Yeh Dilon Kay Rishte Teen Auratien Teen Kahaniyan urdu short stories |
کبھی ہمارا بھی ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ گھر کیاجنت تھی جہاں ممتا کے پیار کی مہک تھی اور باپ کی شفقت کا گھنا سایہ سر پر تھا ۔ ہم خوش اور خوشحال تھے۔ اچانک غفلت کی آندھی چلی۔ پھول رہے باپ ماں موجود رہی، باپ سلامت رہے مگر جنت پل بھر میں نظروں سے اول ہو گئی۔ ہم گھر کے کل پار افراد تھے۔ امی، ابو اور بھائی کے ساتھ میں بہت کون سے اپنے گھر میں رہتی تھی۔ ایک روز امی کو خیال آیا بہت دن ہو گئے ہیں ا س سکون میں سرخوشی کی لہروں نے بال نہیں پائی۔ کیوں گھر میں کسی خوشی کے منانے کا اہتمام کیابائے۔ خوشیاں نہ ہوں تو آدمی ان کی تمنا میں تباہ ہوجاتا ہے۔ اگر خوشیاں میر آبائیں تو وہ ان کو بڑھانے کے شوق میں م ر مٹتاہے۔ امی نے بھی اپنی شادی کی سالگرہ کی انوکھی خوشی منانے کی تدبیر کر ڈالی۔ دور ، نزدیک کے رشتے داروں کو مدعو کیا۔
مہمان آئے، کھانابنا۔ شادی کی سالگرہ مبارک ہ اور رخصت ہو گئے مگر ایک مہمان شاید رخصت ہونے کے لیے نہیں آیا کتا۔ ی راحیلہ تھی۔ میری والدہ کی دور کی رشتے دار غالب ہمارا گھر اور اس گھر کی خوشیاں زیادہ ہی جب گتیں۔ وہ بات کر کے ایک دو دن کو نظر گئی۔ ان دنوں م یں وہ امی کے ساتھ استدر حل مل گئی کہ انہوں نے راحیلہ کو چند روز اور شہر بانے پر اصرار کیا۔ شاید وہ بھی نہیں پا رہی تھی۔ بس که او گتے کو گلے کا ہات مل گیا۔ اس نے اپنا تیار کردہ سفری بیگ رکھ دیا اور پائوں پارلئے۔ راحیلہ تین بچوں کی ماں تھی۔ ا س کا شوہر کلر ک ت ا اور نیب لوگ تھے۔ یہاں اچھا کھانے پینے کو ملا تو ان کے بچوں کا بھی ب نے کو دل نہ کیا۔ ہم تو اسکول پل باتے، وہ سارا دن میری والدہ کو اپنی لچھے دار باتوں م یں الجھائے رکھتی۔ وہ ہیلی بھی بن گئی اور غمگر بھی والدہ کے چھوٹے چھوٹے دکھٹے سنی اور کھانا بنانے م یں بھی مدد کرتی۔ راحیلہ م یں کچھ اوصاف بھی واضح تھے۔
وہ سلیق شعار، خوش گفتار اور خوش لباس تھی۔ جب تک وہ ہمارے گھر میں رہی، ابو کا موڈ ٹھیک ٹھا ک ر کہا کہ خوشگوار موڈ میں رہنے لگے۔ وقت پر گھر آ تے اور رغبت سے کھانا کھاتے۔ کھانے والی کی تعریف کرتے اور ہم سے ہنسی مذاق بھی کرتے جبکہ قبل ازیں وہ کافی سنجیددار با راحیلہ کے بانے کے بعد بھی کو لگا کہ یکدم گھر سونا سونا ہو گیا ہے۔ والدہ اداس نظر آنے گئیں، ابو بھی بجھے بجھے تھے۔ میری چھوٹی بہن جو راحیلہ کے بچوں کے ساتھ کھیلتی تھی، وہ بھی افسردہ پچھتے گی۔ اس کے پل بانے سے گویاخوشی ہمارے گھر سے رخصت ہو گئی۔ ای بار بار کہتیں۔ پائے راحیل پلی گئی ہمارے گھر سے تو جیسے رونق ہی چلی گئی ہے۔ کاش واپس آباۓ۔ امی کی دعا پوری ہو گئی۔ ایک دن اس کا فون آیا۔ آیا تو میرے میاں کا تبادلہ بلوچستان میں کوہلو کے ممتام پر ہو گیا ہے جہاں اپنے ساتھ فیملی کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ وہاں ہمارے لئے رہنے کا انتظام ہی نہیں۔
