Qabool Hai Teen Auratien Teen Kahaniyan |
میں نے سابق مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں جنم لیتا۔ اس دنیا میں آنکھ کھولی تو پالنے میں بد قسمتی نے اپنا منحوس باپ مجھ پر ڈال دیا۔ میری پیدائش کے ایک روز بعد والدہ پل بیں۔ میں وہ کم نصیب تھی کہ جس کو گی مال ایک گ ری کو اپنی گود میں نہ لے سکیں۔ میری پیدائش آپریشن کے ذریع ہوئی اور آپریشن م یں کچھ ایسی پیچیدگی ہو گئی کہ وہ ماں کی بان لے گئی۔ ابا بسپارے مجھے کیو نکر پالتے، انہوں نے ایک واقف کار کے حوالے کی جان کی بیوی بانجھی تھیں اور ان کو اولاد کی بڑی پہ تھی۔ الٹ نے ان کی سن لی۔ میری صورت میں ان کی مراد ، انہیں مل گئی۔ میری پرورش بہت پائو سے ہونے لگی
مگرپ پہ زیادہ دن بر فترارت ره گی۔ شاید م یں ازلی کم نصیب تھی جو مجھے پالنے والوں پر پانی برے دن آگئے۔ منصور صاحب اور ان کی بیگم بنہوں نے مجھ کو گودالبات، غربت کی لپیٹ میں آگئے۔ ان دنوں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہو گئے۔ منصور صاحب کو کاروبار میں نقصان ہو گیا، وہ دیوالپ ہو گئے، ان کی فیکٹری ڈھاکہ میں تھی۔ جب ڈھاکہ میں حالات زیادہ خراب ہوئے تو ایک دن فیکٹری کو بھی مکتی باہنی نے نذر آتش کر دیا اور وہ بمشکل بان بپاکر مغربی پاکستان آ ئے۔
اپنے ہمراہ مجھے اور صرف ایک بیگ کپٹروں کای لاتے۔ بان کی لاکھوں پائے کے مصداق اسی پر رب کا شکر ادا کپ لیکن زندہ رہنے کے لئے وسائل تو در کار تھے۔ یہاں نے گھر بار کھتا اور نہ روز گار روزگار توپائے کھتا۔ وہ بیپارے
چند رشتہ داروں کے در پر گئے کہ کوئی کام دلوادیں یا کہ روزگار کی کوئی بیل ہی نکل آئے بالاتر ایک عزیز نے انہیں اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ آبانے بھی تربیت دیکھی تھی اور اب یہ دن دیکھنے پڑ گئے کہ کسی کی معمولی ملازمت کو بھی غنیمت بن کر قبول کر لیا۔ سرماپ سب ڈھاکہ میں رہ گیا۔ اپنا کاروبار کیونکر کرتے۔ دال روٹی کا سامان تو ہو گی لیکن میرا بچپن محرومیوں کی نذر ہو اور چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشیں افلاس کی کند چھری سے دنگ ہوتی رہیں۔ گڑیوں سے کھیلنے کے دن تھے اور م یں اپنے ننھے منے ہاتھوں سے جھاڑو پونچی کرتی۔
مجھ کو گود لینے والی اماں غ ربت کی مارت سہہ گئیں، بیمار رہنے لگیں۔ بات برس سے گھر کے کاموں م یں بستی رہے گی۔ رفت رفت بانڈی بنانا، کپڑے دھونا گھریلو سب کام سیکھ لئے۔ ابا نے اماں کامنت دور ک ر علاج کروایا، بال بال ترنے میں بگڑے گئے مگر ای ٹھیک نہ ہو سکیں۔ رفت رفت بیماری ان کو گھلانے گی۔ ڈاکٹروں نے جگر کا کینسر بتایا۔ بالاتری بیماری ان کی جان لے کر لی۔ اب گھر میں آیا اور میں رہ گئے۔ ان دنوں میری عمر تیرہ برس تھی۔ والد میری نگر میں گھلنے لگے۔ وہ نوکری کو باتے، پھر م یں اکیلی روباتی۔ پاس پڑوس م یں اچھے لوگ تھے۔ مفلسی کے کارن ہم ایسے محل م یں رہنے پر مجبور تھے، جہاں ارد گرد لیے لفنگ، جواری ، نشئی رہتے تھے۔ والد نے کچھ بہتر علاقے م یں مکان تلاش کرنے کی کو شش کی مگر ان مکانات کے کرائے بھی ان کی دسترس سے باہر تھے۔
