Search Bar

Urdu Inpage Story | Teen Aurtein Teen Kahaniyan شاید کبھی لوٹ آؤ

  

Urdu Inpage Story  Teen Aurtein Teen Kahaniyan شاید کبھی لوٹ آؤ
Urdu Inpage Story  Teen Aurtein Teen Kahaniyan شاید کبھی لوٹ آؤ 


ہم لوگ شہر سے نزدیک رہتے تھے جہاں سے کھیتوں والا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ یہیں ریحان کا گھر تھا۔ گھر سے آگے باغ اور پھر کھیت تھے۔ پہلے یہاں ریحان نہیں رہتا تھا، نوکر اور کچھ رشتے دار رہتے تھے، بیجان تو اب کچھ دنوں سے آکر رہنے لگا تھا۔ میں نے بیان کو بھی نہیں دیکھا تھا، بس اتنا پتا تھا کہ ہمارے گھر کے پاس ملک صاحب کی زمین اور باغ ہیں جس میں ان کا بڑا سا پختہ مکان تھا مگر اس مکان میں وہ کبھی بھی آتے تھے کیونکہ ملک صاحب گائوں میں رہتے تھے جہاں ان کی دو بیویاں تھیں۔ رمیحانا بھی ملک صاحب کا پہلوئی کا بیٹا تھا۔ ریحان کی ماں اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ اس کو سوتیلی ماں نے پالا تھا جس کی کوئی اولاد نہ تھی، البتہ ریحان کی تیسری سوتیلی ماں اس سے جلتی تھی اور اس کے لئے طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے ریحان گھر سے باہر رہتا تھا۔ پہلے وہ شہر کے ہاسٹلوں میں رہا۔ جب تعلیم مکمل کر لی

تو اس کے والدین نے اس کے حصے کی زمین اور جانداد اس کے سپرد کر دی۔ اس طرح ریحان مالی لحاظ سے ایک حد تک خود کفیل ہو گیا۔ ریحان کے حصے میں جو زمین، مکان، باغ اور کھیت آئے ، یہ وہی تھے جو ہمارے گھر کے نزدیک تھے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے وہ خود بھی آ کر رہنے لگا۔ ریحان اپنے بوڑھے نوکر کے ساتھ اکیلا ہی رہتا تھالیکن مجھے اس بات کا پتانہیں تھا کیونکہ میں نے یہاں اپنے پڑوس میں ریحان کو پہلے بھی دیکھا نہیں تھا، البتہ ملک صاحب کو ضرور دیکھا تھا۔ اس دن میں بھی گھر میں اکیلی تھی، صرف میرا چھوٹابھائی فہد میرے ساتھ تھا۔ بیان میں کوئی کام کر رہی تھی کہ فہد نجانے کس وقت گھر سے باہر نکل گیا۔ وہ گھر سے نکل کر سیدھاپڑوس میں چلا گیا کیونکہ باغ کاچانک اکثر کلار بتاتھا۔ فہد پہلے بھی کنواور مالٹے توڑنے کے شوق میں باغ میں اس جایا کرتا تھا، اس وقت نوکر وغیر ہ ہوتے جو فہد کو پڑوس کا بچہ سمجھ کر کچھ نہیں کہتے تھے لیکن آج نوکر کے بجائے مالک نے اس کو مالٹے کے درخت پر چڑھتے ہوئے پکڑ لیا۔ ہمارا این باغ کی دیوار کے ساتھ ہی تھا۔ اچانک مجھے اپنےبھائی کی چیخ سنائی دی۔ بر تن جو میں د ھورہی تھی، میرے ہاتھ سے گر گیا۔ میں نے پائوں دوڑتی ہوئی اوپر چھت پر گئی۔ جا کر دیکھا کوئی شخص باغ میں

