Search Bar

Yeh Tootka Tha Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Yeh Tootka Tha  Teen Auratien Teen Kahaniyan 


خالدہ ایک دلچسپ عورت تھی لیکن غصے کی ذرا تیز تھی۔ میرے پڑوس میں دائیں طرف کا مکان خالی پڑاتا اور نالد ہ بائیں طرف والے مکان میں کراپ دار بن کر آئی تھی۔ مجھے خوشی ہوئی حپلو کوئی تو پڑوسی آئے اور ویران گھر آباد ہوا۔ بغیر پڑوسیوں کے بھی حبیون سون سونار ہوتا ہے ، ہماے ماں بائے، یونہی نہیں  کہلاتے۔ اچھے ہوں توان سے بڑی ڈھار رہتی ہے۔ بال بچے دار ہوں تو رونق سوا ہو باقی ہے۔


الدہ نے اولاد تھی لیکن جانے کو گود لے کر اولاد سے محرومی کی کمی کو پورا کر ل اتا۔ اس کے کھانے کانام بھی سب ادیتا۔ وہ میرے بلاول کا ہم عمرتا۔ دونوں کی عمریں لگ بھگ تین برس ہوں گی، تبھی مبادروز ہمارے گھر آب تا اور دونوں کے لان میں بعض اوتات بچوں کی وحب سے پڑوسیوں سے زیادہ انسیت ہوجاتی ہے کہ  نرشتے بڑوں کو آپس م یں ملاتے ہیں، رنجشیں اور کرورتیں دور ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ پے زیادہ دیر تک روٹھے نہیں رہ سکتے اور نہ ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ باد اور بلاول م یں اکثر کھیل کھیل میں لڑائی ہوجاتی مگر تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعدی دوبارہ آپس میں گھل مل بانتے اور پھر سے کھانے لگتے۔ تبھی میں سوچتی کہ بچوں کو اگر فرشتہ کہا گیا ہے تو ٹھیک ہی کہا گیا ہے۔ ان کی روز کی لڑائی کوئی نئی بات نہ تھی۔


ا س روز بھی گیند پر لڑائی ہو گئی۔ پی گیند کہیں سے اچھال کر ہمارے گھر آ پڑی تھی تب یہ دونوں لان م یں کھیل رہے تھے۔ دونوں ہی اس کی طرف لپکے۔ بلاول نے دوڑ کر گیند انالی۔ سبد نے کہا۔ مجھے دوپ میری ہے۔ بلاول بولادی میری ہے۔ جب میرے سمجھانے پر بھی انہوں نے جگرنا بند نہ کیا تو میں نے گیند اٹھا کر گلی میں پھینک دی۔ کہا کہ پتم دونوں کی نہیں۔ باہر گلی میں جولڑ کے کھیل رہے ہیں، یہ ان کی ہے۔ واپس ان بچوں کو دینی پا ہے۔ اس طرح کسی کی شے کو اپنا کہتا بری بات تھی۔ دونوں کے پاس اپنی گیندیں ہیں، اپنی بائزے کھیلو۔ ابھی م یں بچوں سے بات بھی کر رہی تھی کہ والدہ آگئی۔ ا س نے معاملہ سنا تو تکرار کرنے گئی کہ تم عجیب ماں ہو۔ اپنے بچوں سے گیند پین کر باہر

پھینک ہوں۔ م یں نے اسے بھی سمجھاناپہ مگر وہ تو بس بگرتی چلی گئی ۔ گرما گرم بحث کرنے پر مل گئی۔ خوب لڑی اور جانے کا ہاتھ پکڑا۔ اس کو یہ کہہ کر کھیچیت ہوئی لے گئی کہ خبردار اب بھی بلاول کے ساتھ مت کھیلتا، ادھر کارخ کیاتوبان سے مار دوں گی۔ بلاول کو بھی دھر کیا کہ اگر تم ہمارے گھر آئے تو میرے ہاتھوں تمہاری امی درگت بنے گی کہ یاد رکھو گے۔ نالدہ کے اس روپ پر میں حیران رہ گئی۔


