Search Bar

New Story Keye Ki Saza | Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

New Story Keye Ki Saza  Teen Auratien Teen Kahaniyan


ناجیہ میرے ساتھ پڑھا کرتی تھی۔ یہ غریب لوگ تھے۔ ناجیہ کی بڑی بہن کا نام شازیہ تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس وجہ سے اس کی شادی ایک امیر گھرانے میں ہو گئی۔ شازیہ شروع دنوں میں اپنے گھر میں کافی خوش رہی مگر پھر دولت کی زیادتی نے اس کے شوہر کو عیاشی پر ڈال دیا۔

شادی کے صرف دو سال بعد ہی سائز یہ والدین کے گھر واپس آگئی۔ ایک سال کا بیٹا بھی ساتھ لے آئی۔ شازیہ کے شوہر نے ایک دوسری لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر اس کو طلاق دے دی تھی۔ اپنی غربت کی وجہ سے یہ لوگ اس شخص کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکتے تھے ، لہذا شازیہ نے چپ چاپ اس زہر کو پی لیا۔

شازیہ نے سوچا گھر بیٹھ کر جلنے کڑھنے سے بہتر ہے کہیں ملازمت تلاش کی جائے۔ بیٹے کی پرورش بھی کرنی تھی۔ وہ روز صبح درخواستیں لے کر مختلف دفتروں کے چکر لگانے لگی۔ آخر کار ایک فرم میں اس کو ملازمت مل گئی۔ مزم کا مالک شہزاد ایک محنتی شخص تھا۔ اس نے اپنی محنت سے اپنا کاروبار جمایا تھا اور اپنی فرم کو چمکا یا تھا۔ شازیہ نے کچھ دنوں تک اس کی فرم میں بہت فرض شناسی اور ذمہ داری سے کام کیا۔ شہزاد اس کے کام سے خوش تھا کیونکہ وہ محنت کرنے والوں کی قدر کرتا تھا۔

شیاز یہ کارویہ اپنے دفتر کے دوسرے لوگوں کے ساتھ باوقار بھی تھا۔ شریف لڑکی تھی۔ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ آج کل کے زمانے کی لڑکیوں کی طرح آزاد خیال اور فیشن پرست نہ تھی۔ شہزاد اس کی عادات واطوار کا بغور مطالعہ کرتا رہا۔ اس نے محسوس کر لیا کہ یہ لڑکی جیون ساتھی بنائے جانے کے لئے بہترین ہے ، تاہم ساز یہ پر طلاق کا

دھبہ لگ چکا تھا اور وہ ایک بیٹے کی ماں بھی تھی جبکہ شہزاد نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔ شہزاد کے والدین مرچکے تھے، کوئی بھائی نہ تھا۔ ایک بہن تھی جس کی شادی ہو چکی تھی۔ وہ امریکا میں رہائش پذیر تھی۔ اس لحاظ سے شہز ادا کیلا تھا، اس کی شادی کون کراتا؟

کافی سوچ بچار کے بعد شہزاد نے فیصلہ کیا کہ شازیہ کے گھر والوں سے رابطہ کرنا چاہئے۔ اگر یہ لوگ لالچی نہ ہوئے

اور اچھے لوگ ہوئے تو شازیہ سے رشتہ کرلوں گا۔ وہ ابھی انہی سوچوں میں تھا کہ شازیہ کی طرف سے چھٹی کی درخواست آگئی۔ ایک ہفتے بعد وہ دفتر آئی۔ یہ اچھا موقع تھا بات چیت کرنے کا ! شہزاد نے اس سے پوچھا کہ اتنے دن کی کیوں چھٹی کی تھی؟ شازیہ نے بتایا کہ اس کے والد صاحب کافی بیمار ہیں، گھر میں بہت پریشانی ہے ، اس لئے اس نے چھٹی لی۔ شہزاد نے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں تمہارے والد صاحب کی عیادت کے لئے تمہارے گھر جانا چاہتا