میرے بھائی کو پکڑے کھڑا تھا۔ اس آدمی کی پیٹھ میری جانب تھی۔ میں سمجھی کہ ملک صاحب کا کوئی رشتہ دار یا مہمان ہے۔ میں نے چچت پر سے اونچی آواز میں کہا۔ باباجی ! میرا بھائی ہے، اس کو چھوڑ دو۔ میں سمجھ رہی تھی کہ کوئی بڈھا ہو گا۔ وہ بغیر میری طرف منہ کئے بولا۔ فرانچے آکر اپنے بھائی کی چوری تو دیکھو، کتے چل اس نے اجاڑ ڈالے ہیں۔ گھر میں کوئی نہ تھا اس لئے مجھے ہی فہد کو چھڑانے جاناپڑا۔ جب میں باغ کے اندر داخل ہوئی تو دیکھا سامنے ایک اجلا اجلا، خوبصورت نوجوان کھٹر ا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی فہد کو چھوڑ دیا۔ وہ دوڑ کر میرے پاس آگیا۔ میں اس کو لے کر واپس جانے لگی توریحان نے کہا کہ آپ ہمارے گھر پہلی مرتبہ آئی ہیں ، ذرا بیٹھے تو سہی، آیئے کمرے میں آجایئے۔ میں فہد کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس کے مکان میں چلی گئی۔ اس کا ڈرائنگ روم بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں بہت ڈری سہی بیٹھی تھی۔ وہ بولا کہ آپ ڈر رہی ہیں کیا؟ میں نے کہا۔ یہی نہیں، میں ڈر تو نہیں رہی۔ پھر آپ کی آواز کو کیا ہو گیا ہے تبھی اس کا نو کر آ گیا۔ ریحان نے اس کو کافی لانے کو کہا۔ وہ ٹرالی میں پھل، بسکٹ، مٹھائی اور کافی لے آیا۔ میں اپنی اتنی خاطر مدارات دیکھ کر حیران ہو گئی کیونکہ میں سمجھ رہی تھی کہ وہ مجھ پر خفا ہو گا کیونکہ میرے بھائی نے اس کے باغ میں چوری کی تھی اور میں چور کی بہن تھی مگر ایسا نہیں تھا بلکہ میری بڑی عزت افزائی ہورہی تھی۔ اس نے مجھے کافی بتاکر دی۔ کافی پی لینے کے بعد اس نے کہا۔ آپ جاسکتی ہیں۔ جب میں اس کے کمرے سے اٹھ کر جانے گئی تو میرا پائوں لڑ کھایا اور میں گرنے لگی تو اس نے مجھے گرنے سے بچالیا اور بولا۔ آپ کو کیا ہو گیا ہے، بہت گھبرا | رہی ہیں۔ اس رات مجھے نیند نہ آئی۔ میں واقعی گھبراہٹ کا شکار تھی ۔ رہ رہ کر دل گھبراتا تھا۔ جی چاہتا تھا ایک بار پھر ریحان نظر آجائے ، اس سے سامنا ہو جائے تو دل کو سکون آئے۔ دو چار دن گزرنے کے بعد ریحان کا نو کر ایک بڑھیا کی ٹوکری میں بہت سے پھل لے آیا۔ یہ پول

در میان نے ہمارے گھر تحفے کے طور پر بھی تھا۔ اباجان کو نو کرنے پچھلی لا کر دیئے۔ اباجان نے شکریہ ادا کیا۔ اگلے دن وہ بیان سے ملنے اس کے گھر گئے۔ اس طرح انہوں نے بھی پڑوسی سمجھ کر بیان کو چائے پر بلایا پھر ریحان کا ہمارے یہاں آناجانا ہوگیا۔ ریحان کی اور میری ملا قا تیں مختصر ہوتی تھیں، وہ بھی اس وقت جب امی کہیں جاتیں اور فہد اسکول گیا ہوتا۔ میں چت سے بیان کے باغ میں جھانکتی تو وہ برآمدے میں بیٹھا ہوتا یا باغ میں گھوم پھر رہا ہوتا اور مجھے دیکھ لیتا تو اشارے سے کہتا۔ آ جائو کافی پیتے ہیں ۔ میں جاتی مگر بس پانچ دس منٹ بیٹھ کر آجائیں۔ اس طرح ہم محبت کرنے لگے۔ جلد ہی میرے والدین نے محسوس کر لیا کہ مجھے ریحان کا دھیان رہتا ہے۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتا، میں دوڑ کر اس کے

