Funda Story Dhoka Kis Nay Kiya Teen Auratien Teen Kahaniyan |
علیم میرے شوہر کا بچپن کا دوست تھا تبھی ان سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا۔ ان کی دوستی اتنی گہری تھی کہ جب بزنس شروع کیا تو دونوں نے کاروبار کرنے کی ٹھان لی۔ برابر کا سرمایہ ملایا کیونکہ دوستی میں خلوص اور سچائی تھی، میں اچھی تھیں، بزنس میں روز بروز منافع ہونے لگا، یہاں تک کہ یہ دونوں مالی طور پر آسودہ حال ہو گئے تب انہیں نیا گھر بنانے کی سوجھی۔ علیم اور مشتاق نے دو کنال کا پیاث مشترکہ سرمائے سے خریدا اور پھر اس کو برابر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
دونوں نے اپنے اپنے گھروں کا نقشہ بھی ایک جیسا ہوا یا اور مکانات کی تعمیر کے لئے ایک ہی ٹھیکیدار کی خدمات
حاصل جب دونوں گھر تعمیر ہو گئے تو دونوں دوست اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ نئے مکانات میں شفٹ ہو گئے۔ گھر
میں روپے پیسے کی کمی نہ تھی لید از ندگی خوشی اور خوشحالی سے بسر ہوتی رہی۔ میری اور مشتاق کی شادی کو دس برس
گزر چکے تھے جبکہ علیم بھائی اور رشنا کی شادی کو بارہ سال بیت چکے تھے۔ ان بارہ سال میں وہ پانچ بچوں کے والدین
بن چکے تھے۔ جلد جلد کے ہونے کے سبب رشنا کی صحت متاثر ہوگئی
تھی اور وہ بیکار رہے گی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اب بچوں کی پیدائش میں وقفہ لازمی ہے ورنہ آپ کی صحت زیادہ خراب ہو
جائے کیا۔ علیم بھائی کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اب بچوں کی مزید پیدائش کا سلسلہ بند ہو
جائے تا کہ ان کی بیوی مل طور پر صحت مند ہو سکے اور آرام و چین سے زندگی گزارے۔ ان کے خیال میں پائی کے
کافی تھے۔ ہر ایک سے کہتے تھے کہ دعا کرو ہمارے اور چےنہ ہوں۔ مجھے مزید چھ ہر گز نہیں چاہئیں ورنہ رشناسی پیار کی بیوی کو کو دوں گا۔ علیم بھائی کو وہم ہو گیا تھا کہ اگر چھنا یہ ہواتواس کی بیوی زندہ نہ بچے گی کیونکہ رشنا کے
پانچوں بچے آپریشن سے ہوئے تھے، اب چھٹے آپریشن کی قطعی گنجائش نہ تھی۔
اس میں بقول ڈاکٹر ز جان جانے کا خطرہ تھا۔ انہی دنوں کسی نے مشورہ دیا کہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک نس
بندی کر والے تو اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ شنانہایت پاکیزہ خیالات پر ہیز گار اور مذہبی رجحان کی حامل خاتون
تھی۔ جب لیڈی ڈاکٹر نے اسے نس بندی کا مشورہ دیا تو اس نے یہ آپریشن کروانے سے انکار کر دیا کہ وہ اس حال
میں کچھ قباحت محسوس کر رہی تھی، تاہم تعلیم نے اس مشورے کو قبول کر لیا۔ کہا کہ مجھ کو اپنے بچوں کی ماں کی جان زیادہ پیار کی ہے۔ خدانخواستہ اگر شانہ رہی توان معصوموں کی کون پرورش کرے گا؟ علیم صاحب کو علم تھا کہ
ان کی بیوی اپنے شوہر کو بھی ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنے سے منع کرے گی کیونکہ وہ اس عقیدے پر کار بند تھی
کہ قدرت کے کاموں میں دخل دینے سے انسان فائدے میں رہنے کی بجائے خسارے میں رہتا
ہے۔ پس علیم صاحب نے بیوی کے علم میں یہ بات لائے بغیر خود ہی اپنی نس بندی کر
والی تا کہ آئندہ مزید اولاد
کے
جنم لینے کے خطرے سے محفوظ رہیں۔ انہوں نے بیوی سے ہی اس راز کو پوشیدہ نہیں رکھا
بلکہ سوائے میرے شوہر کے ، ہر کسی کو اس راز سے لاعلم رکھا کیونکہ ان کے گھر والے
بھی اس امر پر ان کے آڑے آتے، خاص طور پر ان
کے
