Darvazah Khula Rukhna Teen Auratien Teen Kahaniyan Urdu story |
Darvazah Khula Rukhna Teen Auratien Teen Kahaniyan Urdu story
میں اور شاہینہ
ایک ہی اسکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ شاہینہ میری کلاس فیلو ہی نہیں بہت پیاری دوست بھی
تھی۔ ہم نے اکٹھے پی ٹی سی کا کورس کیا تھا اور اتفاق سے ایک ہی گاؤں کے اسکول میں
ہم دونوں کو ملازمت ملی۔ شاہینہ کا گھر ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ ہم ساتھ اسکول
کے لیے نکلتی تھیں اور ایک ہی بس میں سوار ہو کر پڑھانے جایا کرتی تھیں۔ ہمارا اسکول
شہر سے آٹھ میل دور تھا۔ روز مجھے اور شاہینہ کو جانے اور آنے میں سولہ میل کا فاصلہ طے کرناپڑتا تھا۔ ہم باتیں کرتی
جاتی تھیں، فاصلہ منٹوں میں طے ہو جاتا تھا اورسفر کا پتا بھی نہ چلتا تھا۔ جن دنوں
میں یہ واقعہ ہوا شاہینہ کاپہلا بیا ڈیڑھ سال کا تھا اور وہ امید سے تھی۔ ہوا یہ کہ
میں بہار ہوگئی اور پندرہ روز تک اسکول نہ جاسکی۔ ہمارے اسکول میں صرف تین استانیاں
تھیں۔ میرے بیمار ہونے کی وجہ سے دو باقی رہ گئیں۔ جب میں چھٹی پر تھی تو ان کا حاضر
ہو ناضروری تھا کیونکہ ایک وقت میں صرف ایک استانی ہی غیر حاضر ہو سکتی تھی۔ ہمارا
اسکول پرائمری تک تھا۔ پانچ کلاسوں کو ہم تین استانیاں سنبھالتی تھیں۔ جب میں بیمار
پڑتی تو شانو میں شاہینہ کو آسانی کے لیے شانو ہی لکھوں گی کیونکہ میں اس کو اسی نام
سے بلایا کرتی تھی ) کو میری کلاس بھی لینی پڑتی تھی۔ میری بیماری کے دوران وہ دو تین
بار عیادت کو آئی مگر بڑی پریشان تھی۔ بولی مصباح تو جلدی سے اچھی ہو جا مجھے اکیلے
گاؤں کے اسکول جاتے بڑا ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا اتنا عرصہ ہو گیا ہے تم کو گاؤں سے
اسکول میں پڑھاتے ہوئے، ابھی تک تم کو ڈر لگتا ہے ، ضرور کوئی بات ہے۔ بولی۔ تم ٹھیک
ہو جاؤ تو بتاؤں گی۔ پھر جب میں ٹھیک ہو گئی اور اس کے ساتھ اسکول جانے لگی تو اس نے
بتایا۔ ایک شخص اس کے پیچھے لگا ہوا ہے جو باقاعدگی سے اس کا تعاقب کرتا ہے۔ وہ بولی۔
تم دیکھناوہ نظر آئے گا، تمہیں بھی دکھاؤں گی۔ میں جب اکیلی جاتی تھی تو یہ میراراستہ
روک کر بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک بار بس کے اڈے پر لاری بہت دیر سے آئی تو اس
نے ٹھنڈے مشروب کی بوتل لا کر میرے ہاتھ میں تھمادی۔ میری پوزیشن تو اتنی خراب ہو گئی
کہ کیا بتاؤں۔ اگر لیتی ہوں تو عذاب روحانی۔ آخر کیوں لوں؟ نہیں لیتی تو اتنے لوگوں
میں تماشا بنتی ہوں۔ میں نے یہ کیا کہ وہ بوتل وہاں پر کھڑی ایک بوڑھی بھکارن کو پکڑا
دی۔ شکر ہے کہ بس آگئی اور میں جلدی سے اس میں سوار ہو گئی مگر اس روز بھی اس نے میراگھر
تک تعاقب کیا تھا۔ میں نے پوچھا ہے کون یہ شخص ؟ شانو نے بتایا۔ اب پتا چل گیا ہے ،
گاؤں کے نمبر دار کارشتہ دار ہے۔ کچھ دنوں سے اس کے گھر میں آکر ٹھہرا ہوا ہے۔ اس لفنگے
کا پتا میں نے اسکول کی چپڑ اسن سے کروایا ہے۔ اللہ کرے وہ مائی اب اپنی زبان بند رکھے