لئے چائے بنانے لگتی۔ میں اپنے جذبات اور خوشی کو چھپانے سے قاصر تھی۔ اس کے پائوں کی چاپ بیان کرتی میں کھل رکھتی تھی۔ امی نے ابو کو صلاح دی کہ ریحان اچھالڑ کا ہے، کیوں نہ ہم اپنی لڑکی کے لئے اس رشتے کو حاصل کرنے کی کو شش کر یں۔ میرے والدین کو کوئی کوشش نہ کرنی پڑی کیونکہ میں نے ریحان کو بتادیا کہ والدین اس رشتے پر راضی ہو جائیں گے، تم رشتہ مانگو۔ وہ کہنے لگا۔ میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور میری آرزو ہے کہ میں تم سے شادی کروں لیکن میرے بزرگ نہ مانیں گے کیونکہ ہمارے یہاں جائداد کی وجہ سے خاندان سے باہر شادیاں نہیں ہوتیں۔ اگر تمہارے والدین اس امر پر راضی ہو جائیں کہ میرے بزرگوں کی شمولیت کے بغیر ہی تمہاری شادی مجھ سے کر دیں تو پھر یہ رشتہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا۔ تم میرے والدین سے رشتہ مانگ کر تو دیکھو، تم خود مختار ہو، میرے والدین کیوں نہ راضی ہوں گے۔ میرے کہنے سے بیان نے میری امی سے میرارشتہ مانگ لیا۔ امی نے کہا۔ گلاب کے ابو سے بات کروں گی۔ امی نے ابو سے کہا۔ وہ بغیر بزرگوں کی شمولیت کے میر ار شتہ ر ہیجان سے طے کرنے پر راضی نہ ہوتے تھے لیکن امی جان نے ابو سے بات منوالی۔ ابو نے ریحان کو گھر بلایا اور تمام باتیں طے ہو گئیں۔ ریحان نے ابو کے سامنے یہ وعدہ اور اقرار کیا کہ جب تک میرے والدین اس شادی کو تسلیم نہ کر لیں، آپ کی لڑکی کو میں گائوں لے کر نہ جائوں گا اور میں زندگی بھر دوسری شادی بھی نہ کروں گا۔ بس یہی دو باتیں ابو نے منوائیں جو ریحان نے بلاتامل مان لیں اور میر کی شادی ابو نے اپنے دوستوں کو بلا کر ر ہیجان سے کر دی۔ ریحان کی طرف سے اس شادی میں اس کے چند ایک دوستوں کے سوا کوئی شامل نہ ہوا۔ ایک طرح سے ہی شادی اس نے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے چھپ کر کی تھی۔ ریحان کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ

تھی۔ کچھ عرصے تک تو وہ مجھے ساتھ لے کر مری، ایبٹ آباد اور دوسرے خوبصورت علاقوں کی سیر کراتا رہا، پھر ہم گھر آگئے۔

حامی کے گھر میں رہتی تھی کیونکہ گائوں سے اچانک بیان کے رشتہ دار یا عزیز آجاتے تھےاور بیان بھی کچھ دن ان سے اس شادی کو پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا، البتہ رات کو میں اپنے گھر چلی جاتی تھی۔ ریحان نے مجھ سے کہا کہ میں شہر کے ایک بہترین علاقے میں پلاٹ خرید کر جلد ہی تمہارے لئے ایک علیحدہ کو گھی بنوائوں گا، پھر ہم سکون سے وہاں رہیں گے۔ دو ماہ بعد شہر کا چکر لگانے جاتا تھا اور مجھے کہہ کر جاتا تھا کہ فلاں دن آجائوں گا اور پھر ریحان واقعی اس دن آجاتا تھا۔ مجھے اس پر پورا بھروسا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ دنیامیں اور سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ریحان بھی مجھے دھوکا دے۔ ہماری شادی کو صرف ایک سال ہوا تھا کہ ایک دن ایسا آیا کہ ریحان مجھے کہہ کر گیا میں فلاں دن لوٹ آئوں گا اور وہ نہ آیا۔ میں بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔ وہ دن گزرا، اس کے بعد کے کئی دن گزرے، یہاں تک کہ ہفتے، مہینوں میں تبدیل ہونے لگے اور ایمان نہ لوٹا۔ میں غم سے نڈھال ہوگئی۔ میں خوشحال گھرانے کی اکلوتی لڑکی تھی۔ یہ نہیں کہ مجھے ماں، باپ کے گھر میں کسی شے کی کی تھی لیکن ریحان کی محبت اور اس کی جدائی میرے دل میں گھائوڈال رہی چھ ماہ گزر گئے۔ گرمیوں کے دن گزر چکے ، سردیاں آ گئیں لیکن میں نے وہ کھڑکی بند نہ کی جس میں سے جھانک کر میں ریحان کی راہ دیکھا کرتی تھی۔ ریحان جس راستے سے آتا تھا، یہ کھٹر کی اسی راستے پر ملتی تھی۔ ہر روز یہی سوچت کہ آج وہ ضرور آجائے گا کیونکہ آج تک ایسانہ ہوا تھا کہ جس دن کاوہ بتا کر گیا ہو، اس وقت مقررہ پر لوٹ کر نہ آیا ہو مگر ہر روز امید کا سورج ڈوب جاتا، پھر مایوسی کا اند معیارات کے اندھیرے میں گھل مل کر میری روح میں اترنے للتا۔ میں کھٹر کی پر سر کو ٹکائے تھک