سوپ بھی نہ تا کہ وہ اسکی بد تہذیبی دکھائے گی۔ میں تو اس کو ایک اچھی پڑوسن باقی تھی، تاہم سوپا که وقتی غم ہے، دوپار روز بعد آپ ہی ٹھنڈا ہوجائے گا۔ ور ت میں حب اکر متالوں گی۔ مفت گزرا، پندرہ روز ، ایک ماہ گزر گیا،حیران کہ ا س کو کیا ہوا؟ اس نے سب اد کو بھی ہمارے گھر آنے نہ دیا۔ مجھ سے بول جپال بند کر دی۔ بالاتر میرے شوہر اس کے خاوند کے پاس گئے۔ کہا کہ بھائی ناراض ہو گئی ہیں تو معافی مانگنے آیا ہوں۔ میری بیوی بھی آکر معذرت کرلے گی۔ بچوں کی بات پر ہمایوں میں ای بغض و عناد نہیں چلتا۔ شوہر کے سمجھانے سے وہ مان تو گئی ، دوبارہ سے ہمارا آنابانا بھی شروع ہو گیا۔ م یں تو ا س جھگڑے کو بھول بھال گئی مگر اس خبیث عورت کے دل میں بانے کی کانٹا چھاتا کہ ہیرڈال کر بیٹھ گئی۔ ہم اس محل میں برسوں سے رہتے چلے آرہے تھے۔ والده ئی تھی، دیوار شریک ہونے کے سبب میں نے خود اس سے میل جول بڑھایاتا۔ سوپاتاہم ساتھ رہتے ہیں تو آڑے وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ شروع میں وہ نہایت مہذب اور خوش اخلاق کی تھی۔ مجھے اس م یں پالا کی اور کوئی چیک ملک نظر آئی۔ دل کو اچھی لگی۔ دعا کی کہ ہم سے بن جائے۔

اگر روٹھی بھی تو من بائے گی۔ اول تو خدا وہ وقت نہ لائے کہ پڑوسیوں م یں آن بین ہو اور روٹھنے کی نوبت آئے۔ نالدہ نے بجانے کو پالا است لیکن تھی تو بے اولاد ، اسلوب سے بھی م یں اس کا خیال رکھتی تھی۔ اس کی دل آزاری نہیں کرتی تھی۔ وہ دواعلاج کر کے تھک چکی تھی۔ شادی کو آٹھ برس گزر پہ مگر اولاد کی نعمت سے محروم رہی۔ اب پیروں، | فقیروں کے چکر لگاتی تھی۔ وہ جو کہتے ہیں جب تک بن، تبتگ آ ں ۔

ایک دن ایک منحوس فقیرنی او هر آنکھی۔ نالد هنے گیٹ کھولا۔ فقیرنی دعائیں دینے لگی ۔ خدا کرے تیرے پے جائیں۔ بے اختیار تالدہ کے منہ سے نکل گیا کہ چکے ہوں گے تو جائیں گے نا۔ ضرور ہوں گے، ایک ٹوٹکا ہے تو کر سکے گی؟ نالدہ نے کہا۔ ضرور کروں گی، اولاد کسی کو نہیں پا ہے۔ اولاد ہو گئی تو تیرا مت موتیوں سے بھر دوں گی، تو ٹوٹکا بتادے۔ اس عورت نے کہا کہ تین برس کا پہلوئی کانپ ہوں ا س کی فتربانی کرنا ہو گی۔


وہ کیسے؟ پچ کوریل کی پٹری پر لٹا دینا، اوپر سے ریل گزر گئی، سلامت رہا تو بھی تیری متر بانی متجول ہوجائے گی، نہ رہا تو بھی تیری ا س تربانی سے تجھ کو اولا وہو بائے گی۔ ی آسان ٹوٹکا ہے۔ ا س طرح تجھ کو اپنے ہاتھوں سے کسی معصوم کا خون نہیں بہاناپڑے گا۔ آگے اس کی مرضی مگرتر بانی متجول ہوجائے گی۔ یہ شیطانی شوشہ چھوڑ کر وہ محبوط الحواس تو چند روپیے مٹھی میں لے کر چلتی بنی۔ مگرنالدہ کا شیطانی ذہن میرے بلاول کی طرف گیا۔ رات کے وقت جب میں بیان میں کھانا بنا کر فارغ ہوئی تو بلاول کا خیال آگیا۔

گیٹ بند ت اورت میں مجھی کہ وہ سبادسے کھیے اس کے گھر پلا گپ ہو گا۔ دیوار کے پاس سے آواز دی۔ کوئی جواب نہ ملا، پیپر والدہ کو فون کیا، اس نے نہ اٹھایا۔ پریشان ہو گئی۔ اس کے گھر گئی۔ گیٹ پر تالا لگاتا۔ ابھی م یں شش وین میں تھی کہ والدہ کو سامنے سے آتا دیکھا۔ مبادا کے باتھ ن تا۔ مجھ کو پریشان پا کر پوچھا کہ کیوں پریشان کھٹری ہو؟

شام کو بلاول اپنے کھلونوں سے کھیل رہاتا۔ اب نہیں ہے۔ سارا گھر دیکھ لیا ہے تم سے معلوم کرنے نکل آئی۔ یہاں بھی متال دیکھی تو ہی بیٹھ گیا۔ نحب نے میرا بالاول کہاں پلاگیاہے؟ کہے گی۔ تم بھی ہر وقت کچن م یں گھسی رہتی ہوں، بچے پر دھیان ہی نہیں رکھتیں۔

