New Urdu story Haveli Ki Dastaan Urdu stories 2022 |
آج سوچتی ہوں زندگی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے میں نے اپنا سارا بچپن اپنے ماں باپ کو ہولی کی غلامی کرتے دیکھا لیکن کبھی سوچا نہ تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ میں اس حویلی کی مالکن بنوں گی – ابا چوہدری صاحب کے ملازم تھے۔ ایک روز گھوڑے کی مالش کرتے ہوۓ اچانک اس کی لا ت ابا کو لگی۔ وہ تکلیف سے دوہرے ہو گئے اور اسپتال جاتے ہی دم توڑ دیا۔ یہ بڑا سانحہ تھا ہمارے لئے ، ہم غریبوں کی تو کل کائنات ہی ابا تھے۔ کیا بتائوں کتناد کھ ہوا تھا مجھے۔اس وقت بھی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے ساتھ ہی مر جائوں لیکن جینامر نا کب اپنے ہاتھ میں تھا۔ ہماری زمین تھی اور نہ جمع پونجی ، نہ ابا کی ملازمت سر کاری تھی کہ پینشن کا آسرا ہوتا۔ مکان بھی چوہدری صاحب کا دیا ہوا تھا جس میں سر چھپاۓ ہوۓ تھے۔ اب اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ ہم ماں بیٹی زمیندار کی حویلی میں چلے جائیں اور ان کی ملازمت کر کے روٹی کھائیں لہذا ہم چوہدری کی حویلی میںچلے آۓ۔ اماں ان کے گھر کا کام کر تیں اور میں کمرے میں بیٹھ کر کڑھائی کرتی۔ جن دونوں ابا کا انتقال ہوا، میری عمر چودہ برس تھی۔ مالکن بہت سے ایسے کپڑے مجھے دے دیتی جو نئے اور قیمتی ہوتے لیکن فیشن سے پرانے قرار پاتے ۔ میں ان کی کتر بیونت کر کے اپنے ناپ کے سی لیتی۔ یہ لباس مجھ پر بہت بچتے تھے۔ ایک دن اماں کی طبیعت خراب ہو گئی۔ میں ماں کی جگہ کچن میں پہنچی کیو نکہ آج خصوصی کھانے بنانے تھے۔ چوہدری صاحب کا بیٹاراحیل بیرون ملک سے آرہا تھا۔ مالکن نے بیٹے کا کمرہ کھول دیا اور مجھے کام سمجھادیا۔ میں نے تندہی سے صفائی کی اور ہر کام ویسے ہی کیا جیسے مالکن نے سمجھایا تھا۔ آج ان کے کچھ رشتہ دار بھی آۓ ہوۓ تھے لیکن میں ان کے سامنے نہ گئی بلکہ اپنے کام میں مصروف رہی۔ دوسری ملازمہ لڑکی نے کھانالگایا اور خالی بر تن لا کر کچن میں رکھے جواب مجھے ہی دھونے تھے۔ میں برتن دھور ہی تھی کہ ایک خوبصورت جوان کچن میں آیا۔ اس نے مجھے دیکھاتو چونک گیا پھر جیب سے سوروپے کا نوٹ نکال کر مجھے دیا اور میرے بناۓ کھانے کی تعریف کی۔ میں بہت خوش تھی۔ کام ختم کر کے اماں کے پاس آئی، ان کو بتایا کہ راحیل نے مجھے سوروپے انعام دیئے ہیں۔ماں بولیں۔ خیال کرنا، کہیں اس بات پر مالکن ناراض نہ ہو جائیں۔ بچپن میں راحیل بہت شرارتی ہوا کرتا تھا پھر کوئی شرارت نہ کرے۔ ایک روز میں کچن میں کام کر رہی تھی کہ راحیل پانی پینے کے بہانے آگیا۔ مجھ سے باتیں کرناچاہیں تو میں نے کہا۔ آپ ادھر زیادہ دیر مت بات کریں ۔ اماں خفاہوں گی ۔ تم ان کی پروامت کرو، مجھے تمہاری مرضی چاہئے۔ میں تم سے شادی کر نا چاہتا ہوں۔ یہ ایسی انہونی بات اس نے کہہ دی تھی کہ میں نے دم سادھ لیا۔ یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ اگر مالکن نے سن لیا تو کھڑے کھٹرے ہم کو گھر سے نکال دیں گی۔اماں نے کہا تھا کہ یہ لڑکا بچپن میں شرارتی ہوا کرتا تھا۔ تو کیا یہ ابھی تک شرارتی ہے ، جو ایسی بات کر رہا ہے ۔ ملازمہ تو پائوں کی جوتی ہوتی ہے ۔ کون مالک برداشت کرتا ہے کہ اس کو سر پر رکھ لیا جاۓ۔ راحیل کی بات سے میں اتنا خوفزدہ ہوئی کہ اگلے دن کام پر نہ گئی اور بیماری کا بہانہ بنا کر لیٹ گئی ۔ ماں سے کہا۔ اماں تم جاؤواب میں وہاں کام پر نہ جائوں گی۔ وہ بولیں ۔ راحیل کے آنے سے مہمان زیادہ آنے لگے ہیں، اس لئے کام زیادہ ہوتا ہے۔ میں اکیلے اتنا کام نہیں کر سکتی، تمہیں میر اہاتھ تو بٹانا ہی ہو گا۔اماں آج تو چلی جائو۔ میری طبیعت تو ٹھیک ہونے دو۔ دو چار دن اکیلے کام کر لوگی تو کیا ہو جاۓ گا۔ اوپر کے کام والی دوسری لڑکی بھی تو ہے۔ وہ کروالے گی تمہارے ساتھ کام ۔ جب میں تین چار دن حویلی نہ گئی تو راحیل سے نہ رہا گیا۔ ایک روز جب اماں ان کے کچن میں کام کر رہی تھیں تو وہ سرونٹ کوارٹر کی طرف آ گیا۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ ایک امیر زادہ جو بیرون ملک سے پڑھ کر آیا ہو ، یک معمولی ملازمہ کی بیٹی کی خاطر اس قدر پر یشان ہو جاۓ گا۔ میں راحیل کو سامنے دیکھ کر ڈر گئی۔ اس نے آتے ہی سوال کیا۔ کیوں نہیں آنہیں تم آج ؟ میری طبیعت خراب تھی۔ میں نے جواب دیا۔ تم نے بہانہ کیا ہے ۔ تم میری بات کا جواب دینانہیں چاہتی تھیں۔ شاید تم مجھے پسند نہیں کر تیں۔ راحیل صاحب خدا کے لئے ، مجھے شرمندہ نہ کریں۔ میراخیال چھوڑ دیں۔ ہمارا اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہمیں عزت سے یہاں رہنے دیں۔ مالکن کو علم ہو گیا تو ہم غریبوں کے لئے بہت برا ہو گا۔ آپ تو مذاق کر کے الگ ہو جائیں گے شامت ہماری آ جاۓ گی۔ میں مذاق نہیں کر رہا ۔ میں سنجیدہ ہوں۔ میں نے دنیا کی سیر کی ہے ، زمانہ دیکھ کر آرہا ہوں۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ میری نظر میں امیری غریبی کافرق کچھ نہیں ، تعلیم کا فرق ہے ۔ میں تم کو تعلیم دلوائوں گا۔ میں سیرت کو اہم سمجھتا ہوں دولت کو نہیں۔ مجھے لگا کہ وہ کسی دوسری دنیا سے آیا ہے اور دوسری دنیا کی ہی باتیں کر رہا ہے یا پھر میں خواب دیکھ رہی ہوں۔ مجھ کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر وہ بولا۔ تم کسی اور سے محبت کرتی ہو ۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ راحیل صاحب خدا کے لئے ایسا ویسا کچھ مت سوچئے ۔ بس میراخیال چھوڑ دیجئے۔ میں اب بھی آپ کے گھر کی طرف نہیں آئوں گی ۔ ٹھیک ہے ۔اس نے چلتے چلتے کہا۔ تو پھر میں بھی گھر سے چلا جائوں گا اور پھر بھی واپس نہیں آئوں گا۔ چند دن گزرے تو ماں نے مجھے کہا کہ تم کو مالکن نے کام کے لئے بلایا ہے۔ اگلے ہفتے ان کے بڑے بیٹے نبیل کی شادی ہے ۔ میں نہ جانا چاہتی تھی لیکن ماں کے بار بار کہنے اور مجبور کرنے پر مجھے جاناہی پڑا۔ راحیل نے مجھے دیکھا مگر بات نہ کی۔ وہ زیادہ تر چپ رہتا تھا اور کسی سے ہنس کر بات نہ کرتا تھا۔ اس کے رویے سے مجھ کو احساس ہوا کہ وہ واقعی سنجیدہ ہے۔ اس نے میرے ساتھ دل لگی نہیں کی ہے کیو نکہ دل لگی کے طور اطوار اور طرح کے ہوتے ہیں۔ گر کسی کا دل کسی پر آجائے تو یہ کچھ ایسی عجب بات بھی نہیں۔ بادشاہ بھی تواپنی کنیزوں سے شادیاں کر لیتے تھے ،اس میں ایسی کیا انہونی تھی۔ جس روز نبیل دولہا بنا، مہندی والا دن تھا۔ مالکن نے مجھے بہت اچھا سوٹ دیا تھا جو میں نے اس موقع پر پہنا ہوا تھا۔ صحن میں سب لوگ جمع تھے۔ میں کچن میں کچھ لینے گئی تو وہاں راحیل موجود تھا۔ و ہ ریفریجریٹر سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال رہاتھا۔ اچانک میں اس کے سامنے آئی تو وہ مجھے بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ شاید اس کو یقین نہیں آرہاتھا کہ یہ میں ہوں۔ سفید براق نئے جوڑے میں مجھ کو بھی وہ شہزادہ لگا۔ سوچنے لگی کہ آخر میں نے کیا جرم کیا ہے جو اتناڈر گئی ہوں ؟ تب میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے اپنے دل کی بات کہہ دوں گی اور کسی سے نہیں ڈروں گی۔ میرے چہرے کے تاثرات سے اس نے میرے دل کی بات جان لی ، کہنے لگا۔ آخری بار کہہ رہا ہوں اگر مجھ سے شادی منظور ہے تو ہاں ، کہہ دوور نہ میں اگلے ہفتے انگلینڈ روانہ ہو جائوں گا، پھر یہاں کبھی کوئی میری صورت نہ دیکھ سکے گا۔ اس کی اس دھمکی نے میرے دل پر بجلی گرادی اور ہمت کر کے میں نے کہہ دیا۔ آپ اپنے والدین کو راضی کر سکتے ہیں تو مجھے منظور ہے ۔ وہ خوش ہو گیا۔ کہنے لگا۔ بڑے بھائی کی شادی کے بعد میں اپنے بابا جان سے بات کروں گا۔ اس کے بڑے بھائی کی شادی ہو گئی۔ دلہن ان کی خالہ کی بیٹی تھی۔ وہ زمیندار گھرانے کی بہت خوبصورت ، نازک اندام لڑکی تھی۔ یہ ان کے ہم پلہ لوگ تھے۔ میں شبانہ کو بھابی بھی کہتی تھی۔ایک دن بھابی کی امی کے ساتھ ایک عورت آئی۔ یہ ان کے منیجر کی بیوی تھی ، جوان کی اراضی کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کا بیٹا شہر میں نوکری کرتا تھا۔ اس عورت نے بھابی بی سے میرے بارے پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ خالو جان کے پرانے منشی رحمت علی کی بیٹی ہے۔ ان کی وفات ہو گئی ہے ۔ یہ ماں بیٹی اب ہمارے پاس رہتی ہیں۔ اس عورت نے مجھے پسند کر لیا اور اماں سے میرا رشتہ مانگا۔ میری ماں تو خوش ہو گئیں۔ وہ جلد از جلد میری شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن میں نے انکار کر دیا۔ ماں نے وجہ پوچھی۔ میں نے بتادیا کہ راحیل مجھ سے شادی کر نا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر اماں کے تو ہوش گم ہو گئے۔ راحیل اور تیرا بہ.! یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہیں تو پاگل تو نہیں ہو گئی۔ میں نے کہا۔ اماں اگر یقین نہیں تو اسی سے پوچھ لو۔ اماں نے موقع پا کر راحیل سے بات کی۔ اس نے جواب دیا کہ یہ سچ ہے میں شادی آپ کی بیٹی روشن سے ہی کروں گا۔ کہیں اور اس کارشتہ نہ کرنا۔ میں آج کل میں اپنے والدین سے بات کروں گا اور ان کو منا لوں گا۔ راحیل نے والدین سے بات کی والد تو سوچ بچار میں پڑ گئے لیکن مالکن سخت غصے میں تھی۔ وہ مجھے موردالزام ٹھہرارہی تھی۔ تب میری ماں اور میں نے کلام پاک اٹھا کر ان کو یقین دلایا کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ آپ اپنے بیٹے سے پوچھ لیں۔ میری خوش قسمتی راحیل نے اپنے والد کو قائل کر لیا اوروہ بیٹے کی خوشی پوری کرنے پر راضی ہو گئے مالکن کچھ نہ کر سکی کیونکہ اس گھر کی ریت یہی تھی کہ رشتوں ناتوں میں مردوں کی چلتی تھی۔ مالکن نے بیٹے کو جانے کیا برا بھلا کہا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا۔اب وہ پچھتائی تاہم غصہ ہم لوگوں پر نکالا اور کوارٹر خالی کرنے کو کہا۔ تب امی نے اپنا ٹر تک اٹھا یا۔ اس وقت چو ہدری صاحب گھر پر نہ تھے۔ ہم ان کا گھر چھوڑ کر قریبی گائوں امی کے ایک رشتہ دار کے گھر آگئے ۔ یہ امی کے ماموں زاد کا گھر تھا۔ اس وقت تو انہوں نے ہمارا آناخوشی سے قبول کیالیکن ہم کو پتا تھا کہ یہ عارضی ٹھکانہ ہی ہے۔ ادھر چوہدری صاحب بیٹے کی تلاش میں راحیل کے ایک دوست کے پاس پہنچے ۔ باپ اس کو منا کر گھر واپس لے آیا اور بیوی کو سمجھایا کہ بیٹے کی خوشی میں رکاوٹ مت ڈالو۔ یہ جوان لڑکا ہے ،ایک بار بیرون ملک نکل گیا تو منہ دیکھنے سے رہ جائو گی۔ ہمارے کون سے زیادہ فرزند ہیں۔ دو ہی بیٹے ہیں ، تم لڑکے کی خوشی پوری کر دو ۔ روشن ایک وفادار اور دیانت دار نیک شخص کی بیٹی ہے ۔اس میں کوئی عیب نہیں ہے ۔ غرض اس طرح انہوں نے بیوی کو راضی کیا۔ بے شک مالکن نیم دلی سے راضی ہوئی کہ ان کی نگاہوں میں ، میں نوکرانی کی بیٹی تھی۔ وہ میرے والد کی شرافت اور وفاداری کو بھلا بیٹھی تھی۔ تاہم اس نے یہ شرط رکھی کہ لڑکی کا نکاح اس کے میکے میں ہو گا اور ہم بعد میں اس کو جا کر لے آئیں گے۔ سومیر انکاح ماموں کے گھر ہوا۔ بعد میں چند بزرگوں اور معززین کے ہمراہ چوہدری صاحب مجھے اپنے ساتھ حویلی لے آۓ کیونکہ راحیل کو وہ کھونانہ چاہتے تھے۔ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں ، حقیقت ہے کہ مجھے اس بڑے گھرانے نے قبول کر لیا اور میں چوہدری صاحب کی بہو بن کر حویلی میں اتری۔ حویلی کی عورتوں کا سلوک شروع میں مجھ سے اچھانہ تھا۔ منہ سے کچھ نہ کہتی تھیں مگر دل میں ان کے حقارت بھری ہوئی تھی۔اس صورت حال سے مجھ کو دکھ ہوتا تھا۔ تب راحیل کہتے کہ تم ان پر دھیان مت دو ، اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔ میٹرک کر لو تو میں تمہیں اپنے ساتھ برطانیہ لے جائوں گا۔ انہوں نے میرے لئے ٹیچر کا انتظام گھر پر کر دیا تھا لیکن باہر جانے کی نوبت نہ آئی۔ میرے سسر بیمار پڑ گئے تو میں نے ایک بیٹی کی طرح ان کی خدمت کی ۔ جب ساس نے یہ دیکھا تب ان کا دل نرم ہوا کیونکہ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی اور آگے انہوں نے بھی بڑھاپا دیکھنا تھا۔ میرے سسر صاحب کا انتقال ہو گیا۔ آدھی جائیداد ،دھن دولت کے وارث راحیل ہو گئے۔ انہوں نے اپنی الگ کو ٹھی بنوالی۔ میرے چار بچے ہو گئے۔ اب ان بچوں کی وجہ سے میں ساس کی محبت میں حق دار بنی۔ ہم گرمیوں کی چھٹیاں شہر سے آکر ان کے پاس گائوں میں گزارتے۔ بے شک میری ساس مجھ سے پیار نہ کرتی ہوں لیکن وہ اپنے پوتے پوتیوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ جب تک وہ زندہ رہیں ، میں ان کے گھر میں ڈر ڈر کر قدم رکھتی تھی لیکن جب وہ شدید بیمار ہو گئیں تب انہوں نے مجھے کہا۔ بیٹی اب تم یہاں میرے پاس رہو۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے ۔ واقعی ان کو ان دنوں میری شدید ضرورت تھی۔ میں ان کا خیال رکھتی ، خدمت کرتی ۔ان کو فالج ہوا تو میں نے دن رات ان کے لئے ایک کر دیئے۔ ہرلمحہ ان کی خدمت میں حاضر رہتی تھی۔ان کی وفات کے بعد مجھے بھی حویلی میں اتناہی استحقاق ملا ، جتنا میری جٹھانی کو ملا تھا۔ میں راحیل کو داد دیتی ہوں، جنہوں نے ہمت کی ورنہ میں کہاں حویلی کی مالکن بننے کے خواب دیکھ سکتی تھی ۔ انسان کی قدر ہونی چاہیے روپے پیسے کی نہیں – راحیل نے مجھے عزت دی اور میں نے خوب ان کے والدین کی خدمت کر کی ان کا دل جیتا – آج میرے پاس سب کچھ ہے بس اس بات کی خواھش ہے کہ الله میری اولاد اکو بھی کامیاب کرے- راحیل کی طرح وہ بھی انسان کی قدر کرنا جانیں روپے پیسے کے چکر میں پھنس کر زندگی کی رنگینیوں میں الجھ نہ جائیں-
0 Comments