ان پارے ابا کے لئے جنہوں نے مجھ کو گود لپ تاپ ایسے دن تھے جیسے کسی صحرائی مبان کے راستے م یں ببول کے کانٹے ہوتے ہیں۔ آج تک ان دنوں کی یاد دل م یں نار مغیلاں کی طرح دل میں چاہتی ہے تو برے لہو ٹپکنے لگتا ہے۔ دعا کرتی ہوں خدا کرے کبھی کسی بھی بچی کے والدین اس سے بات ہوں۔ سولہ کا سن ہوا۔ ابا کو میرے چہرے پر نوخیز عمر کا روپ دیکھ کر مجھ جھریاں آنے لگیں۔ معدے کے افنگ بانتے تھے کہ ایا نوکری پر باتے ہیں اور م یں گھر م یں اکیلی ہوتی ہوں۔ ابا کے باتے ہی جیسے تاک م یں رہتے تھے۔ ہمارے گھر کی دیوار سے قطر م یں ٹیک لگا کر بیٹھ دباتے اور مجھے ستانے کو آوازے کستے۔ ”قیامت ہے، بلا ہے۔ میں ڈرتی اور محنت سے کمرے م یں با کر اندر سے کنڈی لگا کر بیٹے بانی کہ میں یہ دیوار پھلانگ کر اندرسن آبائیں۔ با آتے، ان کو بتائی، وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھے باتے۔ گھر میں باورچی بات نہیں کتا۔ کمرے کی دیوار کے ساتھ مٹی کا چولہا بنا ہو اگتا اور میں لکڑیوں پر محن میں کھانا بناتی تھی۔ اب پوچھے آن کھانا نہیں بنایا؟
بتاتی کہ ا س وب سے نہیں بتایا۔ محلے کے لڑکے دیوار کے پاس آوازے کستے ہیں۔ کبھی مجھ کو محن م یں بیٹھنے سے ڈر لگتا ہے۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے کہ ارے یا بلا ہے تو اس کے سر منڈھوں جب کہ بیٹی تو رحمت ہوتی ہے۔ کیا کروں پر کیسے اس رحمت کی حفاظت کروں۔ وہ اب دن رات میرے ہاتھ پیلے کرنے کو بے چین رہنے لگے۔ بد قسمتی سے
انہی دنوں ان کی نو کری چلی گئی تو کھانے کے لالے پڑ گئے۔ اوپر سے مالک مکان نے کرائے کے لئے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ میرے اصل والد توڑھا کہ م یں رہ گئے تھے۔ ان کا کچھ اتا پتا ن تا۔ ابالنے کئی بار رابط کی کوشش کی ناکامی ہوئی۔ خدابنے ہنگاموں کے ریلے م یں کہاں بہ گئے یا کہ کیا ہنگامے کی نذر ہو گئے۔
ایک روز جب مالک مکان نے کر اپ نے سینے پر بامان بابر اش پھینکنے کی د ی دی تو ابرو پڑے۔ تب اس کو رحم آگیا، کہا۔ آخر کب تک کی مہلت دوں۔ تین ماہ جب تک مجھ کو نوکری نہیں مل بتی۔ خدابانے کب نوکری ملے۔ تم کوئی حل سوچو۔ مجھ کو اپنی بچی کی فکر کھائے بتی ہے، اس کے ہاتھ پیلے کر دوں۔ م یں اکیلی ذات تو کسی دکان کے فرے پر بھی سوبائوں گا، فٹ پاتھ پر پڑر ہوں گا۔ جوان بیٹی کا ساتھ ہے کیا کروں ؟ کن واقف کاروں نے بچی کے رشتے کا کہاہے لیکن میری عترتی دیکھ کر کوئی رشتہ کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اچھا تم رومت، م رد روتے اچھے نہیں لگتے۔ دعا کرو اور میں کوشش کرتا ہوں۔ الٹ نے پایا تو کوئی اچھا رشتہ مل جائے گا۔ مالک مکان نے اپنے ایک رشتے دار جس کانام ر ہتا۔ اس سے ذکر کیا۔
اس نے کہا کہ میں اپنے بالے سے رشتہ کر دیتا ہوں لیکن میری بیوی اپنے بھائی کی شادی بہت دیکھ بھال کر کر ناپاہتی ہے۔ اگر ممکن ہے کہ وہ بھی کچھ دن ہمارے گھر کر رہے اور میری بیوی کی خدمت گزاری کرلے توممکن ہے اس
