Saibaan Ki Khatir | سائبان کی خاطر |
ابو کے بعد امی اور میں اکیلے رہ گئے۔ سر پر سائبان نہ رہا تھا۔ یہ ڈکھ اپنی جگہ لیکن گھر بھی چلاتا تھا۔ میں گریجویٹ تھی، ملازمت کرنا چاہتی تھی۔ اسی ملازمت سے روکتی تھیں۔ وہی گھسی پٹی بات کہ زمانہ خراب ہے۔ ایسے میں کہتی۔ زمانہ خراب ہے نا۔ میں تو خراب نہیں۔ آپ مجھے سروس کرنے دیں۔ یہ جو چار پیسے ابو کی جمع پونجی کے رہ گئے ہیں۔ یہ بھی چار دنوں ہی میں ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ہم کیا کریں گے تب بھی تو مجھ کو سروس ڈھونڈنی پڑے گی تو کبھی کیوں نہیں۔
بڑے جتن سے اماں کو منایا اور ایک سہیلی کے توسط سے جاب مل گئی۔ جہاں فاریہ نوکری کرتی تھی۔ اس نے اپنے پاس سے میری سفارش کی۔ خوش قسمتی سے ایک آسامی خالی تھی جس پر انہوں نے کسی خاتون کو بھی تعینات کرنا تھا۔ ہوں میں نعمت خان کی سیکر ٹری لگ گئی جو خود بھی نئے نئے اس کے میں تعینات ہوئے تھے اور پشاور سے آئے تھے۔ نعمت بہت سنجیدہ اور کم گو تھے۔ ہر ایک سے اخلاق سے ملے لیکن اپنے آفس میں کام کرنے والی لڑکیوں سے بہت کم بات کرتے۔ تاہم ان سے عزت سے پیش آتے تھے۔ ان کی یہی بات مجھے پسند تھی۔ میں بھی دل ہی دل میں ان کی عزت کرنے گئی تھی۔ نعمت خان بہت خوبصورت تھے۔ میرخ و سفید رنگت ، دراز قد، نیلی آنکھیں، باوقار شخصیت، جوانی میں ملکی سیاه داڑھی ان کے چہرے پر خوب سمجھتی تھی۔
رکھ رکھائو سے کسی اعلی خاندان کے چشم و چراغ معلوم ہوتے تھے۔ اس دفتر میں چونکہ ایک طرح سے میں ان کی معاون کے طور پر کام کر رہی تھی، تبھی ان کے ساتھ میر از یاد ہ واسطہ رہتا تھا۔ ان کے ساتھ کام کرتے دو سال گزر گئے۔ دو سالوں میں ایک دن بھی انہوں نے کوئی ایسی بات نہ کی کہ جو مجھے بری گئی ہو۔ وہ میر اس قدر خیال کرتے، جیسے میں ان کے گھر کی خواتین میں سے ہوں۔ ان کی بلند اخلاقی نے میرے دل میں ان کے لئے محبت کی ایسی جوت جگادی جو مجھ کو اندر اندر موم بتی کی طرح پگھلانے گی۔ نعمت خان کی سنجیدگی اور شرافت کے سامنے عمر بھر بھی اس بات کی جرات نہ کر سکتی تھی کہ اپنے دل کی بات اس پر ظاہر کر سکوں۔ اس کے باوجود میری عبادت میں خود بخود یہ دعا شامل ہو گئی کہ خداوند مجھ کو نعمت خان کی شریک حیات بنادے۔ انہی دنوں میری والدہ سخت بیمار ہو گئیں اور مجھ کو چند روز ان کی تیمار داری کی خاطر چھٹی لیناپڑی۔ ایک ماں کی ذات ہی اس دنیا میں میر اواحد سہارا تھی۔ انہوں نے میر کی خاطر بیوگی کھائی اور اب وہ شدید بیمار تھیں۔ ڈاکٹر نے بتادیا کہ تھوڑے دنوں کی مہمان ہیں۔ ایک روز ان کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔
میں نے دفتر فون کیا اور اپنے باس سے چھٹی مانگی۔ انہوں نے والدہ کی طبیعت کے بارے میں پوچھا تو میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ نجانے کیسے ان سے کہہ دیا کہ نعمت صاحب والده تو میرا ساتھ چھوڑ کر جارہی ہیں۔ اب میں ان کے بغیر کیسے جیوں گی، میر ان کے سوا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ انسانی ہمدردی کا اولین تقاضا تھا کہ ایسے حالات میں جبکہ میری ماں بستر مرگ پر تھیں۔ افسر میری دلجوئی کو آتے۔ مجھے نمت سے اس بات کی توقع تھی کہ وہ مہربان آفیسر ہے، لہذاوہ آئے بھی۔ امی جان سے میں اکثر نعمت خان کی تعریفیں کیا کرتی تھی۔ ہر روز ایک ایک بات کی تفصیل ان کو بتاتی جو نعمت کے بارے ہوتی تھی۔