والدین اس کام میں رکاوٹ بنتے۔ اپنے خیال میں تو علیم صاحب نے اپنی محبوب بیوی کی
زندگی بچانے کی خاطر یہ قربانی دی تھی مگر اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
رشا کی عمر کم تھی، وہ کسی اندرونی مرض میں مبتلا تھی ، دو سال بھی کی اور پھر
رضائے الہی سے وفات پائی۔ تعلیم بھائی کو بیوی کی وفات کا بے حد صدمہ ہو اگر اللہ
کی مرضی پر کسی کا زور چلتا ہے۔ انسان کو اپنے رب کے ہر فیصلے
کے
سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ سوائے صبر چارہ نہ تھا۔ لیکن بچوں کو صبر کون سکھاتا، وہ
اس عمر میں تھے کہ ان کو ماں کی اشد ضرورت تھی، بغیر ماں کے ان کی پرورش و پرداخت
ناممکن تھی۔ گھر میں ایک ایسی عورت کا ہونا اشد ضروری تھا جوان کی دیکھ بھال کر
سکے جبکہ علیم کو اپنی مر حومہ بیوی سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بعد بجھ کر رہ
گئے تھے، ہمہ وقت افسردہ خاطر رہا کرتے تھے۔ ان کے والد میں پانچ بچوں کو سنبھالنے
سے قاصر تھے۔ والد ہ ضعیف تھیں، ایک سال مشکل سے کسی طرح نکالاء بالآخر انہوں نے
بیٹے کو دوسری شادی کے لئے مجبور کیا۔ وہی نہیں ان کے سارے خیر خواہ اصرار کرتے
تھے کہ تم کو ضرورت نہیں ہے دوسری بیوی کی مگر تمہارے بچوں کو تو میں کی اشد ضرورت
ہے۔ جو لڑ کی بطور دوسری شریک حیات ان کی قسمت میں لکھی تھی، اس کا نام سو ہاتھ
اور وہ اٹھارہ برس کی دوشیزہ تھی۔ یہ ان کے رشتے کے ماموں کی بیٹی تھی۔ اسی سبب
علیم صاحب کی والدہ کی منت سماجت پر ماموں نے اپنی کنواری بچی کا رشتہ پانچ بچوں
کے باپ کو دے دیا۔ دراصل یہ رشتہ اس وجہ سے بھی طے پا گیا کہ لڑکی کے والد غریب
تھے اور علیم صاحب ایک متمول شخص تھے۔ سو اس نظریے کی بناپر سوہا کے والد نے بیٹی
کو اس امیر گھر میں بیاہ دیا کہ میری بھی مفلسی کے ماحول سے نکل کر خو شحال گھرانے
میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرے گی۔ علیم صاحب اور ان کی دوسری بیوی میں عمر کے
لحاظ سے بہت فرق تھا۔ سو اٹھارہ کی تعلیم بھائی چالیس برس کے
تھے۔
سو باخوبصورت بھی بہت تھی۔ غریب گھر کی تھی، بس یہی ایک عیب اس میں تھاور نہ وہ ہر
طرح سے ایک پرکشش لڑکی تھی۔ شادی کو تین سال بیت گئے تو سوہا کے والدین کو فکر
ہوئی کہ ان کی بیٹی ابھی تک صاحب اولاد نہیں ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی فکر سبھی
والدین کو ہوتی ہے۔ خود سوپ کو بھی خواہش تھی کہ اس کے اولاد ہو۔ پانی اپنے شوہر
کے تھے مگر اپنی کو کھ کی خوشی اور ہوتی ہے۔ سوہا علیم سے کہتی تھی کہ میرا جی
چاہتا ہے کہ میری گود بھی ہر ی ہو، میں علاج کروانا چاہتی ہوں۔ شوہر نے بخوشی
اجازت دے
دی
بلکہ خود ساتھ جاتے۔ اسپتالوں میں کئی لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا۔ ہر ایک نے کہا۔
سوہاہر لحاظ سے صحت مند اولاد پیدا کرنے کے قابل ہے۔ اللہ کی مرضی کہ جب اولاد سے
نواز دے البتہ شوہر کو کوئی الزام نہ دیا جا سکتا تھا کہ ان کے تو پہلے سے پا چکے
تھے، تاہم عیم جانتے تھے سوہا کی ماں بننے کی خواہش بھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ وہ
بیوی کی دلجوئی کرتے کہ اللہ نے چاہا تو تم ماں بن ہی جائو گی۔ تمہارے اندر کوئی
نقص نہیں ہے اور نہ ہی میرے اندر
ہے
کیونکہ میں تو پہلے ہی پا پچوں کا باپ ہوں۔ بس یہ جو دیر ہورہی ہے ، یہ اللہ کی
مرضی ہے۔ مایوس نہ ہو ، د عا کرتی رہا کرو اور میرے بچوں کو اپنے بجھ لو۔ اس بچاری