کے دل میں اس لڑ کی کے لئے جگ بن جائے۔ تب تو وہ اس کی شادی اپنے بھائی سے کرناقبول کرلے والد نے مالک مکان کی بات کا بھروا کر لیا۔ مجھ سے تذکرہ کیا اور م یں ابا کے سمجھانے پر شیخ ص احب کے گھر رہنے چلی گئی۔ والد نے مسکان خالی کر دیا اور امام سب سے اب ازت لے کر سب کے حجرے میں سونے لگے۔ امام مسجد نے ان کے نے مسجد کی صفائی کا کام سونپ دیا۔ اس طرح ان کو اللہ کے گھر میں رہائش کے باتھ روٹی بھی میسر آ گئی۔ وہ روز آ کر مجھ سے م ل جاتے تھے۔ میں بھی رفیع صاحب کے گھر خوش رہے گی۔
ان کی بیوی اچھی خاتون تھیں۔ میرا خیال رکھتیں ، محبت سے پیش آتیں اور م یں ان کے گھر کا سب کام کرتی۔ میں نے ان کو پلنگ پر بٹھایا اور ان کے گھر کا انتظام سنبھال لیا۔ ا س خاتون کا نام زبیدہ کت۔ نالہ زبیدہ مجھ پر استدر مہربان ہو میں کہ بالا تر انہوں نے اپنے بھائی کو مجھ سے شادی کرنے پر رضامند کرلیا۔ نالہ کے بھائی کا نام کنعان کھتا۔
کنعان میڑک پا ت ا۔ اس کا جو توں کا کاروبار کیتا۔ دکان خوب پتی اور خوشحال آدمی کت۔ عمر میں بے شک مجھ سے بات برس بڑاتا۔ تاہم خوش شکل، مہذب اور نرم خوتا۔ جب اس کو دیکھا۔ وہ مجھ کو اچھا لگا۔ نالہ نے شادی کے بارے پوچھا۔ میں خوش ہو گئی۔ میری شادی کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی تھی ابابیمار پڑ گئے۔ ان کو گردوں
میں پتھری کا مسئلہ ہو گیاتا۔
ڈاکٹر نے آپریشن بتایا، جس کے لئے کافی رتم کی ضرورت تھی۔ رفیع صاحب کو علم ہوا۔ کہنے لگے کہ آپریشن پر جتنا ترپ آتا ہے، میں کئے دیتا ہوں۔ عترض جو ترپ آیار شیخ صاحب نے اٹھایا۔ ابا پانے کے تاب ہو گئے۔ میری شادی کنعان سے ہو گئی اور میں بیاہ کر اپنے دولہا کے گھر آگئی۔ میں شادی کے بعد بہت خوش تھی۔ افلاس کا لمبا سفر طے کر کے اب ایک کھاتے پیتے گھر میں آگئی تھی۔ اچھی خوراک اور اچھے لباس سے میرا رنگ روپ نکھرتاپاگیا اور کنعان سوبان سے ندارہنے لگا۔ وہ مجھ سے خوش تھے۔ شرافت میری گھٹی میں پڑی تھی، خدمت گزار اور صابر تھی، قناعت تو بچپن کی محرومیوں نے از خود سکھلا دی تھی۔ کبھی کسی غیر کی طرف دیکھات اور کسی غیر ہاتھ نے مجھ کو چھوایت بھی شرم و حیا میری ذات میں موجود تھی۔
جب کنعان نے میراگھونگھٹ اٹھایا، میرے انٹروپ پر نظر ڈالی تو میں گل و گلنار ہو گئی۔ میری معصومیت اور بے اختگی نے پہلے ہی روز ا س کا دل موہ لپ ت ساب کو سب حاجی صاحب کہتے تھے۔ پہلے ان کی بیوی نے مجھے بھی بتایا اور پر بالی بنالی۔ بچپن سے کام کی عادت پڑی ہوئی تھی۔ ان کے بارے گھر کا کام کرتی تھی۔ میرے گھر اپنے کی وہ معترف ہوگئیں۔ اپنے شوہر کے گھر کو بھی میں نے گھر اپنے اور سلیقے سے مکان سے محل بنادیا۔ نالہ کہتی تھیں کہ شائت سے اچھی بابی مجھ کو پراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں م ل سکتی تھی۔ یہ ہیرا تو اللہ نے میری کسی نیکی کے صلے م یں ہمارے آنگن میں لا کر دیا ہے۔ کنعان، حاجی صاحب کے کاروباری شریک تھے۔ ان کے کاموں کی سب دیکھ بال بھی وہی کرتے تھے۔ پاہتے تھے کہ م یں کچھ پڑھنا لکھنا سیکھ بائوں۔ انہوں نے گھر پر استانی کا انتظام کر دیا۔ اس طرح میں نے دوسالوں میں گزارے لائق لکھنا پڑھنا اب وہ اچھی اچھی کتا میں لاتے اور م یں کوشش