میں اور یہ باں اکیلے ہیں، بہت اداس اور پریشان رہتی ہوں، کیا کروں۔ تم بھی بہت یاد آتی ہو آپا کاش ہمارے گھر ساتھ ساتھ ہوتے۔ آپ لوگوں کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کا ایک ایک لی یاد آتا ہے تویی اداس ہوباتاہے۔ امی نے ابو کو بتایا اور فرمائش کی۔ اگر آپ اجازت دیں تو جب تک راحیلہ کا شوہر فیملی کے رہنے کا انتظام نہیں کر لیتا، م یں ا س کو یہاں بلوالوں؟ ہاں ! کیوں نہیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں تمہاری خوشی ہو ، کرلو۔ امی نے فورا فون کیا۔ راحیلہ تمہیں میرے سر کی تم، بلا جھجک میرے گھر آبائو ، تکلف مت کرنا، پ بھی تمہارا ہی گھر ہے۔ اندھایاپا ہے دو آنکھیں ۔
راحیلہ نے ضرورت کا سامان باندھا اور دو روز بعد کچھ دن تو باغ و بہارسے گزرے۔ ہر وقت بنی،
مشمول اور لطیفے بازی، نی نی ڈشیں بن رہی ہیں، کھانے پک رہے ہیں اور پکانے والی راحیلہ بیگم سب م زے سے کھارہے ہیں۔ ہی نہیں بھی سیر کو بارہے ہیں، بھی شاپنگ کو ابو فیملی کو ساتھ لے کر کہیں آنے بانے سے گھبراتے تھے تو امی اصرار کرتیں کہ گاڑی توہے،لے پلونا! تم کہاں نیکیوں میں خوار ہوتے رہیں گے۔ پس وہ باتھ ہولیے۔ اب وہ بھی ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں م یں حصہ دار بن گئے۔ دفترسے بلد گھر آنے لگے ، گاڑی پر از خود پنگ پر اور بھی کہیں اور تفریح کرانے کے بہانے لگے۔ اسی خو ش که آترانہوں نے بیوی، بچوں پر توب تو دی۔ پہلے تو لاتعلقی رہتے تھے۔ اب باہر آئس کریم کھلانے لے جاتے تھے بھی لاتے، بچوں کو کھلونے دلانے کے باتے، معترض کہ ان م یں کافی تبدیلی آگئی تھی۔ ان کی توبہ سے گھر خوشیوں کا گہوارہ بن چکا تا۔ جلد ہی ان خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔ میرے والد الجھے الجھے نظر آنے لگے۔ کبھی کبھی تو وہ بیوی کا کہتا ڈال کر راحیلہ کی بات رکھ لیتے کہ مہمان کو عزت دینی پہنے تب میری ماں غیر محسوس طریقے پر اہانت زدہ سی ہو باتیں ۔ کچھ دنوں بعد اس بات نے تجھگڑے کی صورت اختیار کر لی تھی۔ میرے والدین کے پچ بات بے بات جگر ہونے لگا۔
اب ای حپہتی تھیں کہ راحیلہ پل بائے لیکن ابو نہیں پاتے تھے۔ وہ اندر ہی اندر سمٹنے لگیں کہ راحیلہ کے بنائو سنگھار م یں اضافہ ہوگیاتا۔ اس کے پاس نت نئی چیزیں نظر آنے لگیں۔ اپوپ کہ کر دیتے کہ راحیلہ کے شوہر نے بھیجی ہیں حالانکہ اس کا شوہر ایک فریب کار ک ت ا، جلاوہ مہنگی میک اپ کے سامان اور قیمتی جوڑے خریدنے کا متحمل کب ہو سکتا تا۔ امی کو شک ہوا کہ پاس کا شوہر کیونکر بھیج سکتا ہے، ضرور میرے صاحب ہی پ سب تھے ا س کے لیے لاتے ہیں۔ ان کا جی پاتا کہ