امی جان لیوں غائبانہ طور پر میرے اس افسر کو اچھی طرح جانتی تھیں۔ جب نمت صاحب کو علم ہوا کہ ہم ماں، بیٹی کو تو ایمبولینس کر کے دینے والا بھی کوئی نہیں ہے تو وہ روز شام کو اسی کی عیادت کو آنے لگے۔ ایک روز ائی نے نمت صاحب سے کہا کہ ” بیٹا میرے بعد میری بچی کا کوئی نہیں۔ مجھ کو اس کی بہت فکر ہے۔ میرے بعد تم اس کا خیال رکھنا۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ خیال رکھو گے۔ ایک مرنے والے کی التجا کو اس وقت تو کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے۔ لہذا انہوں نے بھی جی کہہ کر سر کو جھکا لیا۔ یوں باتیں کرتے کرتے نمت صاحب کے سامنے ہی میری ماں کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ نعمت خان نے جس طرح میری ماں کی تجہیز و تکفین میں حصہ لیا کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ امی جان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ اگر اپنا بیٹا بھی ہوتا تو اس سے بڑھ کر نہ کرتا۔ اب میرے یہ افسر صاحب اچھی طرح سے میرے مسائل سے واقف ہو چکے تھے۔ میں اب تنہائی جان کے بغیر اس گھر میں اکیلی نہ رہنا چاہتی تھی۔ وہ میرے اس مسئلے سے بھی واقف تھے۔ پریشان تھے ، کیا کریں اور کیسے مجھ کو اس پریشانی سے نکالیں۔ وہ خود اپنے گھر، اپنے شہر سے دور تھے۔ کرائے پر رہ رہے تھے۔
وہ بھی اکیلے ، غیر شادی شده تھے۔ مجھ کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ دوسرا حال یہ تھا کہ میں اپنے کسی رشتہ دار کے گھر رہوں یا پھر نعمت خان کے کسی واقف کار کے ہاں، جن کی فیملی ساتھ رہتی ہو ، اس سے التجا ر ہیں کہ وہ میر اپنے گھر میں رہنے کا بندوبست کر دیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا تم چاہو تو میں اپنے ایک دوست سے بات کروں؟ جس کی فیملی ساتھ ہے تم ان کے ساتھ رہ لو۔ میں نے کہا۔ نمت صاحب میں آپ کے سوا کسی پر اعتبار نہیں کر سکتی۔ صرف آپ ہی کو اس دنیا میں اپنے لئے قابل اعتبار مجھتی ہوں کیونکہ امی جان نے کہا تھا کہ ان کے بعد آپ میر اسہارا بنیں گے۔ نعمت صاحب سمجھ گئے کہ میں خود ان سے شادی کی درخواست کررہی ہوں کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہیں۔ تم اچھی لڑکی ہو اور تم جیسی لڑکی کو سہارا دینا نیک کا کام ہے لیکن میں مجبور ہوں۔ میری ملتی عرصہ قبل چچازاد ہو چکی ہے جو عمر میں مجھ سے پندرہ برس بڑی ہے۔
وہ گائوں میں بھی میرا انتظار کر رہی ہے۔ اپنی خاندانی روایات کی وجہ سے میں اس کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور ہوں۔ میں بغیر ھوس وجہ کے اس سے شادی سے انکار نہیں کر سکتا۔ مشگیہ کہ اس کے کردار میں ہی ہو ، لیکن یہ بھی نہیں ہے۔ وہ ہر بیان نہیں ہے، بلکہ باکردار اور نیکی کان ہے۔ میں چین کے اس بندھن کا پلان کرنے پر مجبور ہوں۔ یہ ہماری خاندانی روایات ہیں ۔ ہمارے یہاں مئی کبھی نکاح کے بندھن جیسی ہوتی ہے۔ آپ کی منگیتر آپ سے پندرہ برس بڑی ہے، پھر بھی اس سے شادی کرنے پر راضی ہیں۔ کیا یہ شادی بے جوڑ نہیں ہے؟ وہ دیہاتی عورت ہے ، پڑھی لکھی بھی نہیں ہے۔ خدارا کچھ تو سوچو۔ آپ کہیں مجھ سے انکار کرنے کو تو ایسی کہانی نہیں بنا ہے کہ جس پر یقین کرنا محال لگ رہا ہے؟ ہر گز نہیں۔ میں حرف بہ حرف سچ کہہ رہا ہوں۔ میں واقعی تم سے شادی نہیں کر سکتا۔ اس طرح صاف انکار سن کر مجھ کو صدمہ ہوا اور میں بیمار پڑ گئی۔ دفتر بھی نہ جا سکیں۔ اس پر ستم یہ کہ محلے کا ایک غنڈہ مجھ کو اکیلے رہتے پا کر میرے پیچھے لگ گیا۔
پڑوسی اچھے تھے ، میر اساتھ دے رہے تھے ، لیکن کب تک۔ ایک دن پڑوسی کے ہاتھ میں نے دفتر میں چھٹی کی درخواست بجھوائی۔ نعمت خان نے اس سے میرا حال احوال دریافت کیا۔ اس نے تمام احوال بتادیا کہ کس طرح میں اکیلی، کسمپرسی میں ہوں۔ بیمار ہوں، اوپر سے محلے کا ایک بد معاش مجھے ہراساں کرتا ہے۔ اکیلی دیکھ کر ایک بار گھر کی دیوار بھی چلا گنگنے کی کوشش کی۔ وہ تو پڑوسیوں نے دیکھ لیا اور عین وقت پر اس کی گردن دبوچ لی۔ یہ تمام احوال سن کر نمت صاحب واقعی بہت پریشان ہوئے کیونکہ ان کے انکار کی وجہ سے ہی میں بیمار ہوئی تھی۔ گھر پر وہ مجھے دیکھنے آئے اور میری حالت کے پیش نظر مجھے اسپتال داخل کرادیا۔ میری حالت دیکھ کر ان کے ضمیر نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ مجھ کو حقیقی معنوں میں سہارادیں۔
انہوں نے ڈھارس دی۔ کہا کہ تم اچھی ہو جائو تومیں تم کو حقیقتی سہارادوں گا۔ اس کے بعد جو بھی ہو گا ہم جھگت لیں گے۔ ان کے دلاسے نے دوا سے زیادہ تریاق کا کام کیا۔ میں جلد صحت یاب ہوگئی۔ تب انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور مجھ سے نکاح کر کے اپنے مکان میں لے آئے۔ انہوں نے واقعی میں کہا تھا کیونکہ مجھ سے شادی کے بعد اب وہ گائوں نہیں جارہے تھے۔ گھر سے کئی خط آئے، انہوں نے بہانہ کر دیا۔ دو سال گھر نہ گئے۔ ہم خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے ، لیکن ایک فکر تھی جو مسلسل ان کو لاحق تھی۔ وہ ایک سرحدی گائوں سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے گائوں کیوں نہ جاتے تھے کہ وہاں ان کی منگیتر نیز ان کے انتظار میں تھی۔ ان کی برادری ان کی منتظر تھی کہ یہ آئیں تو ان کی شادی شیر اسے کرادی جائے۔ اسی ڈر سے یہ والدین سے ملنے کبھی گائوں نہیں جارہے تھے۔ ان کی والدہ کے خط آتے تو لکھ بیتے کہ چھٹی نہیں ملتی، جو نہی چھٹی ملے گی آجائوں گا۔
ایسے بہانے اور کب تک چلتے؟ وہ یہ کبھی نہ چاہتے تھے کہ ان کے گھر پر میرے اور ان کے نکاح کار از کھل جائے۔ کہتے تھے کہ راز کھل گیا توان کے رشتہ دار ہیں ان کی جان کے دشمن بن جائیں گے کیونکہ ہم قبائلی جو قول دیتے ہیں اس کو پورا کرتے ہیں، اس سے پھرتے ہیں۔ نعمت نے بتایا کہ میرے والد نے میرے چچا کو قول دیا تھا کہ وہ شیر کو اپنی بہو بنائیں گے تو مجھ کو اپنی منگیتر سے شادی کر نانی پڑے گی۔ چاہے وہ بوڑھی ہو چکی ہو۔ اب وہ کسی اور کی بیوی نہیں بن سکتی۔ یہ ہمار ارواج ہے۔ ایک دن میں پڑوسن کی بچی کی سالگرہ کی تقریب سے کوئی تو دیکھا کہ نعمت خان کے کچھ رشتے دار وہ ان سے اصرار کر رہے تھے کہ ہمارے ساتھ گائوں چلو۔ انہوں نے نعمت کو اس قدر مجبور کیا کہ انہیں رخت سفر باندھنا ہی پڑا۔ لیکن وہ مجھ کو ساتھ نہ لے جانا چاہتے تھے۔ جبکہ میں ان کو تنہاگائوں جانے دینا چاہتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اگر میں ان کے ہمراہ ہوں گی تو وہ لوگ بھی اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے اور نعمت خان کو دوسری شادی پر مجبور نہ کریں گے۔
میں بھی منت سماجت کر کے ان کو روک لوں گی کہ وہ میرے شوہر کی دوسری شادی کر کے ہماری پر مسرت زندگی کو برباد نہ کریں۔ جبکہ نعمت خان آخری وقت تک منع کرتے رہے کہ تم مت چلو اور نہ وہاں حالات اور زیادہ خراب ہو جائیں گے ۔ مجھ کو وہاں لے جا کر گائوں میں پابند کرنے کی یہ ایک چال نہ بن جائے۔ جو لوگ ان کو لے جارہے تھے ان میں دو نعمت خان کے اپنے سگے بھائی اور تیسرا شخص اس کی منگیتر کا بھائی تھا۔ جب میں کسی طور نہ مانی تو نمت نے کہا اچھا، جیسی تمہاری مرضی نگر سمجھ لو کہ ہمارے رواج بہت سخت ہیں۔ یہ لوگ میری شادی میری منگیتر سے ضرور کریں گے۔ خواہ تم وہاں موجود ہو یا نہ ہو، یہ لوگ اس بات کی پروانہ کریں گے۔ واقعی ایساہی ہوا۔ گائوں پہنچتے ہی میرے سرتاج کے رشتے داروں نے اعلان کر دیا کہ فلاں دن نمت خان کی شادی ہے اور انہوں نے بغیر میری پروا کئے شادیانے بجانے شروع کر دیئے۔ میں حیران تھی۔
یہ کیسے لوگ ہیں۔ میں نعمت خان کی منکوحہ زندہ سلامت ان کے گھر میں بیٹھی تھی اور یہ مجھ پر سوکن ڈالنے سے نہیں ہچکچارہے تھے۔ یہ عورت بیٹھی ہے تو میٹھی رہے۔ یہ اپنی مرضی سے آتی ہے۔ وہ جو نعمت خان کی منگیتر نچین سے بھی اس کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہے، حق تو اس کا ہے۔ یہ نکاح تو ضرور ہو گا۔ پچھر نعمت خان کی مرضی کہ وہ اپنی منکوحہ کو ساتھ لے کر جائے یا نہیں چھوڑ جائے۔ اس پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ میں نے مارے جس کے نعمت خان کی بچی کے کمرے میں اس کی منگیتر کو دیکھا۔ جس کا نام وہ شیزا لے رہے تھے وہ پینتالیس سے اوپر کی ایک سن رسیدہ موٹی لیکن گوری چٹ، نیلی آنکھوں والی عورت تھی۔ وہ کسی صورت نمت خان کے جوڑ کی نہ تھی۔ نعمت کا کوئی قصور نہ تھا وہ تو اس لڑکی سے بالکل بھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر میرے باندھے سے نجانے کیوں یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور وہ بھی اس ترقی یافتہ صدی میں۔ اب تک تو میں نہیں سمجھ رہی تھی کہ نمت عین وقت پر کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں گے اور یہ شادی نہ ہو گی مگر یہ میری خام خیالی تھی۔
کچھ مجاز نہ ہو اور معمول کے سے انداز میں شادی ہورہی تھی۔ مجھے موقع ملا تو میں نے نعمت سے رو کر شکوہ کیا کہ یہ کیا کرنے جارہے ہو؟ تم تو عورتوں سے زیادہ بزدل اور بے بس نکلے ہو۔ چپ چاپ تماشا بن رہے ہو اور تماشا دیکھ رہے ہو۔ تمہارے پڑھے لکھے ہونے۔۔ افسر ہونے کا کیا فائدہ ہوا۔ میں جان دے دوں گی مگر یہ نہ ہونے دوں گی۔ یہ بھی کر کے دیکھ لو۔ اس نے کہا۔ ان پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہو گا۔ یہ لوگ آئل فیصلے کرتے ہیں اور جو میں سمجھتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ چاہے کسی کی جان جائے اور پاگل ہو جائے، ان کو پروا نہیں۔ شکر کرو کہ انہوں نے تم کو اپنے گھر میں عزت سے بٹھایا ہوا ہے۔ نکال باہر نہیں کیا اور نہ ہی مجھے تم کو طلاق دینے کا کہا ہے