، کہیں اسی بات پر لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ اب ہم پھر سے دو ہو گئی تھیں تو شانو
کی پریشانی کم ہو گئی۔ اس کی ڈھارس بندھی، کچھ میں نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں وہ تمہارا
بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔ دیکھنا تو سہی کیسے مل کر اس کو جوتے لگائیں گے ہم دونوں
... شانو اس بات سے اتنی پریشان نہ تھی کہ کوئی اس کا پیچھا کرتا ہے۔ وہ پریشان اس
وجہ سے تھی کہ کہیں اس کے شوہر کو اس بات کی خبر نہ ہو جائے کیونکہ طارق بہت شکی مزاج
تھا۔ یقیناًوہ اس سے باز پرس کرنے سے پہلے ہی کوئی انتہائی قدم اٹھا لیتا۔ شانو بیچاری
طارق سے بہت ڈرتی تھی۔
اس روز دو پہر
کا ایک بجا تھا۔ ہم دونوں لاڑی اڈے پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھیں۔ بس روز پونے
ایک پر آجایا کرتی تھی۔ آج نہ جانے کیا وجہ تھی بس آتی نظر نہ آرہی تھی۔ ہمیں پندرہ
منٹ بھی بھاری لگ رہے تھے۔ شانو کی امی صبح اس کا بیٹا اپنے گھر لے جاتی تھیں اور پھر
اس کے گھر آنے سے ذرا پہلے بچے کو لے کر شانو کے گھر آجاتی تھیں۔ شانو بے چینی سے گھڑی
دیکھ رہی تھی کہ امی آچکی ہوں گی وہ پریشان ہو رہی ہوں گی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا دراصل
اس کو اس نوجوان سے خطرہ تھا کہیں وہ تنگ نہ کرے۔ میں یہاں اس نوجوان کا فرضی نام منور
لکھ دیتی ہوں۔ اس کا اندیشہ درست نکلا۔ ایک چھوٹا سا لڑ کا ہاتھ میں گنے کے رس کے دو
گلاس لے کر آیا اور ہمیں دینے لگا۔ میں نے کہا۔ لڑکے تمہیں کس نے کہا تھا یہ لانے کو
، ہم نے تو نہیں منگوائے ... وہ بولا۔ بس کے کنڈیکٹر نے کہا ہے۔ وہ سامنے ہوٹل میں
بیٹھا ہے۔ وہ کہتا ہے ان اسکول والیوں سے کہو آج بس تین بجے آئے گی کیونکہ آج ادھر
کی ٹریفک بند ہو گئی ہے۔ ایک وزیر دورے پر جارہا ہے۔ اس کی گاڑی گزرنے والی ہے۔ اس
کی بات سن کر ہم پریشان ہو گئیں۔ شانو نے پلٹ کر دیکھا تو وہی نوجوان مسکرارہا تھا۔
وہ بولی۔ مصباح یہ گلاس منور نے بھجوائے ہیں، وہ دیکھ سامنے۔ میں نے دیکھا وہ واقعی
مونچھوں پر تاؤ دے کر سینہ پھلائے فخریہ انداز سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے گلاس
لڑکے کے ہاتھ سے لے کر ان میں بھر اہوارس زمین پر انڈیل دیا اور لڑکے سے کہا۔ جس نے
یہ گلاس بھیجے ہیں اس کو کہنا اگر اب ہمارا پیچھا کیا تو یادرکھنا تمہاری بہت بے عزتی
ہو گی۔ لڑکا چلا گیا۔ شانو بولی۔ کم بخت یہ تو نے کیا کیا۔ یہ بہت خراب لوگ ہیں۔ اسکول
کی مائی بتارہی تھی کہ بڑے خطر ناک ہیں ،نہ جانے اب یہ شخص ہم سے اپنی توہین کا کیسا
انتقام لے۔ میں نے کہا۔ ٹھیک ہے روز روز کے مرنے سے ایک دن کا مر جانا اچھا ہے ، نہ
کسی سے اس کی شکایت کرنے دیتی ہو نہ تم اس سے خود کچھ کہتی ہو۔ ادھر یہ ہے کہ روز بروز
اس کی ہمت بڑھتی جاتی ہے، آخر تمہاری کیا صلاح ہے ؟ اگلے روز مجھے اپنے تایا کے بیٹے
کی شادی میں جانا پڑ گیا اور میں اسکول نہ جاسکی۔ شانو کیلی ہی گئی۔ اس دن بد بخت اس