راحیلہ کے شوہر کو فون کر کے پوچھیں لیکن پر سوچیں کہ اگر پ چ ہوا تو ہمیں وہ بیوی کو طلاق ہی نہ دے دے۔ اب وہ دعا کرنے لگیں۔ خدا کرے ا س کے شوہر کو حبلد مکان مل جائے اور وہ اپنے بیوی، بچوں کو بلوائے۔ ال نے اس راز کا بھانڈا پھوڑ ناتا۔ ایک رات اپانک انی اٹھ کر ابو کے کمرے میں گتیں۔ انہوں نے راحیلہ کو ان کے کمرے سے نکلتے دیکھ لیا۔ وہ تو جو چپکی رہ گئیں۔ پوچھا۔ راحیلہ تمہارا آدھی رات کو میرے میاں کے کمرے میں بانے سے کیا مطلب؟ امی نے شور ڈال دیا۔ ابو نے ان کو خاموش ہوبانے کو کہا۔ بچے سورہے ہیں، باگ بائیں گے۔ اس وقت ندمت کروں سے بات کر لینا۔ وہ چپ ہو میں مصر ہو گئیں کہ راحیلہ ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے نکلے۔ رات کے وقت تین بچوں کو لے کرپ عورت کہاں جائے گی اور تم اگر چپن ہوئیں تو بیا باگ بائیں گے ، ہماری کتنی بدنامی ہوگی۔ والدهاس دم حواس م یں نہ رہی تھیں، وہ چپ ہونے کا نام نہ لے رہی تھیں۔
تب والد بھی غصے میں آگئے۔ بولے۔ تم کوبانا ہو تو پلی بائو، پاس وقت نہیں بتائے گی۔ پڑوسی دور پر اکٹھے ہوبائیں گے۔ وہ قیامت کی رات کیسی گزری، ہم سب نے بھی اس تجھگڑے کے شور سے اٹھ گئے ۔ راحیلہ روئے بارہی تھی۔ ا س کے بچے بھی ماں کو روتا دیکھے رونے لگے۔ بتا نہیں سکتی کیباسات۔ اللہ اللہ کر کے مج ہوئی۔ ع نان بیامی کو پکڑ کر اپنے کمرے میں لے آئے اور دروازہ بند کر دیا۔ ان کو چپ کراتے رہے۔ وہ کہتی تھیں۔ اس کے شوہر کا فون نمبر لے کر دو، میں ابھی ا س کو فون کرتی ہوں۔ راحیلہ کے شوہر کا نمبر تو کسی نے امی کو نہ دیا۔ انہوں نے ماموں کو فون کر دیا کہ اگر مجھے لے بانو۔ وہ بسپارے گھبرائے ہوئے شام کو پہنچ گئے۔ والدہ سامان باندھے بیٹھی تھیں، میں باتھ لیا اور ماموں کے ساتھ ان کے گھر آتیں، بس یہی ان سے غلطی ہوئی۔ جس کو روانہ کرناتا، اس کی بجائے خود اپنے گھر سے نکل پڑیں۔ اسی غلطی کی امی کو کڑی سزاملی، شاید یہی میری ماں کے مقدر میں ہو گا۔
اس سے بڑی غلطی میری بلد باز ماں نے یہ کی کہ ماموں سے کہہ کر راحیلہ کے شوہر کا نمبر ٹری کروالی اور ا س کو فون کر کے تمام احوال گوش گزار کر ڈالا۔ بس پھر تو راحیلہ کا مسئلہ آسانی سے حل ہو گیا۔ اس کے شوہر نے اس کو طلاق بھجوا دی اور وہ میرے والد ہی کے گھر میں رہ گئی، حالانکہ ماموں نے بھی امی کو سمجھایا تا کہ اسی غلطی نہ کرو لیکن جب عورت سد کی آگ میں جل رہی ہو پھر اس کی عقل کے پراغ بجھ جاتے ہیں۔ اسی کے میکے پلے بانے پر والد نے کسی پشیمانی کا اظہار کیا اور نہ ان کو منانے آئے البتہ راحیلہ کے خاوند نے اپنے بچوں کے لیے کورٹ م یں کیس داخل کر دیا۔ والد نے راحیلہ سے نکاح کر لیتا۔ ا س کے ماں ، باپ، بہن، بھائی تھے اور نہ کوئی میکہ کتا۔ جو رشتہ دار تھے، وہ ا س کور کھنے پر تیار نہ تھے۔ ا س کو ہمارا گھر اچھی ٹھکانے لگا۔ تربت سے بھی محبت مل گئی البتہ اپنے بچوں کی جدائی کا دکھ ضر ور سہنا پڑاجو ا س کے لیے کافی تکلیف دہ تا۔ ایک روز ماموں کے سمجھانے پر امی ہمیں لے کر اپنے گھر چلی گئیں۔ وہاں جاکر پت پا جیسے وہ اپنے نہیں