ہوں۔

اگلے روز شہزاد ، شازیہ کے ساتھ اس کے گھر آیا، اس کے والد کی عیادت کی اور اس طرح دو چار بار عیادت کے بہانے وہ اس کے گھر کے حالات اچھی طرح دیکھ بھال گیا۔ شہزاد کو شازیہ کے گھر والے پسند آئے۔ وہ غریب ضرور تھے لیکن مخلص اور شریف لوگ تھے۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ جب بھی شہزاد، شازیہ کے گھر گیا، شازیہ کی چھوٹی بہن سے اس کا سامنانہ ہو سکا۔ ناجیہ اس وقت یا تو کالج میں ہوتی یا پھر گھر میں ہوتی بھی تو جان بوجھ کر سامنے نہ آتی تھی۔ بہر حال اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد کہ شازیہ ایک اچھی بیوی ثابت ہو سکتی ہے اور لوگ بھی لالچی نہیں ہیں، شہزاد نے اس کارشتہ اس کے والدین سے مانگ لیا۔ شازیہ کے والدین ایک دولت مند داماد کے پہلے ہی ڈسے ہوئے تھے۔ دوسری بار بھی رشتہ ایک دولت مند ہی نے مانگاتو وہ سہم گئے۔ شازیہ کے والد نے شہزاد سے کہا کہ اگرچہ میری بچی کی خوش قسمتی ہے مطلقہ اور ایک بچے کی ماں ہوتے ہوئے اتنا اچھار شتہ مجھے مل رہا ہے مگر میں اب بیٹی کی شادی امیر آدمی سے کرنے سے ڈرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ شادی اپنے جیسے گھرانے میں کروں۔ پہلے ایک بار یہ امیر گھر سے دھتکاری جاچکی ہے، اس لئے اب ہمیں بڑے

گھر کی خواہش نہیں رہی۔ شہزاد نے کہا۔ بزرگوار ! سبھی لوگ ایک سے نہیں ہوتے۔ پھر میں پیدائشی امیر نہیں ہوں۔ میں نہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ جو کچھ بنایا اور کمایا ہے، اپنی محنت اور لگن سے۔ میں نے وقت کو ضائع نہیں کیا۔ سیلف میڈ آدمی ہوں۔ آپ کی بیٹی کی شرافت اور اچھی عادات سے متاثر ہو کر رشتہ مانگا ہے۔ آپ مجھ

پر اعتماد کیجئے ان شاء اللہ آپ کی بیٹی کو میری جانب سے کبھی کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ اس طرح کی باتیں کر کے شہزاد نے شازیہ کے والد کو رشتہ پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد شاز یہ دوسری بار دلہن بن کر شہزاد کے گھر اور دل کی مالک بن گئی۔ شہزاد بہت اچھا شوہر ثابت ہو رہا تھا۔ شازیہ بہت خوش تھی۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کبھی دوبارہ قسمت بھی اس پر مہربان ہو گی اور وہ گھر آباد کر سکے گی۔ جس عزم میں وہ ملازم تھی ، آج وہ اسی فرم کی مالکہ بن چکی تھی۔ شہزاد نے اس پر یہ پابندی بھی نہ لگائی کہ وہ اپنے پہلے شوہر کے بیٹے کو اپنے ساتھ نہیں رہ سکتی ، لیکن اس کا بیٹا اپنی نانی سے زیادہ مانوس تھا لہذا اس نے نواسے کو اپنے پاس ہی رہنے دیا۔ شازیہ کے دو بچے اور ہو گئے۔ وہ اپنے گھر میں خوش تھی۔ ایک بار اس کی بہن ناجیہ اس کے گھر رہنے کے لئے آئی۔ شازیہ نے شوہر کو کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، تم جا کر ناجیہ اور بچوں کو گھمالائو۔ یہ لوگ گاڑی پر سیر کرنے چلے گئے۔ دوسرے روز بھی ساز یہ نہ گئی بلکہ ناجیہ ہی بہنوئی کے ساتھ سیر و تفریح کرنے گئی۔ اس روز یہ لوگ رات کو کافی دیر سے گھر لوٹے، بچے گاڑی میں ہی سو گئے تھے۔