، تو کیا یہ بڑی عافیت کی بات نہیں ہے تمہارے لیے ؟ اس نے مزید مجھے سمجھایا کہ میری منگیتر کے چار بھائی ہیں اگر میں نے شادی سے انکار کیا تو ان کی بندوقوں کی نالیاں میرے سینے پر ہوں گی۔ وہ نسل در نسل ہمارے دشمن ہو جائیں گے۔ ایک میری جان لے کر ہی یہ قصہ ختم نہیں ہو گا۔ ہمارے بڑے چھوٹے، چنے کبھی اس خونخوار معرکے کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ تم ہمارے قبیلے کی روایت کو نہیں سمجھ سکتیں۔ میں نے کہا۔ ہم بھاگ نکلتے ہیں۔ یہ بھاگنے والوں کو پیٹ دو کھانے والے کہتے ہیں۔ یہ ان کی عزت نہیں کرتے۔ میں زندگی بھر نہ پھر گائوں آسکوں گا اور نہ اپنوں سے ناتار کھ سکوں گا۔ ہماری گفتگو میرے بڑے جیٹھنے گئی اور اس نے جا کر نعمت کے سالوں سے بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ ان کو بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شادی کرنے کے بعد ہماری طرف سے اجازت ہوگی کہ نعمت خان واہیں اپنے شہر کا بیوی کے ساتھ چلا جائے۔ اگر ہماری بہن کو نہیں لے جانا چاہے گا تو ہم اس کو مجبور ہیں کریں گے۔ مرد کی شادیاں کرتے ہیں۔ یہ کوئی جرم کی بات نہیں ہے
، لیکن اس نے اگر ہماری بہن سے نکاح نہ کیا تو یہ جرم تصور ہو گا اور ہم اس کا بدلہ ضرور لیں گے۔ کوئی چارہ نہ دیکھ کر مجھ کو معبر کا گھونٹ پیناپڑا۔ میری آنکھوں کے سامنے نعمت خان د ولہا بنا، حجلۂ عروسی میں گیا۔ دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔ تین دن میں سسکتی رہی۔ ساس نے مجھے دلاسا دیا۔ مجھے اپنے پاس اپنے کمرے میں لایا۔ چوتھے دن ہم نے تیاری باندھ لی اور شہر کو روانہ ہوئے۔ نعمت کی نئی دلہن اس کے ساتھ نہیں تھی۔ مجھے اور نعمت کو میری سوکن کے بھائیوں اور میرے دیوروں نے رخصت کیا۔ وہ کافی آگے تک گاڑیوں میں ہمارے ساتھ آئے اور الوداع کہا۔ تب نعمت خان نے کہا کہ دیکھو میں نے کہا تھا کہ ساتھ مت چلو۔ یہ سب ہنگامہ کھگت کر میں واپس تمہارے پاس آہی جاتا۔ تم نے میری نہ سنی تو سب سہانی تھا۔ اگر تم نے کوئی تماشا کھڑا کیا ہوتا تو تمہارے
اور میرے دونوں کے حق میں براہوتا۔ شاید پھر مجھ کو نہیں مجبور طلاق دینی پڑ جاتی۔ یہ اچھا ہوا کہ انہوں نے شیزا کو میرے ساتھ کرنے کی ضد نہیں کی۔ در اصل یہ گائوں کے لوگ بہو، بیٹیوں کو شہروں میں اکیلے بیٹے کو برا جانتے ہیں لیکن مجھے اب شیزا کو خرچہ بھی دینا ہو گا اور ہر ماہ ایک دو دن کے لئے گائوں بھی جانا ہو گا۔ بولو کیا یہ تم کو منظور ہے۔ منظور ہے۔ میں نے کہا کیونکہ نعمت خان میر اسائبان تھا اور میں کسی حالت میں بھی ان کو کھونا نہیں چاہتی تھی ۔ شیزا کو اولاد نہ ہوئی۔ اللہ نے مجھے اولاد سے نواز دیاتو میرے سسرال والوں نے مجھے قبول کر لیا۔
0 Comments