بلکہ پرائے گھر آ گئی ہوں۔ ہر شے پر راحیلہ کا بیت ، گھر کا سارا انتظام اسی کے ہاتھ م یں تا۔ امی نے گالیاں دیں تو ا س نے کبھی میری ماں کی بے عزتی کی۔ اماں تو ہکا بکا رہ گئیں۔ شام تک ہم اپنے گھر میں غیروں کی طرح مہمان رہے۔ ابو آئے تو میری ماں سے بولے۔ اب کیوں آئی ہو، پہلے ہم پر تہمت لگائی۔ آنانی کت تو گھر چھوڑ کر کیوں گئی تھیں؟ جیسے آئی ہو، ویسے ہی لوٹ بائو، مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں ہے، میرے پچ پاہیں تو یہاں رہتے ہیں۔ ہماری ماں کی بے عزتی ہورہی تھی، ہم کیسے ان کو اکیلا چھوڑ کر ایک غیر عورت کے پاس رہتے۔ خداباے ابو پر اس عورت نے کیابادو کر دیا امتا۔ ہم سب اپنا من لے کر واپس ماموں کے گھر آگئے۔ وہی ہوا جس کا اندیشتا۔ ماموں نے بتایا کہ اب مزید جھگڑا مت کرو۔ امی بازت آئیں اور تجھگڑے کو بڑھایا۔ فون پر اسے کہا کہ اس کو طلاق دو یا مجھے! والد کی آنکھوں پر پردہ پڑ گپتا۔ انہوں نے راحیلہ کو طاقت دی، میری ماں کو طلاق دے دی۔ یوں گھر کی مالکہ در بدر ہوئی اور جو مہمان بن کر آئی تھی ، وہ مالک بن گئی۔ اب گھر میں راحیلہ اور ابو تنہا رہ گئے۔ نہ اس کے نیچے وہاں رہے اور نہ ہم ، ہم تو چھوٹے تھے، پھر نہ کرتے تھے اور ممانی غصے کی تیز تھیں۔
ماموں بپارے کی بان عرصے تک ہماری وب سے مصیبت میں رہی۔ بالاتر انہوں نے میری ماں کیا دوسری شادی ایک سیدھے سادے، سفید پوش، نیک آدمی سے کروا دی۔ اس نے میری ماں کو کوئی دکھ نہ دیا۔ او ه رمانی نے بتانا شروع کر دیا کہ ان بچوں کو ان کے باپ کے گھر بھیجو۔ نہ ماں رکھے نہ باپ، میں کیوں رکھوں؟ ان کی نب داری اٹھائوں۔ سوتیلے باپ نے میری سب سے چھوٹی بہن کو رکھ لیا۔ مجھے اور عرنان بھائی کو ماموں نے ہمارے حقیقی والد کے پاس بھجوادیا۔ ہمارے آنے سے ابوخوش ہو گئے جیسے ان کے ویران چمن میں بار لوٹ آئی ہو مگر راحیلہ خوش تھی کیونکہ ہمارے آنے سے اس کے سکون میں خلل پڑاتا اور والد کی تو ہماری طرف ہو گئی تھی۔ والد توبارا دن گھر سے باہر رہتے تھے اور وہ ان کے بانے کے بعد من مانی کرتی تھی۔ اب وہ من مانی ت کر سکتی تھی کہ ہم گھر میں موجود تھے۔ دراصل وہ اپنے سابق شوہر سے فون پر باتیں کرتی اور اس سے ملتی بھی تھی جس کا ابو کو علمتتا۔ ایک روز ع رنان بھائی نے راحیلہ کی اس کے سابق شوہر کے ساتھ فون پر گفتگو ن لی۔
ان دنوں وہ سیکنڈ ائیر کے طالب علم تھے۔ سوتیلی ماں کو خطرہ ہوا کہ پ لڑکا اس کے لیے عذاب بن سکتا ہے۔ وہ ہم سے نائف رہے گی لیکن ہم چپ تھے، والد کو دکھی نہ کر ناپاہتے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے ، نان بائی کی آنکھ کھل گئی۔ راحیلہ کے کمرے سے فون پر باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ عرنان بھائی اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئے۔ کان لگائے تو پتا پلا کہ وہ اپنے س ابق شوہر سے باتیں کر رہی ہے۔ اس کی سرگوشیاں رات کی خاموشی میں عرنان بھی کان لگا کر سن رہے تھے۔ اپنے باپ کو دھوکا دینے والی عورت پر ان کو بہت غصب فتا۔ بھائی نے مجھے کہا۔ بانو او پر چھت سے ابو کو بالا ہوں۔ م یں اوپر گئی تو میرے وتدموں کی آہٹ سے ان کی آنکھ مل گئی۔ پوچھا۔ کون ہے ؟ میں نے بتایا۔ راشدہ ہوں، آپ دبے تدموں ی آیئے۔ وہ ننگے پائوں میرے ساتھ نیچے آگئے۔ عمران بھائی نے ان کے تریب با کر کہا کہ چپکے سے میرے ساتھ آبایئے۔ وہ بھی راحیلہ کی گفتگو اپنے کانوں سے نے لگے۔ وہ کہہ رہی تھی۔ تر از ! میں نے تم طاق پاکر بڑا دکھ اٹھایا اور اس شخص سے شادی کر کے بھی مختلطی کی مگر کیا کرتی، میرا کوئی کترنہ نتا، کہاں پناہ ملتی ۔ بچوں کے بغیر ایک دن بھی میری روح کو سکون نہیں ہے۔