ماجیہ دو ہفتے شازیہ کے گھر رہی۔ اس مختصر عرصے میں اس کی بہنوئی کے ساتھ کس قسم کی انڈر اسٹینڈ نگ ہو گئی، اس کا شازیہ کو کچھ علم نہ تھا۔ ناجیہ اس کے بعد باہر ہی باہر بہنوئی سے ملنے لگی اور ہفتے دو ہفتے بعد بہانے بہانے سے بہن کے یہاں آکر رہنے لگی۔ اس بات کو شازیہ کی ماں نے محسوس کر لیا۔ اس نے ماجیہ کا شازیہ کے یہاں جانا بند کرادیا اور اس کے تنہا گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی۔ شہزاد نے بیوی کو کہا کہ تمہاری ماں نے تمہاری بہن کو میرے گھر آنے سے منع کر دیا ہے۔ انہوں نے میری توہین کی ہے۔ اب یا تو تم گھر جا کر ماں کو سمجھائو کہ اس طرح میری توہین نہ کرے ور نہ تم خود سرے حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائو۔ ساز یہ شوہر کے تیور دیکھ کر ڈر گئی۔ ماں کے گھر آئی اور ان کو سمجھایا کہ تم ناجیہ پر پابندی نہ لگائو ، اس سے شہزاد اپنی تو ہین محسوس کرتے ہیں کہ تم ان پر بلا وجہ شک کر رہی ہو۔ کچھ نہیں تو میرے بچوں کا ہی خیال کرو۔ ایک بار میں پہلے بھی اجڑ چکی ہوں، اگر دوبارہ اجڑی تو لوگ کیا کہیں گے۔ وہ مجھ ہی کو الزام دیں گے کہ بار بار طلاق لے کر میکے آ بیٹھتی ہے ، اپنا گھر کیوں نہیں بساتی۔ بیٹی کے رونے دھونے سے ماں مجبور ہو گئی۔ دراصل اس کو بھی محض شک ہی ہوا تھا جبکہ شازیہ کا دل بالکل صاف تھا لہذا اس کو تو شک بھی نہیں گزرا تھا۔ ناجیہ پھر بہن کے گھر آنے جانے لگی۔ جتنے دن چاہتی ٹھہر تی۔ اب تو شہزاد بھی دیدہ دلیری سے ناجیہ کو خود گھر لاتا اور خود ہی اپنی گاڑی میں چھوڑنے جاتا۔ سازیہ چوکنی ہو چکی تھی۔ وہ گہری نظروں سے شوہر اور بہن کے باہم رویہ اور برتائو کا مشاہدہ کرنے لگی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی مگر منہ سے کچھ کہنا اپنی ہی بربادی کو دعوت دینا تھا۔ جو انسان ایک بار تباہ و برباد ہو چکا ہو، وہ دوسری بار تباہ ہونے کے لئے بآسانی تیار نہیں ہوتا۔

شازیہ نے آنسو پی لیئے ۔ لب سی لئے اور منہ پر تالے لگا دیئے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی اور کچھ نہ کہتی۔ ماں، باپ سے بھی کچھ نہ کہا۔ شہزاد کار و یہ بدلتا گیا یہاں تک کہ اس نے بچوں کو ہاسٹل میں داخل کرنے پر اصرار شروع کر دیا۔ ساز یہ ان کی جدائی برداشت نہ کر سکتی تھی لہذاوہ احتجاج کرنے لگی کہ بچوں پر یہ ظلم مت کرو۔ جب میں ان کی دیکھ بھال اچھی طرح کر سکتی ہوں پھر کیوں انہیں ہاسٹل میں ڈالتے ہو، مگر شہزاد کو تو اپنی دولت کا گھمنڈ تھا۔ اس نے بچوں کو مری کے ایک اعلیٰ ہاسٹل میں داخل کراد یا اور بیوی سے یہی کہا کہ میں یہ سب ان کی اچھی تربیت کے لئے کر رہا ہوں۔

بچوں کے جاتے ہی شازیہ کا دل اور گھر دونوں ویران ہو گئے لیکن شہزاد خود کو زیادہ آزاد اور ہلکا محسوس کرنے لگا۔ اس پر بچوں کی بھی ذمہ داریاں نہ رہی تھیں جبکہ شازیہ کی زندگی کا کوئی مصرف باقی نہ رہا تھا۔ اب وہ گھر میں تنہا کڑھنے لگی۔ بچوں کے کاموں میں وہ خود کو بھولی ہوئی تھی۔ بچے دور جاچکے تھے ، اس سے وقت کاٹے نہیں کرتا تھا۔ ادھر اپنے شوہر اور سگی بہن کے دے ہوئے گھائو بڑھنے لگے۔ شہزاد بیوی کی بہانے بہانے سے توہین کرتا اور بری طرح اس کو نظر انداز کر رہا تھا۔ وہ ہر صورت میں ناجیہ سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر اس کی بیوی اس راہ میں حائل تھی۔ وہ اس کے ہوتے ہوئے کسی طور ناجیہ سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ ناجیہ گھر سے ٹائپنگ سیکھنے کے بہانے سے نکلتی تھی۔ ایک دن وہ ٹائپنگ سیکھنے گئی تھی کہ پھر نہ لوٹی۔ وہ شہزاد کے پرو گرام کے مطابق ریلوے اسٹیشن چلی گئی جہاں شہزاد کی فرم کا منیجر موجود تھا جس کے ساتھ اس نے لاہور جانا تھا، اس کے کچھ دنوں بعد شہزاد نے بھی لاہور آ جانا تھا۔ نیجر، ناجیہ کولے کر لاہور کے بجائے ملتان کے ایک گائوں چلا گیا۔ وہاں جاکر مجبور کیا کہ تم میرے گائوں کے دوست سے نکاح کر لو ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا کیونکہ تمہاری سادی شہزاد سے نہیں ہو سکتی، جب تک کہ تمہاری بہن کو طلاق نہ ہو جائے۔