کر کے پڑھتی۔
اچھی کتا میں انسان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ م یں نے بھی اپنے شوق سے مطالعے سے بہت کچھ سیکھا۔ نالہ کہتیں کہ تم تو پہلے سے زیادہ بدل گئی ہو۔ تم کو تعلیم نے کیا اچھا روپ دے دیا ہے۔ اصل میں تو اب سونا کسوٹی پڑی ہے۔ اب میں کنسان کی آنکھوں کی کا تارا اور نند کے دل کی ٹھنڈک تھی۔ بھلا مجھے اور کیاپا ہے تا۔ بچپن محرومیوں میں گزرا تو | شادی کے بعد اپنے خاوند کے گھر میں سب سے مل گئے ۔ دنیا کے دکھوں سے بے نیاز خوشیوں کے جھولے م یں جھول رہی تھی۔ والد صاحب میرے گھر کم آتے تھے۔ آپریشن کے بعد سے کمزور ہو گئے۔ ان کی سمیت بہتر ہونے کی بجائے گرتی جاتی تھی۔ گ رت، گھر کا سکھ تا۔ بلے کھری کے ساتھ وہ محنت کے تقابل بھی نہ رہے تھے۔ باوجود کنعان کے اصرار کے انہوں نے داماد کے گھر بیر اگر تا گوارا نہ کیا۔ سردیوں کے دن تھے۔
ایک روز ٹھنڈے پانی سے نہائے توبینار ہوا۔ پتا چلا کہ مونپ ہو گیا ہے۔ بس دو پار روز میں چ پ ہو گئے۔ مجھے والد کے دنیا سے پل بانے کا گہراصد ہوا۔ میں نے کبھی سوپا تا کہ وہ میرے گ باپ نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے
مجھ کو احسا س ہونے دیا کہ م یں ان کی حقیقی اولاد نہیں ہوں۔
ان کی وفات کے بعد میں بہت دنوں تک دکھا رہی تھی۔ ہے کہ خوشیاں ہمیشہ نہیں رہتیں۔جیسے دولت لے وناشے ہے، میش باتھ نہیں دیتی، ویسے ہی خوشیاں بھی ایک مقرر وقت کے لئے زندگی م یں آتی ہیں اور پھر ان کی جنگ غم
لے لیتے ہیں۔ زندگی م یں مسرتیں اور غم باری باری اپنی جگی بدلتے رہتے ہیں۔ میں تو کنعان کے ساتھ اس طرح حبیون بتارہی تھی جیسے ان کا ساتھ ہی میری زندگی کی معراج ہو۔ ہر دکھ سے تہی دامن تھی کہ میرا محبوب میرے ساتھ تا۔ میں کنعان کو دیکھ کر جیتی تھی اور وہ میرے بنی لقیت توڑتے تھے۔ ایک روز وہ لاہور سے پشاور اپنی
دکان کے لئے مال بک کراکر لوٹ رہے تھے کہ ان کی گاڑی کو ایک ٹرک نے کپل دیا۔ وہ موقع پرباں بکت ہو گئے۔ یوں میری پر اغوں بھری دنیا م یں موت نے اسی پھونک ماری کہ م یں خود بھی جیسے ان کے ساتھ ہی جیتے جی مر گئی۔ میری نیند بہت غمزدہ تھیں۔ کنعان ان کا اکلوتا بھائی معتا۔ اس ص دمے سے نڈھال تھیں۔ میں اب اکیلے گھر میں تنہاتے رہ سکتی تھی۔ عدت تکن الہ میرے ساتھ رہیں اور پھر وہ مجھے اپنے گھر لے آئیں۔ اب مجھے اپنا اور زمانے کا، کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔
سات برس زندہ تین اور م ردہ روح کے ساتھ نالہ کے پاس رہتی رہی مگر ایک لمحے کو شوہر کا غم نہ ہلا سکتی۔ شاید میں تقدیر ہی بری لے کر آئی تھی۔ اکتالہ کا سہارات جو اس دنیا میں میری ماں کی طرح مجھ پر چھتر چھایا کئے ہوئی تھی، وہ چھایا بھی نہ رہی۔ ایک روزنالہ اپنے باغ میں گتیں تو پائوں پر سانپ نے کاٹ لیا۔ سانپ ا س ت در زہریلا مت کہ کمرے تک پہنچتے ان کا دم گھنے لگا۔ ان پر غنودگی طاری ہو گئی۔ حاجی صاحب گھر پر تھے۔ میں پڑوس میں دوڑی