کاش میں اڑ کر تمہارے پاس پہنچ سکتی۔ اب تو اس عذاب سے بان بھی چھٹانا مشکل ہے۔ اس عورت کی باتیں سن کر ع نان بی کا بھی پہتاتا کہ راحیلہ کو ختم کر ڈالے جس نے اپنے بچوں کو بھی برباد کیا اور میری ماں کو بھی ہم سے بد اکرایا۔ یہ باتیں سن کر والد کا دل بھی بری طرح مجروح ہوا۔ وہ اتنے دکھی ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو بہت نکلے۔ ع رنان نے ان کو سنبھالا اور پیٹ کر چھت پر لا کر سمجھایا۔ ابو! آپ نے امی کو رات کے وقت جھگڑا کرنے اور شور محپانے کی سزا دی اور اب آپ نے تو شور پائیں اور آدھی رات کو تجھگڑا کریں اور پڑوسی با ب ائیں گے ، جو کرنا ہے ج کر لینا۔ جب تک وہ باگتے رہے۔ عرنان ان کے ساتھ رہے۔ میں نے صحن میں اپنی پارپائی پر باگتے رات کا باقی حص گزارا۔ آج میری ماں مجھ کو شدت سے یاد آرہی والد صاحب نے راحیلہ کو طلاق دے دی اور تنہارہ گئے حالانکہ وہ اس سے محبت کرنے لگے تھے مگر ا س کے دھوکے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ طلاق لے کر اپنے سابق شوہر اور بچوں کے پاس چلی گئی۔ تراز سے دوبارہ نکاح کر کے ا س نے تو گویا ہو اگر اور اپنے وچ پا لئے لیکن میری ماں اب واپس ہمارے گھر نہیں لوٹ سکتی تھی کیونکہ ان کی شادی ایک دوسرے شخص سے ہو چکی تھی۔ والد کو اب میری امی کی نت در آئی۔ پچھتاتے تھے اور ہاتھ ملتے تھے مگر پچھتائے کیاہوت جب پڑیاں چگ گئیں کھیت؟ ہم بھی اسی کے پاس پلےباتے، دوپاردن رہ کر پھر ابو کے گھر آ تے۔ اس طرح دونوں طرف آنابتانگارہتاتا۔ ہماراسوتیلا باپ بہت شریف آدمی کیتا۔ وہ بھی ہم کو دیکھ کر ماتھے پر شکن نے لاتا بلکہ ناطر تواضع کرتا۔ اسی کو ہم سے ملنے سے منع کرتا۔ ہم نے آخری دم تک والدہ اور والد کا خیال رکھا۔ والد کا انتقتل ہو گیا تو والدہ ہمارے گھر آکر ر ہیں اور ہم دونوں بہنوں کو اپنے ہاتھ سے رخصت کیا۔ بھائی کی شادی بھی انہوں نے کروائی۔ بھابی کو گھر لائیں اور زندگی کے باقی دن اپنے شوہر کے باتھ گزارے۔ جب اداس ہو تیں، ملنے آبتیں لیکن انہوں نے دوسرے شوہر سے بے وفائی نہیں کی کیونکہ ا س شخص نے کبھی ان کا ہمیشہ خیال رکھا اور دلجوئی م یں کوئی ک ر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ کہا کرتی تھیں۔ میں نے تو کبھی سوپ بھی نہ تا کہ دوسری شادی کروں گی لیکن پ سبیا تو میری ننٹی سے ہو یا پھر نصیبوں کے شیل ہیں۔ ہماری والدہ نے راحیلہ کو گھر میں گھسا کر نلطی کی اوالد نے اس عورت کو توب دے کر۔ جو بھی ہوا، ہمیں تو اپنی ماں اور باپ دونوں پیارے تھے اور اب تک بھی ان کا پیار ہمارے دلوں م یں جوں کا توں موجود ہے کہ پرش جلادینے والے نہیں ہوتے۔
0 Comments