یہ منیجر ، شازیہ کو اس وقت سے جانتا تھا جب وہ فرم میں کام کرتی تھی۔ وہ اتنی اچھی لڑکی تھی کہ مزم کے ہر فرد کے دل میں اس کی عزت و احترام تھا جبکہ شہزاد اور ناجیہ کا تعلق منیجر کو بعد میں معلوم ہوا تھا۔ اب وہ ناجیہ کو پابند کر کے اس کو مجبور کر دینا چاہتا تھا کہ وہ بہن کی زندگی سے نکل جائے۔ ناجیہ خوبصورت تھی۔ اس نے اپنے گائوں کے دوست کو ناجیہ کی جھلک دکھا کر شادی پر آمادہ کر لیا تھا۔ ناجیہ اب بری طرح سے پھنس چکی تھی۔ وہ واپس نہیں جاسکتی تھی اور گالوں کی زندگی قبول بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ادھر پولیس کا بھی ڈر تھا۔ شہزاد سے رابطہ کرنے سے مجبور تھی کیونکہ وہ گائوں کے کچھ لوگوں کی قید میں تھی۔اس طرح مارے باندھے منیجر نے اس کی شادی اپنے دوست سے کروادی۔ شادی کا ایک ہفتہ اس شخص کے ساتھ گزارنے کے بعد ناجیہ نے بھی ہتھیار ڈال دے باور اپنے شوہر سے کہا کہ تم میرے والدین کو اطلاع کر دو۔ اگر انہوں نے مجھ کو قبول کر لیا تو ٹھیک۔ اگر قبول نہ کیا تو پھر میں بے شک تمہارے ساتھ یہیں ساری زندگی گائوں میں گزار دوں گی۔ منیجر نے حالات ناجیہ کے والد کو لکھ دے اور یہ ہدایت بھی کر دی کہ فی الحال آپ ناجیہ کو لکھیں کہ آپ اس کو قبول نہ کریں گے۔ جب تک اس کی آس ٹوٹ نہ جائے گی، وہ واپس لوٹنے کا خیال کرتی رہے گی۔ کراچی پہنچ کر پھر سے اپنی بہن کی زندگی میں زہر گھول دے گی۔ اپنی شادی شدہ بڑی بیٹی اور اس کے بچوں کا مستقبل بچانے کے لئے آپ کو کچھ عرصہ اپنے دل پر پتھر رکھنا ہو گا۔ ماجیہ کے والد پہلے ہی اس بیٹی سے آزردہ تھے۔ انہوں نے منیجر کی ہدایت پر عمل کیا اور ناجیہ کو لکھ دیا کہ تم نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی ہے لہذا اب تمہارے لئے ہمارے گھر کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ ہر گزلوٹ کر مت آنا ور نہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ ناجیہ ڈر گئی۔ وہ مایوس ہو گئی۔ کوئی اور راستہ نہ پا کر اس نے گائوں کی زندگی سے سمجھوتا کر لیا اور شہزاد کا بھی خیال چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ زندگی کے شادی شدہ دن، رات بسر کر چکی تھی اور اس کو خوف تھا کہ شہزاد اس کو قبول نہ کرے گا۔ ناجیہ دو سال بے حداد اس اور بے چین رہی۔ جب ایک بچے کی ماں بن گئی تو اس کا دل تھوڑا تھوڑا گائوں میں لگنے لگا۔ جس سے اس کی شادی ہوئی تھی، وہ بھی اچھی فطرت کا مالک تھا۔ اس نے ماجیہ کا خیال رکھا۔ اس طرح ناجیہ رفتہ رفتہ اس کے گھر کی چاردیواری کی عادی ہوتی چلی گئی۔ اس گائوں میں نہ تو بجلی تھی اور نہ کوئی اور سہولت۔ جہاں ناجیہ رہتی ہے ، اس کے شومر کی تھوڑی سی زمین اور زمین کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا مکان ہے جس کے دو کمرے پختہ اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں اور چاردیواری بھی بنی ہوئی ہے۔ گھر میں ہاتھ سے چلانے والا نلکا گا ہوا ہے۔ پہلے ناجیہ اس زندگی سے سمجھوتا کرتی ہی نہ تھی مگر اب وہ اس گھر اور ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف ستھرارکھتی ہے اور گھر کے اندر اس نے باغ اور پھلواری لگائی ہے جس کی دیکھ بھال کر کے وہ اپنے ویران دل کو خوش کرتی رہتی ہے۔ ہم جب بھی ناجیہ کو دیکھتے ہیں، ہمیں اس پر ترس آتا ہے۔ کہاں تو وہ شہر میں رہتی تھی اور کہاں اب دیہاتی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر وہ اپنی بہن کے رشتے کا لحاظ کرتی تو شاید قدرت اس کو یہ سزا نہ دیتی


Post a Comment

0 Comments