جاتی اور دور دور تک اس کا نام و نشان نہ ہوتا۔ ہر روز دل کو اس خیال سے بہلاتی تھی، ہو سکتا ہے اس کو ضروری کام پڑ گیا ہو۔ جاتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا تھا کہ میری جان ! پریشان نہ ہو نا، اس بار میں اپنے والدین کو منانے کی کوشش کروں گا، ان کو تمہارے بارے میں بتائوں گا تا کہ وہ تمہاری حیثیت کو تسلیم کر لیں، پھر میں تم کو گھر لے جائوں گا کیونکہ میرے بھائی کی شادی ہونے والی ہے۔ میں چاہتاہوں کہ تم بھی اس گھر میں بڑی بہو کی حیثیت سے شامل ہو سکو۔ اس نے مجھ کو الوداع کہتے ہوئے کہا تھا کہ گلناب ! میں تمہارا ہوں، صرف تمہارا ہوں اور تمہارا ہی رہوں گا۔ میں نے دنیا میں صرف تم کو پیار کیا ہے اور شادی بھی تم سے ہی کی ہے، تمہارے سوا کسی عورت کو بھی اپنانہ بنائوں گا۔ وقت گزرتارہا، پھر پتا چلا کہ ریحان کے مکان میں ایک نیا مالک آگیا ہے۔ باغ کا سارا عملہ بھی بدل گیا۔ اباجان نے آکر بنایا۔ ریحان نے باغ مکان اور زمین کا سودا کر دیا ہے اور اب یہاں پر نیامالک آگیا ہے۔ میں رونے گئی تو ابو نے مجھے تسلی دی اور میری والدہ کو برا بھلا کہنے لگے کہ اسی لئے میں کہتا تھا کہ اکیلے لڑکے کو لڑکی کا رشتہ نہ دینا چاہیے کیونکہ پھر ان حالات میں لڑکی والے ہی بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں اور کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتا۔ اگر اس کے خاندان والے اس شادی میں شامل ہوتے تو آج ہم جا کر انہیں پڑھ سکتے تھے۔ ہمارے یہاں ایک لڑکی کی شادی ایک لڑکے سے نہیں ہوتی بلکہ ایک خاندان کی دوسرے خاندان سے ہوتی ہے۔ امی سر جھکائے بیٹھی تھیں، وہ اب کیا جواب دیتیں۔ انہوں نے میری خوشی کا خیال کیا تھا۔ وہ کیا جانتی تھیں کہ ریحان جوان کی بھی اتنی عزت کرتا تھا کہ اس طرح دھوکا دے جائے گا۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح ابا جان نے اپنے آدمی کو ریحان کے گائوں بھیجا۔ اس نے آ کر بتایا کہ ریحان کی حال ہی میں اس کے والد نے اپنی میں سے شادی کر دی ہے در دوران ان کو یہ خبر سن کر میں بچھاڑ کھا کر گر پڑی۔ ایسا لگتا تھا کسی نے میرے کانوں میں گرم گرم سیس انڈیل دیا ہے، میرا دل بند ہونے لگا۔ ماں نے سہارا دیا اور باپ نے سمجھا یاگر دل کسی ک سمجھانے کی چیز تو نہیں۔ عمر گزر گئی اس کو سمجھاتے سمجھاتے، آج تک اپنی میت کو نہیں بھلا سکا حالانکہ اس بات کو اب سولہ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی کھٹر کی کھلی ہے اور میں روز بھی اس میں سے جھانک کر اپنے من چاہے محبوب کا انتظار کرتی ہوں۔ شاید کبھی اس کو میرا خیال آجائے اور وہ لوٹ آئے!  


Post a Comment

0 Comments