کو گھیر نے میں کامیاب ہو گیا۔
ہوا یہ تھا کہ
ہمارے اسکول کی چھت کا ایک شہتیر پیچ گیا تھا جس سے چھت گرپڑنے کا شدید خطرہ لاحق تھا۔
ہم نے اس کی اطلاع محکمہ کو بھجوائی تھی، اس دن چھت کا معائنہ کرنے گاؤں کا چیئر مین،
ٹھیکیدار وغیرہ آئے تو یہ بھی ساتھ تھا۔ یہ لوگ چھت دیکھ کر چلے گئے۔ استانیوں نے پردہ
کر لیا۔ مائی نے انہیں کمرہ لے جا کر دکھایا تھا۔ ذرا دیر گزری کہ یہ پھر آگیا۔ کہنے
لگا۔ یہاں معائنہ کی فائل رہ گئی ہےوہ اٹھانی ہے۔ فائل وغیرہ کوئی نہیں تھی۔ بولا۔
استانی جی سے پوچھو انہوں نے اٹھائی ہو گی۔ شانو بیچاری سمجھی نہیں کہ کون شخص ہو گا۔
جب اس نے ڈیوڑھی پر آکر بات کی تو یہ بولا۔ آپ شاہینہ بی بی ہیں ؟ آپ سے ایک ضروری
بات کرنی ہے ، پھر اس نے مائی سے کہا۔ اماں تم چیئر مین کے گھر سے فائل لے آؤ۔ مائی
چلی گئی۔ اب اس کو بات کرنے کا موقع ملا کہنے لگا۔ شاہینہ میں نے تمہاری ایک جھلک دیکھی
تھی اور تمہارا دیوانہ ہو چکاہوں۔ اگر مجھ کو ٹھکراؤ گی تو اچھانہ ہو گا۔ میں بہت اثر
ورسوخ والا آدمی ہوں۔ شاہینہ نے کہا۔ تم جو بھی ہو مجھے کیا۔ میں ایک شریف عورت ہوں۔
شادی شدہ ہوں۔ ایک بچے کی ماں ہوں۔ اللہ کے واسطے میرا پیچھا چھوڑ دو، نہیں تو میں
نوکری
چھوڑ دوں گی۔ اس نے کہا۔ یادر کھا تبادلہ تو میں تمہارا
یہاں سے ہونے نہیں دوں گالیکن جس دن تم نے یہ نوکری چھوڑی تو میں تمہارے گھر آجاؤں
گا پھر پتا ہے کیا ہو گا؟ کیا ہوگا؟ اس نے لفافہ آگے بڑھا کر کہا۔ جو ہو گا اس میں
لکھ دیا ہے۔ یہ لو پڑھ لینا۔ شاہینہ نے بھی جرات سے کام لیا، اس نے لفافہ پھاڑ کر دروازے
سے باہر پھینک دیا۔ جہاں وہ کھڑا تھا اور بولی۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا مگر اب تم جاؤ یہاں سے۔ اس کے بعد شاہینہ نے بیماری کا بہانہ کر کے چھٹی لے لی۔ وہ شوہر
سے کہتی تھی مجھے نوکری نہیں کرنی مگر ڈر کے مارے یہ نہیں کہتی تھی کہ میں نے چھٹی
کیوں لی ہے۔ میں نے شاہینہ سے بہت کہا۔ تم مجھے طارق بھائی سے بات کرنے دو۔ میں ان
کو سمجھاؤں گی کہ تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں، وہی کم بخت تمہارے پیچھے پڑا ہوا ہے
مگر وہ نہ مانی۔ کہتی تھی مصباح تجھ کو نہیں معلوم طارق کیا ہے ، یہ یا تو جان دے آئے
گا یا کسی کی جان لے آئے گا اور پھانسی چڑھ جائے گا۔ میں اس کے مزاج سے ڈرتی ہوں۔ ہم نے اگر اسے یہ بات بتادی تو جھگڑا
لازمی ہے۔ پھر مجھے شانو نے بتایا کہ چھٹی ختم ہونے والی ہے اور اب وہ استعفیٰ دے دے
گی کیونکہ آگے چل کے یوں بھی دو بچوں کی ماں بن جائے گی تو پھر دو کو سنبھالنا مشکل
ہو گا۔ امی نے ایک بچہ پال دیا ہے اب دوسرا نہیں پالیں گی۔ یہ شام کا وقت تھا۔ طارق
گھر پر نہ تھا۔ ایک لڑکا گھر آیا اور رقعہ دے کر چلا گیا۔ رقعہ منور کا تھا۔ لکھا ہوا
تھا۔ میں بھی دھن کا پکا آدمی ہوں، تمہیں بھولا نہیں ہوں، تم نے اسکول آنا چھوڑا ہے
تو میں تمہارے گھر کے نزدیک آکر رہنے لگا ں، کبھی جب تمہارا شوہر گھر پر نہ ہو گا تو