لیکن میری بھاگ دوڑبے کار گئی۔ وہاں بھی عورتیں ہی موجود تھیں۔ ان کے م رد کام پر نکلے ہوئے تھے۔ ادھر
بل پر تولے کھڑی تھی۔ حاجی صاحب کے آنے سے پہلے ان کی بیوی کو پروں پرلے پڑی۔ آه نالہ کی وفات کے بعد تو مجھ پر بے بسی کے دروازے کھل گئے۔
آنسو امڈ امنڈ کر آتے اور مکاننگا کر کے میرے حوصلہ کی سکت کو پار کرکے باتے۔ کہتے ہیں کہ آئی ٹلتی ہیں اور مانگے ملتی ہیں۔ نالہ کا بنا میری بد بختی کادر آنا ہو ا۔ اب حاجی صاحب کے گھر کے سوا میرا کوئی کرتا اور نہ کوئی ٹھکانتا۔ میں تو دو وقت کی روٹی کے لئے ان کی محتاج تھی۔ کلی طور پرانی رنج کی محتاج، ایک طرح سے ان کے قبضے م یں تھی۔ مجھتی تھی کہ ساٹھ برس کے ہیں، میرے والد کی جگ ہیں، میرے بارے میں اچھا سوچیں گے لیکن انہوں نے سوپ بھی تو کیا۔ ایک روز کہنے لگے شائستہ تم جوان ہو، عمر بھر یونہی میرے گھر میں میرے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ بہتر ہے کہ مجھ سے نکاح کر لو۔ میں آپ کو اپنا بزرگ اور والد کی جگ م جھتی ہوں۔ میں نے توپ بانا ہے کہ بیٹی بن کر آپکے گھر رہ رہی ہوں۔
اگر آپ پر بوجھ ہوں تو اجازت دیں، کسی کے گھر کا کام کر کے پیٹ کا دوزخ بھر لوں لیکن م یں آپ سے شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ کہنے لگے۔ تم پر میرا پہلا حق ہے۔ تم نہیں بنتیں میں تو روز اول سے تمہارے ن کا شکار ہوں ۔ یوں بھی تم میری ملکیت ہو۔ م یں نے تمہارے باپ سے تم کو ترید اکتا۔ جب ان کو آپریشن کے لئے روپوں کی ضرورت تھی و انہوں نے رستم کے بدلے تم کو میری تحویل میں دے دیاتا۔ میں بھی تم سے شادی کا خواہشمند ہو گیا
تجسس روز تم نے ہمارے گھرتہ م ر کھاتا مگر تمہاری نالہ کی وبے محببورکتا۔ لیکن اب کوئی مجبوری نہیں رہی ہے۔ تم کو م رد کی اور مجھے عورت کی ضرورت ہے۔ چند دن سو پینے کے لئے دیتا ہوں، ٹھنڈے دل سے سوچ لو۔
اس واقعے کے دو دن بعد اپانک ہی ان پر نچبانے کی اجنون سوار ہوا کہ میری عزت کے درپے ہو گئے۔ کہنے لگے۔ جب خیسے نہ مانو گی توثر سے منوانا پڑے گا۔ م یں نے ان کو خدا کا واسطہ دیا۔ خد اکانام لے کر بھی پکارا مگر بے سود، مجھے ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ دل خون ہوا اور چولہے کی راکھ سے سرتاک کر لیا۔ میں ابلا پار، بے
آ را، جس کا کوئی نہ لیتا۔ کہتے ہیں کہ ڈوبتا ہوا تو کنارے کا سانپ بھی پڑھ لیتا ہے۔ میں تو ڈوب ہی گئی تھی۔ کتارے کابانپت پڑتی تو اور کیا کرتی۔ میرابی چلات، عمر بھر شادی نہ کرتی۔ کنعان کی محبت میری رگ رگ میں بی ہوئی تھی لیکن دنیا کے سامنے سر پر عزت کی پادر ڈالنے اور دو وقت کی روٹی کی ناطر رشی نے مجھ سے نکاح کیا۔ میرا دل خون کے آنسو رویایحتاجب میں نے نکاح کے وقت تبول ہے کہ انت۔ اے کاش کوئی ان عورتوں کے دکھ کوبان سکتا جو ایسے نکاح پر مجبور کر دی حباتی ہیں اور ان کو پینے کا دوزخ بھرنے کی حتاطی دو لفظ تبول ہے کہنا پڑتے ہیں۔
0 Comments