کہیں گیٹ کھول کر باہر تو نہیں نکل گیا۔ ہیں اور نہیں بتا سوائے تمہارے گھر کے، بادسے گھی بنتا ہے تو بھی مجھ سے کہتا ہے۔ میں گیٹ کھول دیتی ہوں تو ہی تمہارے گیٹ تک جاتا ہے۔ مگر آج تو ایسے غائب ہوا ہے کہ مجھ م یں کچھ نہیں آرہا۔ بھائی عارف کو فون کیا ہے؟ ہاں ان کو بھی کیا ہے۔ میرے بھائی لاہور سے آنے والے تھے، وہ ان کو لینے اسٹیشن گئے ہیں۔ شالیمبر آج لیٹ ہوگئی ہے۔ آٹھ نو کے تنک آبی جاتی ہے لیکن وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ اب گیارہ بجنے کو ہیں اور میں آٹھ بجے سے بلاول کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ اپان میراداهیان سباد کی طرف گیا۔ بار تمہارے ساتھ نہیں ہے؟ میں نے سوال کیا۔ میں سب سے بہن کے گھر گئی تھی، آج سبا دوہیں رک گیاہے۔ اس کا دل ان

کے بچوں میں لگ رہاتا تو م یں نے اسے ان کے وہاں ہی رہنے دیا ہے۔

میرا دل بند ہونے کوتا کہ اسی وقت گاڑی گیٹ پر آکر ر کی۔ عارف کے باتھ میرے بھائی اور بلاول بھی متا۔ وہ غنودگی میں عتا۔ بھائی حبان نے اس کو بازئوں پر اٹھار کھاتا۔ میں حیران رہ گئی کہ عارف تو میرے سامنے گھر سے اکیلے گئے تھے۔ یہ بلاول کہاں سے آگیا؟ گھر آکر انہوں نے بتایا کہ اسٹیشن کی حدود ختم ہوبانے

کے بعد کچھ آگے ویرانے میں کوئی بلاول کو ریل کی پٹری پر پھینک کر پلاگیاتا۔ پ ہلے ہوشتا، وہاں اندھیرات این پیٹریاں چیک کرنے والا ریلوے کا ایک ملازم اس طرف ہیں گھوم پیکر پاتا۔ اس کی نظرچے پر پڑی گئی اور ریلی کے آنے سے چند منٹ قبل اس نے بلاول کو وہاں سے اٹھالیا۔ وہ اس کو اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں لایا۔ جب ہم اسٹیشن پر کھڑے تھے، اعلان ہوا کہ ایک بجپ ریل کی پٹری پر لے ہوش ملا ہے۔ ج س کی وب سے ہم وہاں گئے تو دیکھا کہ بلاول ہے۔ اس کو اپنی تحویل میں لینے کی تانونی کارروائی کے باعث دیر ہو گئی۔ والد میں اس کی تصویر میں نے اکائی ہوئی ہے ، وہ کام آگئی اور ہم ا س کو لے آئے ہیں۔ پتہ بعد میں کھلاجب بلاول ہوش میں آگیا۔ اس نے بتایا کہ میں جب آنٹی کے گھر بادسے کھیے گی، انہوں نے مجھے مٹھائی کھانے کو دی تھی۔ پھر مجھے نیند آگئی۔ اس کے بعد کی کہانی بچے کو کیا یاد رہتی تھی۔ وہ تو بے ہوش ہو گپاتا۔ نالدہ نے سوپ کہ مر گیا تو مر گیا، سراتور بیلوے کے اژدھام میں کھو جائے گا۔ جس کے ہاتھ لگا لے جائے گا۔ خدابانے اس نے کیا سوپاتا۔ بہرحال پ ر دود

عورت اگلے روز گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ انہوں نے کرائے کا مکان نہیں چھوڑ دیا لیکن میرے دل پر ا س بھیانک یاد کا ایک نہ مٹنے والا داغ چھوڑ گئی کہ جب تک بیوں گی اس داغ کو دل پر لے کر حبیوں گی۔ خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے میرا | بلاول مجھے زندہ سلامت لوٹادیا۔ شاید ہماری کوئی میں کام تیل کی دعا کی اور جب تک بیتی، م رتی ہی رہتی۔ بلاول بھلا کہاں ملنے والا کمت؟ جو صحیح طریقے سے گھر کا پتا تک نہیں بتا سکتاھتا۔

 


Post a Comment

0 Comments