کسی بہانے گھر آکر دیدار کرلوں گا۔ شانو نے رقعہ پڑھا تو ڈر گئی۔ اس نے مجھے رقعہ تونہ
دکھایا۔ کہتی تھی آگ میں جھونک دیا ہے۔ مگر اب وہ گھر میں اکیلے رہنے سے ڈرتی تھی۔
طارق بھائی ذرا شام کے بعد گھر سے باہر جانے لگتے تو انہیں روکتی۔ منت کرنے لگتی کہ
مت جائے مجھے اکیلے گھر میں ڈر لگتا ہے، میر ادل گھبر آتا ہے۔ طارق آخر مرد تھا۔ مرد
آزاد طبیعت ہوتا ہے۔ کب تک کوئی عورت اس کو اپنی مرضی سے روک سکتی ہے۔ طارق، شانو کی
اس قسم کی روک ٹوک سے تنگ آ گیا تھا۔ پھر بھی وہ شانو کا کہا مان لیتا تھا اور شام
کے بعد گھر سے باہر رہنا اس
ہوں،
نے چھوڑ دیا
تھا۔ لیکن ایک دن اس نے بیوی سے کہا۔ شانو کتنے دنوں سے میں تیرا کہنا مان کے گھر سے
باہر نہیں گیا۔ قیدی بن گیا ہوں۔ آج تو مجھے مت رو کنا۔ میں فلم دیکھنے ضرور جاؤں گا۔
میں نے دوستوں سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ شانو بولی کہ آج تم مت جاؤ، میر ادل گھبرارہا ہے
کل چلے جانا۔ طارق جانتا تھاوہ روز ہی ایسا کہتی ہے۔ اس نے جان چھڑانے کو کہا۔ اچھا
میں فلم دیکھنے کے لیے نہیں جارہا، سامنے والی دکان پر جارہا ہوں، اچھا پانچ منٹ میں
آجاؤں گا تو دروازہ بند مت کرنا، کھلا رکھنا .. اس نے تو اس لیے کہا تھا کہ شانو اس
کی بات کا یقین کرلے اور اس کو جانے سے نہ روکے ، مگر شانو سمجھی کہ وہ سچ کہہ رہا
ہے اور ابھی آجائے گا۔ اس بیچاری نے دروازہ بند نہ کیا اور بچے کو سلانے کے لیے اس
کے ساتھ جاکر لیٹ گئی۔ پھر بچے کو سلاتے سلاتے نہ جانے کیسے اس کی آنکھ لگ گئی۔ منور
کا ایک آدمی جو طارق بھائی کا نیا نیا دوست بنا تھا، اس کو دوستی کا چکر دے کر سنیما
لے گیا۔ شانو گھر میں اکیلی تھی۔ منور کو موقع مل گیا۔ اس ضدی آدمی نے اپنی ضد پوری
کرنے کے لیے اور شانو کو نیچاد کھانے کے لیے یہ چال چلی تھی۔ جب وہ شانو کے سرہانے پہنچا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ اپنے سرہانے
منور کو کھڑا پایا تو اس کے منہ سے چیخ نکل گئی مگر جلد ہی منور نے اس کے منہ پر ہاتھ
رکھ دیا۔ اس کے بعد جانے کیا ہوا ، وہ منظر تو کوئی نہ دیکھ سکا۔ البتہ جب فلم دیکھ
کر طارق بھائی لوٹے تو شانو اس دنیا میں نہ تھی۔ شکر ہے ظالم نے معصوم بچے کو زندہ
رہنے دیا۔ بہر حال ڈاکٹروں نے یہی رپورٹ دی کہ شانو نے اپنی عزت بچانے کی خاطر جان
دی ہے۔ میں تو جو کچھ جانتی تھی سب طارق بھائی کو بتادیا تھا۔ انہوں نے منور کے خلاف
رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ شانو کے جسم پر چاقو کے انگشت گہرے زخم تھے، اس نے بڑی بہادری
سے لڑتے لڑتے ہوئے جان دی تھی۔ منور کچھ عرصہ حوالات میں رہا، پھر عدم ثبوت کی بنا
پر سزا سے بچ گیا۔ اس دنیا میں اپنے جرم کی سزا سے چھوٹ گیا مگر مجھے یقین ہے کہ وہ
اگلے جہاں میں نہیں چھوٹ پائے گا۔ کاش! میں اس کے خلاف گواہی دے سکتی تو شاید اس کو
سزا ہو بھی جاتی مگر میں اپنے گھر والوں کی وجہ سے مجبور تھی۔ آج بھی شانو کا زخم دل
میں ہرا ہے اور ہمیشہ ہر اہی رہے گا
0 Comments