکا ہوا تھا۔ جب طواف کرتے ہوئے میں اس جانب پہنچی تو دیکھا کہ اس نے خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا مٹھی میں دبا رکها تها، تبھی وہ طواف کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان سے تیزی سے باب العزیز کی طرف بھاگا اور باہر نکل گیا۔


مجھے شک گزرا کہ اس نے کچھ غلط کیا ہے۔ جب دیوار کے قریب گئی تو دیکھا کہ اس شخص نے کعبہ کے غلاف کا

ٹکڑا چرایا تھا۔ بات سمجھ میں آگئی۔ بہت دکھ اور صدمہ ہوا کہ اس ناسمجھ نے نادانی یا جاہلیت کے سبب کتنی بڑی گستاخی کی تھی۔ سوچنے لگی کچھ لوگ مقدس جگہوں پر بھی عبادت کے دوران ایسی حرکتیں کرنے سے باز نہیں آتے کہ انسانی عقل جس کو دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ اگر وہاں کے پاسبان دیکھ لیتے، یقینا اس کو پکڑ کر لے جاتے اور سزا ہوتی۔ خیر کافی دنوں تک میں اس واقعے کو نہ بھلا سکی تھی۔ شاداں کے بیمار شوہر کو دیکھنے میری دوست منوره جارہی تھی. میں نے سوچا کہ بیمار کی عیادت احسن ہے۔


میں بھی کچھ مدد کر دوں گی۔ منوره کے ساتھ ہم اس کے گھر گئے۔ ایک ضعیف شخص چارپائی پر پڑا تھا جو بڑی مشکل سے سانس لے رہا تھا۔ یہ شادان کا شوہر رحیم بخش تھا۔ میں حیرت سے اس کو تکنے لگی۔ یکایک اس شخص کا چہرہ میری نظروں میں آگیا جس کو عمرہ کرتے وقت طواف کے دوران دو برس قبل میں نے خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا کاٹ کر چراتے اور پھر وہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔ تو وہ تم تھے رحیم بخش! وہاں محنت مزدوری اور عمرہ کرنے گئے تھے الله کے گهر! تم نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے بیمار کی عیادت کو بھلا کر اس سے ترشی سے پوچھا۔ بی بی...! انسان کو لالچ اندھا کردیتی ہے، میں بھی اندھا ہوگیا تھا۔ گائوں کے لوگ عقیدت سے اس مقدس غلاف کی زیارت کرنے آتے تھے۔


میں نے گھر پر ایک صندوقچی رکھ لی۔ غلاف مقدس کے ٹکڑے کی زیارت کو آنے والے اپنی خوشی اور مرضی سے کچھ نذرانہ بھی اس میں ڈال جاتے تھے، اس طرح گھر بیٹھے خاصی آمدنی ہونے لگی، مگر اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ہی میں اتنا بیمار ہوگیا کہ کھاٹ پر پڑ گیا، تب سے اب تک معذور پڑا ہوں۔ بیماری کا جتنا بھی علاج کرایا ہے، افاقہ نہیں ہوا بلکہ اور بڑھتی جاتی ہے۔ اپنے الله سے شرمندہ ہوں کہ میں نے ایسا غلط کام کیا، خدا معاف کرے۔ آپ بھی دعا کریں کہ میری بخشش ہوجائے۔ میں نے کہا۔ رحیم بخش! تم نے واقعی یہ ٹھیک نہیں کیا۔ میں نے تمہیں وہاں دیکھا تھا۔ بہرحال دعا ہے کہ الله تمہاری اس خطا کو بخش دے اور تم کو صحت یابی بھی نصیب ہو۔ میں منورہ کو اس کے شوہر کے علاج کے لئے کچھ رقم بھی دے آئی تھی۔


سوچتی رہی اگر وہاں اس وقت شرطے رحیم بخش کو یہ مذموم حرکت کرتے دیکھ لیتے تو اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہوسکتی تھی، تب ہمارے ملک کی بھی کتنی بدنامی ہوتی۔ ویسے بھی سعودی، پاکستانیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس کا اندازہ مجھے جدہ ایئر پورٹ پر اس وقت ہوا جب امیگریشن آفیسر نے میرا امریکن پاسپورٹ دیکھ کر مجھ کو احترام سے ویلکم ٹو سعودیہ کہا اور میرے پیچھے کھڑی میری دوست کا پاکستانی پاسپورٹ مہر لگا کر اس کی طرف اچھال دیا۔ ہم مسلمان جب عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ اللہ کے مقدس گھر میں داخل ہوتے ہی عقیدت سے آنکھوں میں آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہاں انسان تو کیا ہر وقت فرشتوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔


جہاں نور ہی نور ہے، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ جس مقام کے بارے میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ یہ دنیا کا

مرکز ہے اور اس مرکز پر ہمارے ایمان کے مطابق اللہ کا گھر ہے۔ بے شک وہ اپنے گھر کی حرمت کرانا جانتا ہے۔ میں نے بیمار رحیم بخش کے نحیف جسم کو دیکھ کر سوچا کہ خدا اس کی بخشش کرے، جس نے متبرک ٹکڑے کو صرف اس لئے چرایا کہ اس کے ذریعے نذرانے کی صندوقچی بهر لے اور یہ آج خالی جھولی لئے بے بس و لاچار کھٹیا پر پڑا ہے۔ ہلنے جلنے سے لاچار، سانس لینا دشوار ہے۔ زنده تو ہے مگر زندوں میں نہیں ہے۔ جو گائوں والے عقیدت سے اس کے ہاتھ چومتے تھے، اب اس کی طرف آنے سے گریزاں تھے۔


اس کے جسم سے بدبو آرہی تھی۔ اس کی بیوی لوگوں کے جھوٹے برتن مانجھ کر گھر چلا رہی تھی۔ یہ لوگ پھر سے اسی معاشی حالت میں آگئے تھے جیسا یہ شخص سعودی عربیہ جانے سے پہلے تھا۔ بیماری کی آزمائش آتے ہی اس نے متبرک کپڑے کی زیارت کا دهنده بند کردیا تھا اور غلاف کعبہ کا ٹکڑا امام مسجد کو دے دیا تھا۔

Post a Comment

0 Comments