نے واقعی شوہر کے بچوں کو اپنے ہی بچے سمجھا۔ ان کا ہر طرح خیال رکھتی۔ صبح اٹھ کر
ان کو نہلانا، کپڑے بدلوانا، ان کے کپڑے دھلوانا، یونیفارم وقت پر تیار کر کے
رکھنا۔ بروقت ناشتہ کروا کر اسکول روانہ کرنا اور شام کو روز ان کی کاپیاں چیک
کرنا اور ہوم ورک کروانا۔ اگر کبھی تعلیم کسی بات پر بچوں کو ڈانٹے یا سرزنش کرتے
تو سو اڑھال بن جاتی۔ باپ کو بچوں کو ڈانٹے ڈ پٹنے نہ دیتی کہ ان کی ماں نہیں ہے،
میں خود سمجھالوں گی، آپ ان کو اس طرح نہ جھڑ کا کریں۔ سو با اچھے مزاج کی تھی کہ
علیم صاحب کے والدین، بہن ، بھائیوں حتی کہ رشتے داروں کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی،
بھی
کہتے ایسی نیک بیویاں کم ہی ہوتی ہیں جیسی تعلیم کو ملی ہے۔ یہ بہت خوش قسمت آدمی
ہے۔ سوہا کی توجہ اور محبت پا کر علیم بھائی پہلی بیوی کا غم جھلا چکے تھے۔ اب وہ
بہت خوش رہا کرتے ، خود پر توجہ دینے لگے اور اپنی عمر سے بھی کم عمر نظر آنے لگے۔
ان کی خوش لباسی اور خوش مزاجی میں اضافہ دیکھ کر ہم بھی ان کی قسمت پر رشک کرنے
لگے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ان کی یہ بیوی اب ان کو کھے کی حقیقی اولاد کی خواہش
کو اللہ تعالی کی رضا سمجھ کر یکسر بھلا چکی ہیں اور انہوں نے علاج معالجہ بھی بتا
دیا ہے لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی کہ وہ اب بھی علیم صاحب کی اجازت کے بغیر اپنی
ماں اور بہنوں کے ہمراہ مختلف ڈاکٹروں کے پاس علاج کو جایا کرتی تھی اور خفیہ علاج
کرواتی رہتی بظاہر علیم صاحب کا گھر سکون کا گہوارہ تھا۔ چھ سوتیلی ماں سے خوش اور
مطمئن تھے اور شوہر بھی مسرور رہتے تھے کیونکہ سوہا بھائی اپنے جیون ساتھی کا بہت
خیال رکھتی تھیں اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ رکھتی تھیں۔ ہم تو سمجھ رہے تھے
کہ علیم بھائی کی فنی زندگی ہر طرح سے خوشیوں بھری اور پر سکون ہے اور ایسے ہی
ہمیشہ رہے گی مگر ایک دن اس گھر میں بہت بڑا انقلاب آگیا۔ ہر شخص حیران تھا، چہرے
سوگوار تھے، بچے سہمے ہوئے تھے، محلے والے انگلیاں اٹھارہے تھے اور دوستوں پر سکتہ
طاری تھا۔ ہر شخص یہی سوال کر رہا تھا کہ آخر ان صاحب نے اتنی اچھی اور نیک بیوی
کو کیوں طلاق دے دی جبکہ ان
کے
بچے بھی اپنی سوتیلی ماں سے والہانہ محبت کرنے لگے تھے۔ آخر تک کوئی اس طلاق کی
وجہ اور و دراز نہ جان سکا جس کو علیم صاحب جانتے تھے یا پھر مشتاق صاحب اور ان کے
توسط سے میں جان چکی تھی۔ آج بھی جب سوہا مجھے یاد آتی ہے تو دل میں ایک کسک سی
اٹھتی ہے۔ لوگ تو علیم بھائی کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے بلا قصور
اپنی نیک اور شریف بیوی کو طلاق دے دی تھی لیکن سوپا، علیم کا گھر چھوڑنے سے قبل
میرے پاس آخری بار ملنے آئی تو اس نے مجھے بتادیا تھا کہ میں نے شوہر کو بتائے
بغیر علاج معالجہ جاری رکھا تھا۔ بالآخر میری جدوجہد بار آور ہوئی اور میں امید سے
ہو گئی لیکن جب میں نے علیم کو اس خوشخبری سے آگاہ کیا تو بجائے خوش ہونے
کے
انہوں نے مجھ کو طلاق دے دی۔ سوہاوالدین کے گھر چلی گئی۔ اس نے وہاں ہی اپنی حقیقی
خوشی کو جنم دیا اور دو سال بعد دوسری شادی بھی کر لی۔ آج وہ پانچ بچوں کی ماں ہے۔
اور اپنی زندگی سے بے حد خوش اور مطمئن ہے۔ بے شک الله تعالی کے بھید کوئی نہیں
جان سکتا۔ وہ جب چاہے جسے چاہے نواز دے
0 Comments